حسنہ اور حسن آرا — عمیرہ احمد

وہ اُس دن کسی کام سے حُسنہ کے گھر گئی تھیں۔ اُنہیں حُسنہ کو ساتھ لیکر حکیم کے پاس جانا تھا۔ حُسنہ ماں بننے والی تھی اور ان دنوں اُس کی طبیعت گری گری رہتی تھی۔ اکبر کی ماں کے گھر پر نہ ہونے کی وجہ سے آجکل یہ ذمہ داری بھی دلشاد کے سر پر ہی آ گئی تھی۔
حُسنہ کو اُس کے گھر سے ساتھ لیکر نکلتے ہوئے حُسنہ نے اُنہیں یاد دلایا کہ اُس کی چادر اُن کے گھر پر رہ گئی تھی۔
دلشاد نے اُس سے کہا کہ وہ اُس چادر کو بعد میں بھجوادے گی’ مگر حُسنہ کا اصرار تھا کہ وہ اُسی وقت اُس چادر کو لے گی۔
دلشاد اُسے وہیں ٹھہرا کر جلدی سے گھر واپس آئیں اور کچھ حیران رہ گئیں۔ اُن کے گھر کا بیرونی دروازہ اندر سے بند نہیں تھا۔ اُنہیں بے اختیار غصہ آیا۔ ”کہہ کر بھی گئی تھی میں حُسن آراء سے کہ دروازہ اچھی طرح بند کر لے مگر مجال ہے اُس کے کانوںپر جوں بھی رینگے”۔ وہ بڑبڑاتی ہوئی اندر آئیں اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگیں۔ مگر پھر اپنے کمرے کی طرف جاتے جاتے یک دم وہ ٹھٹھک گئیں۔ حُسن آراء کے کمرے سے ہلکے ہلکے قہقہوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ ایک لمحہ کو اُنہیں شک ہوا کہ شائد صوفی صاحب گھر پر آ گئے تھے … مگر صوفی صاحب اُس وقت گھر پر کیسے ہو سکتے تھے۔ وہ تو اُس دن محلے کی مسجد کی مرمت کروانے کے لئے سارا دن وہیں رُکنے والے تھے۔
دلشاد تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر حُسن آراء کے کمرے کے دروازے تک آئیں اور کھلے دروازے کی جھری سے اُس نے اندر جھانکا۔ اُن کے پیروں کے نیچے سے یک دم جیسے زمین نکل گئی تھی۔
کمرے میں اکبر حُسن آراء کے ساتھ موجود تھا۔ دونوں بے حد قریب قریب صوفہ پر بیٹھے تھے اور حُسن آراء وقفے وقفے سے اکبر کے کندھے پر سر رکھ رہی تھی۔
ایک لمحے کو دلشاد کا دل چاہا وہ اندر جائے اور حُسن آراء کو بالوں سے پکڑ کر کھینچتی ہوئی باہر لے آئے مگر دوسرے ہی لمحے ہوش نے جیسے جوش کی جگہ لے لی تھی۔
دبے پاؤں وہاں سے ہٹ کر دلشاد تقریباً بھاگتے ہوئے گھر سے نکلیں اور مسجد جا پہنچیں۔
آج بالآخر اُن کے پاس حُسن آراء سے جان چھڑانے کا سنہری موقع ہاتھ آہی گیا تھا … صوفی صاحب کو اُن کی زبان پر یقین نہیں تھا آج وہ اُنہیں آنکھوں دیکھی صرف سُنا نہیں دکھا بھی سکتی تھیں۔
صوفی صاحب اس طرح اُنہیں اچانک مسجد میں دیکھ کر گھبرا گئے تھے اور دلشاد کے گھر چلنے کے اصرار پر وہ کچھ اور تشویش میں مبتلا ہو گئے۔
مگر دلشاد کے مجبور کرنے پر وہ سوال جواب کرنے کی بجائے اُن کے ساتھ گھر چل پڑے تھے۔
دلشاد پانچ منٹ کے فاصلہ کو طے کرتے ہوئے دعائیں کرتی رہی تھیں کہ اکبر ابھی بھی اُس کے گھر پر ہی ہو اور زندگی میں پہلی بار اُن کی دعائیں رنگ لائی تھیں۔
وہ جب صوفی صاحب کو اپنے ساتھ لے کر حُسن آراء کے کمرے میں پہنچیں تو اکبر اور حُسن آراء وہیں پر اُسی طرح اٹھکیلیاں کرنے میں مصروف تھے۔
دروازہ یک دم کھلنے پر وہ دونوں ہڑبڑا کر اُٹھے تھے۔ قیامت اُن دونوں پر نہیں ٹوٹی تھی۔ صوفی صاحب کا چہرہ دیکھ کر دلشاد کو لگا جیسے قیامت صوفی صاحب پر ٹوٹ پڑی ہو۔ اکبر چند لمحے تھر تھر کانپتا رہا پھر سرجھکا کر ایک لفظ کہے بغیر حُسن آراء کے کمرہ سے چلا گیا۔





