زندگی گلزار ہے — عمیرہ احمد

26 فروری
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ زارون مجھ پر اس قدر مہربان کیوں ہوتا جا رہا ہے، اس کا رویہ میرے ساتھ ایوریج سے زیادہ ہے اور ایسے رویے بہت جلد اسکینڈلز کی صورت میں سامنے آ جاتے ہیں اور وہ تو ویسے بھی ان معاملات میں مشہور ہے۔ پورے کالج میں اس کے افیئرز کا چرچا ہے اور اس کی ان مہربانیوں سے میرا امیج بھی تباہ ہوجائے گا لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اسے کیسے روکوں۔
اس کے رویے میں یہ تبدیلی اس دن کے بعد سے آئی ہے جب سر ابرار کی کلاس میں اس سے میری بحث ہوئی تھی، اس واقعہ کے دوسرے دن اس نے مجھ سے معذرت کی تھی، اور میں بہت خوش ہوئی تھی کہ چلو اسے اپنے رویے کا احساس تو ہوا لیکن میری چھٹی حس نے مجھے خبردار کیا تھا کہ اب مجھے کسی نئی مصیبت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ میں اس کے بارے میں بہت زیادہ نہیں جانتی لیکن کالج میں وہ بہت اکھڑ اور کھردرا مشہور ہے، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کسی ایرے غیر کو گھاس نہیںڈالتا اور نہ ہی ہر کسی سے معذرت کرتا پھرتا ہے لیکن میں تو اب اس سے تنگ آ گئی ہوں، وہ کالج میں کہیں بھی مجھے دیکھے تو وش کئے بغیر نہیں گزرتا کلاس میں بھی اب وہ مجھ سے اختلاف نہیں کرتا اور میری جان عذاب میں ہے کیونکہ یہ سب لوگوں کی نظروں میں آ رہا ہے۔
کل فرزانہ نے بھی مجھ سے یہی کہا تھا۔
”کشف ! زارون آج کل تم پر بہت مہربان ہو رہا ہے ورنہ پہلے تو تم دونوں کی آپس میں بنتی نہیں تھی۔”
اس کی اس بات پر ایک لمحہ کے لیے تو میں چکرا گئی تھی لیکن بظاہر بڑی لاپرواہی سے میں نے کہا۔
”فرزانہ ! مجھے اس کی مہربانی یا برہمی سے کوئی غرض نہیں ہے اگر وہ پھر پہلے کی طرح کلاس میں احمقانہ باتیں کرے گا تو میں پھر اختلاف کروں گی اور میں نہیں سمجھتی کہ وہ اب مجھ پر مہربان ہے۔ میرے خیال میں اب وہ نارمل ہے پہلے وہ ابنارمل تھا میں کلاس کو کبھی بھی گروپس میں بانٹنا نہیں چاہتی تھی لیکن وہ یہی چاہتا تھا۔ مجھے یہاں صرف دو سال گزارنے ہیں ایک سال تو تقریباً گزر ہی گیا ہے اور دوسرا بھی گزر جائے گا اور ان دو سالوں کے بعد مجھے ان میں سے کسی کا سامنا نہیں کرنا ہے۔”
میں اپنی بات مکمل کر کے کمرے سے نکل گئی تھی۔ میں جانتی تھی یہ ساری باتیں زارون تک ضرور پہنچ جائیں گی کیونکہ وہ ان ہی کے گروپ میں ہوتی تھی اور میں چاہتی بھی یہی تھی کہ وہ یہ باتیں زارون کو ضرور بتا دے، کیونکہ میں واقعی اب اس کے رویے سے بہت خوفزدہ ہوں، کیونکہ چند دن پہلے سر ابرار نے بھی پوچھ لیا تھاکہ اب آپ دونوں پہلے کی طرح بحث کیوں نہیں کرتے؟





