”طوائفوں میں کیا دیکھ کر مرد اُنہیں بیویاں بنا کر لے آتے ہیں یہ میں اچھی طرح جانتی ہوں”۔
”میں خاندانی عورت نہ سہی پر بننے کی کوشش تو کر سکتی ہوں”۔
”اگر خاندانی بننا اتنا ہی آسان ہوتا تو ہر دوسری طوائف خاندانی بن کر بیٹھی ہوتی … ارے بی بی خاندانی عورت مر بھی جائے تو طوائف نہیں بنے گی اور طوائف مر بھی جائے تو بھی خاندانی کبھی نہیں کہلائے گی”۔
حُسن آراء کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا مزید ایک لفظ کہے بغیر وہ اُٹھ کر چلی گئی۔
دلشاد نے حُسن آراء کو یک دم جیسے چھوت کی بیماری بنا دیا تھا۔ وہ پہلے بھی حُسنہ کو اُس کے پاس جانے سے روکتی تھی لیکن اب تو وہ حُسنہ پر کڑی نظر رکھتی تھی کہ وہ کہیں بھولے سے بھی حُسن آراء کے پاس نہ جائے۔
اس کے باوجود اُسے محسوس ہوتا کہ حُسنہ اکثر اوقات حُسن آراء کے آس پاس منڈلاتی نظر آتی۔ دلشاد کو بے حد طیش آتا۔ آخر وہ پہلے کی طرح حُسن آراء سے نفرت کا اظہار کیوں نہیں کرتی تھی۔ اُسے ناپسند کیوں نہیں کرتی تھی … اس عمر میں باپ کی نئی نویلی دوسری بیوی میں آخر حُسنہ کو کیا نظر آنے لگا تھا کہ وہ اُس کے پاس سے ہٹتی ہی نہیں تھی اور دلشاد کو یہ خوف تھا کہ ایک طوائف اُس کی خاندانی بیٹی کو کچھ ایسا ویسا نہ سکھا دے کہ اُن کی سالوں کی خاندانی تربیت کا اثر مٹی میں مل جائے۔
حُسنہ کی شادی کی فکر اُنہیں پہلے بھی تھی مگر اب یک دم اس میں اضافہ ہو گیا۔ بوا کے چکر بھی اُن دنوں اُن کے گھر کچھ کم ہو گئے تھے اور خود حُسنہ بھی یک دم بے حد اُداس اور پریشان رہنے لگی تھی۔ اُسے گم صم بیٹھا دیکھ کر دلشاد کا دل کٹتا تھا۔ وہ ماں تھیں جانتی تھیں حُسنہ کو کیا غم کھائے جا رہا تھا مگر اُن کے اختیار میں کچھ نہیں تھا۔
اُس دن دلشاد پودوں کو پانی دے رہی تھیں جب انہوں نے حُسن آراء کو سولہ سنگھار کئے بے حد نازو ادا سے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چھت پر جاتے دیکھا۔ وہ یک دم چونک گئیں۔ سر اُٹھا کر انہوں نے اوپر چھت کی طرف دیکھا اور جیسے اُن کو کرنٹ لگ گیا۔ برابر والی چھت پر ہمسائے کا لڑکا اکبر اپنے کبوتروں کو اُڑانے میں مصروف تھا۔
دلشاد پودوں کو پانی دینا بھول گئیں۔ حُسن آراء اب چھت پر پہنچ چکی تھی دلشاد کو اور کچھ نہ سوجھا تو وہ یک دم دبے پاؤں سیڑھیاں چڑھ کر خود بھی اوپر پہنچ گئیں مگر سیدھا چھت پر جانے کی بجائے وہ آخری سیڑھی پر ہی رک گئیں۔
حُسن آراء چھت پر بڑے نازو ادا سے ٹہلتے ہوئے اکبر کی طرف دیکھ کر مسکراتی رہی۔
اکبر نے بھی اُسے دیکھ لیا تھا اور اُس کی نظر جیسے حُسن آراء سے چپک کر رہ گئی تھی۔ کچھ دیر تک وہ حُسن آراء کو دیکھتا رہا۔
پھر دونوں کے درمیان مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا۔ اکبر اتنی حوصلہ افزائی پا کر یک دم منڈیر کے قریب آ گیا۔
”السلام علیکم”۔
اُس نے بڑے عاشقانہ انداز میں حُسن آراء کو سلام کیا۔
”وعلیکم السلام”۔ حُسن آراء نے بھی اُسی ناز سے جواب دیا۔
”آپ کا نام جان سکتا ہوں؟”
”حُسن آرا”۔
”بے شک یہی نام ہونا چاہیے آپ کا”۔
اکبر نے بے ساختہ کہا۔
”اچھا … اور آپ کا نام کیا ہے؟”
حُسن آراء نے بے ساختہ ہنس کر کہا۔
”اکبر”۔
”اکبر بادشاہ”۔
حُسن آراء نے جیسے اُسے چھیڑا۔
”آپ نے بادشاہ کہہ دیا تو سمجھیں میں بادشاہ ہو گیا”۔
اکبر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”اور میں فقیر کہہ دیتی تو ؟”
حُسن آراء نے معنی خیز انداز میں کہا۔
