اگلی صبح وہ بہت پر سکون تھا۔ عجیب بات یہ تھی کہ وہ پر سکون ہی نہیں غیر معمولی طور پر پرجوش بھی تھا۔ اس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی تھی کہ وہ کتنے عرصے کے بعدٹینا سے مل رہا تھا۔ اس نے ذہن میں سب کچھ دہرایا تھا جو اسے ٹینا سے کہنا تھا۔ اسکے بتائے ہوئے وقت پر وہ پارک پہنچ گیاتھا۔ وہ گیٹ پر اس کا انتظار کر رہی تھی۔ حدید بہت دیر تک اس کے چہرے سے نظر نہیں ہٹا سکا۔ وہ اسے لے کر ایک بینچ پر آکر بیٹھ گئی تھی۔
”میں آج تم سے سب کچھ صاف صاف کہنے آئی ہوں، مجھے زندگی میں کبھی بھی تم سے محبت نہیں رہی۔ تمہارا میرا تعلق نوجوانی کی بہت سی دلچسپیوں میں سے ایک تھا یا تم یہ کہہ لو کہ تم میرے دوست رہے تھے۔ مگر تم کبھی بھی میرے واحد دوست نہیں رہے۔ تم نے جب مجھے پرپوز کیا۔ اس وقت پہلی بار میں نے سنجیدگی سے تمہارے بارے میں سوچا مگر تب بھی مجھے تم سے محبت نہیں ہوئی۔ میں نے سوچا تم اگر اپنا کیرئیر بنا لیتے ہو تو زندگی گزارنے کے لیے ایک اچھے ساتھی ثابت ہوسکتے ہو۔ تم ایک اچھے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔تمہاری پاس اچھی خاصی دولت تھی۔ ہینڈسم تھے اور ہماری کلاس کے لڑکوں کے برعکس بہت سلجھے ہوئے تھے۔ تم فلرٹ نہیں تھے۔ تعلیم میں بھی بہت اچھے تھے۔ میرے پیرنٹس کے لیے تم ایک اچھی چوائس ہوسکتے تھے۔ مگر تب تم نے حماقتیں کرنی شروع کر دیں۔ اپنی ممی کے زخمی ہونے پر تم نے پاکستان شفٹ ہونے کافیصلہ کرلیا۔ تم باہر کی بجائے یہاں پڑھنا چاہتے تھے۔ میں نے سوچا، میں تمہیں سمجھا لوں گی۔ تم وقتی طور پرایموشنل ہو رہے ہو۔ بعد میں ٹھیک ہو جاؤ گے۔ مگر ایسا نہیں تھا۔
پھر تمہارے پاپاوالا حادثہ ہوگیا۔ تمہاری ممی پر اس معاملے میں انوالو ہونے کے الزامات لگنے لگے ۔ اخبارات میں تمہارے پاپا کی دوسری بیوی کے بیان آنے لگے۔ جائیداد پر کیے جانے والے جھگڑوں کی تفصیلات اخباروں میں چھپنے لگیں۔ تمہاری ممی کے مختلف لوگوں کے ساتھ اسکینڈلز کی تفصیلات سامنے آگئیں ۔پہلے جنہیں صرف اسکینڈل سمجھا جاتا تھا اب ان کے ثبوت بھی ملنے لگے۔ پھر تمہاری ممی نے اقبال جرم کرلیا۔ تمہاری جائیداد تمہارے خاندان میں بٹ گئی۔ تمہاری ممی نے خود کشی کرلی۔ حدید! میرے لیے شاید یہ سب کچھ نظر انداز کرنا بہت آسان ہوتا اگر مجھے تم سے محبت ہوتی مگر ایسا نہیں تھا میری فیملی کسی بھی صورت میں مجھے تمہارے ساتھ شادی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ خود میں بھی ایک ایسے شخص کے ساتھ شادی نہیں کرسکتی جس کے پاس ماں باپ کے چھوڑے ہوئے چند بینک اکاؤنٹس کے علاوہ کچھ نہ ہو۔
