زندگی گلزار ہے — عمیرہ احمد

26 مارچ
کتنی ضدی ہے یہ لڑکی اور کتنا بے وقوف ہوں میں جو پھر اس سے ملنے چلا گیا اور پھر احمقوں کی طرح سارا دن اس سے ملاقات کا انتظار کرتا رہا یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ مجھے جان بوجھ کر انتظار کروا رہی ہے۔ شرم آ رہی ہے مجھے اپنے آپ پر کہ میں کیا تھا اور کیا ہو گیا ہوں۔ میں ایک لڑکی سے اس قدر انسلٹ کروا رہا ہوں اور وہ بھی اس سے جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ کالج میں مجھے اس پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا مگر میں نے اس پر ہاتھ اٹھایا اور آج مجھے اس کو منہ توڑ جواب دینا چاہیے تھا مگر میں ایسے ہی آگیا۔ کس قدر زہریلے تھے اس کے الفاظ۔ کاش وہ جان پاتی میرے لیے تو وہ عذاب بن گئی ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ جس شدت سے میں اس کا ذکرکرنے لگا ہوں کہیں میرا نروس بریک ڈاؤن ہی نہ ہو جائے۔
میں جانتا ہوں، میں اس سے محبت نہیں کرتا کیونکہ وہ اس قابل ہی نہیں ہے۔ میرے جیسا مرد اتنی عام سی لڑکی سے شادی یامحبت کیسے کر سکتا ہے، ہاں میرا دل چاہتا ہے میں اسے کوئی ایسی تکلیف یا نقصان پہنچاؤں جو وہ ساری زندگی یاد رکھے۔
…**…
31 مارچ
آج تیسری دفعہ زارون جنید سے میرا سامنا ہوا ہے اور میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ یہ شخص اس قدرڈھیٹ ہے۔
آج میں سر ابرار سے ملنے ان کے گھر گئی تھی، ہم لوگ چائے پی رہے تھے جب وہ آیا تھا میرے لیے اس کی آمد پریشان کن تھی۔
”السلام علیکم سر!” وہ یہ کہہ کر میرے قریب کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
”کیسی ہیں کشف آپ؟” اس نے مجھے مخاطب کیا تھا اور میں اس کی بات ان سنی کر دی۔
”چائے پیو گے؟” سر ابرار نے اس سے پوچھا تھا۔
”وائے ناٹ میں توکھانا بھی کھالوں گا اگر آپ کھلائیں گے تو۔”
سر ابرار نے ملازم کو بلوا کر ایک کپ اور لانے کو کہا تھا۔
”تمہاری پوسٹنگ ہو گئی ہے؟”
”ہاں ابھی فی الحال اسلام آباد ہی کروائی ہے، کچھ دنوں تک جا رہا ہوں۔”
”بہت احمق ہو۔ پاکستان میں پوسٹڈ ہو کر وقت ضائع کیوں کر رہے ہو؟” سر ابرار اسے ڈانٹ رہے تھے اور وہ مسکرا رہا تھا۔
”بس ایسے ہی سر ! کچھ عرصہ پاکستان میں بھی گزارنا چاہتا ہوں۔ کشف آپ آج کل کیا کر رہی ہیں؟”
اس نے سر ابرار کے سوال کا جواب دیتے دیتے اچانک مجھ سے پوچھا تھا اور میرا جی چاہا تھا چائے کا کپ اس کے منہ پر دے ماروں۔ وہ یوں پوز کر رہا تھا جیسے مجھ سے پہلی بار ملا تھا۔ اس بات کے جواب میں میں چائے کا کپ رکھ کر کھڑی ہو گئی۔
”او کے سر! اب میں چلتی ہوں۔” سر ابرار نے حیرت سے مجھے دیکھا۔
”تمہارا ارادہ تو آج یہاں سہ پہر تک رہنے کا تھا اور تمہیں لنچ بھی میرے ساتھ کرنا تھا۔ اب منہ اٹھا کر کھڑی ہو گئی ہو۔” سر ابرار ناراض ہو گئے تھے۔
”سر ! مجھے کچھ کام یاد آ گیا ہے، اس لیے جانا چاہ رہی ہوں۔”





”تم شاید زارون کی وجہ سے جانا چاہ رہی ہو۔” سر ابرار اصل وجہ بھانپ گئے تھے۔
