”بس میں کہتی ہوں بوا حُسنہ کا بوجھ سر سے اُترے تو میں اور صوفی صاحب بھی حج کو نکلیں”۔
دل شاد نے سروتے سے چھالیہ کترتے ہوئے ایک گہرا سانس لے کر بوا سے کہا جو اُس کے پاس ہی صحن کے تخت پر بیٹھی ہوئی تھی۔
”میں تو اپنی سی کر رہی ہوں دلشاد … شہر کا ہر اچھا رشتہ لیکر تمہارے گھر آئی… مگر بس حُسنہ کی قسمت”۔
بوا نے بھی ایک گہرا سانس لیا اور پھر پان منہ میں رکھ لیا۔
”ٹھیک کہا تم نے بوا … یہ ساری قسمت کی بات ہوتی ہے مگر یہ تم ساتھ والے اکبر میاں کی ماں سے بات کیوں نہیں کرتی”۔
دلشاد نے بالآخر اُن سے اپنے دل کی بات کہی۔ ”ارے اکبر میاں کی ماں سے تو پہلے ہی پوچھ چکی ہوں میں”۔ بوا نے بے حد ناگواری سے ہاتھ کا اشارہ کیا۔ ”ایک آفت کی پرکالہ ہے اُس کی ماں … کہنے لگی ہم ہمسایوں میں شادی نہ کریں گے بیٹے کی … بہو سارا دن اپنی ماں کے گھر گھسی رہے گی۔ ہمیں تو بوا دوسرے شہر کا رشتہ دکھاؤ تاکہ بہو مہینوں کے بعد اپنے میکے کا رُخ کرے۔
بوا نے اکبر کی ماں کی نقل اُتارتے ہوئے کہا
”پھر بھی بوا … تم ایک بار پھر بات کرو … شکل و صورت اچھی ہے لڑکے کی … چال چلن بھی اچھا ہے … اوپر سے پوری جائیداد کا اکلوتا وارث … نہ بہن نہ بھائی … یہ رشتہ ہو گیا تو میری حُسنہ تو راج کرے گی راج”۔
دلشاد نے کہا ”تم کہتی ہو تو ایک بار پھر بات کرتی ہوں … مگر ایمان سے کہتی ہوں بیٹے کو بوڑھا کر کے دم لے گی یہ عورت … سو سو نقص نکالتی ہے ہر لڑکی میں”۔
”پر میری حُسنہ کی تو ہمیشہ ہی تعریف کی اُس نے”۔ دلشاد نے بے ساختہ کہا۔ ”منہ پر تو تعریفیں ہی کرتی ہے … اصل چھری تو پیٹھ پیچھے پھیرتی ہے … پر خیر اب تم نے کہا ہے تو بات تو کرنی ہی پڑے گی…
یہ صوفی صاحب نظر نہیں آ رہے گھر پر” بوا نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے یک دم موضوع بدلا۔
”ہاں نماز پڑھنے نکلے ہیں۔ دلشاد نے مسکراتے ہوئے کہا۔” ”اللہ سلامت رکھے صوفی صاحب کو… لاکھوں میں ایک ہیں … سر کا تاج بنا کر رکھا ہے انہوں نے تمہیں۔”
بوا نے بے حد فیاضی سے صوفی صاحب کی تعریف کی۔ ”بے شک بوا … ایسا میاں تو قسمت والی عورتوں کو ملتا ہے … میں تو خدا کا شکر ادا کرتے نہیں تھکتی”۔ ”دلشاد نے بھی بے ساختہ صوفی صاحب کی تعریف کی”۔
بے شک … بے شک … ورنہ بیٹا نہ ہو تو میاں تو طعنے دے دے کر مار دیتے ہیں … وہ نہ ہو تو دوسری شادی کر لیتے ہیں … واقعی فرشتہ صفت آدمی ہیں صوفی صاحب … اے پورے محلے میں ان جیسا آدمی نہیں … اچھا دلشاد میں چلتی ہوں … اب … جلد ہی کوئی اچھی خبر لے کر آؤں گی”۔
”بوا نے بالآخر پان کی ایک اور گلوری اُٹھاتے ہوئے کہا اور سلام کر کے دروازے کی طرف چل پڑی۔
دلشاد ایک گہرا سانس لے کر ایک بار پھر چھالیہ کترنے لگی تھی مگر اُس کا ذہن بوا کی باتوں میں اٹکا ہوا تھا۔ حُسنہ 20 سال کی ہونے کو آئی تھی اور ابھی تک اُس کی کہیں شادی طے نہیں ہو پا رہی تھی۔