اس وقت تو میں نے انہیں یہ کہہ کر ٹال دیا تھا کہ ”سر ! اختلافی پوائنٹس سامنے آئیں تو بحث بھی کی جائے فضول کی بحث تو میں کسی کے ساتھ بھی نہیں کرتی۔”
لیکن میں یہ سوچ کر اور پریشان ہو گئی تھی کہ یہ تبدیلی سرابرار نے بھی نوٹ کرلی ہے اور اب اگر کالج میں ہم دونوں کے بارے میں کوئی افواہ پھیلے گی تو وہ فوراً یقین کر لیں گے اور میں یہ ہرگز نہیں چاہوں گی کہ وہ مجھ سے بدگمان ہوں وہ مجھ سے اتنی شفقت سے پیش آتے ہیں کہ میں تو ان کی بدگمانی برداشت ہی نہیں کر پاؤں گی۔
کل میں ان کی کلاس میں دیر سے پہنچی تھی کیونکہ میرے سر میں صبح سے درد ہو رہا تھا اور پہلی دو کلاسز اٹینڈ کرنے کے بعد تو در دکی شدت میں اور بھی اضافہ ہو گیا تھا، میں نے سوچا کہ اگر چائے کے ساتھ ایک ٹیبلٹ لے لوں توآرام آ جائے گا لیکن چائے پینے اور ڈیپارٹمنٹ تک واپس آتے ہوئے مجھے اتنی دیر ہو گئی تھی کہ سر ابرار کلاس میں پہنچ چکے تھے۔ سر ابرار لیٹ آنے والوں کو بالکل معاف نہیں کرتے اور اس معاملے میں میں زارون جیسے چہیتے اسٹوڈنٹ کا بھی ان کے ہاتھوں حشر ہوتے ہوئے دیکھ چکی تھی ابھی میں اسی شش و پنج میں تھی کہ کلاس میں جاؤں یا نہ جاؤں کہ سر ابرار نے مجھے دروازے میں کھڑا دیکھ لیا۔ پھر شاید میرا اُڑا ہوا رنگ دیکھ کر انہیں ترس آ گیا۔
”کشف ! اندر آ جائیں۔ آپ آج کچھ لیٹ ہو گئی ہیں۔”
انہوں نے مجھے بیٹھنے کے لیے کہا اور میں سیٹ کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھنے لگی سر ابرار نے خود ہی میری مشکل حل کرتے ہوئے کہا۔
”یہاں بیٹھ جائیں زارون کے برابر سیٹ پر۔” ان کی آفر پر میرا رنگ دوبارہ فق ہو گیا تھا۔
”سر یہاں؟ ” سر ابرار نے کچھ حیران ہو کر مجھے دیکھا۔
”جی یہاں وہ کوئی جن بھوت تو نہیں ہے جو آپ کو کھا جائے گا آپ بیٹھ جائیں۔”
لیکن مجھے پھر بھی شش و پنج میں مبتلا دیکھ کر انہوں نے مسکرا کر کہا۔
”گھبرا کیوں رہی ہیں، بھائی ہے آپ کا۔ زارون بہن کو جگہ دیں۔”
ان کی بات پر کلاس میں ہلکی سی کھلکھلاہٹیں ابھری تھیں، زارون نے اس چیئر پر سے اپنی کتابیں اٹھالی تھیں اور میں وہاں جا کر بیٹھ گئی پھر لیکچر نوٹ کرتے وقت میرا قلم چلتے چلتے رکنے لگا تھا میں نے دو تین بار اسے پیپر پر گھسیٹا مگر وہ نہیں چلا اس سے پہلے کہ میں اپنے بیگ سے دوسرا پین نکالتی۔ زارون نے اپنی فائل میں سے ایک پین نکال کر میری فائل پر رکھ دیا تھا۔ میں نے چونک کر اسے دیکھا مگر وہ لکھنے میں مصروف تھا۔ میں نے وقت ضائع کئے بغیر اس کے دیئے ہوئے قلم سے لکھنا شروع کر دیا تھا کیونکہ سر ابرار بہت تیزی سے بولتے جا رہے تھے۔