”نہیں سر ! مجھے واقعی کچھ کام ہے۔” میں نے انہیں مطمئن کرنا چاہا۔
”بیٹھ جاؤ کشف ! مجھے نہیں پتا تھا تم اتنی احمق ہو۔ میں تم دونوں کے درمیان وہ معاملہ ختم کروا چکا ہوں ، اب تم لوگوں کو اچھے کلاس فیلوز کی طرح بی ہیو کرنا چاہیے بس اب بیٹھ جاؤ تم۔”
میں سر ابرار کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس لیے خاموشی سے بیٹھ گئی۔ زارون بڑے اطمینان سے چائے کے سپ لے رہا تھا۔ سر ابرار نے ہم دونوں کا ایک دوسرے سے تعارف کروایا۔
”کالج کے بعد تو آج شاید پہلی بار ملاقات ہو رہی ہے۔”
اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا تھا اور اگر سر ابرار وہاں نہ ہوتے تو میں کچھ نہ کچھ اس کے سر پر ضرور دے مارتی۔
”ہاں شاید۔” میں نے ناگواری سے کہا تھا۔ کچھ دیر بعد جب سر ابرار کھانے کے بارے میں پتا کرنے کے لیے اٹھ کر گئے تو ان کے کمرے سے نکلتے ہی اس نے کرسی میری طرف گھمالی۔
”کیا حال چال ہیں آپ کے؟”
”میرے حال چال بالکل ٹھیک ہیں، خراب شاید تمہارے ہو جائیں اگر تمہارے یہی طور طریقے رہے تو۔”
وہ میری بات پر ہنس پڑا تھا۔ ”ویری فنی اچھی لگی مجھے آپ کی بات۔”
”تم نے تو مجھے ایسی طاقت دکھائی تھی۔ میں تو اس دن سے اپنی معطّلی کے آرڈرز کے انتظار میں تھی۔”
میں نے اس پر طنز کیا تھا مگر وہ پھر ہنس پڑا۔
”یار ! وہ بس غصے میں۔”
”مجھے یار مت کہو، اس قسم کی بے ہودہ گفتگو پسند نہیں ہے مجھے۔”
”او کے او کے۔” اس نے مصالحانہ انداز میں ہاتھ اٹھائے تھے۔
”مس کشف مرتضیٰ بلکہ یور ایکسیلنسی مس کشف مرتضیٰ اب ٹھیک ہے؟”
اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتی، سر ابرار کمرے میں آ گئے تھے۔ لنچ کے بعد میں وہاں سے واپس آ گئی تھی۔
یہ شخص میری سمجھ سے بالاتر ہے اور اس کا رویہ اس سے بھی عجیب ہے کس قدر احمق اور بد قسمت ہے اس کی بیوی جسے ایسا شوہر ملا ہے مکمل کرپٹ اور بڑی حد تک کمینہ۔
…**…
اپریل
آج کا دن بڑی ٹینشن میں گزرا اور اس کا آغاز اس وقت ہوا جب ناشتے کے بعد ماما میرے پاس آئیں تھیں۔ میں اس وقت ٹیرس پر بیٹھا اخبار دیکھ رہا تھا۔
”ہاں تو زارون! کیا سوچا ہے تم نے؟” انہوں نے میرے پاس بیٹھتے ہی بات شروع کر دی تھی۔
”کس بارے میں؟” مجھے حقیقتاً حیرت ہوئی تھی کہ وہ کس بارے میں بات کر رہی ہیں۔
”تمہاری شادی کے بارے میں اور کس چیز کے بارے میں تمہارے سب دوستوں کی شادی ہو چکی ہے اب تمہاری بھی ہو جانی چاہیے، ویسے بھی ابھی تم پاکستان میں ہو اور شادی کے لیے اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا۔”
میں نے ایک گہری سانس لے کر اخبار سامنے ٹیبل پر رکھ دیا۔
”ہاں واقعی اب مجھے شادی کر ہی لینی چاہیے۔”
”شکر ہے تمہیں بھی عقل آئی۔” ماما میری بات سن کر بہت خوش ہوئی تھیں۔
”کوئی لڑکی دیکھی ہے یا وہ بھی مجھے ہی دیکھنا پڑے گی۔” انہوں نے پوچھا تھا۔
”ہاں دیکھ لی ہے۔”
”اچھا کیا نام ہے؟ تعلیم ، شکل و صورت کے بارے میں بتاؤ ، کس فیملی کی ہے؟” انہوں نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی تھی۔
