حسنہ اور حسن آرا — عمیرہ احمد

اور اب یک دم کیا ہو گیا تھا … اُنہیں آج لگ رہا تھا کہ وہ حُسن آراء کے ہاتھوں بے وقوف بنے تھے … بہت بُری طرح بے وقوف … آخر ایک نوجوان لڑکی ایک بوڑھے مرد میں کس لئے دلچسپی لے گی’ کیوں اُس کے نکاح میں آنا چاہے گی…۔
وہ حُسن آراء سے بہت کچھ کہنا چاہتے تھے مگر اُن میں حوصلہ نہیں تھا کہ وہ اُس کا سامنا کر پاتے … طلاق کے تین لفظ منہ سے نکالنے کے لئے صوفی صاحب کو بہت زیادہ ہمت چاہیے تھی … حُسن آراء اُن کے لئے صرف ایک احسان نہیں رہی تھی وہ اُن کے دل میں جگہ بنا بیٹھی تھی … اُسے گھر سے نکالنا اُسے دل سے نکالنے سے بہت آسان تھا … اور صوفی صاحب کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کون سا کام پہلے کریں … اور کیا اُن میں سے کوئی کام کرنا اُن کے لئے ممکن ہے۔
****
حُسن آراء نے اُنہیں اس تکلیف سے بچا لیا تھا۔ اگلی صبح حُسنہ اکبر کے ساتھ روتی دھوتی صوفی صاحب کے گھر آئی اور اُنہیں بتایا کہ پچھلی رات حُسن آراء اور اکبر نے گھر سے بھاگ جانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اکبر نے حُسن آراء کو حُسنہ کا سارا زیور لاکر دے دیا۔ حُسن آراء نے اُس سے کہا تھا کہ وہ صبح فجر کے وقت چھت پھلانگ کر اکبر کی چھت پر آ جائے گی اور پھر وہ دونوں صبح صبح کسی دوسرے شہر چلے جائیں گے اور وہاں شادی کر لیں گے۔
فجر کے وقت وہ دونوں ریلوے سٹیشن پر پہنچ گئے۔ حُسن آراء نے اکبر کو ٹکٹ لانے کے لئے بھیجا’ جب وہ ٹکٹ لے کر آیا تو حُسن آراء اُس جگہ موجود نہیں تھی جہاں وہ اُسے چھوڑ کر گیا تھا اکبر حواس باختہ ہو کر اُسے ڈھونڈتا رہا’ مگر وہ نہیں ملی اور تب اُسے اپنی حماقت کا احساس ہوا وہ اُسے بے وقوف بنا کر خود شاید کسی تیسرے کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔
اکبر پچھتاتا ہوا گھر آیا تھا اور اُس نے حُسنہ کو سب کچھ بتاتے ہوئے اُس سے معافی مانگ لی تھی … حُسنہ اب اُسے ساتھ لے کر صوفی صاحب سے معافی منگوانے کے لئے آئی تھی۔
دلشاد کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا وہ ہنسے یا روئے۔
اکبر اب منہ بھر بھر کر حُسن آراء کی برائیاں کر رہا تھا اور حُسنہ کی تعریفیں کر رہا تھا … ساتھ ساتھ صوفی صاحب سے ہاتھ جھوڑ کر معافی مانگ رہا تھا … وہ کانٹا جو دلشاد اور حُسنہ کی زندگی میں گڑا تھا وہ نکل گیا تھا۔ مگر دوسری طرف حُسنہ کا وہ سارا زیور بھی چلا گیا تھا جو اُسے شادی پر میکے اور سسرال کی طرف سے پہنایا گیا تھا۔
”معاف کر دیں صوفی صاحب اسے … صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اُسے بھولا نہیں کہتے اور پھر غلطی تو آپ کی تھی … آپ ایسی عورت کو گھر لائے کیوں جس کی وجہ سے ہماری عزت گئی”۔
دلشاد نے صوفی صاحب سے اکبر کی حمایت کرتے ہوئے کہا
صوفی صاحب خاموش ہو رہے’ کہنے کو اب کچھ باقی نہیں رہ گیا تھا … حُسن آراء اُن کا گھر نہیں اُن کا دل خالی کر گئی تھی مگر اُنہیں شکوہ اللہ سے تھا … انہوں نے اللہ کے گھر اُس کے سر پر عزت کی چادر ڈالی تھی پھر وہ اُن کے گھر کی عزت کیسے لے گئی؟
****





