حسنہ اور حسن آرا — عمیرہ احمد

”اور وہ ؟”
”دلشاد نے جیسے بال کی کھال اُتاری۔ وہ بھی … آخر وہ کیوں خوش نہیں ہوں گے میرے ساتھ؟”
حُسنہ نے قدرے چونک کر ماں کو دیکھا۔
دلشاد نے اس موقع پر نصیحت کرنا ضروری سمجھا۔
”دیکھو حُسنہ اپنے میاں پر نظر رکھنا … مجھے اچھا نہیں لگتا جب وہ حُسن آراء کو گھورتا ہے۔”
”اماں وہم ہے آپ کو … انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ یہ شادی اُن کی پسند سے ہوئی ہے”۔
حُسنہ بات کرتے ہوئے ایک بار پھر شرمائی۔
”جانتی ہوں پسند سے ہی ہوئی ہو گی’ ہر مرد خاندانی عورت کو ہی بیوی بنانا چاہتا ہے”۔
دلشاد نے فخریہ انداز میں کہا۔
”مگر یہ طوائفیں تم ان کے مکرو فریب اور چلتر نہیں جانتیں”۔
”پر اماں وہ ابا کی بیوی ہے اب”۔
حُسنہ نے اُس کی حمایت کی۔
”اب …مگر کب تک … جولچھن اُس کے ہیں وہ بہت جلد اڑن چھو ہو جائے گی یہاں سے…بس اپنے میاں پر نظر رکھو تم … سمجھی؟”
”جی اماں”۔
حُسنہ نے مزید کچھ نہیں کہا۔
دلشاد کا اندازہ غلط نہیں تھا۔ اکبر اور حُسن آراء واقعی ایک دوسرے سے حد سے زیادہ بے تکلف تھے۔
اکبر شادی کے بعد اب صوفی صاحب کے گھر تقریباً روز آنے لگا تھا اور حُسن آراء بڑی گرم جوشی سے اُس کا استقبال کرتی اور دلشاد سلگتی رہتی۔
وہ دونوں زیادہ تر وقت اکٹھے ہی بیٹھے رہتے اور اکبر زیادہ تر صوفی صاحب کی عدم موجودگی میں ہی آتا۔
دلشاد کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ اُسے گھر آنے سے کیسے روکے’ آخر وہ اب اُن کا داماد تھا۔ وہ اُسے گھر آنے سے منع کر سکتی تھیں نہ حُسن آراء کے پاس بیٹھنے سے … لیکن حُسن آراء کو منع کیا جا سکتا تھا اور یہ کام انہوں نے ایک دن اکبر کے جانے کے فوراً بعد کیا۔
”دیکھو حُسن آراء اکبر داماد ہے صوفی صاحب کا”۔
حُسن آراء اُن کا منہ دیکھنے لگی۔
”اور تم بھی اُسے ”داماد” ہی سمجھو”۔
دلشاد نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”میں داماد ہی سمجھتی ہوں اُسے آپا”۔
حُسن آراء نے قدرے دھیمے انداز میں کہا۔