میری فیملی اس شہر کی چند نامی گرامی فیملیز میں سے ایک ہے۔ کیا وہ ایک ایسے خاندان کے ساتھ رشتہ جوڑنا پسند کریں گے جو خاندان صرف اپنے اسیکنڈلز کی وجہ سے مشہور ہو؟ کیا کوئی بھی پیرنٹس اپنی بیٹی کی شادی ایسے لڑکے سے کریں گے جس کی ماں نے اپنے شوہر کو قتل کردیا ہو اور پھر خود کشی کرلی ہو؟ جس کے افیئرز کی داستانیں اخباروں میں چھپتی رہی ہوں۔ جس کے باپ نے اپنے سے بیس سال چھوٹی لڑکی سے شادی کر کے ساری جائیداد اس کے نام لکھ دی ہو۔ تم مجھ سے ایک سال چھوٹے ہو۔ تم نہیں جانتے، تمہیں زندگی میں کیا کرنا ہے۔
تمہاری تعلیم مکمل نہیں ہے۔
تمہارا کوئی بزنس نہیں ہے۔
تمہارے پاس خاندان کی اچھی شہرت بھی نہیں ہے۔
ذہنی طور پر تم فرسٹریشن کا شکار ہو۔
کیا گارنٹی ہے کہ تم زندگی میں ایک اچھے شوہر ثابت ہوگے؟
کیاگارنٹی ہے کہ تم مجھے وہ سب کچھ دے سکو گے جس کی مجھے خواہش ہے۔
میرے ماں باپ نے مجھے جتنی آسائشات دی ہیں۔ میں چاہتی ہوں میرا شوہر مجھے اس سے زیادہ آسائشات دے۔
مگر تمہارے پاس کیا ہے؟
اسٹیبلش ہوتے ہوتے تمہیں بہت سال لگ جائیں گے اور میں اتنا لمبا انتظار نہیں کرسکتی۔
تم خود کو میری جگہ رکھ کر سوچو، کیا تم ان چیزوں کو اگنور کرسکتے تھے شاید اگنور کر دیتے اگر تمہیں دوسرے فریق سے محبت ہوتی مگر میرا پرابلم یہ ہے کہ مجھے تو تم سے محبت بھی نہیں تھی۔ اس لیے میں نے تمہیں چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ میرے پیرنٹس میری انگیجمنٹ کرچکے ہیں، اس مہینے کے آخر میں میری شادی ہے۔ میرا فیانسی آئی اسپیشلسٹ ہے۔ تم چاہو تو ایک اچھے دوست کی طرح شادی میں شرکت کر سکتے ہو ورنہ خداحافظ۔ امید ہے، آج کے بعد تم اپنے وعدے کے مطابق دوبارہ کبھی مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کرو گے۔”
وہ اٹھ کر چلی گئی تھی۔ حدید نے اسے بھی جاتے دیکھا تھا ہمیشہ کے لیے، اس نے تب تک اس پر نظریں جمائے رکھی تھیں جب تک وہ نظر آتی رہی تھی پھر وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی تھی۔ اس نے اپنے چہرے کو ہاتھوں میں ڈھانپ لیا تھا۔ ٹینا کے لفظ کوڑے بن کر اس کے ذہن اورجسم پر برس رہے تھے۔
”تمہارا باپ، تمہاری ماں، تمہارا خاندان…۔”
وہ حیران تھا کہ وہ خود اپنے لباس پر لگے ہوئے یہ سارے داغ کیسے بھول گیا تھا۔ ”انیس سال ایک بے داغ زندگی گزارنے کے بعد بھی میں اس ایک لڑکی کے لیے بھی قابلِ قبول نہیں ہوں۔ جس سے میں محبت کرتا ہوں۔ وہ بھی مجھے اس چشمے سے دیکھ رہی ہے جس سے دنیا دیکھتی ہے۔ باعزت ہونے کے لیے میرا باکردار ہونا ضروری نہیں ہے۔ میرے ماں باپ کا باکردار اوردولت مند ہونا ضروری ہے۔ محبت کرنے کے لیے ایثار، قربانی،صبر اور برداشت ضروری نہیں ہے میری ڈگری اور کیریر ضروری ہے ۔خدا کے نزدیک سب سے اچھا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے مگر خود خدا اس تقویٰ والے کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے؟ اور اب یہاں سے مجھے حدید بن کر واپس نہیں جانا ہے مجھے اب کچھ اوربن کر کہیں جانا ہے ۔ اگر میرے مذہب کاخدا مجھے ٹھکرا رہا ہے تو میں کسی اورمذہب کے خدا کو ڈھونڈ لوں گا ایسے خدا کوجو میری بات سنتا ہو۔ جس کے پیغمبر کے لیے میرے آنسو، آنسو ہوں پانی نہیں جس کے لیے میں انسان ہوں، کیڑا نہیں۔ اگر سکون مذہب بدلنے میں ہے تو میں مذہب بدل لوں گا۔”