”تو فقیر ہو جاتا”۔
اکبر نے بے ساختہ انداز میں کہا۔
”آپ کو پہلے کبھی یہاں نہیں دیکھا حُسنہ کی رشتہ دار ہیں کیا؟”
”ہاں بہت قریبی۔”
”اچھا … کیا ہیں آپ؟”
”ماں”۔
اکبر نے بے اختیار پان کی پیک تھوکی اور قدرے گھبرا کر کہا۔ ”صوفی صاحب کی دوسری بیوی؟”
”ہاں”۔
”صوفی صاحب بھی بڑے خوش قسمت ہیں اس بڑھاپے میں خزانہ ہاتھ لگ گیا اُن کے”۔
سیڑھیوں میں کھڑی دلشاد کا خون کھولنے لگا حُسن آراء اکبر کی بات پر ہنس رہی تھی۔ دلشاد اس سے زیادہ برداشت نہیں کر سکیں۔ صوفی صاحب کو بانٹ لیا تھا انہوں نے مگر اکبر اُن کی اکلوتی بیٹی کی پسند تھا’ وہ جانتی تھیں حُسنہ اُسے پسند کرتی ہے اور دلشاد حُسن آراء کو اکبر پر کسی قیمت پر بھی ہاتھ صاف نہیں کرنے دے سکتی تھیں۔
”حُسن آراء”۔
وہ یک دم بلند آواز میں پکارتے ہوئے سامنے آ گئیں۔ انہوں نے جان بوجھ کر اکبر کو بھاگنے کا موقع دیا۔
اکبر واقعی اُن کی آواز سن کر گھبرا کر بھاگ گیا تھا۔
گھبرا تو حُسن آراء بھی گئی تھی۔
وہ اکثر ہی چھت پر آتی تھی ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ دلشاد کبھی اُس کے پیچھے آئی ہو اور اب وہ یک دم بگڑے تیوروں کے ساتھ وہاں کھڑی تھیں۔
”کیا کر رہی تھی تم یہاں؟”
دلشاد نے بے حد طیش میں کہا۔
”کچھ نہیں ایسے ہی آپا … دل گھبرا گیا تھا تو اوپر آ گئی”۔ حُسن آراء نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
”یہ شریفوں کا گھر ہے… خاندانی لوگوں کا … یہاں یہ بازاری طور طریقے نہیں چلیں گے … ہمارے گھروں کی عورتیں کمروں میں بیٹھتی ہیں … کھڑکیوں ‘ جھروکوں اور چھتوں پر لٹکتی مٹکتی نہیں پھرتیں”۔ دلشاد نے تیز آواز میں اُس سے کہا۔
”آپا میں تو صرف چہل قدمی کے لیے …”
دلشاد نے حُسن آراء کو بات مکمل کرنے نہیں دی ”مان لیا کہ تم کوٹھے سے آئی ہو’ اس لئے ہر وقت کوٹھے کی طرف بھاگتی ہو۔ مگر پھر بھی شریف گھرانوں کی عورتوں کی طرح رہنے کی کوشش کرنے میں کوئی ہرج نہیں”۔
حُسن آراء جواب میں کچھ کہنے کی بجائے یک دم سیڑھیوں سے اُتر کر نیچے چلی گئی۔
دلشاد غصے سے پھنکارتی ہوئی اُس کے پیچھے گئیں۔ اُنہیں یقین تھا حُسن آراء اب دوبارہ چھت پر آنے کی کوشش نہیں کرے گی۔ مگر اُن کا یہ اندازہ غلط ثابت ہوا تھا۔
اگلے ایک دو ہفتوں میں انہوں نے کئی بار حُسن آراء کو اُس وقت چھت پر جاتے دیکھا جب اکبر وہاں ہوتا۔ لیکن پہلی بار کی طرح وہ حُسن آراء اور اکبر کو کبھی اکٹھے پکڑ نہیں سکیں۔ کیونکہ حُسن آراء اب بے حد محتاط ہو گئی تھی۔
دلشاد کے اشتعال میں اضافہ ہوتا گیا اور بالآخر انہوں نے صوفی صاحب سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
لیکن صوفی صاحب اُس کی بات سنتے ہی ہتھے سے اکھڑ گئے تھے۔ ”تم کس عشق کی بات کر رہی ہو؟”
”ساتھ والوں کے اکبر پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے وہ … ماں کا گھر تو اُجاڑ دیا اُس نے’ اب وہ بیٹی کا گھر بسنے سے پہلے ہی تباہ کرنے کے درپے ہے۔ طوائف زادی ہے منہ مارنے سے باز تھوڑی آئے گی”۔
”زبان کو لگام دو دلشاد”۔
صوفی صاحب بے حد طیش میں اُٹھ کر کھڑے ہو گئے۔
”میری زبان کو لگام دینے سے بہتر ہے آپ اپنی چہیتی بیوی کے پر کاٹ دیں جو چھت پر سارا دن کبوتری کی طرح غُٹرغوں کرتی پھرتی ہے”۔ دلشاد نے ترکی بہ ترکی کہا۔
صوفی صاحب سرخ چہرے کے ساتھ کچھ دیر دلشاد کو دیکھتے رہے پھر یک دم کمرے سے نکل کر حُسن آراء کے پاس چلے آئے۔
One Comment
Can I get this book from somewhere ?