”ابا کہاں ہیں اماں؟”
حُسنہ نے دلشاد سے پوچھا۔ وہ کئی دنوں کے بعد گھر آئی تھی۔ مسجد میں ہوں گے اور کہاں ہوں گے جب سے وہ حرافہ گئی ہے ہر وقت مسجد میں ہی پڑے رہتے ہیں … پر یہ بھی اچھا ہے کہ مسجد میں ہی پڑے رہتے ہیں … پہلے کی طرح کوٹھے پر جاتے تو …”
دلشاد نے بات ادھوری چھوڑتے ہوئے حُسنہ کے ہاتھ میں پکڑی پوٹلی کو حیرت سے دیکھا۔
“اس پوٹلی میں کیا ہے؟”
”میرا زیور ہے”۔ حُسنہ نے مدھم آواز میں کہا۔
دلشاد چونکی۔
”کیسا زیور … ؟ تمہارا زیور تو وہ حرافہ لے گئی تھی۔”
”اماں گالی مت دیں اُسے”۔ حُسنہ نے اس بار جیسے بے اختیار تڑپ کر کہا۔
”خبردار اب کے حمائت کی اُس کی تو”۔ دلشاد کو جیسے آگ لگ گئی۔
”غضب خدا کا یہ سب ہو گیا اور پھر بھی تم نے سبق نہیں سیکھا … اور یہ کون سا زیور ہے جس کی بات کر رہی ہو تم؟”
حُسنہ نے جواب دینے کی بجائے بستر پر پوٹلی اُلٹ دی۔ دلشاد ساکت رہ گئی۔ وہ واقعی حُسنہ کا شادی کا زیور تھا۔
”یہ کیا؟ … یہ … یہ کہاں سے آیا؟”
وہ اٹکیں
”اپنے کمرے میں یہیں چھوڑ گئی تھی وہ جانے سے پہلے”۔
حُسنہ نے سر جھکائے مدھم آواز میں کہا۔ ”زیور چھوڑ گئی عزت لے گئی”۔
دلشاد نے سوچے سمجھے بغیر کہا۔
”نہ زیور لے کر گئی نہ عزت … وہ نہ آتی تو اس گھر کی عزت جاتی”۔
”تو کیا کہہ رہی ہے حُسنہ …؟” دلشاد نے پہلی بار حُسنہ کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ اُس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ وہ سر جھکائے بیٹھی سسک رہی تھی۔ اُن کے دل کو کچھ ہوا۔ آخر بات کیا تھی؟…
اور ”بات” نے اُنہیں ”بات کرنے” کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔
”میرے تعلقات ہو گئے تھے اماں اکبر کے ساتھ … ہم لوگ چھت پر ملتے تھے … میں سوچتی تھی وہ اس طرح رشتہ نہیں بھیج رہا شاید میں اس کی بات مان لوں تو اسی طرح رشتہ بھیج دے … لیکن اکبر کو یہ پتہ چلا کہ میں ماں بننے والی ہوں تو وہ مجھ سے کترانے لگا اُس نے چھت پر آنا چھوڑ دیا۔ میں اتنی پریشان تھی کہ ایک دن چوہے مار گولیاں کھا کر مرنے والی تھی جب حُسن آراء نے مجھے بچایا۔
پھر میں نے اُس کو سب کچھ بتا دیا۔ اُس نے مجھے کہا کہ وہ اکبر کو پھانس کر مجھ سے شادی پر مجبور کرے گی۔ اور اُس نے ایسا ہی کیا۔
پر ہماری شادی ہو جانے کے بعد بھی اکبر حُسن آراء کو اور زیادہ تنگ کرنے لگا تھا۔ پھر حُسن آراء نے مجھ سے کہا کہ وہ ابا کی بیوی ہے اب گناہ نہیں کرے گی اور اکبر اُسے یہ دھمکی دے رہا تھا کہ اگر وہ اُس کی بات نہیں مانے گی تو وہ مجھے چھوڑ دے گا … پھر ہم دونوں نے مل کر کھیل کھیلا … آپ کو اُس دن میں نے جان بوجھ کر وہاں بھیجا تھا مجھے پتہ تھا آپ ابا کو لے کر آ جائیں گی۔
