پتا نہیں گھر نیا لگ رہا تھا یا گھر والے نئے،مگر پہلی بار سب کچھ بدلا بدلا سا لگ رہا تھا۔
”اب کیا تو باہر نکلے گی یا ابھی سے دلہن بن کر کمرے میں بیٹھی رہے گی؟” سوہائی نے اسے گھور کر کہا۔
”سوہائی تو تو نہ گھور، سارے ہی گھور رہے ہیں۔ایسے جیسے میں اس گھر میں نئی آئی ہوں۔” وہ سوہائی کو گھور کر بولی۔
”کوئی نہیں گھور رہا تجھے ہی سب کچھ نیا نیا لگ رہا ہے احساسات بدل گئے ہیںتیرے۔ابھی اس کے گھر نہیں گئیں۔ ابھی سے ایسا محسوس کرنے لگی ہے۔ اس کے گھر تک جائے گی تو کہے گی، آپ سارے کون؟ میں تو یہاں پہلی بار آئی ہوں اور ابھی کہہ رہی ہے کہ نئی لگ رہی ہوں۔”
”جتنی تیری عقل اتنی تیری سوچ سوہائی۔ اب کیا اپنے ہی گھر والوں کو میں بھلادوں اور کہوں آپ کون؟ حد ہوگئی،میں تو یہی سوچ سوچ کر کھپ رہی ہوں کہ گھر والوں سے دور کیسے رہوںگی۔ تجھ سے، جیجی سے،اماں سے، چاچا سائیں سے،سب سے مشکل ہے ابا سائیں سے دور رہنا۔”
ابا سائیں اسی وقت کمرے میں آیا اور اُسے دیکھ کر سندھو کو پھر چپ لگ گئی۔سوہائی بستر سمیٹ کر باہر نکل گئی۔ابا نے سندھو کے سر پر ہاتھ رکھا۔ ہاتھ رکھنے کی دیر تھی۔ ابا کے سینے سے سسکتی ہوئی جا لگی۔
وہ بولا: ”سندھو بڑی ہوگئی ہے تو، دیکھنا رانی بنے گی۔”کہتے ہوئے آواز بھرآئی۔ سندھو کو رونا آیا تو ابا بھی رودیا۔
سبھاگی پیچھے آگئی اور بولی: ”دھی کو نہ رُلا مولابخش۔”
جیجی بھی پیچھے آکھڑی ہوئیں۔
”مولابخش دل نہ چھوٹا کر،تیری بہن کے گھر جارہی ہے زیادہ دور نہیں۔ خوش ہو، دھی کو دعادے، نئی خوشیوں کی دعا۔”
ابا نے کہا: ”میں تجھے محبت کی دعا دیتا ہوں، سکھ کی دعا۔ دل کے سکون کی دعا۔” خوشیوں کا واسطہ دل سے ہوتا ہے۔ یہ بات ابا بھی جانتا تھا اور سندھو کو بھی معلوم تھی۔ وہ ابا کے سینے سے لگی تھی، جہاں ابا کا دل تھا۔ وہاں دھڑکن بڑھ گئی تھی اس نے فوراً محسوس کر لیا۔
”آپ نے دوا نہیں لی ہے نا؟” وہ الگ ہوئی۔ ابا نے آنسو پونچھے، پیشانی پر چپکی بالوں کی لٹیں ہٹائیں۔ ”میری رانی۔ میری سندھو شہزادی۔” اب جو کہتا کہ رانی بنے گی تو بات پھر سے بڑھ جانی تھی، آنسو نکل آئے تھے۔
اب جو روتا تو چپ ہی نہ ہوتا۔ نہ سندھو کو چپ کرپاتا۔ ”چل دوا کھلادے اپنے ابا کو۔”
وہ اسے کمرے میں ساتھ لایا۔سندھو گلاس میں پانی لائی۔ ابا کو دوا دی۔
”پاس بیٹھ میرے اور مجھے بتا توخوش تو ہے نا؟”
” کہا بھی تھا کہ دھی سے زیادہ بات نہ کر۔”سبھاگی کیسے چپ رہتی۔