لیکچر ختم ہونے کے بعد میں نے شکریہ کے ساتھ اسے پین لوٹا دیا تھا لیکن جتنی دیر وہ پین میرے ہاتھ میں رہا میں عجیب سے احساسات کا شکار رہی وہ پین بہت قیمتی تھا اور بہت خوبصورت لکھائی کر رہا تھا میرے کاغذ پر بال پوائنٹ سے لکھے گئے الفاظ اس سے لکھے گئے لفظوں کی نسبت بہت کمتر اور گھٹیا نظر آ رہے تھے بالکل میری زندگی کی طرح یہ تو صرف زارون جیسے لوگ ہی ہیں جو ایسے پین افورڈ کرسکتے ہیں ہم جیسے نہیں کیا کبھی ایسا ہو گا کہ میں بھی ایسے قلم خرید پاؤں یقینا نہیں کیونکہ میں اتنی خوش قسمت نہیں ہوں اور خواہشیں صرف خوش قسمت لوگوں کی پوری ہوتی ہیں۔
…**…
27فروری
کل ایک عجیب بات ہوئی، وہ کشف مرتضیٰ میرے پاس بیٹھی تھی، مجھے کافی دنوں سے سر ابرار پر بہت غصہ آ رہا تھا کیونکہ ان کا رویہ کشف کے ساتھ ضرورت سے زیادہ اچھا تھا اسے ہر قسم کی رعایت دیتے رہتے ہیں کل وہ کلاس میں لیٹ آئی تھی اور سر ابرار نے نہ صرف اسے کچھ کہا نہیں بلکہ کلاس میں آنے کی اجازت بھی دے دی اور اگر کبھی میں یا کوئی اور کلاس میں لیٹ آئے تو وہ قیامت اٹھا دیتے ہیں لیکن میرا سارا غصہ اس وقت ختم ہو گیا جب انہوں نے اسے میرے برابر والی چیئر پر بیٹھنے کے لیے کہا، وہ چیئر میں نے اسامہ کے لیے رکھی تھی کیونکہ وہ انگلش ڈیپارٹمنٹ کسی سے ملنے گیا تھا ، لیکن اس کے واپس آنے سے پہلے ہی سر ابرار آ گئے تھے۔ پھر وہ نہیں آیا کیونکہ لیٹ آنے پر سر ابرار سے انسلٹ کروانے سے بہتر ہے کہ بندہ کلاس میں آئے ہی نا سر ابرار کے کہنے پر بھی وہ میرے پاس آ کر نہیں بیٹھی پھر جب سر اسرار نے مجھ سے کہا۔
”زارون ! بہن کو جگہ دو ” تو میرے ساتھ ساتھ وہ بھی مسکرائی تھی۔ میں نے اسامہ کی چیئر سے کتابیں اٹھا لیں اور وہ وہاں آ کربیٹھ گئی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ میرے اس قدر قریب بیٹھنے پر بھی وہ نروس نہیں تھی ورنہ اکثر لڑکیاں میرے قریب بیٹھنے پر نروس ہو جاتی ہیں اور کچھ نہیں تو لیکچر نوٹ کرتے ہوئے ان کے ہاتھ ہی کانپتے رہتے ہیں اور میں ہمیشہ ان کی گھبراہٹ کو انجوائے کرتا ہوں لیکن اس کے ہاتھوں میں لرزش نہیں تھی۔ بہت سادہ ہاتھ تھے اس کے کسی قسم کی آرائش کے بغیر لیکچر نوٹ کرتے ہوئے اس کا بال پوائنٹ رکنے لگا تھا میں چونکہ اس کی طرف متوجہ تھا، اس لیے یہ بات میری نظر میں آ گئی میں نے اپنا پین نکال کر اسے دے دیا جسے لیکچر ختم ہونے کے بعد اس نے شکریہ کے ساتھ واپس کر دیا بغیر مجھے دیکھے یا مسکرائے میں اس وقت کا منتظر ہوں جب کشف مرتضیٰ مجھے اب کی طرح نظر انداز نہیں کر پائے گی وہ میرے حوالے سے خواب دیکھے گی اور میرے بغیر اپنے وجود کو ادھورا محسوس کرے گی اور وہ وقت بہت زیادہ دور نہیں ہے۔
