زندگی گلزار ہے — عمیرہ احمد

17 اپریل
آج میں نے اپنی زندگی کی سب سے خوبصورت خبر سنی ہے۔ آج ڈاکٹر نے مجھے میرے پریگننٹ ہونے کی خبرسنائی تھی اور ابھی تک میں اپنی کیفیات کو سمجھ نہیں پا رہی ہوں۔ کس قدر عجیب بات ہے کہ چند ماہ بعد میرے بازوؤں میں ایک بچہ ہو گا جو صرف میرا ہو گا۔ جو میری ہر تکلیف کومیری طرح محسوس کرے گا۔ اس کے اور میرے درمیان ایک رشتہ ہوگا جو کبھی ختم نہیں ہو گا۔ میں نے ابھی زارون کو یہ خبر نہیں سنائی۔ پتا نہیں اس کا ردعمل کیا ہو گا مجھے یقین ہے وہ بھی میری طرح بہت خوش ہو گا کیونکہ اسے یہ تسلی ہوجائے گی کہ میں کسی طور اسے چھوڑ کرنہیں جاؤں گی۔ ہم دونوں کا تعلق اب پہلے سے زیادہ مضبوط ہوجائے گا کیونکہ اب ہمارے گھر ایک ایسا فرد آنے والاہے جو ہماری تنہائی دور کر دے گا۔
…**…
14اکتوبر
آج سے ٹھیک ایک ہفتہ پہلے میں نے ایک بیٹے کو جنم دیا تھا۔ جس رات میرا بیٹا پیدا ہوا تھا۔ اس رات زارون کو ایک ڈنر میں جانا تھا لیکن تیار ہونے کے بعد اچانک اس نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔
”پتا نہیں یار ! آج میری چھٹی حس کیوں مجھے بار بار گھر میں رہنے کوکہہ رہی ہے اور میرا خیال ہے مجھے اس کی بات مان لینی چاہیے۔”
اس کی چھٹی حس نے اسے ٹھیک گائیڈ کیا تھا۔ میری ڈلیوری ڈیٹ میں ابھی ایک ہفتہ تھا لیکن غیر متوقع طور پر اسی رات مجھے ہسپتال جانا پڑا تھا۔ میں اب یہ سوچ کر لرز جاتی ہوں کہ اگر زارون اس رات گھر پر نہ ہوتا تو بعدمیں میرا کیا حال ہوتا کیونکہ میں کافی تکلیف میں تھی۔ زارون مجھے ہسپتال لے کر گیا تھا۔ کار ڈرائیو کرتے ہوئے اس نے میرا ہاتھ تھامے رکھا تھا۔ وہ بار بار مجھے تسلیاں دے رہا تھا۔ اس وقت اس کے ہاتھ کی گرمی مجھے کتنا سکون پہنچا رہی تھی اگر وہ یہ جان جاتا تو شاید ساری عمر میرا ہاتھ تھامے رکھتا۔ لیبر روم میں جانے سے پہلے اس نے مجھ سے کہا تھا۔
”کشف ! گھبراؤ مت۔ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ میں تمہارے لیے خدا سے دعا کروں گا۔”
اس کی بات پر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ وہ بڑی سیکولر سوچ رکھنے والا آدمی تھا۔شادی کے بعد سے میں نے کبھی اس کے منہ سے خدا کا ذکر نہیں سنا تھا۔ شاید یہ اس کی دعا ہی کا اثر تھا کہ میں سرجری سے بچ گئی تھی حالانکہ پہلے ڈاکٹر کاخیال تھاکہ شاید آپریشن کرنا پڑے۔ جب مجھے کمرے میں شفٹ کیا گیا تو وہ میرے پاس آیا تھا اور بہت دیر تک میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے بیٹھا رہا۔ وہ بہت عرصے سے مجھے کہہ رہا تھا کہ اپنے بچے کا نام میں رکھوں گا لیکن تیمور کے پیدا ہونے کے بعد اس نے بغیر فرمائش کے یہ حق مجھے دے دیا تھا۔