یہ دلشاد بیگم اور صوفی صاحب کے لئے بے حد پریشان کُن بات تھی۔ خاندان کی ہر لڑکی سولہویں سترھویں سال میں بیاہی جا چکی تھی اور حُسنہ اب خاندان میں واحد لڑکی تھی جس کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی تھی … بظاہر اُس کی شادی نہ ہونے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ حُسنہ خوبصورت تھی۔ سگُھڑ اور سلیقہ مند تھی پھر صوفی صاحب کی اکلوتی اولاد تھی۔ بے حد حسب نسب والے ماں باپ کی اکلوتی اولاد … اس کے باوجود اُس کا رشتہ ابھی تک نہیں ہو پا رہا تھا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ اُس کے لئے رشتے ہی نہ آتے ہوں … اچھے اچھے خاندانوں سے حُسنہ کے لئے رشتے آتے رہے مگر شروع میں دلشاد بیگم اور صوفی صاحب ضرورت سے زیادہ چھان بین کرتے رہے۔
بعد میں یہ کام لڑکے والوں نے کرنا شروع کر دیا۔ 60اور70 کی دہائی میں بھی ان جیسے قدامت پرست گھرانوں میں بہت ساری چیزیں قابل اعتراض سمجھی جاتی تھیں۔ کئی گھرانوں کو حُسنہ کے اکلوتے ہونے پر اعتراض تھا کیونکہ اُنہیں لگتا ماں باپ نے حُسنہ کے ناز نخرے اُٹھا کر اُسے بگاڑ دیا ہو گا۔
کچھ گھرانوں کا خیال تھا کہ صوفی صاحب کو بیٹی کو قرآن کی تعلیم کے علاوہ سکول کی تعلیم بھی دینی چاہیے تھی کیونکہ حُسنہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھی۔ بعض گھرانوں کو صوفی صاحب کے گھرانے کے رکھ رکھاؤ پر اعتراض ہوتا۔ جہاں گھر سے باہر اب بھی عورتیں ٹوپی والا بُرقعہ پہن کر نکلتی تھیں اور بعض گھرانوں کو دولت مند ہونے کے باوجود اُن کے بے حد سادہ طرز زندگی پر …
زمانہ بدل رہا تھا مگر کم از کم اس کی کوئی جھلک بلند اقبال المعروف صوفی صاحب کے گھر نظر نہیں آتی تھی۔ وہ منڈی میں ایک بڑے آڑھتی تھے۔ آباؤ اجداد یہی کام کرتے آ رہے تھے اور انہوں نے کبھی اس سے ہٹ کر کچھ اور کرنے کا نہیں سوچا تھا … جو اضافی کام پچھلے کچھ سالوں میں وہ کرنے لگے تھے۔ وہ مسجد میں امامت کا تھا۔ امام صاحب کے نہ ہونے پر اکثر صوفی صاحب کو ہی محلے کی مسجد میں امامت کے لئے کھڑا کر دیا جاتا تھا اور وہ اسے جیسے اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہوئے کرتے تھے۔ نیک’ شریف اور کھلے دل سے خیرات کرنے والے آدمی تھے محلے میں کوئی ایسا نہیں تھا جسے صوفی صاحب سے کبھی کوئی شکایت پیدا ہوئی ہو۔
کچھ ایسا ہی حال دلشاد بیگم کا تھا۔ صوفی صاحب کی طرح وہ بھی ایک بہت اونچے اور با رسوخ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ صوفی صاحب سے اُن کی شادی سترہ سال کی عمر میں ہوئی تھی اور دونوں میاں بیوی میں کمال کی محبت تھی۔ دلشاد بیگم میں 17 سال کی عمرمیں بھی 40 سال کی عمر کی عورتوں والا رکھ رکھاؤ تھا۔ وہ نوکروں سے بھرے پرے گھر سے صوفی صاحب کے گھر میں آئی تھیں جہاں صوفی صاحب اور اُن کے ماں باپ کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ صوفی صاحب کے خاندان میں زیادہ ملازم رکھنے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ گھر کی بہوؤں کو خود ہی کام کرنا ہوتا تھا اور دلشاد بیگم نے پہلے دن سے ماتھے پر ایک شکن لائے بغیر اس گھر کے طریقوں کو یوں اپنا لیا تھا کہ شادی کے پندرہ سال بعد جب وقفے وقفے سے اُن کے ساس سُسر کا انتقال ہوا تو اُن کے ہونٹوں پر دلشاد کے گُنوں کے ہی قصیدے تھے۔