…**…
24 اکتوبر
آج میرے ایگزامز ختم ہو گئے ہیں اور کل میں گھرجاؤں گی حالانکہ میرا دل گھر جانے کو نہیں چاہتا کیونکہ اس گھر میں اتنی پریشانیاں اور ڈپریشن ہے کہ وہاں کوئی بھی سکون سے نہیں رہ سکتا لیکن پھر بھی مجھے وہاں جانا ضرور ہے حالانکہ وہاں سے واپس آنے کے بعد بہت دنوں تک میں رات کو ٹھیک طرح سے سو نہیں پاؤں گی لیکن میں اپنے بہن بھائیوں سے قطع تعلق بھی تو نہیں کر سکتی، ان کو بالکل نظر انداز کیسے کر سکتی ہوں۔ مجھے ایک دفعہ پھر وہی گھسے پٹے لیکچران کے سامنے دہرانے پڑیں گے جنہیں دہراتے دہراتے میں تنگ آ چکی ہوں۔ میں جب بھی یہ سوچتی ہوں کہ میری بہنیں تعلیم کو اتنے سرسری انداز میں کیوں لیتی ہیں تو میں پریشان ہو جاتی ہوں۔ پتا نہیں وہ اس قدر لاپرواہ کیوں ہیں کہ اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کرتیں۔
اپنے گھر کی خستہ حالی بھی انہیں نہیں اکساتی کہ وہ پڑھیں تاکہ گھر کا بوجھ شیئر کر سکیں، ان کی لاپروائی میری پریشانیوں اور خوف میں اضافہ ہی کرتی جا رہی ہے کیونکہ میں جانتی ہوں کہ مجھے اکیلے ہی نہ صرف گھر کی کفالت کرنی ہوگی بلکہ ان کی شادیاں بھی کرنی ہوں گی اور بھائیوں کو بھی کسی قابل بنانا ہو گا، اگر میری بہنیں تعلیم میں کچھ اچھی ہوتیں تو مجھے کافی تسلی رہتی کہ ہم مل کر گھر کا بوجھ اٹھا لیں گے لیکن ایسا نہیں ہے۔ بھائی ابھی اتنے چھوٹے ہیں کہ ان کے حوالے سے بھی میں کوئی خواب نہیں دیکھ سکتی اگر خدا نے میرے کندھوں پر اتنی ذمہ داریاں ڈالنا تھیں تو کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ وہ مجھے ایک مرد بناتا پھر بہت سی ایسی مشکلات کا سامنا مجھے نہ کرنا پڑتا جن کا سامنا اب کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن خدا مجھے کوئی آسانی کیوں دیتا اس نے تو بس میری قسمت میں مشکلات ہی رکھی ہیں۔
مجھے ہمیشہ اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ میری بہنیں اس قدر مطمئن کیوں ہیں وہ کون سی چیز ہے جس نے انہیں اس قدر اطمینان سے رکھا ہے کہ وہ محنت نہ بھی کریں تب بھی سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔مجھے ان کے اطمینان پر غصہ آتاہے مگر کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ ان کا بھی کیا قصور ہے سارے لوگ میری طرح پاگل تو نہیں ہو سکتے نہ ہی اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ سکتے ہیں وہ اس عمر میں ہیں جب ہر چمکتی چیز سونا لگتی ہے جب کوئی پریشانی بھی انسان کو پریشان نہیں کرتی پھر وہ میرے رشتہ داروں کے بچوں کو دیکھتی ہیں اور وہی چیزیں چاہتی ہیں جو ان کے پاس ہیں اس بات کی پروا کئے بغیر کہ وہ انہیں کبھی حاصل نہیں کر پائیں گی۔