حُسن آراء کو ڈر تھا ابا اُسے طلاق دے دیں گے تو اکبر اُس کے پیچھے آئے گا اور شاید مجھے بھی طلاق دے دے … اس لئے اُس نے اکبر کے ساتھ یہ دھوکہ کیا تاکہ وہ اُس سے نفرت کرنے لگے اور اُسے ڈھونڈنے کی کوشش نہ کرے بلکہ میرے ساتھ خوش رہے”۔
حُسنہ نے سب کچھ بتانے کے بعد سسکیاں لیتے ہوئے سر اُٹھا کر دلشاد کو دیکھا جس نے اب تک ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔
وہ پتھر کے بُت کی طرح بیٹھی تھی۔ اُس کے ہونے والے بچے کے لئے موزے بُننے والی سلائیاں اُس کے ہاتھوں سے گر چکی تھیں … اور اِس کے ساتھ ہی خاندانی نجابت پر اُن کا فخر اور غرور بھی…
مات ہوئی بھی تھی تو کس کے ہاتھوں … ”خاندانی عورت” جیسے منہ کے بل گر گئی تھی …
”اُس نے …اُس نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟ ” حُسنہ کو دلشاد کی آواز کسی کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔
”پوچھا تھا میں نے … وہ کہتی تھی ابا کا کوئی احسان تھا اُس کے سر پر … وہ احسان اُتارنا نہیں چاہتی … پر احسان کرنا ضرور چاہتی ہے”۔
دلشاد زرد چہرے کے ساتھ اپنی اِس اکلوتی اولاد کا چہرہ دیکھتی رہی … جسے اُس نے خاندانی شرافت و نجابت کی گھٹی دے کر پالا تھا اور جس نے اُن کے منہ پر کالک مل دی تھی … وہ حُسنہ سے کیا کہتیں… وہ حُسن آراء سے بھی کیا کہتیں … یہ کہ وہ ”طوائف” کے بھیس میں ”خاندانی” نکلی جو صوفی صاحب اور دلشاد کی عزت پر پردہ ڈال کر چُپ چاپ اُن کی زندگی سے چلی گئی تھی …
بمشکل اپنے پیروں پر زور ڈالتے ہوئے وہ پلنگ سے اُٹھی تھیں۔
”اماں”۔ …”اماں”
حُسنہ نے بے تاب ہو کر اُنہیں پکارا۔ دلشاد نے پلٹ کر اُسے نہیں دیکھا … اُنہیں اس وقت اپنی بیٹی … ”اپنی” نہیں لگ رہی تھی۔ کمرے کا دروازہ کھول کر انہوں نے باہر جانے کے لئے قدم بڑھایا اور ہل نہیں سکیں۔ صوفی صاحب سامنے کھڑے تھے پتہ نہیں وہ کب آئے تھے مگر اُن کے چہرے اور آنکھوں کی رنجیدگی نے دلشاد کو بتا دیا تھا کہ کوئی بھید اب بھید نہیں رہا تھا۔ بہت دیر تک دونوں چپ چاپ ایک دوسرے کا چہرہ دیکھتے رہے پھر دلشاد نے لڑکھڑاتی زبان میں کہا۔
”اُس پر آپ نے کیا احسان کیا تھا صوفی صاحب؟” …
صوفی صاحب بہت دیر دلشاد کو دیکھتے رہے پھر انہوں نے کہا۔
”یہی تو یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ میں نے اُس پر کیا احسان کیا تھا؟ … احسان کیا بھی تھا کہ”… صوفی صاحب بات مکمل نہیں کر سکے۔ دلشاد اپنے دوپٹہ سے منہ ڈھانپ کر یک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔

**ختم شد**




Loading

Read Previous

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Read Next

حاصل — قسط نمبر ۱

One Comment

  • Can I get this book from somewhere ?

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!