اس نے غم و غصے کے عالم میں اپنے چہرے سے ہاتھ ہٹالیے تھے۔ اپنے سے کچھ فاصلے پر پارک کی روش پر اس نے Habit میں ملبوس ننز کا ایک گروپ دیکھا تھا۔ وہ جان گیا تھا اسے کیا کرنا تھا۔ بے اختیار وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر ان لوگوں کی طرف بڑھ گیا تھا۔
*…*…*
وہ خاموش ہوگیا تھا۔ اس نے حدید کے چہرے سے نظریں ہٹالیں۔ دھند بہت گہری ہوگئی تھی۔ کیتھڈرل کے اوپر لگا ہوا جگمگاتا ہوا ہولی کر اس اب نظر نہیں آرہا تھا۔ دھند نے اسے نظروں سے اوجھل کردیا تھا۔ اس نے اسے ڈھونڈ نے کی کوشش نہیں کی تھی۔ چرچ میں اب بہت خاموشی تھی۔ پہلے والا شور بہت کم ہوچکا تھا۔ سروس بہت دیر کی ختم ہو چکی تھی اوراب دور پارکنگ سے گاڑیاں نکالنے کی ہلکی ہلکی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
وہ دونوں چپ چاپ بینچ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ دونوں سوچ رہے تھے ایک ماضی کے بارے میں، دوسرا مستقبل کے بارے میں اور حال… حال سے دونوں بے خبر نظر آرہے تھے۔
”مجھے نہیں پتا محبت کیا ہوتی ہے اسے کس طرح ڈیفائن کرتے ہیں کس طرح وضاحت کرتے ہیں۔ میں یہ سب نہیں جانتا لیکن میں یہ ضرورجانتا ہوں کہ میں نے خدا سے بہت محبت کی ہے۔ اتنی محبت جتنی میں کرسکتا تھا۔”
کرسٹینا نے ایک طویل خاموشی کے بعد اپنے بائیں جانب اس کو بولتے سنا تھا۔ گردن موڑ کر اس نے حدید کا چہرہ دیکھا تھا۔ وہ کیتھڈرل کے اوپر لگے ہوئے کراس کو دھند میں تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”لیکن میرے پیرنٹس کی طرح خدا کے پاس بھی میرے لیے وقت نہیں ہے، میں نے جب بھی اس سے دعا کی ہے مجھے کچھ نہیں ملا پچھلے اٹھارہ انیس سال میں نے ایک جہنم میں گزارے ہیں۔ ہر دن میں خدا سے دعا کرتا تھا۔ اس سے درخواست کرتا تھا کہ وہ ہمارے گھر کو ٹھیک کردے، سب لوگوں کے گھروں کی طرح میرے پیرنٹس ایک دوسرے کے ساتھ خوش رہنا سیکھ لیں۔ میرے لیے ان کے پاس کچھ وقت بچ جائے، مگر کچھ بھی نہیں ہوا مجھے کچھ نہیں ملا جب ممی اور پاپا کی ڈائی وورس ہونے والی تھی تو میں نے خدا سے دعا کی تھی کہ ایسا نہ ہو وہ کبھی الگ نہ ہوں مگر ڈائی وورس ہوگئی۔ جب پاپا پر حملہ ہوا تب میں نے دل سے خدا کو پکارا تھا کہا تھا کہ پلیز میرے پاپا کو بچا لو میری دعا قبول نہیں ہوئی۔ میں نے دعا کی تھی کہ ممی کو سزا سے بچالو، انہیں کچھ نہ ہو۔ وہ میرے پاس آخری رشتہ تھیں، مجھے ان سے محبت تھی مگر کچھ نہیں ہوا میری کوئی دعا ان کے کام نہیں آئی۔ممی کو سزاہو گئی اورپھر ان کی ڈیتھ ہوگئی اورپھر میں نے ایک فقیر کی طرح خدا سے کہا تھا کہ وہ ٹینا کو مجھ سے جدا نہ کرے، اسے تو میرے ساتھ رہنے دے مگر… مگر خدا نے میرے ساتھ کیاکیا۔ مجھ سے آخری چیز بھی چھین لی۔ جب میں انگلینڈ میں تھا تو وہاں میں نے ان لوگوں کو ہربات پر یسوع کہتے سنا تھا۔ وہ اپنے نبی کا نام لیتے تھے۔ میرے سارے فرینڈز میں کوشش کرتا تھا اتنی ہی عقیدت سے اپنے نبیۖ کا نام لوں، ان سے مدد مانگوں انہیں بتاؤں کہ اللہ میرے ساتھ کیا کر رہا ہے اگر یسوع خدا سے اس کے فیصلے تبدیل کروا سکتے تھے تو پھر میرے پرافٹ کیوں نہیں۔ یسوع مسیح مردوں کو زندہ کر دیتے تھے مٹی کے پرندوں میں جان ڈال دیتے تھے۔ بیماروں کو ٹھیک کردیتے تھے۔ وہ ایک دو نہیں لوگوں کے بہت سے معجزے کیا کرتے تھے میں نے سوچا میرے نبیۖ میرے لیے یہ سب کیوں نہیں کرتے جبکہ میں ان سے محبت کرتا ہوں۔ سب کچھ ان ہی کے بتائے طریقے سے مانگ رہا ہوں پھر بھی ان کے نزدیک میں کچھ بھی نہیں میری کوئی اہمیت نہیں ہے۔ کوئی آخر کتنی بار ٹھکرایا جائے اوریقین کرو مجھے واقعی ہر بار لیٹ ڈاؤن کیاگیا ہے۔ ہربار مجھے مایوس کیا گیا ہے۔ کوئی بھی شخص اپنے مذہب کو معمولی باتوں پر تو نہیں چھوڑتا کچھ نہ کچھ تو ایسا ضرور ہوتا ہے جو آپ کو کہیں اندر سے ہرٹ کرتا ہے اور میں… میں اندر سے ہرٹ ہوا ہوں ایک بار نہیں کئی بار۔ میرا ہاتھ اتنی بار جھٹکا گیا ہے کہ اب میں نے ہاتھ بڑھانا ہی چھوڑ دیا ہے۔ مذہب مشکل وقت میں آپ کاسہارا ہوتا ہے اگر یہ مشکل وقت میں بھی سہارا نہیں بن سکتا تو پھر ایسے مذہب کا کیا فائدہ؟ پھر میں تو خدا کے بنائے ہوئے دو مذاہب میں سے ایک کا انتخاب کر رہا ہوں۔ کوئی غلط کام تو نہیں کر رہا؟”
وہ اب اس سے سوال کر رہا تھا۔ وہ بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھتی جا رہی تھی۔
”اگر میں کہوں ہاں تو؟”
حدید نے بے یقینی سے اسے دیکھا تھا۔ شاید وہ اس جواب کی توقع نہیں کر رہا تھا۔
”میں تمہارے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ مجھے نہیں پتا، تم کیسی زندگی گزار رہی ہو۔ مجھے یہ بھی پتا نہیں کہ تم نے کبھی کسی سے محبت کی ہے یا نہیں۔ مگر میں نے اپنی ساری زندگی دوزخ میں گزاری ہے ایسے دوزخ میں جس میں مجھے میری کسی غلطی کی سزا کے طور پر نہیں ڈالا گیا تھا۔ جب آپ دوزخ میں ہوں تو پتا ہے زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہوتی ہے؟ صرف ایک ہلکی سی معمولی سی ٹھنڈک! تاکہ دوزخ کی گرمی کچھ تو کم ہوجائے۔ ٹینا میرے لیے وہی ٹھنڈک تھی۔ میں نے زندگی میں اس سے بڑھ کر کسی کو نہیں چاہا بلکہ شاید مجھے یہ کہنا چاہیے کہ میں نے زندگی میں اس کے علاوہ کسی کو چاہا ہی نہیں۔ میں نے خدا سے کہا تھا میں نے ہرچیز کھودی ہے مجھے پروا نہیں ہے لیکن اگر ٹینا میری زندگی سے نکل گئی تو پھر سب کچھ بدل جائے گا۔ ہر چیز ختم ہوجائے گی۔ میرا ایمان میرا پیغمبرۖ میرا مذہب میں سب کچھ چھوڑ دوں گا اورمیں نے خدا سے ریکوئسٹ کی تھی کہ وہ ایسا کبھی نہ کرے لیکن اس نے کیا۔