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ کاش میں کبھی پہلی اولاد نہ ہوتی میری جگہ کوئی اور ہوتا اور میں بھی اپنے بھائی بہنوں کی طرح بے پروا ہوتی۔ پھر مجھے کسی چیز کی فکر نہ ہوتی کیا ہوتی ہے یہ سب سے بڑی اولاد بھی اسے ہر پریشانی اپنے ماں باپ کے ساتھ شیئر کرنی پڑتی ہے وہ نہ کرنا چاہے تب بھی۔ باپ سے توقع کر ہی نہیں سکتے اور ماں سے کریں تو کیا کریں؟ زندگی واقعی فضول ہوتی ہے پتا نہیں لوگ اس سے محبت کیسے کرتے ہیں۔
کیا ہمارے گھر میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس کے دم سے سب کچھ سنور جاتا سب کچھ ٹھیک ہو جاتا؟ کیا اس گھر کے لوگ اتنے گناہ گار ہیں کہ خدا بھی ان کی کوئی دعا نہیں سنتا اور جو ہم سے اتنا بے خبر ہے کیا وہ واقعی خدا ہے؟
…**…
24 اکتوبر
آج آخری پیپر تھا اور میں اتنا تھک چکا تھا کہ گھر آتے ہی سو گیا۔ یہ پیپرز بھی بندے کو بس ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ خیر ماسٹرز کا ایک سال تو ختم ہوا اور اگلا سال میرے لیے بہت مشکل ہے۔ کیونکہ فائنل سمسٹر ہو گا۔ ایک لمبا سلسلہ ہے اسٹڈیز کا۔ خیر ایک پہاڑ تو سر ہوا۔ پچھلے ایک ماہ سے پیپرز میں اتنا مصروف تھا کہ ڈائری بھی نہیں لکھ پایا اور آج سو کر اٹھتے ہی ڈائری کو ہاتھ میں لیا ہے تو عجیب سی تسلی ہوئی ہے۔ اب دو چار دن تو عیاشی کروں گا، ظاہر ہے اتنی محنت کے بعد یہ تو میرا حق ہے پھر وہی کتابیں ہوں گی اور ہم اب میری ڈیئر ڈائری گڈ بائے باتیں بہت ہیں۔ لیکن پھر کروں گا، کیونکہ ابھی مجھے ڈنر کرنے نیچے جانا ہے۔ پھر ڈنر کے بعد اچھی سی کافی اور شاندار سی فلم سو آج کافی مصروف رہوں گا۔
…**…
6 جنوری
پتا نہیں یہ زارون جنید اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے اگر آپ کے پاس دولت ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جب چاہیں دوسروں کے جذبات کا خیال کئے بغیر ان کی عزت نفس مجروح کرتے رہیں۔مجھے ایسے لوگوں سے نفرت ہے جو صرف اپنا روپیہ دکھانے اور دوسروں کو ان کی اوقات جتانے کے لیے انہیں تحفے دیتے ہیں تا کہ وہ آپ سے متاثر ہو جائیں آپ کے آگے پیچھے پھریں اور آپ وقتاً فوقتاً ترس کھا کر اپنی عنایات ان پر تحفوں کی صورت میں نازل کریں۔ مجھے ترس اور بھیک دونوں سے ہی نفرت ہے اگر یہی سب مجھے کرنا ہوتا تو اپنے تعلیمی اخراجات کے لیے محنت کرنا گوارانہ کرتی بلکہ اپنے رشتہ داروں کے آگے ہاتھ پھیلاتی لیکن جب اس وقت میں نے بھیک قبول نہیں کی تو اب کیسے کر لوں۔
