زندگی گلزار ہے — عمیرہ احمد

20 اپریل
میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ سات سال بعد یہ شخص زارون جنید میرے لیے دوبارہ عذاب بن جائے گا۔ اس قدر ڈھیٹ اور کمینہ آدمی میں نے پوری زندگی میں نہیں دیکھا۔
آج میں بہت تھکی ہوئی تھی۔ ایک بڑے سیاسی لیڈر کی پبلک میٹنگ کے انتظامات کا جائزہ لے کر آئی تھی۔ جب غیر متوقع طور پر امی کا فون آ گیا۔امی نے میری خیریت پوچھتے ہی مجھ سے کہا تھا۔
”تمہارے لیے ایک بہت اچھا رشتہ آیا ہے۔”
ان کی بات مجھے غیر معمولی نہیں لگی۔ میں جانتی تھی کہ آج کل وہ میرے رشتے کے بارے میں کافی فکر مند رہتی ہیں۔
”وہ لوگ بہت اعلیٰ خاندان کے ہیں۔ میں توحیران ہوں کہ ہمارے گھر آ کیسے گئے۔” امی نے لمبی تمہید باندھنا شروع کی۔
”امی پلیز ! مختصر بات کریں۔ تعریفوں کے اتنے لمبے پل مت باندھیں۔” میں کھانا کھا کر جلد از جلد سو جانا چاہتی تھی۔
”وہ لوگ لاہور سے آئے ہیں۔ ان کا بہت بڑا کاروبار ہے۔ یہ ان کا سب چھوٹا بیٹا ہے۔ تمہارے والے مضمون میں ہی ایم اے کیا ہے اس نے بھی اور آج کل وزارت خارجہ میں افسر ہے۔ اسلام آباد میں ہوتا ہے، وہ اپنا کارڈ بھی دے کر گئے ہیں اور لڑکے کا نام …۔”
”زارون جنید ہے۔ ہے نا؟” میں تب تک جان چکی تھی کہ وہ کون ہو سکتا ہے۔
امی حیران ہوئی تھیں۔ ”تمہیں کیسے پتا؟”
”آپ ایسا کریں کہ کارڈ سے اس کے گھر کا نمبر مجھے بتائیں اور اس رشتے کو بھول جائیں۔”
”کشف !تم کیاکرنا چاہتی ہو؟” امی پریشان ہو گئی تھیں۔
”کچھ بھی نہیں ، آپ بس نمبر مجھے لکھوا دیں۔”
کچھ توقف کے بعد انہوں نے مجھے فون نمبر لکھوا دیا تھا۔ پھر میں اس فون نمبر پر رنگ کرتی رہی۔ چند بار نمبر ملانے کے بعد نمبر مل ہی گیا تھا۔ کسی نے فون اٹھایا تھا میں نے نمبر دہرا کرپوچھا۔
”جی جہاں ، آپ کو کس سے بات کرنی ہے؟” اس شخص نے کہا۔
”زارون اگر گھر پر ہے تو اسے بلا دیں۔”
”جی وہ گھر پر ہیں۔ آپ کون ہیں؟”
”میرا نام صائمہ ہے، میں ان کی دوست ہوں۔”
وہ مجھے ہولڈ کرنے کا کہہ کر چلا گیا۔ کچھ دیر کے بعد ریسیور میں جو آواز ابھری تھی اسے سن کر پہچاننے میں مجھے کوئی دقت نہیں ہوئی وہ زارون تھا۔
”ہیلو۔ آپ کون ہیں؟” کچھ دیر کے لیے تو میں طیش کے مارے کچھ بول ہی نہیں پائی، پھر میں نے اس سے کہا۔
”تمہاری اتنی ہمت کیسے ہوئی کہ تم اپنے والدین کو میرے گھر بھیجو”
”اوہ یہ تم ہو۔” اس کی آواز ایک دم آہستہ ہو گئی تھی، میں تمہارا فون آنے کی توقع تو کر رہا تھا مگر اتنی جلدی نہیں۔ دیکھو، میں اس وقت کھانا کھا رہا ہوں۔تم کچھ دیر بعد مجھے رنگ کرنا۔”





”میں تمہیں دوبارہ فون نہیں کروں گی۔ مجھے صرف یہ بتانا تھا کہ آئندہ اپنے والدین کو ہمارے گھر مت بھیجنا۔”