”نام کشف ہے۔ میرے ساتھ ہی آئی آر میں ایم اے کیا ہے آج کل فیصل آباد میں اے سی ہے۔ عارف کے ماتحت کام کرتی ہے، جہاں تک شکل کا تعلق ہے تو ظاہر ہے مجھے تو خوبصورت ہی لگتی ہے آپ کو شاید نہ لگے، نارمل شکل و صورت ہے۔ اس کی فیملی کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتا سوائے اس کے کہ وہ ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی ہے۔”
میں نے بڑے آرام سے ان کے سارے سوالوں کا جواب دیا تھا۔ ماما کے تاثرات دیکھ کر مجھے حیرانی ہوئی۔ انہوں نے کہا۔
”میرا خیال ہے تم مذاق کر رہے ہو۔”
”میں بالکل سنجیدہ ہوں اور آپ نے یہ کیسے سوچا کہ میں مذاق کر رہا ہوں۔”
”تو اس لڑکی کے لیے اتنے سالوں سے جوگ لے کر بیٹھے تھے۔” مجھے ان کی بات بہت انسلٹنگ لگی۔
”میں نے کسی کے لیے جوگ نہیں لیا، پہلے میں نے شادی کے بارے میں سوچا نہیں تھا۔ اب سوچا ہے تو اپنی پسند بتا دی ہے۔”
”تم نے کہا اور میں نے سن لیا، اب تم میری سنو اگر میں تمہاری چوائس کو ریجیکٹ کر دوں تو؟”
آپ اسے اپنے لیے ریجیکٹ کر سکتی ہیں میرے لیے نہیں۔ مجھے ہر قیمت پراسی سے شادی کرنا ہے۔” میں نے حتمی انداز میں کہا۔
”دیکھو زارون ! وہ خوبصورت نہیں ہے۔ کوئی بات نہیں، اس کی تعلیم کم ہوتی تب بھی ٹھیک تھا مگر اس کا فیملی بیک گراؤنڈ بہت اچھا ہونا چاہیے۔”
انہوں نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
”فیملی بیک گراؤنڈ کو مجھے کیا کرنا ہے۔ مجھے اس سے شادی کرنی ہے اس کی فیملی سے نہیں اور پھر شادی کے بعد وہ ہماری فیملی کاحصہ بن جائے گی۔”
”تمہیں اس کے فیملی بیک گراؤنڈ سے مطلب ہو یا نہ ہو مجھے ہے۔ ہمیں اسی سوسائٹی میں رہنا ہے۔ ہمارا ایک اسٹیٹس ہے۔ ایک سوشل سرکل ہے۔ اسے کیسے متعارف کروائیں گے ہم جب لوگ پوچھیں گے کہ اپنے ہونہار لائق سپوت کے لیے کون سا ہیرا پسند کیا ہے آپ نے اور جب لوگ تم سے پوچھیں گے کہ تم اس کی کون سی خوبی پر عاشق ہوئے ہو تو کیا کہو گے؟ اس کی معمولی شکل پر ”معمولی حیثیت پر یا مڈل کلاس پر؟ بتاؤ کیا کہو گے؟” ماما کا لہجہ بہت خشک تھا۔
”اس کے بے داغ کردار پر۔” میں نے اتنی ہی تیزی سے کہا تھا۔
”ہاہ ! بے داغ ماضی اور بے داغ کردار پر۔ مڈل کلاس کی لڑکیاں اپنی پارسائی کے بس ڈھونگ ہی کرتی ہیں۔ کچھ اور نہیں ہوتا اس لیے تم جیسوں کو پھانسنے کے لیے یہ حربہ ہی استعمال کرتی ہیں۔ ارے کیسا بے داغ کردار ہے اس کا کہ تمہیں پھانس لیا۔ اگر اتنی ہی پارسا ہوتی تو تم سے ملنا تو ایک طرف تمہاری شکل بھی نہ دیکھتی کہاں یہ کہ رومانس فرما رہی ہے۔ کیا بے داغ کردار ہے۔”
”تب آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ وہ آپ کے بیٹے کا منہ بھی دیکھنا نہیں چاہتی۔ آپ کے اس اعلیٰ و ارفع بیٹے کا اور آپ کو یہ جان کر مزید خوشی ہوگی کہ وہ مجھے نہیں پھانس رہی ہے میں اسے پھانس رہا ہوں۔”
”جب وہ تمہاری شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتی تو تم سے شادی کیسے کرے گی؟” ماما نے مجھ پر طنز کیا تھا۔
