”آپ نے ابا سے پوچھا کہ اس طرح دوسری بیوی کی کیا ضرورت آن پڑی تھی اُنہیں ؟”
دلشاد باورچی خانے میں کھانا بنا رہی تھیں جب حُسنہ ایک بار پھر اُن کے پاس چلی آئی تھی۔
”مردوں سے ایسی باتیں نہیں پوچھی جاتیں”۔
”کیوں نہیں پوچھی جاتیں؟”
حُسنہ کا انداز بے حد عجیب تھا۔
”یہ خاندانی عورتوں کا طریقہ نہیں ہوتا”۔
”چاہے خاندانی مرد جو ”مرضی” کرتے رہیں”۔
”تمہارے ابا نے ”جو مرضی” نہیں کیا شادی کی ہے … اللہ نے اجازت دی ہے اُنہیں’ پھر میں اور تم روکنے والے کون ہوتے ہیں اُنہیں”۔ دلشاد نے بے حد سرد انداز میں اُسے سمجھایا۔
”آپ کے دل کو کچھ نہیں ہوتا اماں جب آپ اُنہیں اور ابا کو ساتھ دیکھتی ہیں؟” حُسنہ نے جیسے گلہ کیا۔ ”سبزی بناؤ … کھانے میں دیر ہو رہی ہے”۔
دلشاد نے تیزی سے موضوع بدلا۔
وہ حُسنہ سے کیا کہتی کہ دل کو جو کچھ ہو رہا تھا اُسے حُسنہ نہیں سمجھ سکتی تھی … صرف دلشاد بیگم کی ریاست نہیں چھنی تھی بلکہ اُن کے دل کا خون کر دیا تھا۔ صوفی صاحب نے … اعتماد’ اعتبار’ بھرم’ لحاظ … سب کچھ ختم ہو گیا تھا ایک ہی رات میں …
صوفی صاحب ”ایسے ویسے” مرد ہوتے تو دلشاد کو اتنی شکایت ہوتی نہ ایسا دھچکہ پہنچتا … سارا مسئلہ تو یہ تھا کہ صوفی صاحب ”ایسے ویسے” آدمی نہیں تھے … اور مسئلہ یہ بھی تھا کہ دلشاد کو اندھا اعتماد تھا اپنے شوہر پر … اور مسئلہ یہ بھی تھا کہ وہ 24 گھنٹے اُٹھتے بیٹھتے ہر آئے گئے کے آگے صوفی صاحب کی شرافت کا کلمہ پڑھتی تھیں … اور اب ایک ”دوسری بیوی” کے آ جانے سے یک دم دلشاد کو لگا تھا جیسے 35 سال صوفی صاحب بس شرافت کا لبادہ اوڑھ کر اُن کو دھوکہ دیتے رہے … ورنہ پتہ نہیں وہ گھر سے باہر کیا کیا کرتے رہے تھے … پتہ نہیں اِن کے علاوہ کتنی عورتیں اُن کی زندگی میں آتی جاتی رہی تھیں … اور پتہ نہیں حُسن آرا اُن کی زندگی میں ”کب” سے تھی’ جسے ایک دن یوں دھڑلے سے وہ اپنے گھر میں لے آئے۔
”کوئی بھّدی’ بوڑھی’ کم صورت’ بداخلاق عورت صوفی صاحب کی دوسری بیوی بن کر آتی تو دلشاد کو اتنا ملال اور قلق نہ ہوتا۔ پر حُسن آراء جیسی حسین اور کم عمر لڑکی کو جب وہ صوفی صاحب کے ساتھ دیکھتی تو جیسے اُس کے دل پر برچھیاں چلنے لگتیں …
حُسن آراء کے سامنے صوفی صاحب کو اب دلشاد کہاں نظر آنے والی تھی۔ حُسن آرا کے سامنے کسی بھی مرد کو اپنی عمر رسیدہ’ پرانی بیوی کہاں نظر آتی چاہے وہ کتنے بھی اونچے اور اچھے خاندان کی ہوتی … دلشاد کو ”حال” نہیں رُلاتا تھا ”مستقبل” رُلا رہا تھا … آنے والے دن اس گھر میں صرف حُسن آراء کے دن ہونے والے تھے … اور اُنہیں اسی کا خوف تھا۔
دن آہستہ آہستہ گزرنے لگے تھے۔ شروع شروع میں محلے اور خاندان کے کئی لوگ اُن سے افسوس کے لئے آئے۔ پھر آہستہ آہستہ سب کی تعداد کم ہونے لگی۔ حُسن آراء کو جیسے سب نے قبول کر لیا تھا … سوائے دلشاد کے …
اب صبح سویرے حُسن آراء صوفی صاحب کو کام پر جانے کے لئے دروازے تک چھوڑنے آتی اور شام کو جیسے ہی اُن کے آنے کا وقت ہوتا وہ سج سنور کر صحن میں منڈلانے لگتی۔ اُس کا سنگھار اور خوبصورتی دلشاد کو بُری طرح چبھتی تھی … کچھ بھی کر لیتی وہ نہ تو اپنی جوانی واپس لا سکتی تھیں نہ خوبصورتی میں حُسن آراء کے مقابل آ سکتی تھیں۔