”پہلے بچے کا نام تم رکھو گی، میں نہیں۔”
اس نے مجھ سے کہا تھا اور میں نے اپنے بیٹے کو تیمور نام دیا تھا۔ کل میں ہسپتال سے گھر شفٹ ہو ئی تھی۔
اس ایک ہفتہ میں زندگی جیسے بدل گئی ہے۔ ہر چیز بہت خوبصورت بہت روشن لگنے لگی ہے۔ میں خود کو بہت طاقتور محسوس کر نے لگی ہوں۔ تیمور مجھے دنیا کا خوبصورت ترین بچہ لگتا ہے۔ شاید ہر ماں اپنے بیٹے کے لیے ایسا ہی سوچتی ہے۔ کاش میری ساری زندگی یونہی گزر جائے، کسی تکلیف کسی پریشانی کے بغیر۔
…**…





7 اکتوبر
آج تیمور کی پہلی برتھ ڈے تھی اور مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے ، وہ بہت بڑا ہو گیا ہے، حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے وہ تو ابھی بہت چھوٹا سا ہے۔ کبھی کبھی مجھے حیرت ہوتی ہے کہ وقت کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے۔ ابھی کل وہ ہماری دنیا میں آیا تھا اور آج وہ ایک سال کا ہو گیا لیکن یہ ایک سال میری زندگی کا خوبصورت ترین سال تھا کیونکہ میں ایک نئے رشتے سے آشنا ہوا مجھے بچوں سے کبھی بھی بہت دلچسپی نہیں رہی لیکن اپنے بیٹے کے لیے پتا نہیں اتنی محبت میرے پاس کہاں سے آ گئی ہے۔ مجھے اس کی ہر بات اچھی لگتی ہے۔ اس کا رونا، اس کا ہنسنا، اس کی آواز ، اس کی کھلکھلاہٹ ہر چیز مجھے اچھی لگتی ہے کیونکہ وہ میرا بیٹا ہے۔
گھر کیا ہوتا ہے یہ میں نے ان دو سالوں میں جانا ہے، ورنہ میں تو یہی سمجھتا تھا کہ گھر روپے اور اسٹیٹس سے بنتا ہے لیکن یہ اب سمجھ میں آیا ہے کہ روپیہ اتنا ضروری نہیں ہے جتنا ایک دوسرے کے لیے محبت اور توجہ ضروری ہے۔ میرے والدین مجھ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اس کے باوجود ان کے پاس کبھی بھی میرے لیے وقت نہیں تھا صرف روپیہ تھا اور میں بھی گھر میں تنہا بیٹھنے کے بجائے دوستوں کے ساتھ پھرتا رہتا تھا۔ گرل فرینڈز بناتا تھا اور اسی کو زندگی سمجھتا تھا لیکن میں اب سارا وقت کشف اور تیمور کو دینا چاہتا ہوں صرف آفس ٹائم کے علاوہ۔ میں چاہتا ہوں میرا بیٹا یہ جانے کہ اس کے والدین واقعی اس سے محبت کرتے ہیں اور ان کے لیے اس کی ذات سب سے زیادہ اہم ہے۔ پھر جب وہ بڑا ہو گا تو وہ میری طرح آوارہ نہیں پھرے گا کیونکہ اسے پتا ہو گا کہ اس کے گھر میں اس کا انتظار کرنے کے لیے کچھ لوگ موجود ہیں جو اس کی پروا کرتے ہیں۔