”او تو چپ کرجا۔ میرا اور میری شہزادی کا معاملہ ہے، تو بول نا سندھو۔بتانا تا کہ میرے دل کو قرار آجائے۔ رات بھر نہیں سویا۔” وہ بھی کہہ دیتی کہ میں بھی نہیں سوئی مگر پتا تھا ایسا کہنے کے بعد ابا آج بھی نہ سوسکے گا۔ وہ چارپائی پر سیدھا لیٹ گیا۔سندھو کے لیے جگہ چھوڑی وہ کنارے پر بیٹھی ہوئی تھی۔اتنا فرق آگیا تھا کہ کبھی سینے پر چڑھائے رکھتا تھا۔دل ماننے کو تیار نہ تھا کہ میری سندھو بڑی ہوگئی ہے۔
پوچھنا چاہتی تھی کہ ابا آپ خوش ہیں مگر پتا تھا کہ پہلا سوال ابا نے کیا تھا اس لیے پہلا جواب اسے ہی دینا تھا اور یہ بھی کہ پہلے جواب کے بعد دوسرے سوال کا تصور بھی ختم ہو جاتا تھا۔ ایک جواب ہی مکمل تھا۔
اس نے کہا :”ابا میں بہت خوش ہوں۔” او رابا کے سینے پر سر ٹکادیا۔ مولابخش کے چہرے پر اطمینان بخش مسکراہٹ آگئی۔
سبھاگی نے کہا: ”لے، سن لیا؟ آگیا چین تجھے اب بول بتا۔”
ابا نے سندھو کا ماتھا چوما ۔ ”میری سندھو خوش تو ابا پہلے ہی خوش ہے۔” جملہ اُلٹ گیا تھا۔
مگر بات ایک ہی بات پر رُک جاتی۔
سندھو خوش تو ابا خوش اور ابا اگر خوش تو سندھو چپ۔
سورج پر شام کی سرخی نے غازہ مل دیا تھا۔وہ گاڑھا ہوکر زمینوں کے پار اترتا ہوا شعلے برساتا دکھائی دیا۔ ٹھنڈے شعلے، اردگرد رنگوں کی سرخی، سب کچھ نیا نیا تھا۔
آج اماں نے نہیں کہا تھا۔سندھو نے خود ہی ہنڈیا چڑھادی تھی۔کھانا سب نے رج کے کھایا۔ ساگ چٹخارے دار تھا۔مولابخش نے سبھاگی کو آنکھ ماری۔
”سندھو چاہے جیسا بنادے مگر سبھاگی ،ساگ بنانے میں وہ تجھ سے زیادہ ماہر نہیں ہوسکتی۔”
جیجی سمیت سب کو پتا تھا کہ جملہ الٹ ہے تبھی مسکراہٹ سب کے چہروں پر ایک ساتھ اُبھری۔
”تو کبھی ٹوک مارنے کا موقع نہ جانے دینا سندھو کے ابا۔”
سندھو کے ابا جو کہہ کر پکارتی تو ٹھنڈ پڑجاتی بیٹی کے نام سے باپ کی پہچان۔ اس کا سینہ پھول جاتا ،کون کہتا ہے کہ صرف بیٹی باپ کا نام لے کر چلتی ہے۔ وہ بھی تو لے کر چلتا تھا۔ سندھو کا ابا جو کہلاتا تھا۔بڑا رعب تھا اس کا،اتنا حسن بخش کا نہ تھا۔
حسن بخش باہر اکڑ کر چل سکتا تھا سارنگ کا باپ کہلواکر۔ اسے زیادہ مان اسی بات پر تھا کہ گھر میں اسے سندھیا کا باپ کہا جا تاہے۔
گھر کے فیصلوں میں عورتیں بیٹیوں کو اہمیت دیں نہ دیں۔ اس خاندان کے باپ دھیوں کی بڑی عزت کرتے تھے اور اسی لیے بیٹیاں صدیوں سے باپ کی عزت رکھتی آئیں۔ بات یہاں بھی سو بار اُلٹ پلٹ جاتی مگر مطلب تو ایک ہی بنتا تھا۔
٭…٭…٭