”دیکھ لیا آپ نے … یہ تھا وہ سچ جسے میری زبان سے سن کر آپ کو کبھی اعتبار نہیں آیا”۔
دلشاد نے بلند آواز میں صوفی صاحب سے کہا۔ جو صرف حُسن آرا کو دیکھتے جا رہے تھے۔
”یہی دن دیکھنے کے لئے خاندانی عورت کے سامنے طوائف لائے تھے آپ… ارے میں نہ کہتی تھی یہ طوائفیں کبھی خاندانی نہیں ہو سکتیں… ارے صوفی صاحب تین لفظ کہہ کر اسے ابھی فارغ کریں”۔
دلشاد نے صوفی صاحب سے کہا حُسن آرا نے سر اُٹھا کر صوفی صاحب کو نہیں دیکھا۔ سرجھکائے ہوئے کہا۔
”طلاق نہ دیں صوفی صاحب میں ویسے ہی گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہوں”۔
مدھم آواز میں اُس کے جملے نے دلشاد کے تن بدن میں جیسے نئے سرے سے آگ لگا دی۔
”ارے بے شرم’ بے حیا … صوفی صاحب کی عزت کو داغدار کرنے والی … تجھے صوفی صاحب کا نام چاہیے؟… ارے تجھے عزت کا مطلب بھی پتہ ہے؟”
”پتہ ہے آپا … ایک اسی گھر میں آ کر ہی تو پتہ چلا ہے مجھے”۔
حُسن آراء نے اُسی طرح کہا اور کمرے سے نکل گئی۔
”آپ نے دیدہ دلیری دیکھی اس کی … میں کہتی ہوں اس کو طلاق دے کر ابھی گھر سے نکال دیں”۔
”آج رہنے دو کل طلاق دے دوں گا … پھر چلی جائے گی وہ اس گھر سے”۔
صوفی صاحب نے رنجیدہ اور شکست خوردہ انداز میں کہا۔
”ابھی … اسی وقت کیوں نہیں؟”
دلشاد نے کہا۔
”شام ہونے والی ہے دلشاد … سامان سمیٹتے اُس کو دیر لگے گی”۔
صوفی صاحب کہہ کر باہر نکل گئے۔
”ابھی بھی اُس چڑیل کا اتنا خیال … اتنا احساس … ارے ابھی بھی اُسے سامان دیں گے … میرا بس چلے تو اُسے خالی ہاتھ دھکے دے کر یہاں سے نکال دوں”۔
دلشاد بولتے ہوئے غصے میں اُن کے پیچھے گئی۔ مگر صوفی صاحب گھر سے نکل چکے تھے۔
****
اُس رات دلشاد کئی مہینوں کے بعد پہلی بار چین کی نیند سوئی اور اُس رات صوفی صاحب پوری رات نہیں سو سکے۔ انہوں نے جو دیکھا تھا اُس پر اُن کو یقین نہیں آ رہا تھا مگر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔
حُسن آراء نے کوئی صفائی کوئی وضاحت پیش نہیں کی تھی پھر وہ کیسے کہتے کہ سب کچھ جھوٹ تھا۔
اُس رات اپنے کمرے میں بیٹھ کر صوفی صاحب نے اتنے مہینوں بعد پہلی بار اُس نیکی کو عذاب سمجھا جسے کرنے کے بعد کئی ماہ سے وہ خود کو زمینی جنت میں محسوس کرتے رہے تھے۔
****
حُسن آراء سے صوفی صاحب کی پہلی ملاقات مسجد میں ہوئی تھی۔ وہ اُس رات عشا کی نماز کے لئے گئے تھے۔ امام صاحب کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے انہوں نے ہی جماعت کی امامت کروائی اور سب نمازیوں کے چلے جانے کے بعد اُس وقت مسجد کو بند کرنے ہی والے تھے جب اپنے عقب میں ایک نسوانی آواز سن کر وہ بے اختیار پلٹے۔