”یہ آپ کا نہیں میرا مسئلہ ہے۔” میں نے ان کے طنز کو نظر انداز کر دیا۔
”اس میں ایسا ہے کیا جو تم اس طرح پاگل ہو رہے ہو؟”
”جو پسند آیا تھا۔ وہ آپ کو بتادیا ہے ویسے یہ سوال آپ نے کبھی میرے بھائیوں سے نہیں کیا جب انہوں نے لو میرج کی تھی۔”
”تم اپنے بھائیوں کا کشف کے ساتھ موازنہ مت کرو کیونکہ ان کے درمیان کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے اور تمہارے بھائیوں نے لو میرج کرتے وقت تمہاری طرح آنکھیں بند کر کے عشق نہیں فرمایا تھا۔ انہوں نے ہر چیز کا خیال رکھا تھا۔”
”انہوں نے محبت نہیں بزنس کیا تھامگر میں بزنس نہیں کروں گا میں ہر قیمت پر کشف ہی سے شادی کروں گا۔”
وہ میری بات پر یک دم کھڑی ہو گئیں۔
”میرے خیال میں اس بارے میں تم اپنے ڈیڈی سے بات کرو تو ٹھیک ہے۔ شاید وہ تمہیں وہ سب سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں جو میں نہیں سمجھا سکتی۔”
”کوئی مجھے کچھ بھی سمجھا نہیں پائے گا۔ میں اپنا فیصلہ نہیں بدلوں گا۔”
”ٹھیک ہے تم فیصلہ نہیں بدلو گے تو پھر اس لڑکی یاہم میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کر لینا۔”
وہ بڑے غصے میں یہ کہہ کر میرے کمرے سے نکل گئیں۔
میں جانتا تھا کہ ماما آج ہی سب کچھ ڈیڈی کو بتا دیں گی اور ڈیڈی کو کسی صورت میں قائل نہیں کر سکتا تھا۔صرف سر ابرار تھے جو یہ کام کر سکتے تھے۔ میں سر ابرار سے بات کرنے کالج چلا گیا۔ مجھے دیکھ کر وہ حیران ہوئے تھے۔
”سر ! کیا آپ میرے ساتھ گھر چل سکتے ہیں؟”
”کیوں بھئی۔ ایسی کیا بات ہو گئی ہے؟”
”پلیز ، یہاں مجھ سے کچھ نہ پوچھیں۔ میرے ساتھ چلیں، میں گاڑی میں آپ کو سب کچھ بتا دوں گا۔” پتا نہیں میرے لہجے میں کیا تھا کہ وہ میرے ساتھ چلنے پر آمادہ ہو گئے مگر گاڑی میں بیٹھتے ہی انہوں نے کہا۔
”ہاں بھئی! کیا معاملہ ہے؟”
‘ ‘ سر ! میری شادی کا معاملہ ہے۔”
”تو اس میں تم مجھے کیوں انوالو کر رہے ہو؟ اور کیا اتنی معمولی سی بات کے لیے مجھے لے کر آئے ہو۔” وہ کافی ناراض ہو گئے تھے۔
”سر ! یہ اہم مسئلہ ہے۔ میں اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور ماما اس پر تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے مجھے گھر سے نکال دینے کی دھمکی دی ہے اور میرا خیال ہے کہ وہ آج لنچ پر ہی ڈیڈی سے بات کر لیں گی۔ اس لیے میں آپ کو لنچ سے پہلے لایا ہوں۔” میں نے انہیں پوری بات بتا دی۔
”کس سے شادی کرنا چاہتے ہو تم کہ بھابھی تمہیں گھر سے نکال دینا چاہتی ہیں؟”
میں نے جھجکتے ہوئے کشف کا نام لے دیا۔
”کیا ؟ کشف مرتضیٰ سے شادی کرنا چاہتے ہو؟” میں نے ان کے سوال پر اثبات میں سر ہلا دیا۔
”اس کشف سے جس پر تم نے ہاتھ اٹھایا تھا ، جو تمہارے نزدیک معمولی شکل و صورت کی عام سی لڑکی تھی۔ زارون! کیا تم مذاق کر رہے ہو؟” انہیں یقین نہیں آ رہا تھا۔
”میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ وہ سب ماضی کا حصہ ہے میں اسے واقعی پسند کرتا ہوں اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔”
