زندگی گلزار ہے — عمیرہ احمد

13 دسمبر
پتا نہیں کبھی کبھی میں خود کو کنٹرول کیوں نہیں کر پاتی کیا تھا اگر آج میں خود پر قابو رکھتی لیکن میں ہمیشہ غلطی کر کے پچھتانے والوں میں سے ہوں۔
کالج میں زارون کے ساتھ ہونے والی اس پہلی جھڑپ کے بعد میں نے خود کو کافی سنجیدہ کر رکھا تھا لیکن پچھے ایک ہفتہ سے اس کا رویہ بہت ہتک آمیز ہو گیا تھا تقریباً ہر کلاس میں وہ ایسے موضوع پر بحث شروع کر دیتا جس پر میں بولوں اور ہر اس پوائنٹ پر اختلاف کرتا جسے میں پیش کرتی میں ہر دفعہ اسے نظر انداز کرتی رہی لیکن آج میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
آج سر ابرار پاکستان کی فارن پالیسی کے بارے میں کچھ پوائنٹس ڈسکس کر رہے تھے اور کلاس کو اس پر ریمارکس دینے کے لیے کہہ رہے تھے۔ جب تبصرہ کرنے کے لیے میری باری آئی تو میں نے کہا۔
”مغربی ممالک کے ساتھ ہمیں اچھے تعلقات رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن ملکی مفادات کی قیمت پر نہیں کیونکہ آج کی دنیا میں تو ہم سے کمزور ممالک بھی اچھے تعلقات کے لیے اپنے مفادات کا سودا نہیں کرتے، سو ہمیں بھی کسی کے سامنے نہیں جھکنا چاہیے اور ملکی مفادات پر سودا کرنے کے بجائے ایسے ہی سرد و گرم تعلقات ٹھیک ہیں۔”
خلاف توقع میری بات پر زارون جنید نے کچھ نہیں کیا پھر اچانک سر ابرار کو پتا نہیں کیا خیال آیا اور انہوں نے کلاس سے پوچھا کہ کون سے اسٹوڈنٹس فارن سروس میں جانا چاہتے ہیں۔ جن چند لوگوں نے ہاتھ کھڑا کیا تھا، ان میں زارون جنید بھی شامل تھا، سر ابرار نے مسکرا کر زارون کو دیکھا اور پوچھا۔
”زارون ! آپ فارن سروس میں کیوں جانا چاہتے ہیں؟”
ا س نے فوراً ہی کہنا شروع کر دیا تھا۔ ”سب سے بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ اس میں مستقبل بہت روشن اور محفوظ ہوتا ہے پھر یہ پروفیشن بہت گلیمرس اور چیلنجنگ ہے اور پھر آپ اس پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ ملک کے لیے کچھ کر سکیں۔”
مجھے اس کا جواب بہت فارمل سا لگا وہی ملک کے لیے کچھ کرنے کے رسمی جملے۔
”اچھا زارون ! اگر آپ فارن سروس جوائن کر لیتے ہیں تو آپ کن ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کریں گے اور کیوں؟”
وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر اپنے مخصوص انداز میں بولنے لگا۔
”ویسے تو ایک ڈپلومیٹ کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ ہر ملک کے ساتھ بہتر تعلقات رکھنے کی کوشش کرے لیکن مغربی ممالک کے ساتھ خاص طور پر ہمارے تعلقات اچھے ہونے چاہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری اکانومی امریکہ اور یورپ سے ملنے والے قرضوں پر کھڑی ہے پھر ہم ان ملکوں کو ناراض کیسے کرسکتے ہیں۔ ان کی مدد کے بغیر ہم اپنے آپ کو کیسے قائم رکھیں گے ایک سوئی تک تو ہم بنا نہیں سکتے اور بات کرتے ہیں قومی مفادات پر سودا نہ کرنے کی۔”
