زندگی گلزار ہے — عمیرہ احمد

”میں نے کب کہا کہ میرا رویہ اس کے ساتھ نہیں بدلا ہے، ہاں بدل گیا ہے، لیکن صرف کسی خاصے مقصد کے تحت ورنہ میں اس جیسی لڑکی کے بارے میں اب بھی وہی خیالات رکھتا ہوں جو پہلے رکھتا تھا۔ میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ وہ کالج میں میری وجہ سے بدنام ہو جائے جتنی نیک نام وہ بنتی ہے میں بس وہ نیک نامی ختم کرنا چاہتا ہوں اور یہ میرے لیے کوئی مشکل کام نہیں اور تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں اس پر عاشق ہو گیا ہوں۔ اس سے شادی وادی کا ارادہ رکھتا ہوں؟ نہیں یار! ایسا نہیں ہے۔ کشف جیسی لڑکیاں ہمارے لیے صرف تفریح ہوتی ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ میں تو بس سر ابرار کو دکھانا چاہتا ہوں کہ وہ بھی عام سی لڑکی ہے۔ اس میں کوئی سرخاب کے پرنہیں لگے ہیں اور اس جیسی لڑکیاں کبھی بھی ناقابل تسخیر نہیں ہوتیں بس انہیں پھنسانے میں کچھ وقت لگتا ہے۔”
”مگر زارون ! اس کا رویہ تو ابھی ویسا ہی ہے ، اس کے رویے میں تو کوئی تبدیلی نہیں آئی۔” اسامہ نے کہا۔
”وہ اپنی قیمت بڑھا رہی ہے۔ میں نے کہا نا ان مڈل کلاس کی لڑکیوں کو پھنسانے میں وقت لگتا ہے مگر بالآخر وہ پھنس جاتی ہیں۔”
”اچھا اگروہ تمہاری پلاننگ سمجھ گئی اور تمہارے جال میں نہ پھنسی تو؟”
”اسامہ ! وہ میری چال کو کبھی نہیں سمجھ پائے گی، ایسا صرف تب ہو سکتا ہے جب تم اسے یہ سب بتا دو اور تم ایسا نہیں کرو گے اور وہ میرے جال میں پھنسے گی کیوں نہیں؟ میرے پاس وہ سب کچھ ہے جس کی ان جیسی لڑکیوں کو تلاش ہوتی ہے۔ امیر ہوں، خوبصورت ہوں برائٹ فیوچر ہے ایک اونچی فیملی سے تعلق رکھتا ہوں اور کشف جیسی لڑکیاں میرے جیسے لڑکوں کے ہی تو پیچھے پھرتی ہیں اس آس میں کہ ان سے شادی کر لیں گے اور وہ ہمیں زینہ بنا کر اپر کلاس میں آ جائیں گی۔”
بہت خوش دلی سے کہا گیا اس کا ایک ایک لفظ میرے کانوں میں پگھلے ہوئے سیسے کی طرح اتر رہا تھا وہ سب ہنس رہے تھے اور اسمارہ اس سے کہہ رہی تھی۔
”زارون ! اگر تم اس سے فلرٹ کرنے میں کامیاب ہو گئے تو میں تمہیں ڈنر دوں گی ورنہ تم دینا۔”





ایک عورت دوسری عورت کو شکار بنانے کے لیے ایک مرد کو ترغیب دے رہی تھی۔ لائبریری میں بیٹھا ہوا کوئی شخص یہ نہیں جانتا تھا کہ جس کشف کی بات وہ کر رہے تھے وہ میں تھی مگر مجھے لگ رہا تھا جیسے وہاں موجود ہر شخص مجھے ہی دیکھ رہا تھا مجھ ہی پر ہنس رہا تھا، پھر میں نہیں جانتی۔ مجھے کیا ہوا ، میں خود پر کنٹرول نہیں رکھ پائی تھی۔ میں خود کو سب کچھ کرتے دیکھ رہی تھی مگر روک نہیں سکتی تھی ایسے جیسے میں کوئی دوسری لڑکی تھی۔ میں نے اپنے فائل بندکی کتابیں اٹھائیں اور لائبریرین کو جا کر واپس کر دیں پھر میں شیلف کے اس طرف آئی تھی جہاں وہ بیٹھے تھے وہ سب اب کتابیں کھولے کچھ کام کر رہے تھے انہوں نے مجھے نہیں دیکھا زارون اپنی فائل کھولے کچھ لکھ رہا تھا اور پھر اس نے سر اٹھا کر فاروق سے کچھ کہا، تب فاروق کی نظر مجھ پر پڑی تھی۔
”کشف !آپ ” بے اختیار اس نے کہا تھا۔ پھر ان کا پورا گروپ میری طرف متوجہ ہو گیا تھا۔ مگر میں صرف زارون کو دیکھ رہی تھی جو میرے یک دم سامنے آنے پر حیران نظر آ رہا تھا۔ میں آہستہ سے چلتی ہوئی اس کے مقابل کھڑی ہوئی پھر میں نے اس کے سامنے رکھے ہوئے پیپرز اٹھائے انہیں پھاڑ ا اور پوری قوت سے اس کے منہ پر دے مارے۔ وہ یک دم اپنی کرسی سے کھڑا ہو گیا، اس کے چہرے کا سارا اطمینان رخصت ہو گیا تھا۔
”یہ کیا بد تمیزی ہے؟”
”یہ تم جیسے لوگوں کے ساتھ بالکل مناسب سلوک ہے، بد تمیزی انہیں لگنی چاہیے جنہیں خود کوئی تمیز ہو اور تم ان لوگوں کی فہرست میں شامل نہیں ہو۔” اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟”
”میرا مطلب وہی ہے جو تم اچھی طرح سمجھ چکے ہو۔”
مجھے حیرت تھی کہ میں بڑے سکون سے اس سے مخاطب تھی۔ میرے ہاتھ پیروں میں کوئی لرزش تھی نہ آواز میں کپکپاہٹ۔
”تم نے میرے پیپرز کیوں پھاڑے ہیں؟”
”صرف تمہیں یہ بتانے کے لیے کہ تمہاری حیثیت میرے نزدیک ان پیپرز کے برابر بھی نہیں ہے۔ تم کس قدر غیر اہم اور چھوٹے آدمی ہو۔ میں تمہیں یہی بتانے آئی ہوں وہ اور لڑکیاں ہوں گی جو تمہاری تفریح کا سامان کرتی ہوں گی اور وہ بھی اور ہوں گی جو تمہارے آگے پیچھے پھرتی ہوں گی، مگر میں ان میں سے نہیں ہوں۔ میں یہاں صرف پڑھنے کے لیے آتی ہوں تم جیسوں کو پھانسنے کے لیے نہیں اور تمہیں اپنے بارے میں کیا خوش فہمی ہے؟ کیا ہے تمہارے پاس کہ تم خود کو ان داتا سمجھنے لگے ہو۔ جن چیزوں کو تم چند لمحے پہلے گنوا رہے تھے مجھے ان میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اپنے بارے میں تمہارے خیالات جان کر مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ وہ تب ہوتی جب تم میرے بارے میں یا کسی بھی عورت کے بارے میں اچھے خیالات کا اظہار کرتے مگر تمہارا قصور نہیں ہے یہ اس تربیت کا قصور ہے جو تمہیں دی گئی ہے یہ اس روپے کا اثر ہے جو تمہارے ماں باپ تمہارے لیے کماتے ہیں۔ حیرانگی تو تب ہوتی ہے جب تم جیسے لوگوں میں کوئی شریف ہو۔ کسی کا کردار اچھا ہو اور تمہارے بدکردار ہونے میں تو مجھے کوئی شبہ نہیں رہا تھا۔”