آج کالج میں سرقدیر کی کلاس اٹینڈ کرنے کے بعد ان کا لیکچر ٹھیک کرنے کے لیے لان میں چلی گئی تھی میں نے لیکچر کو ابھی پڑھنا شروع ہی کیا تھا کہ زارون وہاں آ گیا اس کی آمد میرے لیے خلاف توقع تھی کیونکہ وہ کبھی اس طرح اکیلا میرے پاس نہیں آیا تھا۔
”ایکسکیوزمی کشف ! میں نے آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کیا؟” اس نے آتے ہی کہا تھا۔
”نہیں آپ کو کوئی کام ہے مجھ سے؟” میں نے فائل بند کر کے اسے کہا۔
”نہیں، ایسا کچھ خاص تو نہیں بس میں آپ کو یہ دینا چاہتا تھا۔” اس نے دو مختلف سائز کے پیکٹ میری طرف بڑھا دیئے۔
”یہ کیا ہے؟” میں نے پیکٹ پکڑے بغیر اس سے پوچھا۔
”آپ خود کھول کر دیکھ لیں۔”
”آپ خود اگر بتا دیں کہ ان میں کیا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ میں انہیں نہیں کھولوں گی۔”
اسے شاید میری طرف سے ایسے کورے جواب کی توقع نہیں تھی اس لیے کچھ دیر تک وہ خاموش ہی رہا پھر اس نے کہا۔
”میں چند دنوں کے لیے ہانگ کانگ گیا تھا، واپسی پر اپنے دوستوں کے لیے کچھ تحفے لایا ہوں، اس پیکٹ میں آپ کے لیے چند کتابیں اور پین ہیں اور اس میں کچھ چاکلیٹس۔”
”یہ بہت اچھی بات ہے کہ آپ اپنے دوستوں کے لیے تحفے لاتے ہیں لیکن میں نہ تو آپ کی دوست ہوں اور نہ ہی میں کسی سے تحفے لیتی ہوں۔”میں نے یہ کہہ کر دوبارہ اپنی فائل کھول لی۔
”آپ مجھے دوست کیوں نہیں سمجھتیں؟” اس نے یک دم پنجوں کے بل بیٹھتے ہوئے مجھ سے پوچھا تھا۔
”میں آپ کو تو کیا یہاں کسی کو بھی اپنا دوست نہیں سمجھتی کیونکہ میں یہاں پڑھنے آئی ہوں دوستیاں کرنے نہیں۔”
مجھے امید تھی کہ اتنے روکھے جواب پر تو وہ چلا ہی جائے گا مگر وہ پھر بھی وہیں رہا۔
”کشف ! میں اس کے بدلے میں آپ سے کوئی گفٹ نہیں مانگوں گا۔”
”جب میں آپ کا گفٹ لے ہی نہیں رہی تو دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔” مجھے اب اس پر غصہ آنے لگا۔
”آپ میری انسلٹ کر رہی ہیں۔”
”مجھے افسوس ہے کہ اگر میں ایسا کر رہی ہوں تو مگر میں نہیں سمجھتی کہ کسی سے تحفہ نہ لینا اس کی توہین ہو سکتا ہے اور پھر آپ آخر کیا سوچ کر میرے پاس یہ تحفہ لے کر آئے ہیں؟”
میرا لہجہ بتدریج تلخ ہو رہا تھا۔
”او کے۔ آپ یہ چاکلیٹس تو لیں۔ یہ تو میں نے پوری کلاس کو ہی دیئے ہیں۔”
”میں جانتی ہوں کہ میں ایسے چاکلیٹس افورڈ نہیں کر سکتی لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ آپ انہیں لینے پر اصرار کر کے مجھے میری حیثیت جتلائیں؟”
”آپ نے میری بات کا غلط مطلب لیا ہے۔” وہ میری بات پر کچھ پریشان نظر آیا تھا۔
”مجھے خوشی ہوگی اگر میں آپ کی بات کا مطلب غلط سمجھی ہوں تو، لیکن اس وقت آپ اپنا اور میرا وقت ضائع نہ کریں۔”
