حسنہ اور حسن آرا — عمیرہ احمد

آخر یہ کیسے ممکن تھا کہ یوں اچانک ایک رات صوفی صاحب ایک دوسری عورت کو بیوی بنا کر گھر لے آئیں … اُن سے بات کرتے۔ اُن سے پوچھتے، اُن کو بتاتے … یا اور کچھ نہیں تو اپنی کسی حرکت سے دلشاد کو شُبہ کرنے پر ہی مجبور کر دیتے … کچھ بھی تو نہیں ہوا تھا … وہ سیدھے سیدھے ایک بیوی لے آئے تھے … ایک بیوی … دلشاد کی آنکھوں میں سیلاب کی طرح پانی اُمڈا تھا … اُس گھر میں 35 سال کی شادی شدہ زندگی میں پہلی بار صوفی صاحب نے اُنہیں رُلایا تھا۔
”یہ ہے مہمان خانہ”۔ حُسنہ نے بے حد تیکھے تیوروں کے ساتھ اپنے پیچھے کمرے میں داخل ہوتی حُسن آراء سے کہا۔ جس نے یک دم اپنے چہرے سے نقاب ہٹا لیا۔ حُسنہ کو ایک جھٹکا لگا۔ وہ بے حد حسین نین و نقوش کی تقریباً اُس کی ہم عمر ایک لڑکی تھی۔ باپ سے گلہ کچھ اور بڑھ گیا۔
”ایک گلاس پانی ملے گا؟” حُسن آراء نے بے حد سُریلی آواز میں مسکراتے ہوئے حُسنہ کو مخاطب کیا۔ وہ کچھ کہے بغیر کمرے سے نکل گئی۔ چند لمحوں کے بعد جب وہ پانی کا گلاس لیکر کمرے میں داخل ہوئی تو اُسے ایک جھٹکا اور لگا تھا۔ حُسن آراء اب اپنا برقع اُتار کر پلنگ پر رکھ چکی تھی وہ بے حد چست قمیض اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس تھی۔ ”اور ابا نے آج تک مجھے کبھی چوڑی دار پاجامہ پہننے نہیں دیا”۔ ”حُسنہ نے بے حد سرکشی سے سوچا۔
پانی کا گلاس اُس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے حُسنہ نے حُسن آرا کو ایک بار پھر بے حد تنقیدی نظروں سے سر سے پاؤں تک دیکھا۔ ”آخر ابا کو ایسی خوبصورت لڑکی کہاں سے ملی ہو گی؟”
”شکریہ … مجھے کپڑوں کا ایک جوڑا مل سکتا ہے۔ حُسن آراء نے ایک بار پھر پانی کا خالی گلاس اُسے واپس تھماتے ہوئے اُس کے خیالات کے تسلسل کو توڑ دیا۔
”جو بھی چاہیے ایک دفعہ کہیے … میں ملازمہ نہیں ہوں کہ بار بار چکر کاٹتی پھروں۔” اس دفعہ حُسنہ نے بے حد تلخی سے اُس سے کہا۔
”بس اور کچھ نہیں چاہیے … کپڑوں کا ایک جوڑا۔” حُسن آرا نے بے حد تحمل سے کہا۔ حُسنہ اُسے گھورتے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔
حُسن آراء نے کمرے کا جائزہ لینا شروع کیا پھر کمرے کی اکلوتی کھڑکی کو کھول کر باہر جھانکنے لگی۔
تبھی حُسنہ دوبارہ کمرے میں داخل ہوئی۔ ہاتھ میں پکڑا جوڑا پلنگ پر پھینکتے ہوئے وہ کھڑکی کے پاس آئی اور بے حد تلخی سے کھڑکی کے پٹ بند کرتے ہوئے بولی۔ ”ہمارے گھر کی عورتیں کھڑکیوں میں کھڑی نہیں ہوتیں … وہ بھی رات کے اس وقت۔” حُسن آراء اُس کی بات پر یک دم سُرخ چہرے کے ساتھ شرمندہ ہوتے ہوئے بولی۔
”مجھے پتہ نہیں تھا”۔ حُسنہ نے اُس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کی بجائے اُسے بے حد عجیب نظروں سے دیکھا پھر کمرے سے باہر نکل گئی۔
”اماں یہ ابا نے کیا کیا؟ ”