”امام صاحب؟”
وہ برقعے میں ملبوس تھی اور اُس نے نقاب سے اپنا سیاہ چہرہ چھپایا ہوا تھا صرف اُس کی آنکھیں نظر آ رہی تھیں جو بے حد خوبصورت تھیں مگر اس وقت اُن میں عجیب سی وحشت نظر آ رہی تھی۔
”امام نہیں ہوں بی بی …”
”لیکن مجھے تو امام صاحب سے ملنا ہے۔”
“آپ صبح آ جائیں۔ ”
”میری زندگی میں کوئی صبح نہیں ہے”۔
اُس نے عجیب سے لہجے میں اُن سے کہا۔
”پھر آپ امام صاحب کے گھر چلی جائیں میں پتہ سمجھا…”
اُس نے اُن کی بات کاٹ دی۔
”میں اللہ کے گھر آئی ہوں اب کسی اور کے گھر نہیں جاؤں گی۔ آپ مجھے مسجد میں بیٹھنے دیں اور امام صاحب کو یہاں بلا لائیں”۔
صوفی صاحب اُس کے مطالبے پر قدرے حیران ہوئے مگر پھر انہوں نے مسجد کا دروازہ کھول کر اُسے اندر لے جاتے ہوئے بیٹھنے کا کہا۔ وہ خود امام صاحب کو بلانے کیلئے جانے لگے تو حُسن آراء نے اُنہیں روکا۔
”ذرا ٹھہرئیے”۔
”جی؟”
صوفی صاحب نے پلٹ کر اُسے دیکھا۔
”حرام موت اچھی ہے یا حرام کی زندگی؟”
وہ حُسن آراء کی بات پر ہکا بکا رہ گئے۔
”مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی”۔
صوفی صاحب نے اُلجھ کر کہا ۔
”پہلے آپ میرے سوال کا جواب دیں۔” اُس نے اصرار کیا۔
”دونوں نہیں … کوئی تیسرا راستہ بھی تو ہو سکتا ہے”۔
صوفی صاحب نے سوچ کر کہا۔
”اور اگر نہ ہو تو؟”
اُس نے اسی انداز میں کہا۔
”راستے ”ہوتے” نہیں ”ڈھونڈے” جاتے ہیں”۔
”فرض کریں نہ ”ہو” نہ ڈھونڈا جا سکتا ہو پھر؟”
”پھر بھی بی بی … میں نہ حرام موت کی حمایت کروں گا نہ حرام کی زندگی کی”۔
صوفی صاحب نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”آپ کی پریشانی کیا ہے ؟ … کوئی مالی مسئلہ ہے تو میں مدد کر سکتا ہوں آپ کی … اللہ نے بہت نوازا ہے مجھے”
صوفی صاحب نے کہا۔ ”میرے جیسی عورت کو ”مال” کا مسئلہ نہیں ہوتا”۔
”آپ کے جیسی عورت … اس سے کیا مراد ہے آپ کی؟”
صوفی صاحب اُس کی بات پر اُلجھے۔
”اگر آپ وعدہ کریں کہ مسجد سے نہیں نکال دیں گے تو بتا دیتی ہوں”۔
حُسن آراء نے کہا۔
”میں مسجد سے نکالنے والا کون ہوتا ہوں یہ اللہ کا گھر ہے”۔
”میں طوائف ہوں”۔
اُس نے صوفی صاحب کی بات کاٹ کر کہا اور صوفی صاحب چند لمحوں کے لئے بول نہیں سکے۔ حُسن آراء چند لمحے اُن کے بولنے کا انتظار کرتی رہی پھر ایک گہرا سانس لے کر اُس نے کہا۔
”کچھ کہیں گے نہیں…؟”
پھر وہ ہلکا سا ہنسی
”میں جانتی ہوں بڑے بڑے لوگوں کو اسی طرح سانپ سونگھتے دیکھا ہے اس لفظ طوائف پر میں نے”۔
”مگر آپ کا مسئلہ کیا ہے؟ … مجھے یقین ہے طوائف ہونا تو مسئلہ نہیں ہے آپ کا”۔