اس کا اشارہ واضح طور پر میری طرف تھا۔





”ایسے دعوے وہی قوم افورڈ کر سکتی ہے جو قربانی دینا جانتی ہو۔ ہمارے یہاں تو اگر گوشت کی قیمت بڑھ جائے تو اسے کنٹرول کرنے کے لیے ہم صرف دو دن بھی گوشت کھانا نہیں چھوڑ سکتے، ہاں اگر معاملہ صرف نعرے لگانے کا ہو تو وہ ہم بڑے شوق سے لگاتے ہیں بلکہ وہاں بھی لگاتے ہیں جہاں اس کی قطعاً ضرورت نہیں ہوتی، کیونکہ ہم ایک نعرہ باز اور کرپٹ قوم ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم فارن پالیسی کو باڑہ مارکیٹ جیسی جگہ پر بھی زیر بحث لانے سے نہیں چوکتے۔ ایک پاکستانی کے لیے تو یہ بات ہی بڑی حساس ہے کہ اسے فارن پالیسی جیسے مسئلے پر بحث کرنے کا موقع مل رہا ہے اور پھر ہم جوش میں آ جاتے ہیں اور افسوس کی بات یہی ہے کہ ہمیں ان چیزوں پر جوش آتا ہے جن پر ہمیں ہوش سے کام لینا چاہیے۔ جیسے ابھی محترمہ کشف فرما رہی تھیں کہ قومی مفادات پر سودا کئے بغیر اگر اچھے تعلقات قائم ہوتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ جیسے تعلقات ہیں ایسے ہی رہنے دیں۔ تو محترمہ اگر صرف امریکہ ہی ہمارے ساتھ پوری ٹریڈ نہیں صرف ہمارا کاٹن ایکسپورٹ کا کوٹا ختم کر دے تو ہمارا ملک ایک ہفتہ بھی نہیں چل سکتا۔ ہم امداد پر زندہ رہنے والی قوم ہیں اور امداد پر زندہ رہنے والی قومیں ہر چیز کا سودا کرنے پر مجبور ہوتی ہیں وہ قومی مفادات ہوں یا پھر ذاتی مفادات ویسے بھی اگر عام زندگی میں بھی آپ دیکھیں تو ہر شخص امریکہ یا یورپ جانے پر تیار ہوتا ہے چاہے اس کے لیے انہیں کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے اس لیے میرے خیال میں فارن پالیسی پر اس قسم کے احمقانہ بیانات کی گنجائش نہیں ہوتی جیسے بیان کچھ دیر پہلے محترمہ کشف دے رہی تھیں۔”
پوری گفتگو میں اس کا لہجہ اس قدر ہتک آمیز تھا کہ میں چپ نہیں رہ سکی۔
”سب سے پہلی بات یہ ہے کہ میں یہاں فارن پالیسی نہیں بنا رہی ہوں جو میرے خیالات کا اثر اس پر ہو گا۔ وہ میرے ذاتی خیالات تھے اور ہر ایک کو اپنی مرضی سے بولنے کی اجازت ہوتی ہے ہاں مگر آپ کے الزامات کا جواب میں ضرور دینا چاہوں گی۔”
پھر میں اس کے نام نہاد دلائل کے پرخچے اڑاتی چلی گئی۔ اس نے دو تین بار مجھے روکنے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہیں ہوا۔ میں جانتی ہوں کہ اس نے کافی انسلٹ محسوس کی تھی۔ میں کلاس کے دوران تو اس کے تاثرات نہیں دیکھ پائی کیونکہ وہ مجھ سے کافی فاصلے پر تھا، لیکن سر ابرار کے کلاس سے نکلنے کے فوراً بعد وہ میرے پاس آیا تھا اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور وہ یقینا مجھ سے کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن پھر چند لمحوں کے بعد میرے برابر والی کرسی کو ٹھوکر مارتے ہوئے باہر چلا گیا اور میں نے سکون کا سانس لیا ورنہ جس وقت وہ میرے پاس آ کرکھڑا ہوا تھا تب میرا سانس حلق میں اٹک گیا تھا کہ پتا نہیں وہ کیا کرے یا کیا کہے اور اپنے ہاتھوں کی لرزش کو چھپانے کے لیے میں نے فائل میںرکھے ہوئے کاغذات کو الٹنا پلٹنا شروع کر دیا تھا۔ میں اس پر یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی کہ میں اس سے خوفزدہ ہوں۔ لیکن بہر حال آج میں واقعی اس سے ڈر گئی تھی ، جس وقت میں کلاس میں اس پر تنقید کر رہی تھی تب میں نے ہرگز یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ میری باتوں کو اتنا سنجیدگی سے لے گا، آخر اس نے بھی تو مجھ پر تنقید کی تھی، لیکن میں نے تو اس جیسے ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا لیکن یہاں پر ہی تو پیسے کا فرق آ جاتا ہے۔ شاید جن لوگوں کے پاس روپیہ ہوتا ہے ان کی انا اسی طرح ہرٹ ہوتی ہے اور میرے جیسے لوگوں کی تو کوئی انا ہوتی ہی نہیں شاید اس کا غصہ ٹھیک ہی ہے۔
…**…
31دسمبر
آج زندگی میں پہلی بار کالج جا کر پچھتا رہا ہوں اگر میں جانتا کہ آج میرے ساتھ یہ سب ہو گا تو میں کبھی کالج نہ جاتا۔
وہ ایک عام سی لڑکی کشف میری سمجھ سے باہر ہے وہ مجھ سے خوفزدہ کیوں نہیں ہوتی؟ وہ اپنی زبان بند کیوں نہیں رکھتی ؟ مجھے زندگی میں شکست سے نفرت ہے اور وہ مجھے مسلسل شکست دے رہی ہے ایسا کیا ہے اس میں کہ میرا ہر داؤ غلط ہو جاتا ہے ہر وار الٹا پڑتا ہے۔
پچھلے کئی دنوں سے میں اسے ہر کلاس میں چھیڑ رہا تھا تا کہ وہ کوئی بات کرے اور مجھے اس کی انسلٹ کرنے کا موقع ملے اور بالآخر آج وہ موقع مل ہی گیا تھا۔ اس کے فارن پالیسی کے بارے میں خیالات سن کر مجھے خاص تسلی ہوئی کہ میں اسے اچھی طرح جھاڑ سکوں گا اور سر ابرار نے مجھے ایسا کرنے کا نادر موقع فراہم کر ہی دیا۔ میں نے اس موقع سے پورا فائدہ اٹھایا لیکن میری بات ختم ہوتے ہی اس نے سر ابرار سے اجازت لے کر بولنا شروع کر دیا۔ اپنی بات کے آغاز میں ہی اس نے کہا۔
”یہ زارون صاحب فرما رہے تھے کہ یہ فارن سروس میں اس لیے جانا چاہتے ہیں تا کہ یہ ملک کے لیے کچھ کر سکیں۔ ملک کی جو خدمت یہ کریں گے وہ تو ان کے پاکستانی قوم کے بارے میں خیالات سے ہی ظاہر ہوتی ہے۔”
میں اس کی بات پر بری طرح تلملایا تھا۔