میں شاید اور بولتی مگر اس کے زور دار تھپڑ نے مجھے خاموش کروا دیا تھا۔ایک لمحہ کے لیے میں ساکت ہوگئی تھی مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اتنے لوگوں کے سامنے مجھ پر ہاتھ اٹھا سکتا ہے۔ اسامہ اور فاروق اسے کھینچ کر پیچھے کر رہے تھے اور وہ خود کو ان کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔ سب لوگ ہماری طرف متوجہ ہوچکے تھے اور وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔
”اسامہ ! چھوڑو مجھے یہ خود کو سمجھتی کیا ہے۔ اس نے مجھے بدکردار کہا ہے، میں اسے بتاؤں گا، اس کی اوقات کیا ہے۔”
وہ دونوں اسے پیچھے دھکیل رہے تھے۔ فاروق اس سے کہہ رہا تھا۔
”بیٹھ جاؤ زارون ! تماشا نہ بناؤ کول ڈاؤن یار! تمہیں کیا ہو گیا ہے جو بات ہے، ہم ابھی کلیئرکر لیتے ہیں۔”
”جو جیسا ہو اسے ویسا کہو تو وہ اسی طرح چلاتا رہے جیسے تم چلّا رہے ہو۔ چور کو چور کہو تو اسے تکلیف تو ہوگی۔”
مجھے حیرت تھی کہ میں اس سے خوفزدہ نہیں تھی۔ میری بات پر وہ پھر بھڑک اٹھا تھا۔ اسامہ اسے مضبوطی سے جکڑے ہوئے تھا اور وہ چلا رہا تھا۔
”اسامہ ! مجھے چھوڑ دو ورنہ میں تمہیں بھی مار ڈالوں گا۔”
فاروق نے مجھ سے کہا تھا ”کشف آپ یہاں سے چلی جائیں۔”میں اس کی بات سنی ان سنی کر دی تھی۔
”تم نے مجھے اس لیے مارا ہے کیونکہ تمہارے پا س وہ سب کچھ ہے جس کی بناء پر تم کسی پر بھی ہاتھ اٹھا سکتے ہو اور میں تمہیں اس لیے نہیں روک پائی کہ میرے پاس آج کچھ بھی نہیں ہے مگر میں اس وقت کا انتظار کروں گی جب میرے پاس بھی اتنی طاقت آجائے کہ میں تمہیں اس سے بھی زور دار تھپڑ مار سکوں۔”
”تم مارو گی مجھے ؟ تم ہوکیا تم؟ اوقات کیا ہے تمہاری۔ مڈل کلاس کی ایک لڑکی جس کے ماں باپ کے پاس اتنے روپے نہیں کہ وہ اس کے تعلیمی اخراجات اٹھا لیں۔ جس کے چہرے پر کوئی دوسری نگاہ ڈالنا پسند نہیں کرتا۔ معمولی حیثیت کی ایک معمولی لڑکی۔”
”اگر میں معمولی ہوں تو پھر میرا نام کیوں لیتے ہوذکر بھی کیوں کرتے ہو۔ اس کالج میں بہت سی میرے جیسی لڑکیاں ہیں۔ تم ہر ایک کو تو معمولی نہیں کہتے اور اگر مجھے ہی معمولی کہتے ہو تو اس کا مطلب ہے کہ میں معمولی نہیں ہوں۔ مجھے کوئی افسوس نہیں ہے کہ میں غریب ہوں۔ یہ شرم کی بات نہیں ہے کہ آپ کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے لیے روپے نہ ہوں، آپ کے پاس اچھا کھانے، اچھا پہننے کے لیے نہ ہو، شرم کی بات یہ ہے کہ آپ بدکردار ہوں، آپ لوگوں کو تکلیف پہنچاتے ہوں، آپ کو کسی کی عزت کرنا نہ آتاہو، قابل شرم چیزیں یہ ہیں۔ غربت کوئی قابل شرم چیز نہیں ہے۔ تم نے کہا تھا کوئی لڑکی ناقابل تسخیر نہیں ہوتی، تمہارا واسطہ ان جیسی لڑکیوں سے پڑتا رہا ہے۔”