صوفی صاحب نے بالآخر کہا۔
”یہی تو مسئلہ ہے … کسی سے محبت ہو گئی مجھے … اُس کے ساتھ میں کوٹھے سے بھاگ گئی … کوٹھے پر آنے والے مرد ”طوائف” سمجھ کر سر پر بٹھاتے تھے مجھے … میں ”بیوی” بن کر کسی مرد کے پیروں میں بیٹھنا چاہتی تھی … پر اُس لڑکے کو محبت نہیں تھی مجھ سے … میں نکاح خواں کا انتظار کر رہی تھی وہ دلال لے آیا … میں بھاگ گئی… ریل کی پٹڑی پر جان دینا چاہتی تھی راستے میں یہ مسجد دیکھی … سوچا دنیا میں ہر گھر دیکھ لیا اب اللہ کا گھر بھی ایک بار دیکھ لوں”۔
”آپ نے ٹھیک کیا کہ یہاں آ گئیں”۔
صوفی صاحب کو بے اختیار اس پر ترس آیا۔
”ہم لوگ مدد کریں گے آپ کی”۔
”پر میں یہاں مدد مانگنے نہیں آئی”۔
حُسن آراء نے اُن کی بات کاٹ دی۔
”پھر؟”
وہ اُلجھے۔
”کوٹھے پر گاہک ملا۔ محبوب کے گھر پر دھوکہ … اللہ کے گھر عزت لینے آئی ہوں میں۔ اس محلے میں ہے کوئی جو میرے سر پر عزت کی چادر ڈال دے”؟
صوفی صاحب اُس کی بات پر ایک بار پھر چند لمحوں کے لئے بول نہیں پائے۔
”بی بی دل چھوٹا مت کریں میں اور امام صاحب آپ کے لئے کوئی اچھا رشتہ ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے … آپ میرے گھر چلیں۔ وہاں میری بیوی اور بیٹی ہے … آپ وہاں رہیں”۔
”کس رشتہ سے میں آپ کے ساتھ چلوں؟ … باپ آپ میرے ہیں نہیں … بھائی میں آپ کو بناؤں گی نہیں اور شوہر آپ میرے بنیں گے نہیں”۔ صوفی صاحب اُس کی بات پر چونکے وہ عجیب عورت تھی۔
”نکاح کیوں نہیں کر لیتے آپ میرے ساتھ؟” اُس نے صوفی صاحب کے سر پر جیسے گرز دے مارا۔
”بی بی آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے … میں ایسا آدمی نہیں ہوں”۔
صوفی صاحب نے ہڑبڑا کر کہا۔
”میں آپ کو کیا کرنے کو کہہ رہی ہوں … نکاح کرنے کو … طوائف کے منہ سے نکاح کی دعوت مذاق لگتی ہے یا گناہ؟”
اُس نے تیکھے انداز میں کہا تھا۔
”نہیں میرا یہ مطلب نہیں تھا … میں ادھیڑ عمر آدمی ہوں … اپنی جوان بیٹی کا رشتہ ڈھونڈھ رہا ہوں … میں خود شادی کیسے کر سکتا ہوں۔”
صوفی صاحب نے وضاحت کی۔
”میری جگہ کسی اونچے خاندان کی عورت شادی کے لئے کہتی تو بھی انکار کر دیتے؟”
”بات اونچے یا نیچے خاندان کی نہیں ہے بات ضرورت کی ہے … مجھے دوسری بیوی کی ضرورت نہیں ہے”۔
صوفی صاحب نے اُسے سمجھایا۔
”لیکن مجھے تو ایک گھر کی ضرورت ہے”۔
”آپ میرے گھر … چل کر رہیں … مہمان کے طور پر جب تک چاہیں”۔
”مہمان نہ بنائیں میزبان بنائیں … مہمان بہت بنی ہوں میں…”
”میرا اور آپ کا جوڑ مناسب نہیں”۔
”جانتی ہوں … آپ ایک متقی آدمی اور میں ایک گناہ گار عورت”۔