”اور یہ پسندیدگی میرے گھر پر ہونے والی ملاقات کے بعد شروع ہوئی ہوگی۔” انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا تھا میں ہنس پڑا۔
”اوہ نو۔ میں اس سے پہلے بھی دوبار مل چکا ہوں۔ آپ کے گھر پر تو تیسری ملاقات ہوئی تھی۔”
”واٹ؟” وہ بے اختیار بول اٹھے۔ ”تم نے مجھے نہیں بتایا اور اس نے بھی ظاہر نہیں کیا۔ تم دونوں نے مجھے بے وقوف بنایا۔”
”نہیں ، ایسا نہیں ہے وہ ملاقاتیں اتنی اچھی نہیں تھیں کہ ان کے بارے میں بتایا جاتا۔” میں نے اپنی پوزیشن کلیئر کی۔
”تم نے کشف سے اس معاملے میں بات کی؟”
”پہلے اپنے والدین سے تو بات کر لوں پھر اس سے بھی کر لوں گا۔”
”اس کا مطلب ہے وہ تم سے شادی پر تیار ہے؟” انہوں نے میری بات کا الٹا مطلب لیا۔
”شادی تو دور کی بات ہے ، وہ تو میری شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتی مگر ظاہر ہے اس کے والدین میرے جیسا پر پوزل کہاں رد کر سکتے ہیں۔” میں نے ان کے ساتھ ساتھ خود کو بھی تسلی دی تھی۔
”اگروہ تمہاری شکل دیکھنے پر تیار نہیں ہے توشادی کے لیے کیسے رضامند ہوگی، پھر تمہیں یہ خوش فہمی کیوں ہے کہ اس کے والدین تمہارا پر پوزل رد نہیں کر سکتے۔ وہ ماں باپ پر انحصار کرنے والی کوئی سولہ سترہ سال کی لڑکی نہیں ہے ، میچور ہے، ایک اچھے عہدے پر فائز ہے، اس کے والدین اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کی کہیں منگنی ہو چکی ہو۔ اس لیے بہتر ہے کہ پہلے تم کشف سے بات کر لو، یہ نہ ہو کہ تمہارے والدین تمہارا رشتہ لے کر جائیں اور اس کی شادی میں شرکت کر کے واپس آئیں۔”
وہ واضح طور پر میرا مذاق اڑا رہے تھے۔
”لیکن اب میں ماما سے بات کر چکا ہوں اور وہ ڈیڈی کو بھی بتا دیں گی اس لیے ابھی آپ ان سے تو بات کریں۔”
میں لنچ سے کچھ دیر پہلے سر ابرار کے ساتھ گھر پہنچ گیا تھا۔ ڈیڈی ابھی گھر نہیں آئے تھے اور ماما سر ابرار کو دیکھتے ہوئے پریشان ہو گئی تھیں۔ وہ جان گئی تھیں کہ میں انہیں کیوں لایا ہوں اندر سے وہ یقینا پیچ و تاب کھا رہی ہوں گی مگر بظاہر انہوں نے بڑی خوش دلی سے سر ابرار کا استقبال کیا تھا۔
ڈیڈی سر ابرار کو دیکھ کر کافی حیران ہوئے تھے کیونکہ وہ کبھی بھی اس وقت ان سے ملنے نہیں آتے تھے، مگر انہوں نے وجہ نہیں پوچھی لنچ کے بعد سر ابرار نے ڈیڈی سے کہا تھا۔
”جنید ! مجھے تم سے کچھ کام ہے۔” ڈیڈی انہیں لے کر اسٹڈی میں چلے گئے اور میں اپنے کمرے میں، تقریباً ایک گھنٹہ کے بعد ملازم مجھے بلانے آیا تھا۔
جب میں اسٹڈی میں گیا تو وہاں مکمل خاموشی تھی۔ کسی نے مجھے بیٹھنے کے لیے نہیں کہا۔ میں خود ہی ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
”تو شادی سے انکار کی یہ وجہ تھی۔ اگر آج یہ وجہ بتا سکتے ہو تو سات سال پہلے بھی بتا سکتے تھے، اتنے انتظار کی کیا ضرورت تھی؟” ڈیڈی نے میرے بیٹھتے ہی کہا تھا۔
”میں پچھلے سات سال سے اس کے بارے میں لاعلم تھا پھر میں نے کبھی اس کے بارے میں اس انداز میں سوچا بھی نہیں تھا۔ اب ایسا ہوا ہے تو میں نے آپ کو بتا دیا ہے۔”
