شریکِ حیات قسط ۵

”کیا بات ہے؟ موڈ کیوں آف ہے؟”

”موڈ آف نہیں ہے۔” چائے کا کپ ٹھنڈا ہو چکا تھا۔

اس نے بے دلی سے ایک گھونٹ بھرا اور کپ سائیڈ میز پر رکھ دیا۔

گلاس وال کے آگے رکھی ایزی چیئر پر وہ کب سے بیٹھی سوچوں میں گم تھی، جب انہوں نے گزرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور ادھر آگئیں۔ صبح سے وہ گم صُم سی تھی، جب ہسپتال گئی اور شام لوٹنے کے بعد وہ ایک آدھ گھنٹہ پہلے ہی کمرے سے نکلی تھی اور ڈنر کے لیے منع کر کے اپنے لیے چائے کا کپ اُٹھائے یہاں آبیٹھی۔

وہ کب سے اس کی کیفیت اور اُکھڑا اُکھڑا لہجہ محسوس کر رہی تھیں۔

اس پر اتنی دیر کی خاموشی اور یہ سوچ۔

ماں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ معمولی سے معمولی پریشانی کو بھی اولاد کے چہرے پہ محسوس کرتی ہے اور خدشوں میں گھر جاتی ہے۔

”ہوا کیا ہے؟”

”کچھ نہیں ہوا۔”

”سارنگ سے کوئی بات چیت؟”

”سارنگ کے علاوہ بھئی کوئی ایشو ہے جس پر ہم بات کر سکتے ہیں۔” وہ جھنجھلائی۔

اس کے منہ میں کڑواہٹ کا ذائقہ گھل گیا تھا، پھیکی ٹھنڈی چائے کے سپ لینے سے۔

”غصہ کس چیز پر ہے، اس پر یا ہم پر ؟” وہ مسکرا کر بیٹھ گئیں، مسئلہ سمجھ آگیا تھا۔

”غصہ کس غلط بات پر ہے اور وہ کیا ہے؟ یقینا اس سے کوئی غلطی ہوئی ہو گی۔”

”غلطی ہوئی نہیں۔ جان بوجھ کر کی گئی ہے۔”

”مگر غلطی کیا ہے؟”

”سیٹ آگے بڑھا دی ہے اُس نے۔”

”اوہ اچھا۔ مگر کیوں؟”

”پتا نہیں شاید وہاں اس کی ضرورت ہو مگر یہاں کتنی ہے۔ آئی مین کانفرنس ہے اس کی۔”

ان کو اپنی طرف دیکھتے بات بدل گئی۔

”وہ تو واقعی ہے۔ کتنے دنوں کے لیے آگے کرائی ہے؟ ”

”مزید ایک ہفتہ۔”

”پندرہ دن تو ہو گئے ہیں اسے گئے ہوئے، مزید ایک ہفتہ۔ اس طرح تو واقعی حرج ہو گا اس کے کام کا،تم اسے بتاتیں۔”

”بچہ نہیں ہے سب  پتا ہے اسے۔ احساس دلائیں گے تو اور پریشان ہو گا۔”

”ہاں بالکل ہو گا مگر یہ غیر ذمہ دارانہ فعل ہے۔ اب ہر چیز کا احساس اسے میں تو نہیں دلائوں گی نا۔ ہو سکتا ہے اس کی کوئی مجبوری ہو۔”

”مگر میری مجبوری نہیں ہے۔”

”کس لیے۔”

”میں سوچ رہی ہوں۔”

”اب کیا؟” انہیں فکر لاحق ہو گئی۔

”میں سوچ رہی ہوں۔ سوچنا پڑے گا۔بہت جذباتی ہے وہ فیملی کے لیے۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ ہمیشہ یہاں رہ پائے گا۔”

”جب اس کی اپنی فیملی یہاں ہو گی تو رہے گا۔”

”شادی کے بعد بہت کچھ بدل جاتا ہے۔”

”پھر اختیار ہو گا تمہیں اسے روکنے کا۔”

”مجھے اس پہ رحم آتا ہے۔” اس نے کرسی کی پشت سے سر لٹکا دیا۔

”ابھی سے؟” وہ مسکرائیں۔

”ہاں، اور وہ اس لیے کہ وہ خانوں میں بٹا ہوا شخص ہے۔ فیملی اتنی دور پاکستان اور وہ خود یہاں۔ پھر اس کے ارادے کہ ایک ہسپتال بنائوں گا اپنے گائوں میں۔”

” یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں شیبا۔ اس کا فیوچر یہاں برائٹ ہے۔ تم اگر چاہو تو وہ یہیں سیٹل ہو گا۔” وہ غور سے ماں کی طرف دیکھنے لگیں۔

”میں اسے فورس نہیں کرنا چاہتی۔ میں چاہتی ہوں وہ خود یہ فیصلہ کرے۔”

”تم نے اسے پہلے کبھی فورس کیا ہے کسی معاملے میں؟”

”کبھی نہیں۔” اس نے تیزی سے سر جھٹکا۔

”وہ خود ہی تمہاری طرف متوجہ ہوا۔ خود ہی اس نے دل چسپی دکھائی تھی۔”

”ہاں، مگر اس نے پروپوز نہیں کیا کبھی کھل کر۔”

”وہ تمہیں کیا کہہ کر گیا ہے؟”

”میرا انتظار کرنا۔”

”تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟”

”ہو سکتا ہے یہی ہو مگر جب تک وہ کھل کر نہیں کہتا مجھے اس پہ یقین نہیں ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ خود کہے۔اسے سمجھنا چاہیے میں ایک لڑکی ہوں۔ بہت آکورڈ لگے گا خود سے یہ بات کہتے ہوئے۔”

”وہ کافی معصوم ہے ہو سکتا ہے شرماتا ہو کھل کر کہنے میں، مگر کہے گا ایک دن۔ ابھی تمہیں اس پر غصہ ہے اس لیے ایسا سوچ رہی ہو۔”

”اچھا تو مجھے بھی نہیں لگا اس کا سیٹ آگے کروانا مگر وقت ایسا ہے کہ ہم اسے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اسے آنے دو پھر تم اس کی حمایت میں بولنا شروع کر دو گی۔ دو منٹ کا ہوتا ہے غصہ تمہارا۔”

وہ ان کی بات سن کر تھوڑا سا مسکرائی۔

”اب فریش ہو جائو۔ ہم ڈنر باہر جا کر کریں گے۔”

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۴

Read Next

شریکِ حیات قسط ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!