میں نے اسمارہ کی طرف اشارہ کیا تھا۔
”ہاں یہ واقعی تسخیر کی جا سکتی ہیں مگر میری جیسی لڑکیاں تم نے کبھی دیکھی ہی نہیں ہیں۔ میں کشف مرتضیٰ ناقابل تسخیر ہوں۔ تمہارے جیسے لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ میرے جیسے لوگ ہمیشہ رہتے ہیں۔ تم نے کہا تھا کہ اگریہ مجھ سے فلرٹ کرنے میں کامیاب ہوا تو تم اسے ڈنر دوگی، یہ شرط تم مجھ سے لگاؤ اگر یہ مجھ سے فلرٹ کرنے میں کامیاب ہوا تو میں تمہیں ڈنر دوں گی۔”
میں نے اسمارہ سے کہا تھا اور وہ بھڑک اٹھی تھی۔
”شٹ اپ ! میں تمہارے ساتھ بات کرنا اپنی انسلٹ سمجھتی ہوں۔”
”کتنی خوددار ہو تم۔کتنی بلند ہو تم میرے ساتھ بات کرتے ہوئے تمہاری انسلٹ ہوتی ہے۔میرے بارے میں بات کرتے ہوئے نہیں۔”
اس نے میری بات کا جواب نہیں دیا تھا پھر میں مزید کسی سے کچھ کہے بغیر سیدھی ہاسٹل آ گئی تھی۔
پہلے چھوٹی چھوٹی باتوں پر مجھے رونا آ جاتا تھا مگر آج تو میری آنکھوں میں ایک آنسو بھی نہیں آیا۔ اچھا ہے بہت اچھا ہے میں اب رونا چاہتی بھی نہیں ہوں۔ میرے آنسوؤں سے کسی کو کیا فرق پڑے گا۔ کون سا عرش ہل جائے گا۔ کیا فائدہ ہوتا ہے ایسے آنسوؤں کا جن سے کسی کا دل موم ہو نہ دماغ قائل۔ پھر سے وہ توڑ پھوڑ میرے اندر شروع ہو گئی ہے جسے میں بڑی مشکل سے روک پائی تھی۔
میں نے اس سے جھوٹ بولا تھا کہ اس کی کوئی چیز مجھے متاثر نہیں کرتی اور دولت میرے لیے غیر اہم ہے۔ ہاں وہ سب مجھے اچھا لگتا ہے جو ان کے پاس ہے۔ مگر کیا کروں میں یہ چیزیں ان سے چھین نہیں سکتی ہوں پھر جھوٹ بولنے میں کیا حرج ہے۔ مجھے ابھی تک اپنے گال پر درد ہو رہا ہے اور اس اذیت کو میں کبھی نہیں بھول سکتی نہ بھولنا چاہوں گی۔
آج پھر مجھے شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ خدا مجھ سے محبت نہیں کرتا۔ اسے میری پروا ہی نہیں ہے۔ ایسے جیسے مجھے اس نے نہیں کسی اور نے بنایا ہے۔ آخر میں نے ایسا کون سا گناہ کیا ہے میں جانتی ہوں مگر پھر بھی وہ مجھ سے ناراض ہے اور ناراض ہی رہتا ہے۔ اگر مجھے یہ یقین ہوتا کہ اسے مجھ سے محبت ہے تو شاید زندگی اتنی مشکل نہیں لگتی مگر اس نے میرے نصیب میں صرف ذلتیں لکھ دی ہیں وہ مجھے صرف ذلّت دینا چاہتا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے۔ میں اسے زور زور سے آوازیں دوں چلّاؤں خوب زور سے چلّاؤں اسے بتاؤں کہ وہ مجھے کتنی تکلیف پہنچا رہا ہے مگر میں ……
…**…
11 ستمبر
آج میں بہت پریشان ہوں اور کوئی چیز بھی میری پریشانی دور کرنے میں ناکام رہی ہے۔