میں نے یہ کہہ کر سامنے رکھے پیپرز کو پڑھنا شروع کر دیا، وہ چند لمحوں کے بعد اٹھ کر وہاں سے چلا گیا تھا پتا نہیں وہ مجھے یہ تحفہ دے کر کیا ثابت کرنا چاہتا تھا، کیا وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ کیا خرید سکتا ہے اور میں کیا خرید سکتی ہوں مگر میں تو یہ سب پہلے ہی جانتی ہوں پھر مجھے جتانے کی کیا ضرورت ہے مگر شاید جن لوگوں کے پاس دولت ہوتی ہے انہیں یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ شو آف کریں۔ پتا نہیں انہیں کبھی یہ احساس کیوں نہیں ہوتا کہ وہ میرے جیسے کتنے لوگوں کو خواہشات کی صلیبوں تلے دفن کرنے کا باعث بنتے ہیں ہم جو سمجھوتوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
…**…
6 جنوری
جن چند لوگوں کے بارے میں میرے اندازے اکثر غلط ہوتے رہتے ہیں، ان میں کشف مرتضیٰ بھی شامل ہے۔ہر روز اس کا ایک نیا روپ میرے سامنے آتا ہے کبھی بہت خوفزدہ، کبھی خوفزدہ کر دینے والی ، کبھی بہت بولڈ اور کبھی بہت بزدل، اس نے اپنے اندر اور باہر دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں لیکن یہ دیواریں کبھی اس جیسی مڈل کلاس لڑکیوں کا تحفظ نہیں کرسکتیں اگر آپ کو تسخیر کرنا آتا ہو تو کوئی بھی لڑکی ناقابل تسخیر نہیں ہوتی وہ بھی نہیں ہے میں جانتا ہوں۔ میں اسے بھی شکست دے لوں گا۔ بس کچھ انتظار کی ضرورت ہے اور وہ میں کر سکتا ہوں۔
…**…
11 اپریل
آج میں بہت تھک گئی ہوں پتا نہیں بعض دفعہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ آپ تھک جاتے ہیں حالانکہ آپ نے نہ تو جسمانی مشقت کی ہوتی ہے اور نہ ہی ذہنی پھر بھی زندگی بیکار لگتی ہے۔ اپنا وجود بوجھ لگتا ہے۔ میرے جیسے لوگوں کے لیے ہر دن ایک جیسا ہوتا ہے ہاں بعض دن زیادہ برے ہوتے ہیں اور بعض کچھ کم۔
زندگی میں آنے والی ہر مصیبت پر میں سوچا کرتی تھی کہ شاید یہ آخری مصیبت ہے اور اس سے بڑی مصیبت مجھ پر نہیں آ سکتی لیکن وہ سب ٹھیک نہیں تھا۔ جتنی ذلّت آج میں نے محسوس کی ہے دوبارہ کبھی نہیں کر پاؤں گی۔
مجھے پہلے ہی دن زارون اچھا نہیں لگا تھا۔ مجھے ایسا لگتا تھا جیسے مجھے اس سے کوئی نقصان پہنچے گا اور آج ایسا ہی ہوا ہے۔
آج میں کافی جلدی کالج چلی گئی تھی کیونکہ مجھے کچھ نوٹس بنانے تھے اور میں نے سوچا کہ لائبریری سے کچھ کتابیں ایشو کروا کر یہ کام کر لوں گی، سو میں نے لائبریری سے کتابیں ایشو کروائیں اور واپس ایک کونے میں بیٹھ کر اپنا کام کرنے لگی، اس کام کو آج ہی ختم کرنے کے لیے میں نے شروع کیا۔ چند کلاسز بھی مس کیں۔ اس وقت میں اپنی فائل میں کچھ پوائنٹس کا اضافہ کر رہی تھی جب میں نے زارون کو اپنے گروپ کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے قریب ہی سنا۔ وہ شیلف کے دوسری طرف تھے۔ میں اپنا کام تقریباً ختم کر چکی تھی۔ اس لیے ان کی باتوں سے ڈسٹرب نہیں ہوئی بلکہ غیر ارادی طور پر ان کی باتیں سننے لگی۔