”آپ پھر غلط سمجھ رہی ہیں میں اپنی اور آپ کی عمر کے فرق کی بات کر رہا ہوں۔” صوفی صاحب نے کہا۔
”میری عمر 40 سال ہے۔ ”
وہ حُسن آراء کی بات پر اُلجھے۔
”مگر آواز سے تو آپ … خیر آپ 40 کی بھی ہوں تو بھی بہت فرق ہے … میں 60 سال کا ہوں”۔
صوفی صاحب نے کہا ۔ ”مجھے کوئی اعتراض نہیں”۔
”بی بی میں…”
حُسن آراء نے اُنہیں بات مکمل کرنے نہیں دی۔
”اللہ کے گھر کھڑے ہیں اللہ کا واسطہ دوں گی تو بھی کیا شادی نہیں کریں گے۔ میرے ساتھ؟”
حُسن آراء کی آواز کی نمی انہوں نے دیکھے بغیر بھی محسوس کی۔ پتہ نہیں صوفی صاحب کس بات سے پسیجے تھے اُس کے آنسوؤں سے یا پھر اللہ کے واسطے سے … مگر اگلے ایک گھنٹے میں وہیں مسجد میں چار گواہوں اور امام صاحب کو بلوا کر انہوں نے حُسن آراء سے نکاح کر لیا تھا۔
حُسن آراء کو پہلی بار انہوں نے اپنے گھر پر تب دیکھا تھا جب اُس نے چہرے سے نقاب ہٹایا تھا۔ صوفی صاحب کو جیسے غش آ گیا تھا۔ اُس نے اُن سے جھوٹ بولا تھا۔ وہ حُسنہ کی عمر کی تھی … کسی بھی طرح وہ 22-20 سے زیادہ کی نہیں تھی۔ وہ بے حد نادم اور شرمندہ ہوئے تھے مگر یہ شرمندگی اور ندامت صرف اُنہیں تک محدود تھی۔ حُسن آراء اس رشتے سے بے پناہ خوش تھی اور اُسے اس جھوٹ پر کوئی ندامت نہیں تھی۔ اُسے گھر چاہیے تھا اور اُس نے گھر ڈھونڈھ لیا تھا۔
وہ تین ماہ اس گھر میں رہی تھی مگر ان تین ماہ میں اُس نے صوفی صاحب کی اتنی خدمت اتنی اطاعت کی تھی کہ دلشاد کا 35 سال کا ساتھ کہیں پیچھے چلا گیا تھا۔ صوفی صاحب شروع میں اُس کی کم عمری اور حالات کی وجہ سے اُس کا زیادہ خیال رکھتے تھے مگر بعد میں اُن کا دل حُسن آراء کی طرف کھینچنے لگا تھا۔ وہ بے انتہا خوبصورت تھی نوجوان تھی اور اُس کا ”اخلاق” کمال کا تھا …
دلشاد اونچے خاندان کی تھی اور اسے اس بات کا گھمنڈ بھی تھا اور یہ گھمنڈ دلشاد بیگم کے طور طریقے میں کہیں نہ کہیں جھلک ہی جاتا تھا …
حُسن آراء کا کوئی خاندان نہیں تھا اور وہ سراپا اطاعت اور فرمانبردار تھی … کوئی قہر’ کوئی زعم’ کوئی گمان’ کوئی ناز … وہاں کچھ بھی نہیں تھا … بس ایک سرشاری تھی … ایک ہی اطمینان تھا … وہ کوٹھے سے خاندان میں آ گئی تھی … اُس نے گھر بنا لیا تھا اور یہ بات وہ صوفی صاحب کو بار بار کہتی … اتنا ذکر کرتی کہ صوفی صاحب شرمسار ہو جاتے …
****




Loading

Read Previous

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Read Next

حاصل — قسط نمبر ۱

One Comment

  • Can I get this book from somewhere ?

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!