”میں تمہاری اس explanation (وضاحت) کو نہیں مان سکتا۔”
”مگر یہ سچ ہے۔”
”ہاں بہت سچے ہو تم! دنیا تمہارے سچ کی وجہ سے ہی تو چل رہی ہے مگر میں ایک بات واضح کر دوں میں قطعاً بھی شادی کے لیے رضامندی نہیں دوں گا۔ ہاں اپنی مرضی کرنا چاہتے ہو تو کر لو مگر ہم سے کوئی تعلق نہ رکھنا اور تمہیں ان سب آسائشات سے بھی دستبردار ہونا پڑے گا۔” انہوں نے یک دم ہی مجھے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔
”ٹھیک ہے۔ آپ یہی چاہتے ہیں تو ایسا ہی سہی۔ میں ان آسائشات کے بغیر بھی رہ سکتا ہوں۔ اتنا حوصلہ ہے مجھ میں کہ مشکل وقت کا مقابلہ کر سکوں۔”
”کہنا بہت آسان ہوتا ہے کرنا اتنا ہی مشکل۔ مشکل وقت کا مقابلہ تم کرو گے؟ تم! تمہیں مشکل وقت صرف کہنا آتا ہے کبھی مشکل وقت دیکھا ہے تم نے؟ کبھی کوئی تنگی دیکھی ہے؟ کسی چیز کے لیے دل مارنا پڑا تمہیں۔ تمہیں معلوم ہے ایک سال میں کتنا خرچ کرتے ہو تم؟ یہ جو کپڑے ہیں نا تمہارے جسم پر یہ تمہاری دو ماہ کی تنخواہ کے برابر کی قیمت کے ہیں اور یہ جو گھڑی باندھی ہوئی ہے ناتم نے اس کی قیمت تمہاری چھ ماہ کی تنخواہ کے برابر ہے۔ بات کرتے ہو مشکل وقت گزارنے کی۔ ذرا اپنے ایک ماہ کے اخراجات کی لسٹ تو بناؤ اور دیکھو کہ تمہاری تنخواہ سے ان میں سے کون سے اخراجات پور ے ہو سکتے ہیں۔ اپنی تنخواہ سے تو تم ایک دن نہیں گزار سکتے آخر کون کون سی شاہ خرچیاں چھوڑو گے؟”
”ٹھیک ہے آپ نے مجھے بہت کچھ دیا ہے مگر آپ نے یہی سب کچھ اپنی دوسری اولاد کو بھی دیا ہے۔ مجھے دوسروں سے زیادہ کچھ نہیں دیا اور پھر آپ کے پاس دولت تھی تو آپ نے مجھے آسائشات دیں نہ ہوتیں توکبھی نہ دیتے اور کوئی اتنا بڑا احسان نہیں کیا آپ نے ، سب ماں باپ اپنی اولاد کے لیے یہی سب کچھ کرتے ہیں، میں بھی کروں گا۔
لیکن میں آپ کو صاف صاف بتا رہا ہوں میں یہ فیصلہ اپنی مرضی سے کروں گا۔ میں اپنی زندگی کو اپنے طریقے سے گزاروں گا۔ آپ اگر … ”
”ٹھیک ہے جیسا تم چاہتے ہو ویسا ہی ہوگا۔ اب یہاں سے چلے جاؤ۔” ڈیڈی نے میری بات کاٹ کر بڑی درشتگی سے مجھ سے کہا تھا۔
”آپ مجھے…” میں نے کچھ کہنے کی کوشش کی تھی مگر انہوں نے میری بات دوبارہ کاٹ دی۔
”تمہیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمہاری مزید بکواس سننے کا حوصلہ نہیں ہے مجھ میں۔ اب یہاں سے جاؤ۔”
میں بڑی خاموشی سے وہاں سے اٹھ کر کمرے میں آ گیا تھا۔
بہت عجیب سے جذبات ہیں اس وقت میرے، مجھے ان کی اس رضامندی کی ذرا سی خوشی نہیں ہے۔ میں نے انہیں بہت ہرٹ کیا ہے میں ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا مگر پتا نہیں ایسا کیسے ہو گیا۔شادی کے لیے کشف کیوں میرے ذہن میں آئی؟ مجھے یہ بھی پتا نہیں۔ بہت سی چیزیں ، بہت سی باتیں، بہت سے فیصلے بس ایسے ہی ہو جاتے ہیں نہ جانتے ہوئے نہ چاہتے ہوئے۔
…**…




Loading

Read Previous

دوسرا دوزخ

Read Next

عورت، مرد اور میں — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!