اس نے مجھے دکھادیا کہ اسے میری پروا نہیں۔
اس نے مجھے بتا دیا کہ اس کے نزدیک میری ویلیو ایک چیونٹی جتنی بھی نہیں ہے۔
تم مجھے بتاؤ، میری جگہ اگر تم ہو تو تم کیا کرو گی۔ میں یہاں جس گھر میں واپس جاؤں گا وہاں نہ پیرنٹس ہیں نہ بہن بھائی وہاں صرف دیواریں ہیں اوردیواروں سے تو آپ کو محبت نہیں مل سکتی۔
دنیا میں کوئی ایک شخص نہیں ہے جس کو مجھ سے محبت ہو جس کے لیے میرا وجود کوئی معنی رکھتا ہو۔ جو میری پروا کرتا ہو۔
دنیا میں کتنے بلین لوگ ہیں ان میں سے ایک کو بھی حدید نام کے اس شخص کے وجود کی ضرورت نہیں ہے۔
تم کبھی اندازہ لگا سکتی ہو جب میں لوگوں کا ہجوم ہر جگہ دیکھتا ہوں تو میرا دل کیا چاہتا ہے؟ میرا دل چاہتا ہے ان میں کوئی میرا نام پکارے۔ کسی کے چہرے پرمجھے دیکھ کر مسکراہٹ آجائے۔ مگر مجھے کوئی جانتا ہے نہ پہچانتا ہے۔ محبت تو بہت دور کی بات ہے۔ میں چرچ جانا شروع نہ کرتا تو میں پاگل ہو جاتا یا پھر خود کشی کرلیتا۔ میں زندگی سے اس حد تک تنگ آچکا ہوں۔ مجھے نہیں پتا اللہ نے دنیا کس کے لیے بنائی ہے مگر یہ کم از کم میرے جیسے انسان کے لیے تو نہیں بنائی ہے۔”
اس کی آواز بھرا گئی تھی۔
”جو بات میں تمہیں اب بتاؤں گی شاید تمہیں اس پر کبھی یقین نہیں آئے گا۔ تم سوچو گے، میں جھوٹ بول رہی ہوں شاید تم قہقہہ لگا کر ہنس پڑو لیکن پھر بھی مجھے تم سے یہ بات تو کہنا ہی ہے۔
حدید نے حیرانی کے ساتھ اسے دیکھا تھا۔ وہ اسی کی طرف دیکھ رہی تھی بھیگی پلکوں اورپر سکون چہرے کے ساتھ۔
”کیا تم کو یقین آئے گا کہ میں تمہاری محبت میں نہیں تمہارے عشق میں گرفتار ہوں۔”
اس کے جملے پر وہ ساکت رہ گیا تھا۔
” اور یہ عشق اس روز پارک میں تمہیں دیکھنے پر ہوا تھا۔ میں نے پہلی نظر تمہیں دیکھا تھا اورمیں جان گئی تھی کہ میں اسیر ہوچکی ہوں۔ تم نہیں جانتے یہ بات تم سے کہنے کے لیے میں نے تمہیں اس دن کتنا ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی مگر تم نہیں ملے اوراس دن میں نے اللہ سے کہا تھا کہ اگر تم مجھے دوبارہ مل گئے تو میں اسلام قبول کرلوں گی کیونکہ تم مسلم تھے اس دن تم نے سسٹر کو اپنا نام بتایا تھا نا؟”
وہ ایک لمحے کے لیے خاموش ہوئی تھی۔ حدید کے چہرے پر انتہائی بے یقینی تھی۔
”تم خاموش کیوں ہو،بولونا؟”
”کیا بولوں؟ ” وہ کچھ توقف کے بعد بولا تھا۔
”کچھ کہو۔” اس نے اصرار کیا تھا۔
”کیا کہوں؟”
”وہی!”