اگر میں نے اپنی سوسائٹی کی کسی لڑکی کے ساتھ شادی کی ہوتی توشاید میں آج بھی پہلے ہی کی طرح اپنا زیادہ وقت گھر سے باہر گزارتا لیکن خوش قسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ میری زندگی میں گھر کی کمی تھی اور وہ کشف نے پوری کر دی اگر وہ نہ ہوتی تو شاید میں آج اپنے آپ کو اتنا مکمل، اتنا پرسکون محسوس نہ کرتا، لیکن میرے گھر کو صحیح معنوں میں گھر بنانے والی وہی ایک ہے۔ جب سے میں خود باپ بنا ہوں مجھے اپنے والدین پہلے سے زیادہ اچھے لگنے لگے ہیں۔ ان کی ساری کوتاہیوں کے باوجود مجھے ان سے پہلے کی نسبت زیادہ محبت محسوس ہوتی ہے کیونکہ وہ میرے والدین ہیں۔ انہوں نے مجھے بہت کچھ دیا ہے اور اگر کچھ معاملات میں کوتاہی برتی ہے تو بہت ساری باتوں میں، میں بھی لاپروا رہا ہوں۔
آج کا دن اچھا گزر گیا اور میں اپنی باقی زندگی اسی طرح گزارنا چاہتا ہوں۔
چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے سہارے کسی بڑے صدمے کے بغیر۔
…**…
19جون
آج زارون کو امریکہ گئے ہوئے پورا ایک ہفتہ ہو گیا ہے اور آج وہ مجھے بہت یاد آ رہا ہے۔ شاید اب میں اس کی عادی ہو گئی ہوں یا پھر شاید میں اس کے بغیر خود کو اکیلا محسوس کرتی ہوں۔ مجھے اس کے بغیر رہنا بالکل اچھا نہیں لگتا حالانکہ اب تک مجھے عادی ہو جانا چاہتے تھا کیونکہ وہ جس پوسٹ پر ہے وہاں وہ زیادہ دیر تک ایک جگہ ٹک کر نہیں رہ سکتا، پھر بھی پتا نہیں مجھے اس کی غیر موجودگی کیوں اتنی محسوس ہو رہی ہے وہ خود بھی تو باہر جانا زیادہ پسند نہیں کرتا۔ اب وہ باہر جا کر پہلے کی طرح لمبی لمبی کالز نہیں کرتا ہے۔ پہلے سے بہت سنجیدہ ہو گیا ہے۔ شاید یہ عمر اور وقت گزرنے کے ساتھ ضروری ہوتا ہے اسے بھی تو آخر میچور ہونا تھا اور اگر اب بھی نہیں ہوتا تو پھر کب ہوتا پھر اب اس پر کام کا بوجھ بھی بہت زیادہ ہے۔ اس لیے میں نے اس سے بہت زیادہ توقعات نہیں رکھیں۔
پھر اب مجھ پر بھی تو بہت ذمہ داریاں ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ان میں اور اضافہ ہو گا۔ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ اب جاب چھوڑ دوں کیونکہ اب مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے پاس اب روپے کی کوئی کمی نہیں اور اب تیمور کے ساتھ ساتھ ایبک کی ذمہ داریاں بھی ہیں۔ دو بچوں کو جاب کے ساتھ سنبھالنا قدرے مشکل کام ہے لیکن پھر مجھے خیال آتا ہے کہ میں نے اس پوسٹ تک پہنچنے کے لیے بہت محنت کی تھی۔ اب کیا میں اسے صرف اپنے تھوڑے سے آرام کے لیے چھوڑ دوں اور یہی سوچ مجھے ریزائن کرنے سے روک دیتی ہے، شاید اس وقت میں دل کے بجائے دماغ سے کام لیتی ہوں اور زندگی میں ہمیشہ دماغ سے کیے گئے فیصلے ہی کام آتے ہیں۔
کیا لکھنا چاہ رہی تھی اور کیا لکھ رہی ہوں میں آج کافی غائب دماغی کا مظاہرہ کرتی رہی ، کوئی بھی کام ٹھیک سے نہیں کر سکی اور یہ صرف اس لیے ہے کیونکہ میں زارون کو بہت مس کر رہی ہوں میں نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ میں جس شخص کو جان سے مارنا چاہتی تھی ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس کی محبت میں مبتلا ہو جاؤں گی اور اس کی عدم موجودگی میرے لیے ناقابل برداشت ہوگی۔