دلشاد کو اپنے خاندانی ہونے پر جتنا ناز تھا صوفی صاحب کی چہیتی بیوی ہونے پر اُس سے زیادہ فخر… صوفی صاحب واقعی دلشاد پر جان چھڑکتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ شادی کے پندرہ سال گزر جانے پر بھی کوئی اولاد نہ ہونے اور ہر ایک کے اصرار حتیٰ کہ دلشاد کے اجازت دے دینے پر بھی انہوں نے دوسری شادی نہیں کی۔ حُسنہ پندرہ سال کے بعد اُن کے ہاں پیدا ہوئی تھی اور حُسنہ کی پیدائش کے بعد دلشاد کے ہاں دوبارہ کبھی اولاد نہیں ہوئی۔ … صوفی صاحب نے شادی کے 35 سال میں دلشاد کو کبھی ایک بار بھی یہ چیز جتائی نہیں اور بدلے میں دلشاد نے بھی صوفی صاحب کی جی جان سے خدمت کی۔ صوفی صاحب نے اگر دن کو رات کہا تو دلشاد کے لئے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ وہ اُسے رات نہ کہتی۔ اپنے خاندان کی عورتوں کی طرح وہ اطاعت ‘ فرمانبرداری اور رکھ رکھاؤ میں اپنی مثال آپ تھی … اور اس بات کو ماننے اور سراہنے والے میکے’ سسرال اور محلے میں دلشاد کو بہت لوگ ملے … یہی سارے گُن دلشاد نے حُسنہ کو بھی دئیے تھے اور اسے اس بات پر بڑا ناز تھا کہ اُس کی بیٹی جیسی خاندانی لڑکی اب کہیں چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی تھی۔
اس کے باوجود پریشانی یہ تھی کہ حُسنہ ابھی تک ماں باپ کے گھر بیٹھی تھی اور حُسنہ کی پریشانی وہ واحد غم تھا جو ان دونوں کو ان دنوں لاحق تھا۔ حُسنہ خود بھی ان دنوں بے حد اُداس اور چپ رہنے لگی تھی اور اُس کی یہ حالت دلشاد اور صوفی صاحب کو مزید فکر مند کرتی تھی۔ وہ اُن کی لاڈلی اکلوتی بیٹی تھی آج تک ایسا نہیں ہوا تھا کہ حُسنہ کو کوئی کمی ہوئی ہو یا اُس کی کوئی فرمائش پوری نہ ہوئی ہو … مگر اب … اب جو کچھ ہو رہا تھا اُس پر نہ دلشاد بیگم کا اختیار تھا نہ صوفی کا … کوشش اور دُعا کے علاوہ وہ دونوں کچھ نہیں کر سکتے تھے اور یہ کام وہ دونوں سالوں سے کرتے آ رہے تھے۔
”تمہارے ابا ابھی تک نہیں آئے … اللہ خیر کرے”۔ دلشاد نے بے حد بے تابی سے صحن میں ٹہلتے ہوئے بے حد پریشانی سے حُسنہ سے کہا۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی کمرے سے نکلی تھی۔ ”اماں نماز پڑھنے گئے ہیں مسجد میں دیر سویر تو ہو ہی جاتی ہے”۔
حُسنہ نے قدرے لاپرواہی سے ماں کو تسلی دی۔ اتنی دیر تو کبھی نہیں ہوئی۔” دلشاد کی بے تابی میں کمی نہیں آئی۔
”مولوی صاحب کے پاس بیٹھ گئے ہوں گے آپ جانتی تو ہیں ابا کی عادت کو”۔
”پھر بھی اتنی دیر تو کبھی نہیں ہوتی”۔
اس سے پہلے کہ دلشاد کچھ اور کہتی صحن کے بیرونی دروازے پر بے حد شناسا دستک ہوئی۔