”دلشاد نے بے اختیار اپنی آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کیے وہ تب سے صحن کے تخت پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ اندر جانے کی ہمت ہی نہیں ہو پا رہی تھی … صوفی صاحب کا اور اُن سے بھی بڑھ کر اُس عورت کا دوبارہ سامنا …
”دسترخوان لگایا تم نے۔” انہوں نے حُسنہ کے سوال کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے بے حد مستحکم آواز میں حُسنہ سے کہا جو اُن کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی تھی۔
”اماں آپ نے اُس کو دیکھا نہیں … اُس کی عمر میرے جتنی ہو گی …”
دلشاد نے چونک کر حُسنہ کو دیکھا۔ اُن کے دل پر جیسے ایک اور گھونسہ پڑا۔
”آخر ابا کو اس عمر میں ہو کیا گیا؟” ”فضول باتیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے … جا کر دسترخوان لگاؤ تمہارے ابا کو بھوک لگ رہی ہو گی”۔
حُسنہ نے حیران ہو کر ماں کو دیکھا۔ یہ وہ ردعمل نہیں تھا جس کی وہ توقع کر رہی تھی۔ دلشاد اُٹھ کر اندر چلی گئی۔ وہ جانتی تھی وہ وہاں کھڑی رہے گی تو حُسنہ کے سوال و جواب بھی جاری رہیں گے اور جو کچھ بھی تھا وہ بہرحال حُسنہ کو اس معاملے میں دخل انداز نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔
حُسنہ نے اتنی آسانی سے اُس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ وہ باورچی خانے میں دلشاد کے پیچھے آئی۔
”آپ ابا سے بات کریں”۔
”کیا بات کروں؟”
دلشاد نے بے حد سپاٹ انداز میں چپاتیاں بنانے کے لئے توا رکھتے ہوئے کہا۔
”اُن سے پوچھیں انہوں نے اس عمر میں کیا سوچ کر شادی…”
لیکن دلشاد نے سختی سے حُسنہ کی بات کاٹ دی۔
”یہ میری اور تمہارے ابا کی بات ہے اور مجھے تمہارے مشوروں کی ضرورت نہیں ہے … سالن گرم کرو”۔ حُسنہ نم آنکھوں سے ماں کو دیکھتے ہوئے سالن کی ہنڈیا دوسرے چولہے پر چڑھانے لگی۔
اُس رات پہلی بار دلشاد نے کئی چپاتیاں بنائیں۔ کئی جلائیں … حُسنہ کھانے کے برتن اندر دسترخوان پر لے جاتی رہی اور یہ سب کچھ دیکھتی رہی۔
ماں کو ساری عمر ایک خاندانی عورت کی طرح اُس نے اُسی رکھ رکھاؤ کا مظاہرہ کرتے دیکھا تھا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر واویلا مچا دینا یہ خاندانی عورتوں کا وطیرہ نہیں تھا اور دلشاد بیگم بھی اس وقت اسی رکھ رکھاؤ کا ثبوت دے رہی تھیں۔
”اب آپ آ جائیں برتن لگا دئیے میں نے۔”
حُسنہ نے چپاتیوں کی چنگیر اندر لے جاتے ہوئے اس بار دلشاد سے کہا۔ دلشاد کا جی چاہا کہے۔ اُس کی تو ساری عمر کے لئے بھوک ختم ہو گئی آج کے بعد سے
”تم چلو میں آتی ہوں”۔ اُس نے حُسنہ سے کہا اور اُٹھ کھڑی ہوئی۔
جس وقت وہ کھانے کے کمرے میں داخل ہوئی صوفی صاحب بھی تقریباً اُسی وقت اندر آئے۔ دسترخوان پر ایک نظر ڈالتے ہی انہوں نے قدرے خفگی کے انداز میں حُسنہ سے کہا۔
”حُسن آراء کے لئے برتن رکھنا بھول گئی حُسنہ … یاد رکھو … اب اس گھر میں چار لوگ رہتے ہیں”۔
حُسنہ نے باپ کی جھڑکی پر ایک نظر دلشاد کو دیکھا۔ جو سپاٹ چہرے کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ رہی تھی۔
”جی”۔
پھر اُس نے مدھم آواز میں باپ سے کہا اور حُسن آراء کے لئے بھی برتن رکھنے لگی۔
”جاؤ چھوٹی امی کو بُلا لاؤ”۔
دلشاد کے دل پر جیسے کسی نے آرا چلایا تھا۔ کچھ یہی حال حُسنہ کا ہوا تھا صوفی صاحب حد کر رہے تھے۔ گھر کے بٹوارے کے ساتھ ساتھ اکلوتی اولاد کے ساتھ رشتے کا بھی بٹوارہ کر رہے تھے۔
حُسنہ نے ہونٹ کاٹتے ہوئے باپ کو دیکھا جو دسترخوان پر بیٹھ رہے تھے اور پھر اُٹھ کر حُسن آرا کو بلانے کے لئے چلی گئی۔