بعض چہرے انسان کو کتنا دھوکا دیتے ہیں۔ آپ انہیں دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ بے ضرر ہیں، ان سے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اور پھر ہمیں سب سے بڑا نقصان ان ہی سے پہنچتا ہے۔ کیا کبھی کوئی سوچ سکتا تھا کہ بظاہر خاموش اور سرد نظر آنے والی اس لڑکی کے اندر اتنی آگ ہے، وہ اس طرح بول سکتی ہے۔ وہ مجھے ایک آتش فشاں کی طرح لگی تھی۔
میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ وہاں لائبریری میں موجود ہوگی۔ ایک طوفان کی طرح آئی تھی وہ اور مجھے ہلا کر چلی گئی تھی۔ پوری لائبریری میں اس نے مجھے تماشا بنا دیا تھا۔ اس نے مجھے بدکردار کہا تھا اور اگر اسامہ اور فاروق مجھے نہ پکڑتے تو میں اسے جان سے ہی مار دیتا۔
اسامہ اور فاروق مجھے وہاں سے سیدھا گھر لائے تھے اور دیر تک میرا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ مجھے حیرت تھی کہ وہ کشف کی طرف داری کر رہے تھے اور سارا قصور میرے سر ڈال رہے تھے۔ صحیح معنوں میں آستین کے سانپ ہیں وہ۔ میرا دل چاہ رہا تھا میں ان دونوں کو بھی شوٹ کر دوں۔
میرے دل سے ابھی تک کشف کے خلاف غصہ اور نفرت ختم نہیں ہوئی، اس نے میرے ساتھ جوکیا ہے وہ کبھی نہیں بھلا سکتا ، بھولنا چاہوں تب بھی نہیں۔ میں تمہیں ہمیشہ یاد رکھوں گا کشف ! اور میری یادداشت میں رہنا تمہیں بہت مہنگا پڑے گا۔ کاش میں تمہیں جان سے مار سکتا۔
…**…
18 اپریل
آج پورے ایک ہفتہ کے بعد میں کالج گئی تھی۔ اتنی ہمت ہی نہیں تھی کہ اس واقعہ کے فوراً بعد کالج جا سکتی۔ پورا ہفتہ میں ڈائری نہیں لکھ پائی۔ لکھنے کو تھا بھی کیا۔صرف آنسو۔ ایک ہفتہ پہلے میں نے سوچا تھا کہ میں بہت مضبوط ہو گئی ہوں مگر ایسا نہیں تھا۔ ڈائری لکھنے تک میں غصہ اور شاک میں تھی اور جب اپنے احساسات کو سمجھ پائی تو بے اختیار رونے لگی تھی۔
میں ہاسٹل کی چھت پر چلی گئی اور خود کو وہاں سے نیچے پھینک دیناچاہتی تھی۔ موت کا تصور مجھے بہت تسکین پہنچا رہا تھا۔ لیکن میں خود کو مار نہیں سکی۔ بہت سے چہرے اور آوازیں میرے قدموں سے لپٹ گئی تھیں۔ میرے ماں باپ، بہن بھائیوں کے چہرے، ان کی امیدیں، ان کے خواب، ان کی آرزوئیں سب نے مجھے جکڑ لیا تھا اور میں رک گئی تھی۔ مجھے کوئی حق نہیں تھا کہ میں ان کے خواب کو چھینوں، انہیں روند ڈالوں پھر میں وہاں بیٹھ کر روتی رہی تھی۔ ان سات دنوں میں میں نے کچھ اور نہیں کیا، ہر چیز جیسے ختم ہو گئی ہے، اب دوبارہ سے مجھے خود کو جوڑنا ہے۔ زندہ رہنا ہے۔ ان لوگوں کے لیے جو مجھ پر انحصار کرتے ہیں۔