”یہ انگلش ڈیپارٹمنٹ کی نغمہ آج کل بڑے ساتھ ساتھ ہوتی ہے تمہارے، خیر تو ہے؟”
یہ اسمارہ کی آواز تھی اور میں جواب کی منتظر تھی کہ یہ سوال اس نے کس سے کیا ہے۔
”کم آن یار! تمہیں تو خواب میں بھی میرے ساتھ لڑکیاں ہی نظر آتی ہیں۔ اب بندہ یونیورسٹی میں منہ پرٹیپ لگا کر تو نہیں پھر سکتا، جب کو ایجوکیشن ہے تو ہیلو ہائے تو ہوتی ہی رہتی ہے۔” میں نے زارون کی آواز کو پہچان لیا۔
”خیر بات صرف ہیلوہائے ہی رہے تو ٹھیک ہے مگر تم ہیلو ہائے پر بھی لنچ کی دعوت دینے سے نہیں چوکتے کل میں نے تمہیں اس کے ساتھ PCمیں دیکھا تھا۔”
”تو اس سے کیا ہوتا ہے۔ میں صرف کل ہی نہیں پرسوں بھی وہاں اس کے ساتھ گیا تھا۔ آخر یہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ آپ کسی لڑکی کے ساتھ لنچ پر نہیں جا سکتے؟” زارون کی آواز جھنجلائی ہوئی تھی۔
”چھوڑو یار! تم کن فضول باتوں میں لگ گئے ہو۔ کیا یہاں تم لڑنے کے لیے آئے ہو؟” اس بار فاروق بولا تھا۔
”میں لڑ نہیں رہا بات کلیئر کر رہا ہوں۔ نغمہ کے پاس بہت اچھی کتابیں ہیں اور وہ سی ایس ایس کی تیاری بھی کر رہی ہے۔ مجھے اس سے تھوڑی بہت مدد مل جاتی ہے اور بس اب وہ میری اتنی مدد کر رہی ہے اور میں نے اگر اسے ہوٹل میں لنچ کروا دیا تو اسمارہ کو کیوں اعتراض ہو رہا ہے؟”
”چلو نغمہ تو تمہاری مدد کر رہی ہے مگر یہ کشف تمہاری کون سی مدد کر رہی ہے جو تم اس طرح اس کے آگے پیچھے پھر رہے ہو؟”
میں اسمارہ کے منہ سے اپنا نام سن کر بے چین ہو گئی تھی۔ وہ اسمارہ کی بات پر ہنسنے لگا تھا۔
”چلو۔ اب تم کشف سے بھی جیلس ہونا شروع ہو گئی ہو۔ کم آن یار! میں اسے بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ وہ بن نہیں رہی اور تمہیں خواہ مخواہ غلط فہمی …”
”میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوں اور نہ ہی جیلس ہو رہی ہوں تم تو کہا کرتے تھے کہ کشف جیسی لڑکیوں سے تو تم بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے افیئر چلانا تودور کی بات ہے اور اب اسے سلام کرتے پھر رہے ہو۔ اس کے پاس سے بات کئے بغیر گزر جاؤ، یہ تو ناممکن ہے اور پھر بھی تم کہہ رہے ہو کہ میں غلط فہمی کا شکار ہوں۔”
میں بالکل ساکت ہو گئی تھی۔ اسمارہ کے لہجے میں میرے لیے بہت تلخی تھی۔




Loading

Read Previous

دوسرا دوزخ

Read Next

عورت، مرد اور میں — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!