”یہ امریکہ اور دوسرے مغربی مالک سے اس لیے اچھے تعلقات چاہتے ہیں کیونکہ وہ ہمیں امداد دیتے ہیں اور اس لیے ان کا خیال ہے کہ قومی مفادات کا سودا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ان کے بقول اس امداد پر ہی یہ ملک چل رہا ہے سو ایسی قوم کی کوئی عزت نفس نہیں ہونی چاہیے میں ان کی بات سے پوری طرح اتفاق کرتی ہوں کہ مغربی ممالک ہمیں امداد دیتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ وہ یہ امداد کس کو دیتے ہیں اس ملک میں دو کلاسیں ہیں اٹھانوے فی صد اکثریت والی لوئر کلاس اور دو فی صد اقلیت والی اپر کلاس۔ جو امداد ہمیں باہر سے ملتی ہے وہ دراصل اس دو فی صد کلاس کے کام آتی ہے اس کلاس میں بڑے بڑے بیوروکریٹ، صنعت کار اور سیاست دان شامل ہیں، اور زارون بھی اسی کلاس کے ایک فرد ہیں بیرونی امداد اسی کلاس میں بینک کے قرضے اور کرپشن کے ذریعے تقسیم ہوتی ہے اور ملکی مفادات کا سودا نہ کرنے کی صورت میں اگر امداد بند ہوتی ہے تو اسی کلاس کے مفادات متاثر ہوں گے، سو اس کلاس کے ایک فرد ہونے کی حیثیت سے آپ امداد بند ہونے کی صورت میں زارون جنید صاحب کی پریشانی سمجھ سکتے ہیں۔”
”آپ ذاتیات پر اتر رہی ہیں۔” میں نے تلملا کر اس کی بات کاٹ دی تھی میرے لیے اس سے زیادہ برداشت کرنا ناممکن تھا اور مجھے یہ ڈر تھا کہ اگر اب میں نے اسے نہ ٹوکا تو وہ میرے رہے سہے امیج کو بھی تباہ کر دے گی لیکن میں نے اسے جتنی بلند آواز میں ٹوکا تھااس کی آواز جواباً مجھ سے بھی بلند تھی، اس کے اطمینان اور یکسوئی میں ذرہ برابر کمی نہیں ہوئی تھی۔
”میں ذاتیات پر حملہ نہیں کر رہی ہوں۔ کیا آپ اس بات سے انکار کر رہے ہیں کہ آپ ایک صنعت کار کے بیٹے ہیں۔”
”میں اس بات کو کب انکار کر رہا ہوں کہ میں ایک صنعت کار کا بیٹا ہوں۔” میں اس کی بات پر بھنّا اٹھا تھا۔
”جب آپ اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں تو آپ کو اعتراض کس چیز پر ہے کیا یہ بات درست نہیں ہے کہ بیرونی امداد کا بڑا حصہ اپر کلاس بینک قرضوں کی صورت میں لیتی ہے۔”
”ہم جو روپیہ قرضوں کی صورت لیتے ہیں، اسے سود کے ساتھ واپس بھی کرتے ہیں۔” مجھے اس پر بے تحاشہ غصہ آ رہا تھا۔
”مجھے اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ آپ وہ روپیہ واپس نہیں کرتے ضرور کرتے ہوں گے، میں تو صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ وہ امداد صرف آپ لوگ استعمال کرتے ہیں، صرف دو فی صد اپر کلاس۔ اٹھانوے فی صد لوئر کلاس نہیں کیا آپ اب بھی اس بات کو تسلیم نہیں کریں گے اپنے اس اعتراف کے بعد بھی کہ آپ وہ امداد استعمال کرتے ہیں۔”
فوری طور پر میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں اس کی بات کا کیا جواب دوں، آخری کوشش کے طور پر میں نے سر ابرر سے کہا۔
”سر ! آپ اسے روک کیوں نہیں رہے؟”
”اس کا جواب بھی میں ہی آپ کو دیتی ہوں کہ سر ابرار مجھے کیوں نہیں روک رہے کیونکہ آپ نے ہمیں کرپٹ قوم کہا ہے اور میرے اور پوری کلاس کے ساتھ ساتھ سر ابرار کے جذبات بھی بری طرح مجروح ہوئے ہیں۔”
وہ سر ابرار کے بولنے سے پہلے ہی بول اٹھی تھی۔ سر ابرار کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی، وہ ایڈیٹ بڑی چالاکی سے بول رہی تھی۔