اور آج خود پر جبر کرتے ہوئے میں کالج چلی ہی گئی تھی۔ ڈیپارٹمنٹ کی طرف جاتے ہوئے میں نے زارون کے گروپ کو دیکھ لیا تھا۔ وہ سب کسی بات کو بلند آواز میں ڈسکس کر رہے تھے اور ہنس رہے تھے۔ میں ان سے ابھی کچھ دور تھی اور پہلی دفعہ میں نے محسوس کیا کہ میرے ہاتھ پاؤں کانپ رہے ہیں۔ مجھے ان لوگوں کے قریب سے گزر کر کلاس میں جانا تھا اور میرے چہرے پر پسینہ آ رہا تھا۔ ایک لمحہ کو میرا دل چاہا کہ میں وہاں سے بھاگ جاؤں لیکن میں کب تک اور کس کس سے بھاگتی۔ سامنا تو مجھے کرنا ہی تھا۔
بڑی خاموشی سے میں ان کے پاس سے گزری تھی۔ مجھے دیکھنے کے بعد وہ بھی بالکل چپ ہو گئے تھے، اور یہی خاموشی میرے کلاس میں داخل ہوتے ہی وہاں بھی چھا گئی تھی۔ اپنے استقبال سے میں سمجھ گئی تھی کہ لائبریری کا واقعہ ان لوگوں کے علم میں آ چکا ہے۔ ظاہر ہے یہ بات چھپ نہیں سکتی تھی۔ میں صرف یہ چاہتی تھی کہ کوئی ٹیچر مجھ سے اس واقعہ کے بارے میں بات نہ کرے اور ساری کلاسز معمول کے مطابق ہوتی رہی تھیں۔ ٹیچرز نے میری غیر حاضری کے بارے میں ضرور پوچھا مگر اور کچھ دریافت نہیں کیا لیکن سر ابرار نے مجھے دیکھتے ہی پوچھا تھا۔
”آپ اتنے دن کہاں تھیں؟” پتا نہیں ان کا لہجہ سخت تھا یا صرف مجھے ہی لگا۔
”سر ! مجھے کچھ کام تھا۔” میں نے وہی جملہ دہرایا جو میں صبح سے دہرا رہی تھی۔
”کیا کام تھا آپ کو؟”
”سر ! مجھے کچھ نوٹس بنانے تھے۔” میں نے ایک اور جھوٹ بولا۔
”آپ اور زارون اس پیریڈ کے بعد میرے آفس میں آئیں۔”
انہوں نے وہ بات کہی تھی جس سے میں بچنا چاہ رہی تھی۔ اگلی دو کلاسز لینے کے بعد میں ان کے آفس چلی گئی تھی وہاں وہ پہلے ہی موجود تھا۔ سر ابرار نے مجھے دیکھ کر اپنی ٹیبل کے سامنے پڑی ہوئی کرسی کی طرف اشارہ کیا تھا۔
”آؤ کشف ! بیٹھو یہاں پر۔” میں خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گئی۔
”اس دن لائبریری میں کیا ہوا تھا؟” انہوں نے بغیر کسی تمہید کے پوچھا تھا۔
”کس دن سر؟” میں نے لاپروائی ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی۔
”اسی دن جس دن کے بعد سے آپ کا لج نہیں آ رہی۔” اس دفعہ ان کا لہجہ خاصا سخت تھا۔
”سر ! کچھ نہیں ہوا تھا۔” مجھے ان کے چہرے پر حیرانی نظر آئی تھی شاید وہ مجھ سے اس جواب کی توقع نہیں کر رہے تھے۔
”اگر کچھ نہیں ہوا تھا تو اس نے تمہیں تھپڑ کیوں مارا تھا؟” وہ شاید اب دوٹوک بات کرناچاہتے تھے۔
”یہ سوال آپ کو تھپڑ مارنے والے سے کرنا چاہیے۔”
وہ کچھ دیر تک مجھے دیکھتے رہے پھر انہوں نے زارون کی جانب رخ کر لیا۔
”تم نے اس پر ہاتھ کیوں اٹھایا؟”
”اس نے مجھے بدکردار کہا تھا اور یہ سن کر میں اسے میڈل دینے سے تو رہا۔”