وہ بہت خوبصورت بند ہ ہے، صرف ظاہری طور پر ہی نہیں بلکہ اندر سے بھی وہ اتنا ہی خوبصورت ہے لیکن اس بات کو جاننے کے لیے وقت لگتا ہے۔ پتانہیں اس وقت جب مجھے وہ اتنا یاد آ رہا ہے وہ خود کیا کر رہا ہو گا شاید کانفرنس ہال میں کوئی تقریر کر رہا ہو گا، یا کسی ریزلوشن کی ڈرافٹنگ میں مصروف ہو گا۔ جو بھی ہو کم از کم وہ اس وقت ہمیں یاد نہیں کر رہا ہو گا کیونکہ امریکہ میں اس وقت صبح ہوگی اور ورکنگ آورز میں اپنے کام کے علاوہ وہ کچھ اور نہیں سوچتا۔
…**…
21 جولائی
آج پانچ چھ سال بعد میں اسمارہ سے ملا۔ ہم لوگ ایک ڈنر میں گئے تھے اور وہاں مجھے وہ نظر آئی وہ پہلے ہی کی طرح خوبصورت ہے بلکہ پہلے سے زیادہ گلیمرس اور اٹریکٹو لگ رہی تھی۔ وہ کشف کے پاس کھڑی تھی جب میں اس کے پاس گیا اور جب اسے ہمارے تعلق کا پتا چلا تو وہ حیران ہوئی تھی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ شاکڈ رہ گئی تھی پھر کشف کے جانے کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا تھا۔
”تو یہ تھی تمہاری چوائس؟ جب تم اس سے محبت کرتے تھے اور اسی سے شادی کرنی تھی تو کالج میں وہ سارے ڈرامے کرنے کی کیا ضرورت تھی؟”
میں اس کی بات پر مسکرانے لگا تھا۔
”نہیں وہ سب ڈرامہ نہیں تھا۔ اس سے محبت مجھے کالج چھوڑنے کے کئی سال بعد ہوئی تھی۔”
میری بات سننے کے بعد اس نے عجیب سے لہجے میں کہا تھا۔
”مجھ میں کیا کمی تھی؟ کیا کشف مجھ سے زیادہ خوبصورت تھی کیا اس کے پاس مجھ سے زیادہ دولت تھی، کیا وہ مجھ سے زیادہ ذہین تھی پھر تم نے مجھے ریجیکٹ کیوں کیا؟”
”نہیں اسمارہ ! تم میں کوئی کمی نہیں ، نہ ہی پہلے تھی۔ تم بہت خوبصورت ہو ، تم میں بہت سی خوبیاں ہیں۔ پرابلم صرف یہ تھا کہ مجھے ان خوبیوں کی ضرورت نہیں تھی نو ڈاؤٹ حسن میں وہ تمہارے پاسنگ نہیں لیکن اس کی وجہ سے میں ، میرا گھر اور میرے بیٹے خوبصورت ہیں اور یہ حسن تم سے بہت زیادہ ہے۔”
”فلاسفی مت بولو مجھے لفظوں سے مت بہلاؤ۔”
اس نے میری بات بڑی تیز آواز میں کاٹی تھی اور میں مسکرانے لگا تھا۔
”اچھا چلو۔ تمہارے لیے آسان زبان میں بات کرتا ہوں۔ تم اپنے شوہر کے ساتھ یہاں ائی ہو، ذرا سوچ کے بتاؤ کہ یہاں آنے سے پہلے تم نے اپنی تیاری اور اپنے شوہر کو تیار کروانے میں کتنا وقت لیا تھا؟”
میرے سوال پر وہ کچھ متحیر ہوئی ”اپنی تیاری میں کافی وقت لگا تھا لیکن میرا شوہر کوئی بچہ نہیں جسے میں تیارکرواؤں، وہ خود سب کچھ مینج کر سکتا ہے۔”