”زارون ! میں نے آپ کو بھی بولنے سے نہیں روکا تھا، آپ نے بھی اپنی بات مکمل کی تھی، اب دوسروں کو بھی کرنے دیں۔”
میں خاموش ہو گیا، میری اپنی بڑھائی ہوئی بات میرے گلے میں پھندے کی طرح اٹک گئی تھی۔ سر ابرار کی طرف سے بات جاری رکھنے کا سنگل ملتے ہی وہ پھر شروع ہو گئی تھی۔
”سو جب ہم لوگوں کو اس امداد میں کچھ ملتا ہی نہیں تو ہم پھر کس چیز کے لیے اپنی آزادی اور خود مختاری کا سودا کرتے پھریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ابھی تک سوئی تک نہیں بنا سکتے اگر ایسا ہے تو اس میں ہمارا قصور کیا ہے؟ یہ لوگ بنائیں سوئی کیونکہ یہ لوگ فیکٹریز لگاتے ہیں ہم لوگ نہیں ہم لوگوں کے پاس تو فیکٹری لگانے کے لیے روپیہ ہی نہیں ہوتا زارون صاحب نے فرمایا ہے کہ ہم لوگ دو دن گوشت کھانا نہیں چھوڑ سکتے تو اس ملک کی اٹھانوے فیصد آبادی گوشت کھاتی کہاں ہے جو وہ اسے کھانا چھوڑ دے، ان کو تو دال مل جائے تو وہ شکر کرتی ہے گوشت کے چونچلے تو اسی دو فیصد کلاس نے پالے ہوئے ہیں۔ زارون صاحب نے فرمایا کہ ہم نعرہ باز اور کرپٹ قوم ہیں۔ مجھے یہ صرف ایک ایسے ملک کا نام بتا دیں جہاں کرپشن سرے سے ہوتی ہی نہیں جس امریکہ کے یہ گن گاتے ہیں کیا وہاں کرپشن نہیں ہوتی؟ ہاں ٹھیک ہے پاکستان میں بھی کرپشن ہوتی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ وہ اٹھانوے فیصد کلاس دو روپے کی کرپشن کرتی ہے اور وہ دو فیصد کلاس کروڑوں کی اگر وہ اٹھانوے فیصد کلاس کرپشن چھوڑ بھی دے تو کیا یہ دو فیصد کلاس چھوڑ سکتی ہے؟”
اس کا لہجہ بے حد تلخ تھا اور میرے لیے کچھ بولنا دشوار تھا۔
”زارون صاحب کو یہ افسوس ہے کہ فارن پالیسی باڑہ مارکیٹ میں ڈسکس ہوتی ہے۔ فارن پالیسی سبزی منڈی میں بھی ڈسکس ہو گی بلکہ ہر اس جگہ ہوگی جہاں وہ اٹھانوے فی صد لوگ رہتے ہیں انہیں بات کرنے کا حق کیوں نہیں؟ کیا وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں؟ یہ جس امریکہ کی مثال دے رہے تھے وہاں پر تو کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ فارن پالیسی پر عام لوگ بات نہ کریں وہاں تو Opinion پولز کے ذریعے ان کی رائے جان کر ہر پالیسی تشکیل دی جاتی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ اگر امریکہ ہمارا کاٹن ایکسپورٹ کا کوٹہ ختم کر دے تو ہماری معیشت ختم ہو جائے گی، امریکہ ایسا کرنا چاہتا ہے تو ضرور کرے کیونکہ اس اقدام سے بھی اسی دو فیصد اپر کلاس کو نقصان پہنچے گا۔ ان کی فیکٹریز بند ہوں گی۔ انہیں کے فارن ٹورز ختم ہوں گے وہ اٹھانوے فیصد لوگ تو پہلے بھی زندگی گزار ہی رہے تھے تب بھی گزار لیں گے صرف یہ فرق آئے گا کہ پہلے وہ سالن کے ساتھ روٹی کھاتے تھے تب اچار یا چٹنی کے ساتھ کھانا پڑے گی تو یہ ان کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ ان لوگوں کا سالن بھی چٹنی سے بہتر نہیں ہوتا۔