”اس مسئلے پر کچھ دیر بعد بات کریں گے۔ چلو میں خود تمہیں رنگ کرلوں گا۔”
میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی اس نے فون بندکر دیا۔ تقریباً آدھ گھنٹے کے بعد اس نے مجھے فون کیا تھا۔
”تم نے فون کر ہی لیا ہے تو میں اپنی بات دہرا دیتی ہوں۔ اپنے ماں باپ کو اب میرے گھر مت بھیجنا۔”
”کیوں؟”
”وہ میرا گھر ہے اور میں وہاں فضول لوگوں کا آنا جانا پسند نہیں کرتی۔”
”وہ تمہارا گھر نہیں ہے، تمہارا گھر وہ ہے، جو میرا گھر ہے جہاں تک والدین کو روکنے کی بات ہے تو وہ میں نہیں کر سکتا، انہیں میری شادی کرنا ہے اب یہ ان کی مرضی کہ وہ رشتہ لے کر کہاں جاتے ہیں۔”
مجھے اس کی بات پر بے تحاشا طیش آیا تھا۔
”اب اگر وہ ہمارے گھر آئے تو میں ان کی بہت انسلٹ کروں گی۔”
”تم ایسا نہیں کرسکتیں۔”
”انہیں میرے گھر بھیج کر دیکھ لینا کہ میں ایسا کر سکتی ہوں یا نہیں۔”
میں نے فون بند کر دیا۔ اس نے دوبارہ رنگ کرنے کی کوشش نہیں کی اور میں نے کم از کم اس بات پر سکون کا سانس لیا تھا۔
میں نہیں جانتی تھی کہ یہ شخص اس قدر ڈھیٹ ہے اور مجھے حیرت ہے کہ اس نے میرے گھر کا پتا کہاں سے لیا ہے۔ پہلے بھی مجھے اس کی وجہ سے پریشانی اٹھانی پڑی تھی۔ اب پھر وہ میرے لیے مصیبت بن گیا ہے، پتا نہیں خدا مجھے پر سکون کیوں نہیں رہنے دیتا۔ ہر آدمی کو کبھی نہ کبھی تو آرام مل ہی جاتا ہے مگر میرے نصیب میں تو شاید یہ ہے ہی نہیں۔
…**…
25اپریل
کچھ دن اتنے خوبصورت ہوتے ہیں کہ آپ کو ہمیشہ یاد رہتے ہیں حالانکہ آپ کو ظاہراً ان دنوں میں کچھ نہیں ملتا۔ آج کا دن بھی ایساہی تھا آج پہلی بار میں کشف کوجھکانے میں کامیاب ہوا ہوں اور اس خوشی کو، اس احساس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔
آج سر ابرار نے کشف کو اپنے گھر بلایا تھا۔ میں صبح سے ان کے پاس تھا کیونکہ کشف نے اپنے آنے کا وقت نہیں بتایا تھا۔ جب ملازم نے اس کے آنے کی خبردی تو سر ابرار نے مجھے ساتھ والے کمرے میں بھیج دیا۔ میں ایک چیئر اٹھا کر اس کمرے کے دروازے کے پاس لے آیا اور دروازے کو تھوڑا سا کھول دیا تا کہ ان کے درمیان ہونے والی گفتگو سن سکوں جہاں میں بیٹھا تھا وہاں سے اس کی پشت صاف نظر آ رہی تھی۔ لیکن وہ مجھے نہیں دیکھ سکتی تھی سو میں خاصا بے فکر تھا۔
رسمی بات چیت کے بعد سر ابرار سے اس نے اس بلاوے کی وجہ پوچھی تھی۔
”کشف ایک دن پہلے زارون کے پیرنٹس تمہارے گھر گئے تھے؟”
سرابرار نے بات شروع کی۔ میں اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن اس کے بولنے سے اندازہ ہوا کہ وہ کافی حیران تھی۔
