حسنہ اور حسن آرا — عمیرہ احمد

دلشاد شعلہ جوالا بنی حُسن آراء کے کمرے سے نکلی تھی اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ سیدھی صوفی صاحب کے پاس منڈی پہنچ جائے۔
حُسنہ نے ماں کو بے حد غصے میں صحن میں ٹہلتے دیکھا۔ اُسے حیرت ہوئی آخر آج ایسا کیا ہوا تھا کہ دلشاد کو اتنا غصہ کیوں آیا ہے؟
”کیا ہوا اماں اتنے غصے میں کیوں ہیں؟”
اُس نے دلشاد کے پاس آ کر پوچھا
”غصے میں؟… میرا تو دل چاہ رہا ہے میں زہر کھا کر مر جاؤں”۔
”خدانخواستہ …” حُسنہ ہول گئی۔
”آخر ہوا کیا ہے؟”
”تجھے پتہ ہے حُسن آراء کون ہے؟”
”ابا کی دوسری بیوی ہے اور کون ہے”۔
”طوائف ہے”۔
دلشاد نے اُس کی بات کاٹ کر کہا۔
”کیا ؟”
حُسنہ کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
”ساری دنیا کی عورتیں چھوڑ کر تیرے ابا کو ایک طوائف ہی ملی تھی اس گھر میں لا بٹھانے کو”۔
”آپ کو کس نے بتایا اماں؟” حُسنہ کو ابھی بھی یقین نہیں آیا۔
”اُس کم بخت نے خود بتایا ہے”…
”ارے نہ بھی بتاتی تو بھی مجھے پتہ چل ہی جاتا … خاندانی عورتوں اور ایسی عورتوں میں بڑا فرق ہوتا ہے”۔
دلشاد نے دانت پیس کر کہا۔
”پر اماں اب تو آ گئی یہاں اب کیا ہو سکتا ہے … ابا بیاہ کر لائے ہیں اُسے”۔
حُسنہ نے بات ختم کرنے کی کوشش کی۔
”ساری عمر میں لوگوں کے سامنے تمہارے ابا کی شرافت کی قسمیں کھاتی رہی… ارے مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ طوائفوں کے کوٹھے پر جاتے ہیں”۔
دلشاد آگ بگولہ ہو رہی تھی۔
”اور خبردار تم اُس کے قریب بھی پھٹکی تو”۔
”میں کہاں اُس کے پاس جاتی ہوں اماں”۔ حُسنہ نے احتجاج کیا۔
”جھوٹ مت بولو … میں نے کئی بار دیکھا ہے تمہاری نظریں ہر وقت اُس پر ٹکی رہتی ہیں”۔
”وہ خوبصورت ہی اتنی ہے کہ اماں …”
دلشاد نے اُس کی بات کاٹ کر اُسے جھڑکا۔ ”اب تو ماں کے سامنے اُس کے حُسن کے قصیدے پڑھے گی۔ غضب خدا کا جمعہ جمعہ چار دن ہوئے اُس طوائف کو اس گھر میں آئے اور تمہارے رنگ ڈھنگ بدلنے لگے”۔
دلشاد اب حُسنہ کو رگیدنے لگی۔





حُسنہ نے بہتر سمجھا کہ وہ اس وقت دلشاد کے سامنے سے ہٹ جائے۔

****
”کیا ہوا دلشاد؟”
صوفی صاحب کو کمرے میں آتے ہی دلشاد کا چہرہ دیکھ کر اندازہ ہو گیا تھا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔
”میں کہتی ہوں صوفی صاحب آخر مجھ سے کون سی غلطی کون سا گناہ ہو گیا تھا کہ آپ نے حُسن آراء کو اس گھر میں لا بٹھایا؟”
”کیوں کیا ہو گیا؟ … حُسن آراء سے کوئی جھگڑا ہو گیا؟”
”میں خاندانی عورت ہوں اور خاندانی عورتیں طوائفوں کے ساتھ منہ ماری نہیں کرتیں”۔
اُس کے جملے پر صوفی صاحب ایک لمحے کے لئے جیسے سناٹے میں آ گئے۔
”طوائف کسے کہہ رہی ہو تم؟”
”اچھی طرح جانتے ہیں آپ کہ اس گھر میں طوائف کون ہے … ارے صوفی صاحب ہمارے خاندانوں میں شادی پر مجرے کرنے کے لئے طوائفیں بلائی جاتی ہیں … کوئی اُنہیں خاندانی بیویوں کے برابر نہیں لا بٹھاتا۔”
صوفی صاحب نے دلشاد کو مزید بات کرنے نہیں دی۔
”اب تمہیں پتہ چل گیا ہے تو اس راز کو یہیں دفن کر دو … حُسن آراء طوائف تھی یا جو بھی تھی … میں نکاح کر کے اُسے اپنی عزت بنا کر اس گھر میں لایا ہوں اور میں دوبارہ اُس کے لئے طوائف کا لفظ برداشت نہیں کروں گا”۔
دلشاد نے اس سے پہلے صوفی صاحب کو کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا تھا۔ مگر زندگی میں اس سے پہلے اُس نے صوفی صاحب کو اور بھی بہت کچھ کرتے نہیں دیکھا تھا۔
اس انکشاف کے بعد دلشاد کا حُسن آراء کے ساتھ رویہ بے حد ہتک آمیز ہو گیا تھا۔ وہ کھانے پکانے میں پہلے جس طرح اُس کی مدد قبول کر لیتی تھی اب یک دم اُس نے حُسن آراء کو گھر کے معاملات سے الگ کر دیا تھا۔
اُس دن وہ کپڑے دھو رہی تھی جب حُسن آراء نے اُس کے پاس آ کر کہا۔ ”لائیں آپا میں دھو دیتی ہوں”۔
”تم کام کاج کی فکر مت کرو تمہیں گھر چلانے کے لئے نہیں لائے صوفی صاحب”۔
دلشاد نے کاٹ کھانے والے انداز میں کہا ۔
”آپا پہلے بھی تو میں ہی دھوتی تھی”۔
حُسن آرا نے اُس کے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”پہلے مجھے یہ تھوڑی پتہ تھا کہ تم کہاں سے آئی ہو”۔
”میرے ہاتھ میں ہوتا تو میں طوائف کہاں بنتی … میرے ساتھ نکاح کیا ہے صوفی صاحب نے … کچھ نہ کچھ تو دیکھا ہی ہو گا انہوں نے مجھ میں”۔




Loading

Read Previous

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Read Next

حاصل — قسط نمبر ۱

One Comment

  • Can I get this book from somewhere ?

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!