ویسے اگر امریکہ ہمارا کاٹن ایکسپورٹ کا ٹھیکہ ختم کر بھی دے تو کیا ہم پہلے لوگ ہوں گے جن کے ساتھ وہ یہ سلوک کرے گا کیا پہلے اس نے کبھی کسی کے ساتھ ایسا نہیں کیا اور جن کے ساتھ اس نے ایسا کیا ہے کیا وہ ملک ختم ہو گئے ہیں؟ جی نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ ویت نام کا بھی تو بائیکاٹ کیا ہوا ہے اس نے۔ مگر کیا وہ ملک ختم ہو گیا ہے؟ اگر زارون صاحب کی نظر اکنامک افیئرز پر رہتی ہو تو انہیں معلوم ہو گا کہ ویت نام کی اکانومی تیز ترین ترقی کرنے والی اکانومی میں سے ایک ہے اور امریکہ کے اپنے سرمایہ کار گورنمنٹ کو پریشرائز کر رہے ہیں کہ وہ بھی اس بائیکاٹ کو ختم کر دے اور امریکہ نے تو چائنا کا بھی بائیکاٹ کیا ہوا تھا کیا چائنا ختم ہو گیا ہے؟ جی نہیں ایسا نہیں ہوا بلکہ امریکہ اب چائنا کے ساتھ روابط استوار کرنے کے چکر میں ہے اور اس سلسلے میں وہ اپنی مدد کے لیے بقول آپ کے کرپٹ پاکستان کی مدد طلب کر رہا ہے انہوں نے کہا تھا کہ ہر پاکستانی امریکہ جانے کے چکر میں ہوتا ہے تو اس میں بری بات کیا ہے؟ ہر ایک کو حق ہوتا ہے کہ وہ بہتر سے بہتر کے لیے جدوجہد کرے پھر جو پاکستانی امریکہ پہنچ جاتے ہیں۔ وہ وہاں جا کر بھی زر مبادلہ پاکستان ہی بھیجتے ہیں، ان کی کلاس کی طرح فارن اکاؤنٹس نہیں کھلواتے انہوں نے میرے خیالات کو اس لیے احمقانہ قرار دیا کیونکہ وہ ان کی طرح پرو امریکن نہیں تھے ان کی اپنی سوچ آزاد زمین پر رہتے ہوئے بھی غلامانہ ہے ان کے لیے تو بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
کلاس میں چھائی ہوئی خاموشی اس کے شعر پر ملنے والی داد سے ٹوٹی تھی۔ میں بالکل ساکت اور خاموش تھا کیونکہ کہنے یا کرنے کے لیے اس وقت میرے پاس کچھ تھا ہی نہیں، سر ابرار نے اس سے کہا تھا ”کشف ! میں آپ کے نظریات کی تائیدکرتا ہوں کیونکہ وہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں۔”
میں جیسے جہنم میں دہک اٹھا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ اس کے بعد کلاس میں کس نے کیا کہا ہاں سر ابرار کے کلاس سے نکلنے کے بعد میں سیدھا اس کے پاس آیا تھا، جی تو میرا یہ چاہ رہا تھا کہ اسے کرسی سمیت اٹھا کر باہر پھینک دوں لیکن پھر بھی میں نے خود کو سنبھال لیا اور اس کے پاس رکھی ہوئی کرسی کو ٹھوکر مارتا ہوا باہر نکل گیا۔ میں کلاس سے نکلنے کے بعد سیدھا سر ابرار کے کمرے میں پہنچا تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ حیران نہیں ہوئے شاید وہ بھی میری آمد کی توقع کر رہے تھے۔
”آپ میرے ساتھ اچھا نہیں کر رہے ہیں۔” میں نے جاتے ہی ان سے کہا تھا۔
”مثلاً کیا اچھا نہیں کر رہا ؟” مجھے ان کے اطمینان پر مزید غصہ آیا۔