”اب تم بتاؤ کہ تم نے ایسی بات کیوں کہی؟” مجھے ان کے لہجے سے بہت تکلیف پہنچ رہی تھی ”وہ بدکردار ہے، اس لیے میں نے اسے ایسا کہا تھا۔”
”آپ یہاں پڑھنے آتی ہیں یا دوسروں کے بارے میں نتیجے نکالنے۔ دوسروں کے بارے میں بات کرنے کا حق آپ کو کس نے دیا ہے اگر یہ بات وہ آپ کے بارے میں کہے تو ، شرم آنی چاہیے آپ کو۔” وہ یک دم مجھ پر برس پڑے تھے۔
”مجھے اپنے کہے پر کوئی افسوس نہیں ہے، میں اب بھی یہی کہوں گی کہ یہ ایک بدکردار شخص ہے۔” ان کے غصے کی پروا کئے بغیر میں نے اپنی بات پوری کی تھی۔
”مجھے افسوس ہے کہ تم میرے اسٹوڈنٹس میں شامل ہو، میں تمہارے بارے میں بہت غلط اندازے لگاتا رہا۔ تمہیں تو استاد سے بات کرنے کی تہذیب نہیں ہے۔ میں سمجھا تھا کہ شاید زارون نے غلطی کی ہے اور اسے معذرت کرنا چاہیے مگر معذرت تو تمہیں کرنا چاہیے۔ میراخیال تھا کہ تم ایک اچھی فیملی سے تعلق رکھتی ہو تمہاری اچھی تربیت ہوئی ہے مگر تم نے میرے اس اندازے کو غلط ثابت کر دیا ہے۔”
”ان سب تعریفوں کے لیے آپ کا بہت بہت شکریہ۔ واقعی میری اچھی تربیت نہیں ہوئی اس لیے کہ میرے خاندان کے پاس پیسہ نہیں تھا۔ ان کے خاندان کے پاس پیسہ تھا سو انہوں نے اس کی بہت اعلیٰ تربیت کی۔ آپ اسے اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہ جتنا باکردار ہے وہ بھی جانتے ہیں۔ آپ نے کبھی اس سے اس کے افیئرز پر باز پرس کی ہے؟ آج اسے بدکردار کہنے پر آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ میں نے اسے ایسا کیوں کہا۔ یہ سب کچھ نہ ہوتا اگر میں بھی اس کے ساتھ پھرنے والی لڑکیوں کی قطار میں شامل ہو جاتی پھر سب کچھ ٹھیک رہتا۔ میری غلطی صرف یہ ہے کہ میں نے فلرٹ ہونے سے انکار کیا ہے اور مجھے اپنی اس غلطی پر کوئی افسوس ہے نہ پچھتاوا۔ آپ کو مجھے زیادہ برداشت نہیں کرنا پڑے گا، صرف چند ماہ کی تو بات ہے۔ جہاں تک اس شخص کا تعلق ہے تو میرے نزدیک اس کی کوئی اہمیت ہے نہ عزت اگر میں اخلاقی اعتبار سے اس کی طرح گری ہوئی ہوتی تو اس کے لیے کوئی زیادہ خراب لفظ استعمال کرتی۔”
پھر سر ابرار کے رد عمل کا انتظارکئے بغیر میں دوازہ کھول کر باہر آ گئی تھی۔ میں کیوں صفائیاں دیتی انہیں، جب میرا کوئی قصور نہیں تھا۔ وہ مجھے برا سمجھیں گے تو سمجھتے رہیں۔ آخر پہلے کون یہاں میرا مداح ہے۔ اچھا ہے، بہت اچھا ہے کہ وہ بھی مجھے برا سمجھیں۔ جب اللہ کی نظر میں میں بری ہوں تودنیا کی نظر میں اچھا بن کر کیا کرنا ہے۔
…**…




Loading

Read Previous

دوسرا دوزخ

Read Next

عورت، مرد اور میں — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!