تب ہی مولوی صاحب نے کہا سیکھا ہوا ہے اور اسے اسی وقت کھیتوں کی فکر نے آلیا۔ فصل ڈوب جائے گی، چاچا کھیتوں پر کھڑا ہوگا، نکل سارنگ۔ وہ اُٹھا اور مولوی صاحب سے اجازت لی۔

”اور جوانی مت آزماسارنگ پٹ۔ چھتری لے لے ورنہ ایسا کر یہ بوری اٹھا۔”

وہ بوری سیدھی کیے دونوں ہاتھوں سے پکڑ سر پر چھائوں کیے بھاگتا ہوا جارہا تھا کیچڑ میں شپٹر شپٹر اس کے جوتوں میں تقریباًپانی بھرگیا۔

بھاری پتھر کی طرح ہو گیا۔

سر پر بوری اور قطرے وقفے وقفے سے سر پر ایسے ٹپک رہے تھے جیسے آسمان ترسا ترسا کر بوندیں برساتا ہے۔ بالوں سے گرتے قطرے چہرے سے کالر تک سفر کرتے جیب تک آتے قمیص میں جذب ہوجاتے۔

وہ اپنی دھن میں دوڑتا ہوا جارہا تھا۔

چاچا کھیتوں کے پاس ٹریکٹر میں برسات کا گیت گارہا تھا۔

”او سارنگ میرے یار، میرے جگرے۔ سردی ختم ہونے کی برسات ہے سجن بیمار نہ ہوجائیں۔” چاچا دور سے چلایا۔ ”چاچا ڈاکٹر بیمار کم ہوتے ہیں۔” وہ ہنستا ہوا ٹریکٹر پر چڑھ گیا، بورا پھینک دیا۔ رومال اٹھاکے سر پر جمایا اور پانی خشک کرنے لگا۔

اگر کھیت ڈوب گئے تو کیا ہوگا۔ اسے فکر کھائے جا رہی تھی۔

”سارنگ ہم لوگوں کورب سائیں بھی آزماتا ہے،او آزمانے دے یار۔ یہ ہمارے رب کے ہم سے لاڈ ہیں۔کیا اسے نہیں پتا کہ فصل ڈوبے گی، وہ تو بادشاہ ہے۔ ڈوبے گی تو ترائے گابھی وہی۔ دیکھ نقصان اتنا کبھی نہیں ہوتا جتنا ہم سوچتے ہیں۔بس یوںہوتا ہے جیسا ہم سوچ نہیں سکتے۔ پر تو جگر بڑا رکھ، فکریں نہ پالاکر، تھکن ہوجائے گی۔ چل گھر چل کر بُسری (میٹھی روٹی) پکوائیں،برسات آئے تو منہ نہیں بناتے۔ وہ روٹھ جاتی ہے اورسالوں نہیں برستی اور جب برستی ہے تو۔”

ادھر سندھیا صحن میں جیسے دوڑیں لگا رہی تھی۔ ہائے اللہ میری مرغیاں، پنجرہ بہ رہا ہے۔ چھت پر دوچار بوریاں لادیں، اوپر کنارے پر اینٹیں جمادیں۔ مرغے ٹاں ٹاں کرتے رہے۔ وہ جھڑکتی رہی۔

”او! چپ کر جا دیکھ نہیں رہا کہ برسات ہے۔ اللہ خفا ہوگا ٹاں ٹاں نہ کر۔”

اور ادھر اماں سر پر ہاتھ رکھ کر کھڑی تھیں کہ چھوری تو گئی ،بیمار ہوجائے گی۔ بدلتے موسم کی برسات ہے، ساون نہیں جو اِدھر اُدھر جھومتی پھررہی ہے۔سبھاگی جانتی تھی منع کرنے کا مطلب ہے کہ بڑھاوا دے دو۔ سندھیا اور رُک جائے،کس کتاب میں لکھا ہے، کم از کم اس میں تو نہیں جیسی وہ پڑھتی ہے۔

سوہائی اور سندھیا ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے صحن میں پھیریاں لگاتی رہیں۔ سبھاگی بُسری پکانے کے ساتھ ساتھ کئی بار بڑبڑاتی، چیختی اور چلاتی رہی مگر بے سود۔

ابا چاچا اور سارنگ گڑکی بنی میٹھی روٹیوں پر مکھن کے پیڑے رکھ کر کھاتے رہے۔

اور جیجی تسبیح کے دانے گھماتے اور ایک مسکراہٹ کے ساتھ باہر لڑکیوں کو اتنا خوش دیکھتیں تو باغ و بہار ہوجاتیں۔

”لڑکیوں کو خوش رہنے دے سبھاگی۔بچیاں کھلکھلائیں تو لمحے کے لیے کھیتوں کے ڈوبنے کے غم بھی بھل جاتے ہیں۔باپ کے گھروں میں ہی تو کھلکھلاتی ہیں۔ دھیاں تو گھر کی رونق ہیں۔ دوسرے معنوں میں رحمت بھی کہتے ہیں۔”

بات ایسی ہو جو سبھاگی کو چپ لگ جائے اور مولابخش کو باتوں کا موقع مل جائے اور بات ایسی جو وزن میں سو باتوں کے برابر ہو۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات أ قسط ۱

Read Next

شریکِ حیات قسط ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!