”آپ اسے مجھ سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اسے کچھ بھی کہنے سے نہیں روکتے اور میری ٹھیک بات کو بھی کاٹ دیتے ہیں پھر ہر بات پر اس کی تعریف کرتے ہیں چاہے وہ کتنی ہی عام سی بات کیوں نہ ہو لیکن میری تعریف آپ کبھی نہیں کرتے۔”
”کیا تم اس سے جیلس ہو رہے ہو؟” سر ابرار کا سوال مجھے تپا گیا تھا۔
میں تقریباً چلا اٹھا تھا ”ہے کیا اس میں کہ میں اس سے جیلس ہوں گا کیا اس لیے کہ اس کی شکل مجھ سے اچھی ہے یا اسٹیٹس مجھ سے بہتر ہے یا پھر اس کا اکیڈمک ریکارڈ مجھ سے بہتر ہے، آخر کون سی چیز ہے جس میں وہ میرے پاسنگ ہے پھر بھی آپ پوچھ رہے ہیں کہ کیا میں اس سے جیلس ہو رہا ہوں۔”
”ہاں ، وہ کسی بھی چیز میں تمہارے پاسنگ نہیں ہے پھر بھی وہ تمہیں لاجواب کر دیتی ہے بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ تمہارا حشر نشر کر دیتی ہے۔”
سر ابرار اسی اطمینان سے باتیں کر رہے تھے اور ان باتوں پر میرا بلڈ پریشر ہائی ہوتا جا رہا تھا۔
”صرف آپ کی کلاس میں وہ اتنی بکواس کرتی ہے، کسی اور جگہ نہیں بولتی،” میری آواز بہت بلند تھی اس لیے سر ابرار کے تیوریک دم بدل گئے تھے۔
”بی ہیویور سیلف۔ تم کسی کباڑی کی دکان پر نہیں کھڑے ہو جو اس انداز میں بات کر رہے ہو پچھلے پانچ منٹ سے میں تمہاری بکواس سن رہا ہوں تم کیا چاہتے ہو کہ میں تمہیں گود میں لے کر کلاس میں بیٹھا کروں، میں تمہارا پروفیسر ہوں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔”
ان کے لہجے میں آنے والی تبدیلی نے مجھے بہت تکلیف پہنچائی۔ ”آپ میرے پروفیسر ہیں اور کچھ نہیں تو آج سے پہلے آپ نے یہ بات مجھے کیوں نہیں بتائی، صرف اس ایک لڑکی کے لیے آپ مجھے یہ کہہ رہے ہیں، اگر میں نے آپ کو صرف ایک پروفیسر ہی سمجھا ہوتا تو کبھی آپ کے رویے کی شکایت کرنے نہ آتا کیونکہ کسی بھی ٹیچر کے اچھے یا برے رویے کا میری ذات پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی مجھے ان سے کوئی توقع ہے مگر بات تو آپ کی ہو رہی ہے، صرف آپ کی۔”
”بیٹھ جاؤ زارون ! زیادہ جذباتی مت بنو۔” میری لمبی تقریر کے جواب میں انہوں نے صرف ایک جملہ کہا تھا۔
”میں تب تک یہاں نہیں بیٹھوں گا جب تک آپ اپنا رویہ نہیں بدلتے۔”
”بیٹھ جاؤ اور زیادہ ڈرامہ مت کرو۔” اس بار انہوں نے مجھے جھڑک دیا اور میں خاموشی سے کرسی کھینچ کر ان کے سامنے بیٹھ گیا۔