”میں بھی کوئی بچہ نہیں ہوں لیکن پھر بھی یہاں آنے سے پہلے میری ٹائی کی ناٹ، کشف نے اپنے ہاتھوں سے لگائی تھی، میرے کوٹ کے کالر میں رومال بھی اس نے لگایا ہے میرے گھر میں ملازموں کی ایک لمبی قطار ہے اس کے باوجود جو شوز میں نے اس وقت پہنے ہیں، وہ اس نے پالش کیے ہیں، یہاں آنے سے پہلے وہ میرے بڑے بیٹے کو ہوم ورک کروا کر آئی ہے اور میرے چھوٹے بیٹے کو اس نے خود فیڈ کیا ہے حالانکہ اس کے لیے گورنس ہے اور اس کے بعد وہ یہاں آنے کے لیے ڈریس اپ ہوئی، اینڈ جسٹ لک ایٹ ہر کیا اسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ اتنے بہت سارے کام کر کے آئی ہے اور یہ سب یہیں پر ختم نہیں ہوتا، ابھی یہاں سے جانے کے بعد وہ میرے لیے نائٹ سوٹ نکالے گی، دودھ کا گلاس دے گی، پھر صبح آفس جانے کے لیے میری ساری چیزیں تیار کرے گی میرا بریف کیس چیک کرے گی اور پھر وہ سوئے گی اور صبح میرے اٹھنے سے پہلے وہ بیدار ہو چکی ہوگی۔”
یہ سب میں بھی کرسکتی تھی اگر تم مجھ سے شادی کرتے اور یہ سب کرنے کو کہتے۔” اس کے لہجے میں کوئی نرمی نہیں آئی۔
”میں نے اسے کبھی بھی یہ سب کرنے کے لیے نہیں کہا وہ اپنی مرضی سے یہ سب کرتی ہے اور اگر مجھے ایک پرسینٹ بھی یقین ہوتا کہ تم یا میری سوسائٹی کی کوئی دوسری لڑکی یہ سب کر سکتی ہے تو میں کبھی کشف سے شادی نہ کرتا۔”
”اگر وہ یہ سب کرتی ہے تو اس میں کمال کی کیا بات ہے؟ وہ ایک ہاؤس وائف ہے، اس کی کوئی سوشل لائف نہیں اگر اسے یہ بھی نہیں کرنا تو اور کیا کرنا ہے۔”
اس دفعہ میں اسمارہ کی بات پر ہنس پڑا تھا، ”وہ ہاؤس وائف نہیں ہے۔ شاید اس نے تمہیں بتایا نہیں وہ ایک سی ایس پی آفیسر ہے، اس وقت اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں کام کر رہی ہے۔”
میری بات کے جواب میں وہ پہلی دفعہ خاموش ہوئی تھی اور اس نے میرے چہرے سے نظریں ہٹا لی تھیں پھر چند لمحوں کے بعد اس نے مجھ سے کہا تھا۔
”اس کے باوجود میں یہی کہوں گی کہ اس میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ تم اس سے شادی کرتے۔”
پھر میں نے مزید کچھ کہنا بے کار سمجھا اور موضوع بدل دیا میں نے اس سے کہا۔
”چلو یار تم اتنے عرصے بعد ملی ہو تمہاری بات ہی مان لیتا ہوں۔ چلو کشف کوچھوڑو اور مجھے اپنے شوہر سے ملواؤ۔”
میں یہ بات اسے کبھی سمجھا نہیں سکتا کہ کشف میں کتنی خوبیاں ہیں۔ وہ میرے لیے ایک لگژری عورت ہے۔ پہلے میں اس سے محبت کرتا تھا اور اب میں اس سے امپریس ہوں۔ اس نے میرے لیے جو کیا کوئی دوسری عورت نہیں کر سکتی تھی کشف نے اپنے آپ کو میری مرضی کے مطابق ڈھالا ہے اور اگر میں اسمارہ سے شادی کرتا تو وہ مجھے اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتی نتیجہ کیا ہوتا چند ماہ بعد علیحدگی کیونکہ میں اس کی بات نہیں مانتا اور وہ میری بات نہیں مان سکتی تھی۔ اسمارہ بھی ایک ڈپلومیٹ کی بیوی ہے لیکن اس کی ادائیں دیکھ کر سب کے دل ایک طرح سے ہی دھڑکتے ہوں گے۔ کشف اس کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے لیکن کم ازکم لوگ اس کی عزت تو کرتے ہیں اسے ایسی ویسی نظروں سے تو نہیں دیکھتے اور مجھے یہی سب کچھ پسند ہے، ورنہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ جس طرح اسمارہ نے ڈنر میں اپنے شوہر کے ہوتے ہوئے بھی مجھ سے ایسے سوال پوچھے تھے اگر میں اپنی سوسائٹی کی کسی لڑکی سے شادی کرتا تو ہو سکتا تھا وہ بھی ایسے کسی فنکشن میں اپنے کسی پرانے جاننے والے سے کچھ ایسی ہی گفتگو کر رہی ہوتی اور میں بے خبر ہوتا۔
جب ہم وہاں سے واپس آ رہے تھے تو گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے میں مسلسل اسمارہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ کشف نے میری خاموشی دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
”زارون ! کیا سوچ رہے ہو؟”
”اگر میں تمہیں بتا دوں تو تم ناراض تو نہیں ہو گی؟” میرے پوچھنے پر اس نے نفی میں سر ہلایا۔
”اسمارہ مجھ سے کہہ رہی تھی، کشف میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ تم اس سے شادی کرتے اور میں نے اس سے کہا کہ تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ بس غلطی ہو گئی۔”
میں نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا لیکن وہ میری بات پرناراض ہونے کے بجائے مسکرانے لگی۔
”میں جانتی ہوں۔ تم ایسا کہہ ہی نہیں سکتے۔”
”اتنا اعتماد ہے مجھ پر؟” میں نے اس سے پوچھا تھا اور اس نے اسی طرح مسکراتے ہوئے کہا تھا۔
”اگر اعتماد نہیں ہوتا تو آج تمہارے ساتھ نہیں ہوتی۔” اس کے اس جملے پر مجھے کئی سال پہلے اس کی کہی گئی ایک بات یاد آ گئی جب ایک دن میں نے مذاق میں اس سے پوچھا تھا۔
”کشف اگر میں کبھی دوسری شادی کر لوں تو؟”
اور اس نے بڑی بے رخی سے کہا تھا۔”تم یہ کام کرنے والے دنیا کے پہلے یا آخری مرد نہیں ہو گے۔ مرد تو ایسے کام کرتا ہی رہتا ہے اور تم پر تو مجھے پہلے ہی کوئی اعتماد نہیں، اس لیے مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔” اس وقت وہ ایسے ہی منہ توڑ جواب دیا کرتی تھی اور آج وہ بڑے اطمینان سے کہہ رہی تھی کہ اسے مجھ پر اعتماد ہے۔ عجیب چیز ہے یہ کشف۔ ہر وقت مجھے حیران کرتی رہتی ہے۔ مجھے وہ ہمیشہ ایک مسٹری ایک معمے کی طرح لگتی ہے جسے کوئی حل نہیں کرسکتا۔ شادی کے اتنے سال بعد بھی میں اسے پوری طرح جان نہیں سکا اور شاید کبھی نہیں جان سکوں گا کیونکہ وہ بہت گہری عورت ہے جو کبھی پوری طرح کھل کر سامنے نہیں آتی اور شاید اس کی اسی مسٹری نے مجھے اس کا اسیر کر رکھا ہے۔ وہ بہت طاقتور ہے آج تک میرے سامنے اس کی کوئی کمزوری نہیں آئی، شاید اس کا کوئی ویک پوائنٹ ہے ہی نہیں اور اگر کوئی ہے تو شاید دوسروں کی طرح میں بھی ہمیشہ اس سے بے خبر رہوں گا۔ میں ہمیشہ اس کے ساتھ ہر بات شیئر کرتا ہوں، وہ آفس کا کوئی پرابلم ہو یا پھر کوئی پرسنل پرابلم۔
