سندھیا منہ سجاکر کمرے میں پڑی رہی۔سر پر چادر تھی۔ یہ چالاکی بھی خوب۔چادر کے نیچے چھوٹے سے جگنو کی چمک دکھائی دے رہی تھی۔اولڑے سائے پڑرہے تھے۔
سبھاگی نے بڑھ کر چادر ہٹانی تھی تو اندر سے رسالہ نکلنا تھا،مگر اس بار چھوڑا۔ ویسے بھی کون سا چھوری بات مانتی تھی۔
ہر حال میں اس کو رسالہ تو پڑھنا ہی ہے۔میں کہوں قبر میں ساتھ دفن کروںگی تیرے اور وہ کہتی ابھی مرجاتی ہوں۔ اس سے مقابلہ کوئی آسان نہ تھا۔ اولاد ماں پیو سے عقل میں آگے کیوں نکل جاتی ہے جب کہ اصولاً تو شکل میں ترقی ہونی چاہیے۔گھر بیٹھے چار اکھر کیا پڑھ لیے ،سب کو عقل سکھانے نکل پڑی۔ اسکول کالج کی شکل دیکھتی تو سندھیا نہیں اللہ جانے کیا بن کر آتی؟
لڑکا بن کے آئے تو سارنگ ہی رہے گا۔
لڑکی کچھ بن کر آئے تو سندھیا نہ رہے گی۔
یہی فرق تو رستے کی دیوار بنا ہوا تھا۔
وہ سوچتی تو اچھا تھا۔ کہانی کی ہیروئن بھی تو اسی طرح سوچتی ہے۔ میں بھی تو ایسے ہی سوچتی ہوں۔ ہائے یہ تو میری طرح لگتی ہو گی۔
لو! ہر کہانی کی باغی کی سوچ اسے لگتا جیسے اسی سے چرائی گئی ہے۔
وہ اپنی سوچ کو خود پکڑ رہی تھی۔وہ سوچتی کہ سب ہی میری طرح سوچتے ہیں۔
اور ادھر ماں کی سوچ کے پر رُکے ہوئے تھے۔جیسے سانس گلے میں اٹکی تھی۔یا خدا عزت رکھنا۔ جوان دھی کی ماں ہوں۔چھوری گیت سننے لگی ہے۔رسالہ پڑھتے خود ہی مسکرائے جاتی ہے۔بال کھول کر درخت کے نیچے منجھی پر جا بیٹھی ہے۔ ماں کا دل ڈرگیا۔اس سے پہلے رب سائیں، چھوری پر کوئی سایہ ہوجائے۔اس سے پہلے اس کی نظر کسی سائے پر اٹک جائے، اس سے پہلے کچھ غلط ہو۔یا رب سائیں تو صحیح کردے۔
اور صحیح کیا تھا؟
صحیح تو یہ تھا کہ سندھیا کے لیے کوئی اچھا رشتہ بھیج دے۔یہی کسر رہتی تھی کہ فرشتہ بھیج دے۔دعائوں کے لاڈ بڑھتے جارہے تھے۔تہجد اپنا اثر دکھارہی تھی۔
سندھیا رسالہ پڑھتے پڑھتے سوگئی۔ڈوری جو کھڑکی کی سلاخ سے بندھی تھی ہوا کے زور پر تھرکتی تو جھولنا خود ہی جھولنے لگتا۔
سوہائی کی آنکھ کھلی، کھڑکی سے سندھیا پر نظر پڑی۔سانس اکھڑگیا۔
”اٹھ سندھو۔ سندھو اٹھ تو سہی، دیکھ کیا ہے۔”
”چھڈ نہ۔ سمھن ڈے (سونے دے) اللہ اللہ کرکے سوئی تھی۔”
”اٹھ جا سندھو۔ جھولا آپوں آپ ہی جھول رہا ہے ۔اس سے پہلے کہ ٹیپ ریکاڈر بھی خود ہی سے بجنا شروع ہوجائے، اٹھ جا۔”
اور ٹیپ ریکاڈر بجتا کہ نہیں مگر بانسری کی مدھر آواز پورے ماحول میں سُرگھول رہی تھی۔ ”دیکھ تو یہ آواز کہاں سے آرہی ہے سندھو؟”
”پیر سائیں کے فقیر بجارہے ہوںگے سوہائی،سوجا جا کر۔” آواز میںنیند بھری تھی مگر ذہن میں بڑا سکون تھا۔
گھر کے سامنے تھوڑے فاصلے پر پیر سائیں پر دادا کا مزار تھا۔ جمعہ کے جمعہ ذکر ہوتا تو گھر تک آواز صاف آتی۔
”آج تو جمعہ کی رات بھی نہیں ہے چھوری اُٹھ کر تو دیکھ۔” دل کڑا کرکے اُٹھی۔ ماحول تو عجیب تھا سحرزدہ سا۔ادھر جھولنا جھولے، ٹھنڈی ہوا کے ہلکورے۔ ادھر کھڑکی کے سامنے تو کچھ نہ تھا مگر مشرقی دیوار کے اس پار کوئی بانسری کے سروں کو چھیڑرہا تھا۔
سارنگ اپنا پرانا شوق پورا کررہا تھا۔
”سوجا سوہائی! یہ ادا سارنگ بجارہے ہوںگے۔ یاد نہیں کہ ایسے ہی بجاتے تھے پہلے بھی۔ گویا کہ بدلے تو ہیں مگر ابھی پوری طرح نہیں بدلے۔” کوئی سارنگ سے پوچھتا کہ بدل گئے ہو؟ وہ کہتا کہ بڑی کوششیں کرلیں مگر ناکام ہوگیا۔ اب بھی اس کے سرجنتر منتر پھونک رہے تھے۔ نام کا اثر تھا چڑھنا ہی تھا۔
٭…٭…٭