”داماد سمجھتی ہو تو پھر اُس کے آس پاس اتنا منڈلانے کی ضرورت نہیں ہے خبردار آئندہ اکبر کے پاس بیٹھ کر گپیں ہانکنے کی کوشش کی تو”۔
حُسن آراء کچھ بھی کہنے کی بجائے صحن سے اندر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ مگر اُس کی خاموشی نے دلشاد کو مطمئن نہیں کیا۔
اکبر دو دن کے بعد پھر آیا تھا اور حُسن آراء ایک بار پھر پہلے کی طرح اُس کے پاس بیٹھی رہی دلشاد کا خون کھولتا رہا۔
حُسن آراء واقعی ڈھیٹ تھی۔ البتہ اس دن اُس نے پہلے کی طرح اکبر کی خاطر مدارت نہیں کی۔
اکبر کے لئے شربت بنانے بھی دلشاد کو ہی جانا پڑا اور یہ دلشاد کے لئے زیادہ پریشانی کی بات تھی’ وہ اُن کے پاس بیٹھی رہتی تو کم از کم اُن دونوں پر نظر تو رکھ سکتی تھیں۔
شربت بناتے ہوئے بھی اُن کا سارا دھیان صحن سے آنے والے قہقہوں کی طرف ہی رہا۔ انہوں نے بالآخر باورچی خانے کی کھڑکی کی درز سے باہر جھانکا۔
اکبر حُسن آراء کو کچھ دے رہا تھا جسے حُسن آراء دوپٹے میں باندھ رہی تھی۔
دلشاد کے جیسے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے تو اب نوبت تحفے تحائف تک آن پہنچی تھی۔
وہ شربت لے کر باہر چلی آئیں۔ اکبر اور حُسن آراء اب بے حد سنجیدہ بیٹھے ہوئے تھے۔ دلشاد کا دل چاہا۔ حُسن آراء کا گلاگھونٹ دے۔
اکبر کے گھر سے جاتے ہی دلشاد نے آ کر اکھڑ انداز میں حُسن آراء سے کہا۔
”اکبر نے کیا دیا ہے تمہیں؟”
حُسن آرا گھبرا گئی۔ ”مجھے ؟ …
مجھے تو کچھ بھی نہیں دیا آپا”۔
دلشاد نے مزید کوئی سوال جواب کرنے کی بجائے یک دم حُسن آراء کا دوپٹہ کھینچ لیا۔
حُسن آراء کا رنگ اُڑ گیا۔
دلشاد نے دوپٹے کا بندھا ہوا پلو کھولا اور غصے سے اُن کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ وہ حُسنہ کی شادی کی ایک انگوٹھی تھی۔ داماد اُن کی بیٹی کا زیور لا لا کر سوتیلی ساس کو دے رہا تھا۔
”کچھ نہیں دیا اُس نے تمہیں ؟” دلشاد نے دانت پیستے ہوئے حُسن آراء سے کہا۔
”اوہ آپا یہ انگوٹھی تو مجھے یہیں سے ملی ہے … حُسنہ کی ہے یہ …
اُس دن آئی تھی تو حمام کے پاس چھوڑ کر چلی گئی …
میں نے پلو میں باندھ لی کہ اُسے لوٹا دوں گی”۔ حُسن آراء نے بے حد اطمینان سے کہا۔
دلشاد کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ حُسن آراء کو اُٹھا کر اپنے گھر سے باہر پھینک دے۔
”اچھا … کل آئے گی حُسنہ تو پوچھتی ہوں میں اُس سے”۔
دلشاد کو یقین تھا کہ حُسنہ کہہ دے گی کہ اُس کو اس انگوٹھی کا پتہ نہیں ہے۔
لیکن اگلے دن وہ اس وقت ہکا بکا رہ گئی تھی جب اُن کے سارا قصہ سنانے پر حُسنہ نے بے حد اطمینان سے اُنہیں کہا۔
”حُسن آراء سچ کہہ رہی ہے اماں یہ انگوٹھی واقعی میں حمام کے پاس بھول گئی تھی۔ گھر میں ڈھونڈ رہی تھی دو دن سے”۔
”میں نے خود اکبر …”
حُسنہ نے ناراضگی سے ماں کی بات کاٹی
”کیسی باتیں کرتی ہیں اماں … اتنا شک بھی اچھا نہیں ہوتا … آخر اکبر کیوں دیں گے یہ انگوٹھی حُسن آراء کو … اب آپ کہیں ایسی باتیں ابا سے مت کیجیے گا … ”کتنی بے عزتی ہو گی خوامخواہ میں آپ کی”۔
حُسنہ نے جیسے اُسے جتایا تھا کہ صوفی صاحب اُس کی بات پر یقین نہیں کریں گے۔
دلشاد کی سمجھ میں نہیں آیا وہ حُسنہ سے کیا کہے۔ اُنہیں یقین تھا انہوں نے وہ انگوٹھی اکبر کو حُسن آراء کو دیتے ہوئے دیکھا تھا اور حُسنہ اُنہیں یقین دلا رہی تھی کہ اُن کی آنکھوں کو دھوکا ہوا تھا۔ کیا وہ واقعی سٹھیانے لگی تھیں۔
****




Loading

Read Previous

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Read Next

حاصل — قسط نمبر ۱

One Comment

  • Can I get this book from somewhere ?

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!