آج خواب کچھ اور بلکہ سوچیں ہی کچھ اور تھیں۔جھولنا،پینگیں، گیت چلانے کی ضرورت نہ تھی۔
وہ پینگیں بھر رہی تھی اور ساتھ سوچوں میں غرق تھی۔ ”سندھو جب تک ادھر ہے ہماری رہ ہماری،بعد میں صادق کے بارے میں سوچنا۔” ”توبہ ہے سوہائی۔ تیری توسوئی اسی پرآکر اٹکتی ہے، حد ہوگئی ہے۔ میں کچھ اور سوچ رہی ہوں تو کچھ اور۔”
” بتا صادق کو چاند میں ڈھونڈ رہی ہے کیا؟ تجھے صادق کتنا یاد رہتا ہے مجھ سے زیادہ۔” وہ چڑگئی۔
”چڑتی کیوں ہے،دیکھ چاند کو اس میں ڈھونڈ یا اس میں چاند کو تیری مرضی۔میں تو ایک مشورہ دے رہی ہوں۔”
اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے سوہائی کو موقع ملا تھا اسے چھیڑنے کا۔
”میری باری بھی آئے گی سوہائی ایک دن دیکھنا چھوڑوں گی نہیں۔” وہ بلبلائی۔
”اللہ کرے جلدی آجائے۔” سوہائی چہکی۔
”کتنی بے شرم ہے نا تو۔” وہ غصے سے بولی۔
”اپنے نصیب کی دعا مانگ رہی ہوں،اس میں بے شرمی کی کیا بات ہے؟”
” چل اُٹھ جیجی کو چل کر بتاتی ہوں کہ مجھ سے پہلے اس کی شادی کریں ڈھونڈیں کوئی صادق سا۔”
وہ کھلکھلاتی ہوئی کمرے سے نکلی اور صحن کی طرف بڑھ گئی اندر برآمدے میں جیجی بیٹھی تھیں۔
”سندھو تجھے قسم ہے جو بولی۔ پٹوانا ہے کیا مجھے۔”
سوہائی نے چھری اٹھالی۔ تیری مرغیوں کی آج میں بوٹی بوٹی کر دوں گی،اٹھائوں؟”اس نے چھری اٹھا لی۔” خبردار سوہائی جو تو نے میری مرغیوں کا نام بھی لیا تو۔” اس نے مرغیوں کو بچانے کے لیے دوڑ لگادی۔
”یہ چھوریوں کو کیا ہوا ہے سٹھیاگئی ہیں کیا۔”سبھاگی ہمیشہ کی طرح بڑبڑائی۔
کوئی ابا سے پوچھتا کہ سندھو کو خوش دیکھ کر اس کے دل کا کیا حال ہوتا تھا۔
٭…٭…٭