دریائے سندھ میں شام اُتری تھی۔

ہوائیں تروتازہ تھیں۔ وہ موٹر بائیک بھگا کر اڑے جارہا تھا۔ بائیک کا رخ صادق کے گھر کے نئے پتے کی جانب تھا۔انگوٹھی خریدی، سوٹ سلوایا، مٹھائی کے ڈبے لیے اک صادق کے لیے دوسرا اس کے دوستوں میں بانٹنا تھا۔ 

ذہن کتنا ہلکا پھلکا سا تھا۔ یہ بدمعاش تو منگنی کرکے غائب ہی ہوگیا۔ بائیک کھڑی کی اور سوچا جاکر ذرا پہلے اس کی خبر لے لوں۔ دو تین بار بیل دی تھی۔دروازہ کھلاکوئی آیا، آنے والی خاتون تھیں۔

اوہ شاید غلط جگہ آگیا۔کاغذچیک کیا پتا یہی تھا۔خاتون نے بے زاری سے پوچھا۔”جی فرمائیے؟”

”محترمہ یہ صادق حسین شاہ کا گھر ہے؟”

”جی ہاں انہیں کا گھر ہے۔ آپ کون؟” 

”آپ کرائے دار ہیں یہاں؟” سوال اس کا بنتا تھا۔ 

”پہلے تھی اب بیوی ہوں اس کی۔” شوخی اور فخر ایک ساتھ تھا۔

سارنگ نے سوچا شاید غلط سنا ہے۔

”پھر سے کہیے؟” اسے اپنی غلط فہمی درست کرنی تھی۔

”بیوی ہوں صادق کی بھیا۔ کہیے کیا کام ہے گھر پر نہیں ہے وہ۔ گائوں گیا ہے، کوئی ایمرجنسی کال تھی گھر سے۔”

اس کے پاس بولنے کو کیا تھا سوائے بے یقینی، نا سمجھی اور حیرت کے۔

خاتون دیکھتی رہ گئیں۔وہ دوبارہ بائیک پر آ بیٹھا اسٹارٹ کی۔

خاتون کندھے اچکا کر دروازہ بند کرکے اندر چلی گئی۔ سارنگ کے دماغ میں جیسے تیز ہوا کے جھکڑ چل رہے تھے۔ وہ آج بڑی مشکل سے گائوں پہنچ پایا تھا۔جو حقیقت وہ دیکھ اور سن کر آیا تھا، اس حقیقت کو بیان کرنا اس کے لیے ناممکن نہ سہی مشکل ضرور تھا۔

آنکھوں کے سامنے سندھیا کا چہرہ آیا،جیجی نے بتایا تھا وہ بہت خوش ہے۔ پھر چاچے کا چہرہ آیا۔ معلوم تھا سندھیا کی خوشی میں وہ بھی خوش ہے۔ کانوں میں چاچا کا خوشی سے بھرا لہجہ تھا، جو کل صبح فون پر اس نے سنا تھا۔گھر بھر خوش تھا۔

تانگہ حویلی کے پچھواڑے میں اوطاق کے سامنے رُکا۔ وہ بہت تحمل سے اُترا۔ مختلف پیکٹس اس نے پکڑ رکھے تھے جو ہاتھ کے پسینے سے پھسل رہے تھے۔ اس گھر کی پہلی خوشی، گھر کی اکلوتی بیٹی کی رسم ہو چکی تھی۔. رسم ہوتے ہی گائوں بھر میں مشہور ہوگیا۔ اب کیا باقی رہتا تھا۔ایک تماشا۔

گھر میں گھستے ہی سب سے پہلے اُسے سندھیا نظر آئی۔ سامنے آتا ہوا چاچا بھی دکھائی دیا۔

” پہنا آیا صادق کو انگوٹھی؟ بڑی دیر کردی یار۔” اس نے سارے پیکٹ زمین پر رکھے اور فیصلہ کیا کہ یہ بتانا کتنا مشکل ہے۔انہوں نے پیکٹ ٹٹولے اور حیرت سے سارنگ کو دیکھتے ہوئے بولے۔ ”کیا ہوا سارنگ؟یہ چیزیں تو یہاں لے آیا ہے؟ کیا صادق گھر پر نہیں تھا؟تو اور انتظار کرلیتا رک جاتا اس کے گھر پر نہیں رُک سکتا تھا۔”وہ تھکے ہارے انداز میں بیٹھ گیا۔

”دروازہ اس کی بیوی نے کھولا تھاپھر کس کا انتظار کرتا۔”

”اوہ تو کیا بکتا ہے سارنگ۔”پہلی بار زندگی میں چاچے کا ہاتھ سارنگ پر اُٹھتے اُٹھتے رہ گیا۔

اس کے بعد سارنگ کے پاس بولنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ مولابخش کو ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے پستول اس کے سینے پہ رکھ کر ٹریگر دبادیا اور گولی آر پار ہوگئی۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات أ قسط ۱

Read Next

شریکِ حیات قسط ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!