شریکِ حیات قسط ۵

”مولا بخش اب تو خوش ہے نا؟ تجھے تو سارنگ بڑا عزیز تھا۔ توخوش ہو گا، ہے نا؟” وہ اس کی تصویر لیے کھڑی تھیں جب سندھیا دروازے کے پاس رُک گئی۔

”دیکھ تو میں بھی خوش ہوں تیری خوشی میں، پر مولا بخش سندھیا خوش نہیں ہے۔”

”وہ خوش نہیں ہے مولا بخش، اسے سمجھا کہ وہ خوش ہو۔” سبھاگی کا لہجہ گیلا تھا۔

”وہ شکر ہی نہیں کرتی۔ تو شکر کرتا تھا نا۔”

”اور مجھے یہ سمجھاتا تھا کہ میں بھی ہر حال میں شکر کرتی رہوں۔”

”مولا بخش، توجس دن مجھے چھوڑ گیا تھا، میں اس دن بہت روئی تھی۔” آواز بوجھل تھی۔ سندھیا کو لگا اس کا دل پھٹ جائے گا۔

”میں بھی بہت روئی تھی مولا بخش،میں یہ تو نہ کہہ سکی کہ تیرا شکر ہے۔”

”مگر میں نے یہ بھی نہیں کہا کہ اللہ جی یہ کیا کیا؟”

”بس کر دے اماں، بس کر دے۔ ”وہ آگے بڑھ کر لپٹ گئی ان کے ساتھ۔

”میں بس کر دوں تو خوش ہو جائے گی سندھو؟ ” اس نے سندھیا کو پیار کیا۔

”میں خوش ہوں اماں، میں خوش ہوں۔” وہ بلبلا کر روئی۔

ان کی آنکھ سے آنسو پونچھ کر وہ خود رو پڑی۔

”اماں میں کتنی خوش ہوں۔ دیکھ میں خوش ہوں۔” روتے ہوئے کہے جا رہی تھی۔

”اماں میں بہت خوش ہوں۔”

”سندھو تیرا دماغ چل گیا ہے۔ تو حواسوں میں نہیں رہی۔” سوہائی نے ٹھیک کہا تھا۔

”نکاح ہو گیا ہے تیرا۔ وہ بھی سارنگ کے ساتھ اور تو کہتی ہے دل اُداس ہے، خوش نہیں ہوں۔” وہ ماں کو سمجھاتی رہی، نہیں چاہ رہی تھی کہ وہ روئیں۔ 

اس لیے کہنے لگی۔ ”اماں میں خوش ہوں۔ اماں میں بہت خوش ہوں۔”

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۴

Read Next

شریکِ حیات قسط ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!