حسنہ اور حسن آرا — عمیرہ احمد

”آپ یقین کریں صوفی صاحب آپا کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے میرے بارے میں میں چھت پر کبھی کبھار جاتی ضرور ہوں مگر صرف ہوا خوری کے لئے”۔ حُسن آراء نے اُن کے بات کرتے ہی آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا۔
”مگر وہ کہتی ہے تم …” صوفی صاحب اس بار بات کرتے ہوئے بے اختیار جھجھکے۔ ”میرا مطلب ہے تم اور ساتھ والوں کا اکبر ایک دوسرے کو اشارے کرتے ہیں”۔
حُسن آراء نے بے اختیار اپنے گال پیٹے۔ ”میرے خدا صوفی صاحب … میں آپ کی منکوحہ ہوں میں ساتھ والوں کے اکبر کے ساتھ … آپا کو کیا ہو گیا ہے … میں بھلا جانتی نہیں کیا، کہ وہ اکبر کے ساتھ حُسنہ کی بات چلانے کی کوشش کر رہی ہیں … میں تو بس اسی لئے اگر وہ کبھی چھت پر نظر آئے تو اُس کا حال احوال پوچھ لیتی ہوں”۔
صوفی صاحب کو یک دم حُسن آراء کی بات پر یقین آ گیا۔
”دلشاد دل کی بُری نہیں ہے بس ذرا جذباتی ہو جاتی ہے’ تم پھر بھی احتیاط ہی کیا کرو … اور چھت پر زیادہ مت جایا کرو”۔
”جی اچھا میں احتیاط کروں گی”۔ حُسن آراء نے بے حد فرمانبرداری سے کہا۔
صوفی صاحب مطمئن ہو کر کمرے سے چلے گئے۔
دلشاد اور صوفی صاحب کو واقعی دوبارہ کبھی شکایت کا موقع نہیں ملا۔ اور پورے دو ہفتے کے بعد ایک دن بوا بے حد خوشی کے عالم میں ہانپتی کانپتی دلشاد کے گھر آئی۔
”ارے میرا منہ میٹھا کرواؤ دلشاد”
بوا نے آتے ہی دلشاد سے کہا۔
”کیا ہوا بوا؟ … کس بات کی مٹھائی؟”
دلشاد نے قدرے حیرانی سے بوا کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”بوا کی محنت رنگ لے آئی ہے دلشاد …
اکبر میاں کی ماں نے آج مجھے بلوا کر کہا کہ وہ کل حُسنہ کا ہاتھ مانگنے یہاں آنا چاہتی ہیں”۔
دلشاد کو ایک لمحے کے لئے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ ”کیا کہہ رہی ہو بوا؟”
اس سے پہلے کہ بوا کچھ کہتی حُسن آراء بڑے انداز سے پان چباتے اندر کمرے سے نکل آئی’ اُس کو دیکھتے ہی دلشاد نے خوشی سے جیسے بے قابو ہوتے ہوئے کہا۔
”ارے بوا ذرا اونچی آواز میں یہ خوشی کی خبر سناؤ کہ اکبر کی ماں حُسنہ کا رشتہ مانگنے یہاں آ رہی ہے”۔
حُسن آراء ان دونوں کی طرف آتے ہوئے چونکی’ ٹھٹھکی اور مسکرائی۔
”مبارک ہو آپا”۔ اُس نے دلشاد سے کہا جس نے اُس کی مبارکباد کو نظر انداز کرتے ہوئے حُسنہ کو آواز لگائی۔
”ارے حُسنہ اندر سے جلیبیاں لاؤ بوا کا منہ میٹھا کروانا ہے…”





