حسنہ اور حسن آرا — عمیرہ احمد

”کیوں؟ میں اُس کی ملازمہ ہوں؟”
دلشاد یک دم بھڑک اُٹھی۔
”میں نے ایسا کب کہا؟”
صوفی صاحب نے حیران ہوتے ہوئے اُسے دیکھا۔ ”اگر آپ اُسے بیاہ کر گھر لا سکتے ہیں تو بازار جا کر خریداری بھی کروا سکتے ہیں”۔
”ٹھیک ہے میں کروا دوں گا”۔
صوفی صاحب نے جیسے بات ختم کرنے کی کوشش کی۔ وہ الماری سے ایک بار پھر اپنے کپڑے ڈھونڈنے لگے۔ دلشاد کچھ دیر خاموشی سے اُن سے کسی بات کی توقع کرتی رہی۔ پھر اُس نے بے حد رنج سے صوفی صاحب سے کہا۔
”میری خدمت میں ایسی کیا کمی رہ گئی حُسنہ کے ابا کہ آپ نے اس بڑھاپے میں میرے سر پر سوکن لابٹھائی؟”
”ایسی باتیں مت کرو دلشاد … میں نے کب کہا کہ تمہاری خدمت میں کوئی کمی رہ گئی تھی۔ میرا اور حُسن آراء کا جوڑ بس قسمت میں تھا اس لئے وہ اس گھر میں آ گئی”۔
صوفی صاحب نے پلنگ پر دلشاد کے پاس آ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”آپ ”عشا” پڑھنے گئے اور میرے لئے ”سوکن” لے کر آ گئے”۔
دلشاد نے جیسے تڑپ کر کہا۔
”تم خود ہی تو کہا کرتی تھیں کہ میں دوسری شادی کر لوں … کتنا اصرار کیا تھا تم نے … یاد ہے تمہیں؟”۔
”کئی سال پہلے کی بات ہے وہ اور تب تو آپ نے میری بات مان کر نہ کی اور اب … ”
صوفی صاحب نے دلشاد کی بات کاٹی۔
”تب نہ سہی اب سہی مگر بات تو مان لی نا میں نے تمہاری”۔
”شادی ہی کرنا تھی تو کسی بڑی عمر کی عورت سے کرتے اپنی بیٹی کی عمر کی لڑکی کو بیاہ لائے … محلے والوں کو پتہ چلے گا تو کیا کہیں گے وہ؟”
”کچھ نہیں کہیں گے … چار دن باتیں کریں گے پھر خاموش ہو جائیں گے”۔
صوفی صاحب کے پاس جیسے ہر اعتراض کا جواب تھا۔
”پر اُسے لائے کہاں سے آپ؟ … کس خاندان کی ہے؟”
دلشاد کو سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اُن سے اور کیا کہے۔
”یہ سوال غیر ضروری ہیں … وہ اس گھر میں آ گئی اب یہ اُس کا گھر اور ہم سب اُس کا خاندان … باقی سب کچھ بھول جاؤ”۔
اس بار صوفی صاحب کا لہجہ بے حد سخت تھا۔
”بھولوں تو تب جب اُس کے بارے میں کچھ پتہ چلے … آپ تو اس طرح دیوانے ہوئے بیٹھے ہیں اُس کے کہ اُس کے بارے میں زبان کھول کر نہیں دے رہے”۔
دلشاد کو اُن کا لہجہ چبھا اور صوفی صاحب کو اُن کا جملہ۔





”مجھ سے جو کہنا ہے کہہ لو لیکن حُسن آراء سے اس طرح کے سوال جواب کرنے مت بیٹھنا … اس گھر میں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں چاہیے مجھے … وہ تمہاری عزت کرے گی اور تم اُسے چھوٹی بہنوں کی طرح رکھنا … دروازہ بند کر لو …”
صوفی صاحب اُٹھ کر کمرے سے چلے گئے۔ دلشاد بے اختیار اُن کے پیچھے کمرے کے دروازے تک گئی … چند گھنٹوں میں وہ ایک معزول بادشاہ کی حیثیت اختیار کر چُکی تھیں … چند گھنٹوں میں 35 سال کا ساتھی بدل گیا تھا۔ کمرے کا دروازہ بند کرنے کی بجائے وہ واپس اپنے پلنگ پر آ کر بیٹھ گئیں اور دوپٹہ آنکھوں پر رکھ کر بے اختیار پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ وہ خاندانی عورت تھیں صوفی صاحب سے یہ کیسے کہتیں کہ اُنہیں اُن سے شدید محبت تھی … 35 سال پر محیط محبت اور یہ گھر ہاتھ سے جانے کا دُکھ نہیں تھا یہ صوفی صاحب کے دل میں کسی اور کے آ جانے کا دُکھ تھا جو اُنہیں چہکوں پہکوں رُلا رہا تھا۔