حُسن آراء اُس کے کپڑے پہنے پلنگ پر نیم دراز تھی۔ ”ابا کھانے کے لئے بلا رہے ہیں”۔ حُسنہ نے بلند آواز میں بے حد بے زاری سے اعلان کیا۔ حُسن آراء چونک کر اُس کی طرف متوجہ ہوئی۔ پھر اُٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے لاپرواہی سے دوپٹہ گلے میں ڈالا اور اس کے ساتھ چلنے لگی۔
حُسنہ کو حیرت کا جھٹکا لگا۔ ”ابا کے سامنے اس طرح جائیں گی؟”
اُس کا اشارہ جس طرف تھا حُسن آراء سمجھ گئی تھی قدرے نادم ہو کر اُس نے جیسے دوپٹہ سر پر ٹکانے کی کوشش کی اور پھر حُسنہ سے کہا۔
”تمہارے کپڑے ٹھیک سے سلے نہیں … بہت زیادہ کھلے ہیں۔”
”ہمارے گھر میں عورتیں ایسے ہی کپڑے پہنتی ہیں … آپ کے اپنے کپڑے بہت تنگ ہیں یا پھر چھوٹے ہو گئے ہیں آپ کو۔”
حُسنہ نے اُس پر جملہ کسا اور پھر حُسن آراء کا ردعمل دیکھے بغیر باہر نکل گئی۔
حُسن آراء چند لمحے کھڑی کی کھڑی رہ گئی پھر جیسے اُس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی اور وہ باہر نکل آئی۔ جس وقت وہ کھانے کے کمرے میں پہنچی۔ دلشاد اور حُسنہ کھانا کھا رہی تھیں جبکہ صوفی صاحب اُس کا انتظار کر رہے تھے۔
”آؤ … آؤ حُسن آراء … ہم تمہارا ہی انتظار کر رہے تھے”۔
صوفی صاحب نے ایسے ظاہر کیا جیسے وہاں بیٹھے سب لوگ حُسن آراء کے منتظر تھے۔حُسنہ نے ایک بار پھر بڑی ناراضگی سے دلشاد کو دیکھا جو بظاہر کھانے کی طرف متوجہ تھی مگر حُسن آرا کے کمرے میں داخل ہوتے ہی اُس پر پڑنے والی ایک نظر ہی گویا اُس کے دل کا خون کر گئی تھی۔ وہ واقعی حُسنہ کی عمر کی تھی اور بلا کی حسین تھی۔ صوفی صاحب کے بُت کے کچھ اور ٹکڑے ہو گئے تھے۔
صوفی صاحب نے حُسن آراء کو کھانا نکال کر دیا تو دلشاد کا رنج اور بڑھا۔ یہ کام صوفی صاحب پہلے صرف اُس کے اور حُسنہ کے لئے کرتے تھے آج اُن دونوں نے خود کھانا لے لیا تھا اور صوفی صاحب ایک دوسری عورت پر یہ نواز ش کر رہے تھے۔
کھانا کھاتے کھاتے صوفی صاحب کو ہچکی آئی۔ اس سے پہلے کہ دلشاد یا حُسنہ کچھ کرتی۔ حُسن آراء نے برق رفتاری سے پانی کا گلاس اُٹھا کر صوفی صاحب کو دیا اور بسم اللہ کہتے ہوئے اُن کی پشت کو تھپکا۔ صوفی صاحب نے قدرے خجل ہوتے ہوئے پانی پیتے ہوئے چور نظروں سے دلشاد اور حُسنہ کو دیکھا جو یوں ظاہر کر رہی تھیں جیسے وہ یہ سب کچھ نہیں دیکھ رہی تھیں۔
”اور پانی دوں صوفی صاحب”۔ حُسن آراء نے بڑے انداز سے صوفی صاحب سے کہا۔ دلشاد اور حُسنہ نے بے اختیار نظریں اُٹھا کر حُسن آراء کو دیکھا مگر وہ مکمل طور پر صوفی صاحب کی طرف متوجہ تھی۔
”نہیں تم کھانا کھاؤ”۔ صوفی صاحب نے اُسے نرمی سے منع کیا۔ حُسن آراء نے یک دم ایک لقمہ توڑا اور صوفی صاحب کے منہ کے سامنے کر دیا۔ دلشاد اور حُسنہ کے ساتھ ساتھ اس بار صوفی صاحب بھی ہکّا بکّا رہ گئے تھے۔ اس بار دلشاد برداشت نہیں کر سکی تھی۔ اپنی پلیٹ کو ایک طرف کرتے ہوئے وہ تیزی سے دسترخوان سے اُٹھ کر کمرے سے نکل گئی۔ حُسنہ نے بھی یہی کیا۔ حُسن آراء چونک کر اُن دونوں کی طرف متوجہ ہوئی پھر اُس نے کچھ نادم ہو کر وہ لقمہ نیچے پلیٹ میں رکھ دیا۔
”کل حُسن آرا کے لئے گھر کا ایک کمرہ ٹھیک کروا دینا … اپنے ساتھ بازار لے جا کر اُسے کچھ کپڑے اور ضرورت کا دوسرا سامان بھی خرید دینا”۔
صوفی کھانے کے بعد بہت جلد ہی اندر اپنے کمرے میں آ گئے تھے۔ انہوں نے دلشاد سے کھانا چھوڑنے کی وجہ پوچھنے کے بجائے الماری کھول کر اپنے کپڑے نکالتے ہوئے اُسے کچھ ہدایات دیں۔




Loading

Read Previous

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Read Next

حاصل — قسط نمبر ۱

One Comment

  • Can I get this book from somewhere ?

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!