وہ ہمیشہ میری ہر بات سے واقف رہتی ہے لیکن آج تک کبھی اس نے مجھ سے اپنا کوئی پرابلم شیئر نہیں کیا، پھر بھی میں اسے پسند کرتا ہوں کیونکہ میں اپنی زندگی کو انجوائے کر رہا ہوں اور حقیقت میں زندگی ہے بھی یہی، جو کچھ میرے ماضی میں تھا وہ سب سراب تھا اور مجھے اس زندگی سے محبت ہے کیونکہ خدا نے مجھے ایک خوبصورت گھر دے رکھا ہے۔
…**…
21جولائی
آج ایک ڈپلومیٹک ڈنر میں میری ملاقات اسمارہ سے ہوئی اور میری طرح اس نے بھی فوراً مجھے پہچان لیا تھا۔ اس نے میری ہیلو کا جواب بڑے پھیکے انداز میں دیا تھا اور پھر پوچھا تھا۔
”تم یہاں کیسے؟”
پھر میرے جواب دینے سے پہلے ہی اس نے کہا۔
”لگتا ہے کسی کی سیکریٹری بن کر آئی ہو۔ویسے تمہارے جیسی سیکریٹری کسی احمق کی ہو سکتی ہے۔ ذرا اپنے باس سے تو ملواؤ۔”
مجھے اس کی کسی بات پر غصہ نہیں آیا کیونکہ میں آج بہت اچھے موڈ میں تھی۔ پھر میں نے اس سے کہا۔
”نہیں میں یہاں اپنے شوہر کے ساتھ آئی ہوں۔”
”اوہ۔ لگتا ہے کوئی لمبا ہاتھ مارا ہے۔”
اس کا لہجہ اور انداز پہلے ہی کی طرح زہریلے تھے۔ میں نے اس کے کسی اگلے سوال سے بچنے کے لیے پوچھا۔
”تم یہاں اپنے شوہر کے ساتھ آئی ہو؟”
”ہاں۔ میرے شوہر تر کی میں چیف آف مشن ہیں۔ آج کل چھٹیوں میں ہم لوگ یہاں آئے ہیں۔ تم ذرا اپنے شوہر سے ملواؤ۔”
میری بات کا جواب دیتے ہی اس نے مجھ سے فرمائش کر دی، شاید وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ میرا شوہر کون ہے۔ میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی زارون ہم لوگوں کے پاس آ گیا۔ شاید اس نے اسمارہ کو دیکھ لیا تھا۔ اسمارہ بھی اسے دیکھ کر حیران ہوئی تھی پھر کچھ دیر تک وہ دونوں مجھے نظر انداز کر کے ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے رہے پھر اسمارہ نے ہی زارون کو میری طرف متوجہ کیا اور بڑے عجیب سے انداز میں پوچھا تھا۔
”زارون ! تم نے انہیں نہیں دیکھا؟” زارون نے حیران ہو کر مجھے دیکھا اور پھر اسمارہ سے کہا۔
”انہیں تو میں دن میں دس دفعہ دیکھتا ہوں بلکہ رات کو سونے سے پہلے اور صبح اٹھنے کے بعد سب سے پہلے انہیں ہی تو دیکھتا ہوں۔”
”کیا مطلب ؟” اس کی بات پر اسمارہ نے بڑے الجھے ہوئے انداز میں مجھے اور زارون کو دیکھا تھا۔
”مطلب یہ کہ یہ میری بیوی ہیں۔”
میک اپ کی گہری تہیں بھی اسمارہ کے چہرے کا بدلتا ہوا رنگ نہیں چھپا سکیں۔ اس کی آنکھوں کی چمک ایک دم غائب ہو گئی تھی اور اس کے منہ سے صرف ایک جملہ نکلا تھا۔