****
اگلے دن کا آغاز بے حد خاموشی سے ہوا تھا۔ صوفی صاحب کو ہمیشہ کی طرح دلشاد بیگم نے ہی ناشتہ تیار کر کے دیا۔ صوفی صاحب دلشاد کی سُرخ سوجی ہوئی آنکھوں سے نظریں چراتے ہوئے اکیلے ناشتہ کرتے رہے۔ پھر ناشتہ ختم کرنے کے بعد انہوں نے اُٹھ کر جاتے ہوئے واحد جملہ کہا۔
”حُسن آراء کو ناشتے کے بارے میں پوچھ لینا … نئی آئی ہے … ابھی اُسے جھجھک ہو گی۔” دلشاد کو لگا جیسے وہ اُسے ایک بار پھر کوڑا مار کر گئے تھے وہ اُن کے سامنے بھوکی بیٹھی رہی تھی۔ انہوں نے ایک بار بھی اُس سے ناشتے کے بارے میں نہیں پوچھا اور اُس نئی نویلی دُلہن کا اُن کو اتنا خیال تھا کہ جاتے ہوئے بھی اُسی کے بارے میں تاکید کر رہے تھے۔
اُس کا دل چاہا کہ وہ اُنہیں کہے کہ وہ ناشتے کی بجائے اُسے زہر دینے میں زیادہ دلچسپی رکھتی تھی۔
اُسے ناشتہ یا زہر دونوں میں سے کچھ بھی دینے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ حُسن آراء دن ڈھلے سو کر اُٹھی تھی اور جس وقت وہ منہ دھونے کے لئے صحن میں آئی اُس وقت دلشاد کے پاس محلے کی ایک عورت آ کر بیٹھی ہوئی تھی۔ دلشاد حتیٰ المقدور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اندرونی کیفیات کو اُس عورت سے چھپا رہی تھی۔ اُسے توقع بھی نہیں تھی کہ حُسن آراء یوں اچانک باہر چلی آئے گی۔
حُسن آراء گلے میں دوپٹہ لٹکائے اسی طرح مسلے ہوئے کپڑوں میں جمائیاں لیتی ہوئی باہر نکل آئی۔ وہ دلشاد اور صحن میں بیٹھی دوسری عورت کو دیکھ کر چونکی تھی اور خود وہ عورت بھی اُسے دیکھ کر ہکاّ بکاّ رہ گئی تھی۔
”آداب۔” حُسن آراء نے سیدھا حمام کی طرف جانے کے بجائے پہلے آ کر مسکراتے ہوئے دلشاد اور اُس عورت کو آداب کیا پھر وہ حمام کی طرف چلی گئی۔
”ارے یہ کون ہے؟” اس عورت نے تجسّس آمیز انداز میں کہا
دلشاد نے حمام کی ٹونٹی کھولتی ہوئی حُسن آراء کو دیکھا اور ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
”صوفی صاحب کی دوسری بیوی”
وہ عورت بے اختیار قہقہہ لگا کر ہنسی۔
”ارے مذاق مت کر دلشاد … سچ سچ بتا کون ہے یہ؟”
”میں مذاق نہیں کر رہی… صوفی صاحب کل رات ہی نکاح کر کے لائے ہیں اسے”۔
وہ عورت بے یقینی سے اُسے اور پھر دور منہ دھوتی حُسن آراء کو دیکھتی رہی۔
”تو سچ کہہ رہی ہے دلشاد ؟ اُسے جیسے اب بھی یقین نہیں آ رہا تھا”۔
”ہاں ”
دلشاد نے رنجیدگی سے کہا اُسے پتہ تھا … اب چند منٹوں میں پورے محلے کی عورتیں ایک ایک کر کے اُس کے گھر آنے والی تھیں۔
”میرے خدا … یہ صوفی صاحب نے کیا کیا ؟ … اس عمر میں اتنی کم عمر لڑکی سے شادی کر لی”۔
”چھوڑو خالہ … اگر لڑکی کو ہی عمر کی پرواہ نہیں تو مرد کا ہے کو سوچے گا”۔
”اور ذرا اس لڑکی کے طور طریقے تودیکھو … دوپہر ہونے کو ہے اور اب سو کر اُٹھی ہے … نہ سر پر دوپٹہ … سر جھاڑ منہ پھاڑ آ کر آداب کرنے لگی”۔
خالہ اب حُسن آراء کو دیکھتے ہوئے منہ بھر بھر کر اُس کی برائیاں کرنے لگیں مگر ساتھ ساتھ اُن کی نظریں حُسن آراء کے چہرے سے ہٹ بھی نہیں رہی تھیں۔
”صوفی صاحب کی دوسری بیوی ہے خوبصورت” … اُس نے دل میں سوچا تھا۔

****




Loading

Read Previous

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Read Next

حاصل — قسط نمبر ۱

One Comment

  • Can I get this book from somewhere ?

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!