”سر ! آپ کو کیسے پتا چلا؟”
”انہیں میں نے ہی تمہارے گھر بھیجا تھا۔”
”تو پھر آج بھی آپ نے مجھے اسی لیے بلایا ہو گا۔”
”ہاں۔ میں نے تمہیں یہ جاننے کے لیے بلایا ہے کہ تم انکار کیوں کر رہی ہو؟”
”سر ! آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں انکار کیوں کررہی ہوں اور مجھے آپ سے کم از کم یہ توقع نہیں تھی کہ آپ اس کی سفارش کریں گے۔”
اس کے لہجے میں شکایت کا عنصر نمایاں تھا۔
”دیکھو کشف ! اگر تمہارے انکار کی وجہ صرف وہ واقعہ ہے تو یہ کوئی وجہ نہیں ہے۔ وہ سب ماضی کاحصہ ہے اور ماضی کو بھلا دینا بہتر ہو گا۔ پھر اس نے تب بھی تم سے معافی مانگی تھی اور اب بھی اگر تم چاہو تو وہ دوبارہ معذرت کرنے کے لیے تیار ہے اس ایک بات کے علاوہ تم کس بنیاد پر یہ پرپوزل ریجیکٹ کر رہی ہو؟”
سر ابرار اسے قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
”سر ! آپ اس کی طرف داری کیوں کر رہے ہیں؟”
”کیونکہ وہ میرا اسٹوڈنٹ ہے اور تم بھی اور ہر ٹیچر اپنے اسٹوڈنٹس کی بہتری ہی چاہتا ہے اور پھر میں اس سے زیادہ تمہاری بہتری کے لیے سوچ رہا ہوں۔ تمہیں اس سے اچھا شخص نہیں ملے گا۔”
”آپ اسے اچھا کیوں کہہ رہے ہیں۔کیا صرف دولت اور خوبصورتی کی وجہ سے؟ یہ دونوں چیزیں کبھی مجھے انسپائرکرتی تھیں، اب نہیں اب میری زندگی میں ان کی اہمیت کافی کم ہو چکی ہے اور اس پرپوزل سے انکار کی واحد وجہ وہ واقعہ نہیں ہے اور بھی بہت سی وجوہات ہیں۔ سر! میں بہت عملی اور حقیقت پسند ہوں میں ان لڑکیوں میں سے نہیں ہوں جو صرف یہ دیکھ کر شادی کرلیتی ہیں کہ امیر بندے سے شادی کر کے وہ مڈل کلاس سے اپر کلاس میں چلی جائیں گی۔ میری بہنوں کی شادی وہاں ہوئی ہے جہاں بے تحاشا پیسہ نہیں ہے مگر وہاں ان کی عزت اور قدر ضرور کی جاتی ہے انہیں یہ فکرنہیں ہے کہ پتا نہیں ان کا شوہر کہاں ہوگا؟ کس کے ساتھ ہو گا کیا کر رہا ہو گا؟ انہیں یہ مسئلہ نہیں ہے کہ ان کے شوہر کے افیئرز ہیں یا ایسی دوسری چیزیں اور آپ زارون کو لیں۔ میں ایسے بندے سے شادی کیسے کر سکتی ہوںجس کا ماضی میرے سامنے ہے، جوعورت کو وقت گزارنے کا ذریعہ سمجھتا ہے جو عورت کی عزت کرنا نہیں جانتا، آپ کہیں گے وہ بدل گیا ہے میں کہتی ہوں وہ نہیں بدلا نہ بدل سکتا ہے پھر میرے اور اس کے خاندان کے درمیان کوئی میچ نہیں ہے یہ طبقاتی فرق میرے لیے ہمیشہ عذاب رہے گا۔
میں مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہوں اور وہ یہ بات کبھی نہیں بھلا سکیں گے۔ میری ہر غلطی کو وہاں ایکسپلائٹ کیا جائے گا۔ ہر بات پر نکتہ چینی کی جائے گی۔ انسان اپنی زندگی کو آسان بنانے کے لیے شادی کرتا ہے مزید مشکل بنانے کے لیے نہیں۔ سو میں زارون سے شادی نہیں کر سکتی۔”
وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہو گئی۔ سر ابرار بھی چپ تھے۔ میں دروازہ کھول کر اسٹڈی میں آ گیا۔
کشف نے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔
”کشف ! کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ تم خود زارون سے بات کر لو۔” سر ابرار مجھے دیکھ کر بولے تھے۔
”اب کسی بات کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ سب کچھ سن چکا ہے اور وہ مجھے قائل نہیں کر سکتا۔”
میں اس کی بات پر حیران رہ گیا تھا وہ میری موجودگی سے باخبر تھی اور سر ابرار مجھ سے زیادہ حیران تھے۔ میں کرسی کھینچ کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔
”ہاں میں تمہاری ساری باتیں سن چکا ہوں اور تم بھی مجھے قائل نہیں کر سکیں۔ تمہاری ساری وجوہات تمہارے ذاتی مفروضات پر مبنی ہیں اور زندگی مفروضات کے سہارے نہیں گزاری جا سکتی۔”
اس نے میری طرف دیکھا نہ میری بات کا جواب دیا بس کار کی رنگ سے ٹیبل کو کھرچتی رہی۔
”تم دونوں بیٹھو، میں ابھی آتا ہوں۔”
سر ابرار وہاں سے چلے گئے۔ ان کے باہر جاتے ہی اس نے کہا۔
”دیکھو جو میرا فیصلہ تھا، وہ میں سنا چکی ہوں پھر بحث کرنے کی کیا ضرورت ہے۔”
”دیکھو کشف ! میں ویسا نہیں رہا جیسا پہلے تھا۔ میں واقعی بدل چکا ہوں۔ کسی کو بدلنے کے لیے ایک لمحہ بھی کافی ہوتا ہے تو کیا مجھے بدلنے کے لیے سات سال کافی عرصہ نہیں ہے؟ میں جانتا ہوں میں پرفیکٹ نہیں ہوں۔ تم بھی پرفیکٹ نہیں ہو، کوئی بھی پرفیکٹ نہیں ہوتا۔ بس کچھ لوگ دوسروں سے بہتر ہوتے ہیں اور کچھ بدتر۔ تمہارے نزدیک میں بہتر نہیں ہوں، اپنی نظر میں میں بدتر نہیں ہوں اور تمہارے نزدیک کلاس کب سے اہم ہونے لگی؟ تم تو کہا کرتی تھیں کہ شرم اس بات پر آنی چاہیے اگر آپ برے کام کریں۔ آپ چور ہوں، کسی کوتکلیف پہنچائیں، کسی کو قتل کر دیں۔ اس پرنہیں کہ آپ غریب ہیں۔ تمہارے نزدیک تو میری کلاس عزت کے قابل بھی نہیں تھی پھر آج یہ تبدیلی کیوں؟”
”صرف میرے کہنے سے کیا ہوتا ہے عزت کے قابل صرف تم لوگوں کو ہی سمجھا جاتا ہے۔” اس کا انداز پھر وہی تھا۔
‘ ‘لیکن میں تم سے محبت کرتا ہوں۔”
”ایک پیدائشی فلرٹ کے منہ سے یہ باتیں اچھی نہیں لگتیں۔” وہ میری بات پر غرائی تھی۔
”ایسی لڑکیوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں تو سینکڑوں میں ضرور ہوگی جن سے تم یہی جملہ کہہ چکے ہوں۔”
”لیکن تم سے میں سچی محبت کرتا ہوں۔”
”سچی محبت یہ بھی تم بہت لڑکیوں سے کر چکے ہو۔ تم جیسا شخص جب یہ بات کرتا ہے تو مجھے ہنسی آتی ہے۔ تم ہر لڑکی کو ایک ہی سبز باغ دکھانے بیٹھ جاتے ہو۔”