”تم کشف کے شوہر ہو؟”
”آف کورس۔ کیوں کشف ! تم نے بتایا نہیں؟”
زارون نے اس کی بات پر حیران ہو کر مجھ سے پوچھا تھا۔
”میرے بتانے سے پہلے ہی تم آ گئے تھے۔”
میں اس سے یہ کہہ کر معذرت کرتی ہوئی کچھ دوسرے لوگوں کی طرف چلی گئی۔ میرے جانے کے بعد ان دونوں کے درمیان کیا باتیں ہوئی تھیں یہ میں نہیں جانتی لیکن پھر پورے ڈنر میں اسمارہ میری طرف نہیں آئی اور مجھ سے بچنے کی کوشش کرتی رہی اور میں نے اس کا برا نہیں مانا کیونکہ میں جانتی ہوں وہ زارون کو پسند کرتی تھی اور مجھے ناپسند کرتی تھی۔ آج یہ جان کر کہ میں زارون کی بیوی ہوں اسے یقینا بہت تکلیف ہوئی ہوگی۔ اس نے سوچا ہو گا کہ میں اور زارون کالج میں دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہے جب کہ حقیقت میں ہم ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار تھے حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ مجھ سے شادی زارون کا ذاتی فیصلہ تھا اور اس وقت میں نے بہت مجبور ہو کر شادی کی تھی۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں نے زارون سے کہا تھا۔
”کتنا اچھا ہوتا اگر ہم کالج میں دوست ہوتے۔ تمہارے نوٹس اتنے اچھے ہوتے تھے۔ ہو سکتا ہے میری بھی ایم اے میں فرسٹ ڈویژن آ جاتی۔”
میری بات پر اس نے یک دم فائل کو بند کرکے ڈائریکٹ میری آنکھوں میں دیکھا تھا اور بڑے صاف اور مستحکم لہجے میں کہا تھا۔
”اگر تم کالج میں میری دوست بن جاتیں تو آج میری بیوی نہیں بنتیں۔” مجھے اس کی صاف گوئی اچھی لگی تھی۔
سونے سے پہلے اس کا موڈ بہت اچھا تھا۔ وہ بار بار مجھے تنگ کر رہا تھا پھر ایبک کو کاٹ سے نکال کر اپنے پاس بیڈ پر لے آیا اور اس سے کھیلنے لگا اور جب میں ایبک کو سلانے لگی تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ میں نے اس سے کہا ”کہیں آج تم مجھے اسمارہ تو نہیں سمجھ رہے؟” وہ میری بات پر ہنسنے لگا۔
”یار تم کچھ زیادہ ہی سمجھدار نہیں ہوتی جا رہیں؟” اس نے میرے ہی انداز میں کہا اور پھر میرے ہاتھ چومنے لگا۔ میں نے بہت عرصے بعد اسے اتنے رومانٹک موڈ میں دیکھا تھا۔ تمہارا اور اسمارہ کا کیا مقابلہ؟ تم سے میں عشق کرتا ہوں اور اسمارہ صرف ٹائم پاسنگ تھی، جس طرح گھر تک پہنچنے کے لیے آدمی بہت سے رستوں سے گزرتا ہے اسی طرح اسمارہ بھی ایک رستہ ہی تھی اور تم تو میری جان ہو۔” بہت ساری باتیں کرنے کے بعد اب وہ مزے سے سو رہا تھا اور میں سوچ رہی ہوں کہ اس کے اچھے موڈ کے لیے اگر کبھی اس کی کوئی پرانی دوست مل جایا کرے تو یہ کوئی اتنا مہنگا سودا تو نہیں ہے۔
…**…




Loading

Read Previous

دوسرا دوزخ

Read Next

عورت، مرد اور میں — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!