”دیکھو زارون ! تم مجھے جس قدر عزیز ہو، کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ مجھے تم سے بہت محبت ہے۔ اس لیے نہیں کہ تم میرے بہترین دوست کے بیٹے ہو صرف اس لیے کیونکہ تم شروع سے ہی میرے بہت قریب رہے ہو، میرا اپنا کوئی بیٹا نہیں ہے اور میں نے ہمیشہ تمہیں اپنا بیٹا ہی سمجھا ہے میں اگر اس قسم کا رویہ تمہارے ساتھ رکھ رہا ہوں تو صرف اس لیے کہ تم اپنے آپ پر تنقید برداشت نہیں کرتے اور زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے تنقید برداشت کرنا بے حد ضروری ہے اور ویسے بھی تمہیں تعریف کی ضرورت ہی کیا ہے تم جس حد تک مکمل ہو تم اچھی طرح جانتے ہو لیکن کشف کو تعریف کی ضرورت ہے۔ میں اس کے بارے میں بہت زیادہ نہیںجانتا، لیکن وہ بہت سی مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے یہاں پڑھ رہی ہے اس میں بہت ٹیلنٹ ہے لیکن وہ اس سے بے خبر ہے۔ تھوڑی سی حوصلہ افزائی اسے سنوار سکتی ہے میں چاہتا ہوں ، وہ اپنی ساری توجہ تعلیم پر ہی رکھے۔ یہاں کے خراب ماحول کی بھینٹ نہ چڑھے وہ بہت معصوم ہے۔ پتا ہے کبھی کبھار وہ مجھے ایک ننھے سے چکن کی طرح لگتی ہے۔”
”وہ ننھا سا چکن نہیں، چکن پاکس ہے۔ آپ نے اسے بولتے دیکھا ہے ایسے بات کر رہی تھی جیسے مجھے تو دس سال پہلے پھانسی دے دینی چاہیے تھی۔”
میں سر ابرار کی بات پر غصہ سے تلملا اٹھا لیکن وہ ہنسنے لگے۔
”تم پر میری کسی بات کا اثر نہیں ہوتا۔ تم ناقابل اصلاح ہو آئندہ اس قسم کی فضول باتوں کے لیے میرے پاس مت آنا۔”
میں اگرچہ کافی ناراض ہو کر ان کے پاس سے آیا تھا لیکن ان کی باتوں نے مجھے میرے کام کی بات بتا دی تھی۔ سر ابرار یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک بڑی معصوم اور پاک باز لڑکی ہے جسے ابھی کالج کی ہوا تک نہیں لگی، حالانکہ انہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسے ابھی کالج آئے ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ بھی کالج کے رنگ میںرنگ جائے گی کیونکہ نہ تو وہ کوئی فرشتہ ہے اور نہ آسمان سے نازل ہوئی ہے میں اس کے امیج کو اس طرح خراب کر دوں گا کہ اس کی معصومیت کا تاثر ختم ہو جائے گا پھر میں دیکھوں گا کہ سر ابرار اسے کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ آج تک میں نے کسی عام شکل و صورت کی لڑکی کے ساتھ افیئر نہیں چلایا اب میرا یہ ریکارڈ بھی ٹوٹ جائے گا، ایک بات میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ میرا سب سے آسان شکار ثابت ہو گی کیونکہ اس جیسی مڈل کلاس کی لڑکیاں تو ہم جیسے لڑکوں کی چند مسکراہٹوں سے ہی متاثر ہو جاتی ہیں اور ہماری طرف سے ملنے والے چند تحائف انہیں اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیتے ہیں کہ ہم ان کے عشق میں گرفتار ہو گئے ہیں اور شادی کرکے انہیں اپر کلاس میں لے آئیں گے۔ مجھے بھی دیکھنا ہے کہ مڈل کلاس کی یہ لڑکی میری پیش قدمی پر کس قدر مزاحمت کر سکتی ہے، آخر تو وہ پھنس ہی جائے گی۔ میں جانتا ہوں۔
…**…




Loading

Read Previous

دوسرا دوزخ

Read Next

عورت، مرد اور میں — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!