حسنہ اور حسن آرا — عمیرہ احمد

”ارے دلشاد یہ میں نے کیا سُنا ؟” …
صوفی صاحب نے دوسری شادی کر لی۔ بوا نے گھر میں داخل ہوتے ہی کہنا شروع کر دیا۔
”ٹھیک سُنا ہے آپ نے بوا”۔
دلشاد نے اُداسی سے کہا۔
”بیٹھیں کیا کھائیں گی آپ؟”
اُس نے اُنہیں صحن کے تخت پر بٹھاتے ہوئے کہا۔
”ارے بھاڑ میں جائے کھانا پینا مجھے تو یہ بتاؤ یہ ہوا کیسے؟ ارے میں تو صوفی صاحب کے گُن گاتی تھی”۔ بوا نے تجسس آمیز انداز میں کہا۔
”بس بوا یہ میری قسمت میں تھا”۔
”ہے کون کلموہی؟”
کلموہی تو نہیں ہے بوا … ہے تو خوبصورت … خوبصورتی پر ہی تو مرمٹے ہوں گے صوفی صاحب”۔
”ارے یہ عمر تھی اُن کی مرمٹنے کی’ ساری عمر انہوں نے آنکھ اُٹھا کر تمہارے علاوہ کسی دوسری عورت کو نہیں دیکھا اور اب دیکھا بھی تو” …
”چھوڑو بوا … بات پرانی ہو گئی”۔ دلشاد نے اُداسی سے بات کاٹی
”ارے ہے کون؟ … خاندان کیا ہے؟”
”نام حُسن آراء ہے … خاندان صوفی صاحب جانتے ہوں گے یا وہ خود جانتی ہو گی”۔
”کیوں تمہیں نہیں بتایا صوفی صاحب نے؟”
”نہیں”۔
دلشاد نے مختصر جواب دیا اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی حُسن آرا اندرونی دروازہ کھول کر باہر آ گئی تھی۔
بوا نے بے حد دلچسپی اور تجسس کے ساتھ اُس کا سر سے پاؤں تک تنقیدی جائزہ لیا۔ حُسن آرا ہمیشہ کی طرح پاس آئی۔
اُس نے آداب کیا اور پھر صحن میں لگے موتیے کے پودوں کی طرف چلی گئی۔
بوا نے اُس کے ہاتھوں پیروں میں لگی مہندی’ اُس کی پازیبوں اور اُس کے انداز و اطوار کو غور سے دیکھا پھر پان پر کتھا لگاتی ہوئی دلشاد سے آہستہ آواز میں کہا۔
”خاندانی تو نہیں لگتی مجھے”۔
دلشاد نے چونک کر بوا کو دیکھا۔
”کیا مطلب؟”





”اب اگر میں صوفی صاحب کی شرافت کو نہ جانتی ہوتی تو شاید … پر چلو چھوڑو … ایسی باتیں میں کیوں کروں تم سے؟”
بوا نے بڑے معنی خیز انداز میں موتیے کے پھول اپنے آنچل میں اکٹھے کرتے ہوئی حُسن آرا کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”کھل کر بات کرو بوا … کیا کہنا چاہتی ہو؟”
دلشاد نے یک دم پریشان ہو کر کہا۔
”یہ بات ہے تو سُنو … مجھے تو صوفی صاحب کی دوسری بیوی طوائف لگتی ہے”۔
کسی نے دلشاد کے سر پر جیسے کوئی گُرز دے مارا تھا۔ اُس نے بے اختیار اپنے سینے پر ہاتھ رکھ لیا۔
”ہائے … ہائے بوا … کیا کہہ رہی ہو؟”
”ارے میں کیا کہہ رہی ہوں … تم خود پوچھ لینا اُس سے”۔
بوا نے یقین سے کہا۔
اور دلشاد نے دیر نہیں لگائی۔ بوا کے جاتے ہی وہ حُسن آراء کے کمرے میں چلی آئی۔
وہ موتیے کے پھولوں کا ہار بناتے ہوئے گنگنانے میں مصروف تھی۔
”گانا کہاں سے سیکھا تم نے؟” دلشاد نے بے حد تیکھے انداز میں پوچھا۔
”کہیں سے نہیں … ویسے ہی گنگنا رہی تھی”۔ حُسن آرا نے قدرے گھبرا کر کہا۔
”شریف گھرانوں کی لڑکیاں اس طرح کے گانے نہیں گنگناتیں … تمہارے اماں اور باوا نے کبھی تمہیں روکا نہیں گانے سے”۔
”آپا آپ کو بُرا لگا تو میں نہیں گایا کروں گی”۔ حُسن آرا نے بے حد متانت سے کہا۔
”کہاں سے آئی ہو تم؟”
”ملتان سے”۔ حُسن آراء نے بے ساختہ کہا۔
”میں خاندان کا پوچھ رہی ہوں”۔ دلشاد نے کاٹ دار لہجے میں کہا۔
”خاندان؟”
حُسن آراء بڑبڑائی یوں جیسے کچھ سوچ رہی ہو۔
”تمہارے باوا کا کیا نام ہے؟” دلشاد نے بغیر رُکے اگلا سوال کیا۔
”وہ مر گئے”۔ حُسن آراء نے بے ساختہ کہا۔
”مر گئے مگر کوئی نام تو ہو گا”۔
”ہاں … ہاں … نام …” حُسن آراء بُری طرح ہکلانے لگی۔
”یہ کون سی پہیلی پوچھ لی میں نے کہ تمہیں جواب ہی نہیں آ رہا”۔
”آفتاب … آفتاب علی” حُسن آراء نے بالآخر کہا۔
”کیا کرتے تھے؟” ”میں نے بتایا وہ مر گئے”۔
”سُن لیا میں نے … لیکن مرنے سے پہلے کچھ تو کرتے ہوں گے۔” دلشاد نے ناراضی سے کہا
”میرے بچپن میں ہی مر گئے”۔
حُسن آراء ایک بار پھر ہکلائی۔
”گھر کہاں ہے تمہارا؟”
”گھر …؟”
حُسن آراء جیسے مشکل میں پھنس گئی تھی۔
”بہن بھائی کتنے ہیں؟”
”میں اکلوتی ہوں”۔
”ماں بھی نہیں ہے کیا؟”
”نہیں”
دلشاد کا غصہ اُس کے ہر جواب سے بڑھتا جا رہا تھا’ بوا کا اندازہ بالکل ٹھیک لگ رہا تھا۔
”ماں نہیں باپ نہیں … بہن بھائی نہیں گھر نہیں تو کیا صوفی صاحب کو مسجد میں ملی تھی؟”
دلشاد نے بے حد طنزیہ انداز میں کہا۔
حُسن آراء جواب دئیے بغیر ٹکر ٹکر دلشاد کا چہرہ دیکھتی رہی۔
****




Loading

Read Previous

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Read Next

حاصل — قسط نمبر ۱

One Comment

  • Can I get this book from somewhere ?

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!