”میں اب بھی یہی کہوں گا کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔”
میں نے بڑے اطمینان سے اپنی بات دہرا دی۔
”دیکھو میں کوئی ٹین ایجر نہیں ہوں، جسے تم ان باتوں سے بہلاؤ اور وہ بہل جائے۔ کیا ہوتی ہے یہ محبت اور بقول تمہارے سچی محبت۔ ہمارے مذہب اور معاشرے دونوں میں کہاں اس کی گنجائش ہے۔ ایک ڈھونگ رچایا ہوتاہے تم لوگوں نے لڑکیوں کو فلرٹ کرنے کے لیے دھوکا دینے کے لیے اور تم انہیں بے وقوف بنانے میں کامیاب رہے ہو۔ لیکن اس قسم کی سچی محبت کی نہ مجھے ضرورت ہے اور نہ کوئی اہمیت ہے۔ سو بہتر ہے یہ ڈھونگ تم کسی اور کے سامنے کرو۔”
اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا مگر مجھے اس کی باتیں بری نہیں لگیں۔
”تم نے جو کچھ کہا میں اس سے انکار نہیں کرتا۔ سوائے اس بات سے کہ میں تم سے فلرٹ کر رہا ہوں۔ جو فلرٹ کرتے ہیں، وہ نہ تو اپنے پرپوزل بھیجتے ہیں اور نہ اس طرح اپنی انسلٹ برداشت کرتے ہیں، میرے بارے میں تم نے جو کچھ کہا وہ ٹھیک ہے۔ ظاہر ہے تم میرے ساتھ پڑھتی رہی ہو سو میرے ماضی سے واقف ہو۔ تمہارے خیال میں میں نہ تو شریف ہوں نہ عورت کی عزت کرتا ہوں لیکن کیا تم یہ بات یقین سے کہہ سکتی ہو کہ جس شخص سے تم شادی کرو گی، وہ پارسا ہوگا اسے عورت کی عزت کرنا آتا ہو گا اس کا نہ تو کبھی کوئی افیئر رہا ہو گا نہ ہی اس نے کبھی کسی لڑکی کی طرف غلط نظر سے دیکھا ہو گا؟ نہیں کشف! تم کبھی بھی یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتیں۔ ہو سکتا ہے تمہارا شوہر تم سے اپنا ماضی چھپائے۔ تمہارے سامنے وہ خود کو بڑا اچھا ظاہر کرے۔ جیسے میں اپنی بیوی سے اپنا ماضی چھپاؤں گا اور وہ مجھے بہت اچھا سمجھے گی جب تک کہ میری کوئی غلطی اس کے سامنے نہ آ گئی۔ کیا تم بھی یہی نہیں کروگی؟
مجھ پر تمہیں اس لیے اعتراض ہے کہ تم میرے ماضی سے واقف ہو، اپنے شوہر پر اس لیے اعتراض نہیں ہو گا کیونکہ اس کا ماضی تم سے پوشیدہ ہو گا اور اگر کبھی اس کے خراب ماضی کے بارے میں جان گئیں تو پھر کیا کرو گی کیا اسے چھوڑ دو گی یا معاف کر دوگی؟ کیا اس وقت میں تمہیں یاد نہیں آؤں گا۔ کیا تم یہ نہیں کرسکتیں کہ میرے ماضی کی غلطیوں کے لیے مجھے معاف کر دو۔ میں غلطیوں سے سیکھنے والا آدمی ہوں اور جس عمر میں تم سے یہ کہہ رہا ہوں وہ توجذباتی بھی نہیں ہے اور ٹو بی ویری فرینک میں نے کبھی کسی عورت کو خراب کرنے کی کوشش نہیں کی۔ میں عورت کی عزت نہیں کرتا تھا اور اب بھی نہیں کرتا ہوں مگر میرا رومانس یاافیئر صرف یہیں تک ہوتا تھا کہ میں لڑکیوں کو تحائف دیتا، چند ڈائیلاگ بول لیتا، ڈرائیو پر لے جاتا یا کسی ہوٹل میں ڈنر کے لیے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ میں نے کبھی آخری حد پار کرنے کی کوشش نہیں کی۔ کچھ پابندیاں میں نے خود پر لگا رکھی تھیں اور وہ آج بھی ہیں۔ مجھے اپنا کیریئر بنانا تھا اور غلط چیزوں میں پڑ کر میں اسے تباہ کر بیٹھتا اور میں یہ نہیں چاہتا تھا ہو سکتا ہے تمہیں میری باتوں پر یقین نہ آئے لیکن میں سچ کہہ رہا ہوں۔
لیکن اگر تم میرا پر پوزل ریجیکٹ کر دو گی تو کیا ہو گا یہ بیسویں صدی ہے جوگ لینے کا زمانہ تو نہیں ہے۔ شادی تو مجھے کرنا ہی ہے آج نہیں توچند سال بعد سہی، تمہارے جیسی کوئی لڑکی مجھے مل ہی جائے گی کیونکہ تم دنیا میں واحد اچھی لڑکی نہیں ہو۔ ہاں مگر میں تمہیں مس ضرور کروں گا کیونکہ اس میں ہر خوبی سہی پھر بھی وہ کشف نہیں ہوگی۔ اپنے دل سے میرے خلاف میل دور کر کے دیکھو شاید تمہیں فیصلے میں آسانی ہو پھر اگر تم نے میرے حق میں فیصلہ نہ بھی کیا تب بھی میں تمہیں دوبارہ تنگ نہیں کروں گا لیکن ایک دفعہ پوری غیر جانبداری سے میرے بارے میں سوچو۔”
چار ملاقاتوں میں پہلی بار اس نے خاموشی سے میری بات سنی تھی۔ میں کچھ دیر اس کے بولنے کا انتظار کرتا رہا مگر وہ چپ رہی۔ پھر اسے خدا حافظ کہہ کر میں باہر آگیا۔ سر ابرار نے مجھے دیکھ کر پوچھا۔
”کیا کہا ہے اس نے؟”
”ابھی تو کچھ نہیں کہا۔ میں نے اسے سوچنے کے لیے وقت دیا ہے۔”
پھر انہیں وش کرتا ہوا میں گھر آ گیا۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے بعد سر ابرار نے مجھے فون کیا تھا۔
”زونی ! اب تم آئندہ میرے گھر مٹھائی لے کر آنا۔” انہوں نے چھوٹتے ہی کہا تھا۔
”مٹھائی کس لیے؟” میں کچھ حیران ہوا۔
”بھئی کشف مان گئی ہے اس لیے۔”
”وہاٹ اتنی جلدی ؟” میں حیران رہ گیا تھا۔
”اتنی جلدی سے تمہارا کیا مطلب ہے؟ کیا وہ پانچ دس سال کے بعد کچھ کہتی؟”
”سر ! اس نے کہا کیا ہے؟” میں کافی بے چین تھا۔
”اس نے کہا ہے کہ تم اپنا پرپوزل بھیجو، اگر اس کے والدین کو مناسب لگا تو ٹھیک ہے، وہ انکار نہیں کرے گی۔”
سر ابرار نے مجھے بتایا تھا، میں نے شکریہ ادا کر کے فون رکھ دیا۔ پھر شام کو میں نے کشف کو فون کیا تھا۔وہ واپس فیصل آباد پہنچ چکی تھی۔ اس کا شکریہ ادا کرنے کے بعد میں اس سے کچھ اور باتیں کرنا چاہتا تھا مگر اس نے اپنی مصروفیت کا کہہ کر فون بندکر دیا اور اب ڈائری لکھتے ہوئے میں سوچ رہا ہوں کہ وہ اتنی بری بھی نہیں ہے۔
…**…




Loading

Read Previous

دوسرا دوزخ

Read Next

عورت، مرد اور میں — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!