حدید حیران ہوا تھا۔”کیا؟”
کرسٹینا مسکرائی تھی۔”کہ مجھے تمہاری بات پر یقین نہیں آرہا۔”
حدید اسے خاموشی سے دیکھتا رہا۔” ہاں مجھے یقین نہیں آرہا۔” چند لمحوں کے بعد اس نے کہا تھا۔
”ہاں ٹھیک ہے… اورکبھی یقین کرنا بھی مت، پتا ہے کیوں؟ تم یقین کرو گے، اعتبار کرو گے تو میرا عشق اور گہرا ہو تا جائے گا۔ تمہیں پتا ہے یقین محبت کو اندھا کردیتا ہے اورمیں کسی سے اندھی محبت نہیں کرنا چاہتی کم از کم کسی انسان سے تو نہیں۔ تم میری بات پر یقین نہیں کرو گے تو مجھے ٹھوکر لگے گی ہر ٹھوکر مجھے سنبھلنے کا موقع دے گی۔ ایک بار نہیں دوبار نہیں مگر کبھی نہ کبھی تو میں سنبھل جاؤں گی۔”
حدید کو پہلی بار وہ لڑکی عجیب لگی تھی بے حد عجیب۔
”میں تمہیں… میں تمہیں سمجھ نہیں پارہا۔”
وہ اس کی بات پر مسکرائی تھی۔”سمجھنا چاہتے ہو؟”
”ہاں۔”
”ایک ڈیل کرتے ہیں، تم مجھے سمجھنے کی کوشش کرو۔ میں تمہیں سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں اور جب ہم ایک دوسرے کو سمجھ لیں گے تو شاید میں کرسٹینا نہ رہوں مگر تم حدید ہی رہو گے ۔ ایک ماہ تک ہم یہاں آئیں گے چرچ میں لیکن تم اپنی بات کرنا۔ میں اپنی بات کروں گی۔ تم میرے بارے میں جو پوچھو گے میں بتا دوں گی اورتمہارے بارے میں جو جاننا چاہوں، وہ تم بتادینا۔” وہ حیرانی سے اسے دیکھ رہا تھا وہ اس کے سامنے جیسے شطرنج کی بساط بچھا رہی تھی یا پھر کوئی جگساپزل رکھ رہی تھی۔
”ایک ماہ کے بعد ہم دونوں کبھی نہیں ملیں گے۔ پھر نہ تم مجھے ڈھونڈنے کی کوشش کرنا۔ نہ میں تمہیں ڈھونڈوں گی۔ تم وہ کہنا جو تمہارے دل میں آئے میں وہ کہوں گی جو میرے دل آئے گا۔ ہاں اور ایک ماہ تک تم بائبل پڑھو گے نہ ہی کسی مبلغ کے پاس جاؤ گے ۔ صرف قرآن پڑھناترجمے کے ساتھ۔ اب میں جارہی ہوں کل بارہ بجے میں یہاں آجاؤں گی ، کیا تم آؤ گے؟”
وہ اب کھڑی ہو کر اس سے پوچھ رہی تھی۔ وہ چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔ وہ اسے جھڑک دینا چاہتا تھا، وہ اس سے کہنا چاہتا تھا کہ وہ اسے اس رستے سے نہ بھٹکائے، اسے وہاںڈٹ جانے دے جہاں وہ جانا چاہتا تھا۔ وہ اس سے کہنا چاہتا تھا کہ وہ اس کی زندگی میں مداخلت کیوں کر رہی ہے اسے اس میں کیا دلچسپی ہے؟ وہ اس سے کیا چاہتی ہے؟ اورحدید نے کہہ دیاتھا۔
”ہاں میں آؤں گا۔”
وہ ایک بار پھر مسکرائی تھی۔
”خدا حافظ۔” وہ مڑ گئی تھی۔
”میں آپ کو ڈراپ کردوں گا۔ آپ کو کہاں جانا ہے؟ ” وہ بے اختیار اس کے پیچھے آیا تھا۔
”نہیں، میں یہ نہیں چاہتی۔”
”آپ مجھے اپنا کانٹیکٹ نمبر تو دے دیں۔” وہ اس کے ساتھ چلنے لگا تھا۔
”تم مجھے اپنا فون نمبر دے دو۔” کرسٹینانے رک کر اس سے کہا تھا وہ چند لمحے سوچتا رہا پھر اس نے جیب سے والٹ نکال کر ایک کاغذ اسے تھما دیا تھا۔ کرسٹینا نے دیکھے بغیر کاغذ مٹھی میں دبا لیا۔ وہ اس کے ساتھ چلتا ہوا پارکنگ کی طرف آیا تھا۔ وہاں ابھی بھی بہت سے لوگ کھڑے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
کیتھڈرل کا اگلا حصہ بہت روشن تھا۔ وہ چرچ کے اندر جانے لگی تھی جب اسے اپنے عقب میں حدید کی آواز سنائی دی تھی اس نے مڑ کردیکھا تھا۔ وہ کچھ جھجکتا ہوا اس کے پاس آیا تھا۔
”مجھے ایک بات پوچھنی ہے۔ کیا…کیا…کیا تمہیں واقعی مجھ سے محبت ہے؟”
”حدید نے کرسٹینا کے چہرے پر مسکراہٹ کو گہرا ہوتے دیکھا تھا۔”نہیں مجھے… مجھے تم سے عشق ہے۔”
اس نے بڑی روانی سے کہا تھا۔ وہ مڑ کراندر چلی گئی تھی۔ حدید وہیں کھڑا اسے لوگوں کے ہجو م میں گم ہوتے دیکھتا رہا۔ ا س کا دل چاہا تھا۔ وہ … وہ اس سے دوبارہ ملے۔
*…*…*