حُسنہ چند لمحوں میں جلیبیوں کی پلیٹ کے ساتھ باہر تھی۔ یوں جیسے اُس نے پہلے ہی اندر بوا اور دلشاد کی ساری باتیں سن لی ہوں’ اُس کا چہرہ خوشی سے کھل رہا تھا۔
باہر نکلتے ہوئے حُسن آراء سے اُس کی نظریں ملیں’ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائیں ۔
اور دلشاد نے بے حد ناگواری کے ساتھ اس مسکراہٹ کو دیکھا۔

****
”دیکھا تم خوامخواہ شک کر رہی تھی حُسن آراء پر ایسی کوئی بات ہوتی تو اکبر حُسنہ کے لئے کہاں رشتہ بھجواتا”۔
صوفی صاحب کے شام کو گھر آنے پر دلشاد نے اُنہیں یہ خبر سنائی تھی اور انہوں نے دلشاد کو مبارکباد دینے کے ساتھ ہی یہ بات کہی۔
دلشاد کو بہت بُرا لگا۔ ”آپ کو ابھی بھی حُسن آراء کی صفائیاں دینے کی پڑی ہے …
”ارے یہ میری دعائیں ہیں جو رنگ لائی ہیں”۔ دلشاد نے بڑے جوش سے کہا۔ ”پھر بھی تم اُس سے معافی مانگ لینا تمہاری باتوں کی وجہ سے میں … ”
دلشاد نے صوفی صاحب کی بات تیزی سے کاٹ دی۔
”ارے اب میں اس عمر میں آپ کی اس چہیتی بیوی کے سامنے جا کر ہاتھ نہیں جوڑ سکتی … ”
”آپ اُسے منع نہ کرتے تو وہی ہوتا جس کا مجھے خدشہ تھا”۔
دلشاد بے حد غصے سے کہہ کر کمرے سے نکل گئی۔
اکبر کی ماں نے اگلے دن آ کر نہ صرف حُسنہ کا رشتہ مانگا تھا بلکہ ساتھ ہی شادی کی تاریخ بھی…
انہیں حج پر جانا تھا اور وہ جانے سے پہلے پہلے بیٹے کی شادی کر دینا چاہتی تھیں۔
جس کا مطلب تھا کہ دلشاد کو چند ہفتوں کے اندر اندر حُسنہ کو بیاہ دینا تھا۔
حُسنہ کی شادی جس مشکل سے ہو رہی تھی چند ہفتوں کی بجائے دلشاد کو اگر چند دنوں کے اندر بھی اُسے بیاہنا پڑتا تو وہ اُسے بیاہ دیتی۔
بڑی دھوم دھام سے حُسنہ کی شادی اکبر کے ساتھ دو ہفتے کے بعد ہو گئی۔
شادی کی تیاریوں میں حُسن آراء نے بھی جی جان سے ساتھ دیا تھا۔ دلشاد کو اُس کے انداز سے کہیں یہ نہیں لگا کہ وہ اس شادی سے ناخوش ہے۔ لیکن اس کے باوجود دلشاد کو اُس پر ایک عجیب سا شک تھا۔ وجہ کیا تھی اُس کی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔
شادی کی ہر رسم میں حُسن آراء آگے آگے رہی تھی اور دلشاد کو اُس کے اکبر کے یوں پاس ہونے پر یک دم اُلجھن اور گھبراہٹ ہونا شروع ہو جاتی۔ اُن دونوں کی نظروں کے تبادلے میں کچھ ایسا تھا جو دلشاد کو ٹھیک نہیں لگتا تھا۔
شادی کے بعد حُسنہ اکبر کے ساتھ دلشاد کو بے حد خوش اور مگن نظر آتی تھی’ مگر اس کے باوجود دلشاد کو تسلی نہیں ہوئی۔ اُس نے ایک بار حُسنہ سے پوچھ ہی لیا۔
”اماں میں بہت خوش ہوں اُن کے ساتھ۔ ”
حُسنہ نے شرماتے ہوئے کہا۔




Loading

Read Previous

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Read Next

حاصل — قسط نمبر ۱

One Comment

  • Can I get this book from somewhere ?

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!