صوفی صاحب کی جگہ کوئی بھی مرد ہوتا تو وہ اسی طرح حُسن آرا کے دام التفات کا شکار ہوتا جس طرح صوفی صاحب ہوئے تھے۔
دلشاد اور صوفی صاحب کے درمیان پہلے کی طرح اب بات چیت نہیں ہوتی تھی۔ اگر کوئی بات ہوتی بھی تو گویا حُسنہ کے بارے میں۔
فرق صوفی صاحب میں نہیں آیا تھا’ دلشاد کی سوچ میں آ گیا تھا۔ وہ صوفی صاحب کی ہر بات کا غلط مطلب نکالتی تھی۔ ہربات پر شک کرتی تھی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اُن سے اُلجھ پڑتی تھی … آخر اب اُسے ایک سلیقہ مند’ وفا شعار’ اطاعت گزار بیوی بن کر کیا لینا تھا۔ جس خدشے نے اُس سے یہ سب کچھ کروایا تھا۔ وہ خدشہ تو اُس کے گھر میں آ کر براجمان ہو گیا تھا۔ پھر اب بھلا اُس کا اور کیا جانا تھا۔
****
چند دن اور گزرنے پر دلشاد کو حُسن آراء کے انداز و اطوار بے حد کھلنے لگے۔ وہ گھر میں پازیبیں پہن کر پھرتی۔ موتیے کے گجرے بالوں میں لٹکائے رکھتی… ہر وقت زیورات پہنے رہتی اور ہر دوسرے چوتھے دن ہاتھوں اور پیروں پر مہندی لگائے بیٹھی ہوتی۔
دلشاد شاید ان سب چیزوں کو نظر انداز کرتی رہتی’ اگر اُسے یہ محسوس نہ ہونے لگتا کہ حُسنہ … حُسن آراء میں یک دم بہت زیادہ دلچسپی لینے لگی تھی …
اُس کا حُسن آراء کے لئے پہلے جیسا غصہ اور نفرت باقی نہیں رہی تھی بلکہ حُسن آراء کے ہر انداز کے لئے اُس کے پاس ستائش تھی اور یہ دلشاد کے لئے ناقابل برداشت تھا۔
”کس بات سے منع کروں اُسے؟”
صوفی صاحب کو اُس دن اُس کی شکایت نے حیران کر دیا تھا۔ ”آپ کو بتایا ہے میں نے۔” دلشاد بے حد مشتعل تھی۔
”اُس سے کہوں کہ وہ سنگھار نہ کرے؟”
”اس گھر میں جوان بیٹی ہے”۔
”تو وہ بھی تو جوان ہے دلشاد”۔
دلشاد کو صوفی صاحب کی بات کانٹے کی طرح لگی۔
”ہم پر بھی جوانی آئی تھی ہم تو کبھی گھر میں اس طرح پازیبیں چھنکاتے نہیں پھرے۔”
”ہر انسان دوسرے سے مختلف ہوتا ہے”۔
”اور جو وہ سنگھار کے سامان پر دھڑا دھڑ آپ کا روپیہ لُٹا رہی ہے۔”
دلشاد کو ایک اور شکایت پیدا ہوئی۔
”وہ اُس کا جیب خرچ ہے جو چاہے کرے… میں نے کبھی تم سے پوچھا کہ تم اپنے جیب خرچ کا کیا کرتی ہو؟”
”میں اُس کی طرح سنگھار کے سامان پر پیسہ برباد نہیں کرتی”۔
”ابھی نیا نیا شوق ہے۔ بعد میں خود ہی سمجھ جائے گئی وہ پھر تمہاری طرح وہ بھی بچت کرنے لگے گی”۔
دلشاد نے غصے میں اُن کی بات کاٹی۔
”اس غلط فہمی میں نہ رہیے گا۔ ہر عورت دلشاد نہیں ہوتی”۔
”جانتا ہوں دلشاد ایک ہی ہے … تم سمجھ لو حُسن آراء بھی ایک ہی ہے”۔
صوفی صاحب مزید کچھ سُنے بغیر کمرے سے نکل گئے۔ دلشاد کا خون کھولنے لگا۔ یہ پہلی بار نہیں تھا کہ وہ حُسن آراء کی طرف داری کر رہے تھے وہ ہر بات پر حُسن آراء ہی کی طرف داری کرتے تھے۔ پتہ نہیں اُس نے کیا جادو کر دیا تھا اُن پر۔
****
One Comment
Can I get this book from somewhere ?