”یہ لیں آ گئے ابا … میں کہہ رہی تھی نا کہ آپ خوامخواہ فکر کر رہی ہیں۔”
حُسنہ نے صحن کے نلکے سے صراحی کو بھر کر اندر برآمدے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔ ”اس عمر میں اسی طرح فکر ہوتی ہے … تم جا کر کھانا لگاؤ”۔
دلشاد نے مسکرا کر دروازے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
”آج تو بہت دیر لگا دی آپ نے … میں پریشان ہو گئی تھی کہاں رہ …” دروازہ کھولتے ہوئے دلشاد نے کہنا شروع کیا اور پھر اُس کا جملہ اُس کے منہ میں ہی رہ گیا۔ صوفی صاحب کے عقب میں ایک برقعہ پوش لڑکی کھڑی تھی۔
”آؤ اندر آ جاؤ حُسن آرائ۔” صوفی صاحب نے دلشاد سے نظریں چراتے ہوئے اُس لڑکی سے کہا۔ برآمدے کی طرف صراحی لے جاتی ہوئی حُسنہ نے پلٹ کر باپ کو دیکھا اور قدرے حیرانی کے عالم میں رُک گئی۔ دلشاد نے بھی بے حد حیرانی سے باری باری صوفی صاحب اور اُس لڑکی کو دیکھا جو اپنے چہرے کو نقاب میں چھپائے بے حد سلیقے سے اُنہیں آداب کہہ رہی تھی۔ دلشاد نے اُس کے انداز اور مہندی کے نقش و نگار سے سجے اُس کے خوبصورت ہاتھوں کو دیکھا پھر کچھ نہ سمجھ میں آنے والے انداز میں آداب کہتے ہوئے اُس نے صوفی صاحب کو دیکھا جو اب دروازہ بند کر رہے تھے۔ حُسنہ اسی طرح دور برآمدے میں صراحی لئے دلچسپی سے اس سارے منظر کو دیکھ رہی تھی۔
”حُسن آراء یہ دلشاد ہے … اور دلشاد یہ حُسن آراء ہے۔” صوفی صاحب نے مدھم آواز میں اُن دونوں کو ایک دوسرے سے جیسے متعارف کروایا۔
”میں نے پہچانا نہیں”۔
دلشاد نے مسکرا کر قدرے اُلجھے انداز میں حُسن آراء کو دیکھا۔
”یہ میری دوسری بیوی ہے”۔ صوفی صاحب نے قدرے جھجھک کر دور برآمدے میں کھڑی حُسنہ کو دیکھتے ہوئے مدھم آواز میں کہا۔ مگر وہ آواز کسی کے لئے بھی اتنی مدھم نہیں تھی کہ سُنی نہ جا سکے۔ حُسنہ کے ہاتھ سے صراحی چھوٹ کر فرش پر جاگری۔ حُسن آراء چونک کر اُس کی طرف متوجہ ہوئی۔ جبکہ دلشاد دونوں ہاتھ سینے پر رکھے سفید پڑتے چہرے کے ساتھ صوفی صاحب کو دیکھ رہی تھی … کیا بے یقینی سی بے یقینی تھی…
دوسری بیوی؟
”حُسنہ اِنہیں اوپری منزل پر لے جاؤ … مہمان خانے میں … کل ایک کمرہ ٹھیک کر دینا ان کے لئے۔” صوفی صاحب نے دلشاد سے نظریں چراتے ہوئے دور کھڑی حُسنہ سے کہا۔ جس نے بے حد شکایتی نظروں سے باپ کو دیکھا اور پھر ایک لفظ کہے بغیر اندر چل پڑی۔
”جائیں حُسن آرائ۔” صوفی صاحب نے اُس سے کہا۔ دلشاد ابھی بھی پتھر کے مجسمے کی طرح وہیں دروازے پر کھڑی تھی۔ صوفی صاحب کا 35 سال میں تراشا جانے والا بُت دو سیکنڈز میں زمین پر گر کر چکنا چور ہو گیا تھا۔
حُسن آراء نے ایک بار پھر دلشاد کو دیکھا اور پھر اندر چلی گئی۔ ”کھانا لگاؤ”۔ صوفی صاحب نے دلشاد سے نظریں چراتے ہوئے کہا اور خود بھی سر سے ٹوپی اُتارتے ہوئے اندر چلے گئے۔
دلشاد وہیں کھڑی اُنہیں جاتا دیکھتی رہی۔ ”دوسری بیوی … حُسن آراء …” اُس کا ذہن ابھی تک ان الفاظ کی گونج سے لرز رہا تھا۔
One Comment
Can I get this book from somewhere ?