حاصل — قسط نمبر ۱

وہ ساری رات جاگتا رہا تھا۔ صبح چار بجے ہاسپٹل سے فون آیا تھا۔ اس نے لرزتے ہاتھوں کے ساتھ فون ریسیو کیا تھا۔ اس کا تعارف سننے کے بعد دوسری طرف سے کسی نے اطلاع دی تھی۔
”آپ ہاسپٹل آجائیں۔ آپ کے فادر کی ڈیتھ ہوگئی ہے۔”
وہ ریسیور ہاتھ میں لیے بہت دیرتک بے حس و حرکت کھڑا رہا تھا۔ دوسری طرف سے فون بند کیا چکا تھا۔
”تو خدا نے اس باربھی میرے لیے کچھ نہیں کیا۔ حالانکہ میں نے اتنی دعائیں مانگی تھیں۔ کیا اتنی دعائیں مانگنے کے بعد بھی کوئی کسی کو اس طرح ٹھوکر مار سکتا ہے؟ میں نے خدا سے پاپا کی زندگی کی بھیک مانگی تھی۔ خدا دوسروں کوبغیر مانگے خزانے دے دیتا ہے اور مجھے… مجھے اس نے بھیک میں بھی کچھ نہیں دیا۔”
”میں… میں دوبارہ کبھی اس کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاؤں گا۔ میں اب اس سے کچھ نہیں مانگوں گا۔” اس نے ہاتھ کی پشت سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے طے کیا تھا اورفون کا ریسیور رکھ دیا۔
اگلے چند دن اس کے لیے بہت سخت تھے۔ بلال علی کی تدفین سے فارغ ہونے کے بعد اس کے گھر میں زبردست جھگڑا ہواتھا۔
اس نے تدفین کے موقع پر ہی بلال علی کی دوسری بیوی کو دیکھا تھا، وہ تیس بتیس سال کی ایک خوبصورت لڑکی تھی اور بار بار غش کھا کے بے ہوش ہو رہی تھی۔ وہ حدید کی پھوپھو کے ساتھ آئی تھی اور زرشی کے اصرار کے باوجود حدید نے اسے اپنے گھر آنے سے نہیں روکا تھا۔ اسے اس عورت کو دیکھ کر غصہ بھی نہیں آیا تھا۔ بلال علی کی زندگی میں اس شادی پر اس کا رد عمل شاید کچھ اور ہوتا مگر اب سب کچھ اس کے لیے بے معنی ہو چکا تھا۔
*…*…*
سوئم والے دن بلال علی کی دوسری بیوی اوراس کے والدین نے جائیداد میں اپنے حصے کا مطالبہ کردیا تھا اور وہ اس کام میں اکیلے نہیں تھے۔ حدید کی دونوں پھوپھیاں اوران کے شوہروں نے بھی اپنے حصے کا مطالبہ کیا تھا۔ زرشی ضمانت قبل از گرفتاری کی وجہ سے اب تک پولیس کی گرفت میں آنے سے بچی ہوئی تھی لیکن خاندان کے سب لوگ حدید کو مجبور کررہے تھے کہ وہ زرشی کو گرفتار کروا دے کیونکہ وہ سب اسے ہی بلال علی کی قاتلہ سمجھتے تھے۔
انگلینڈ سے حدید کے نانا اورنانی بھی آچکے تھے۔ اورسوئم والے دن ان کے اور بلال علی کی دوسری بیوی اورحدید کی پھپھوؤں کے درمیان زبردست جھگڑا ہوا تھا۔ زرشی بلال علی کی دوسری بیوی اوراس کے والدین پر بلال علی کے قتل کا الزام عائد کر رہی تھی اوراس نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروا دی تھی اورجواباً وہ لوگ بمعہ حدید کی پھوپھو کے زرشی پر یہ الزام عائد کر رہے تھے اور اسے بلال علی کی جائیداد سے دستبردار ہونے پر مجبور کررہے تھے۔
حدید عجیب کش مکش کا شکار تھا۔ وہ کچھ طے نہیں کر پا رہا تھا کہ اسے کیا کرنا چاہیے، زرشی اپنے بے گناہ ہونے پر اصرار کر رہی تھی اور خود اس کا دل بھی یہ تسلیم نہیں کر رہا تھا کہ وہ ایسا کام کر سکتی ہیں دوسری طرف باقی سب لوگ۔
بلال علی کے وکیل نے جو وصیت ان سب کی موجودگی میں پڑھ کر سنائی تھی۔ وہ اس سے بھی زیادہ پریشان کن تھی۔ انہوں نے اپنی جائیداد کے بہت سے حصے کردئیے تھے۔ کچھ جائیداد حدید کے نام تھی کچھ اپنی دوسری بیوی کے، کچھ اپنی دونوں بہنوں کے اورکچھ رقم اپنے ملازموں کے، لیکن انہوں نے زرشی کے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا تھا اسے انہوں نے اپنی جائیداد سے عاق کر دیا تھا۔ انہوں نے ان چیزوں سے بھی زرشی کو محروم کرنے کو لکھا تھا جو پہلے ہی زرشی کی ملکیت میں تھیں یا ان دونوں کے نام تھیں یا پھر زرشی کے نام تھیں۔ قانوناً وہ ایسا نہیں کرسکتے تھے مگر اپنی وصیت میں بلال علی نے وہ تمام چیزیں اپنی دوسری بیوی کے نام کردی تھیں۔
اور یہ سب زرشی کو سیخ پا کرنے کے لیے کافی تھا۔ اس نے اپنے وکیل سے جائیداد کے حصول کے لیے مقدمہ کرنے کے لیے کہا تھا۔ لیکن وصیت کا اعلان کرنے کے تیسرے دن پولیس ضمانت ختم ہونے پر اسے گرفتار کر کے لے گئی تھی۔ اس کی ضمانت کی معیاد میں عدالت نے اضافہ نہیں کیا تھا کیونکہ اس کے خلاف واقعات و شواہد بہت مضبوط تھے۔ زرشی کے ماں باپ اورحدید نے یہ گرفتاری رکوانے اور بعد میں انہیں رہا کروانے کے لیے بہت بھاگ دوڑ کی تھی مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔
پولیس نے زرشی کا ریمانڈ حاصل کرلیا تھا۔بلال علی کی دوسری بیوی اوربہنیں زرشی کو سزا دلوانے کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہی تھیں کیونکہ زرشی کے مجرم ثابت ہوجانے کی صورت میں وہ آرام سے جائیداد کے مالک بن سکتے تھے۔





”میں یہاں نہیں رہ سکتی۔ میں یہاں مر جاؤں گی۔ فار گاڈ سیک حدید! مجھے یہاں سے نکا ل لو۔ کچھ بھی کرو مگر مجھے یہاں سے نکال لو۔”
ہر بار ملاقات ہونے پر وہ حدید کے سامنے روتی اور گڑگڑاتی اور حدید بے بسی سے اسے تسلی دے کر آجاتا۔ ان دنوں اخبار زرشی اوربلال علی کے متعلق خبروں سے بھرے ہوئے تھے۔ زرشی کے بارے میں ہر نئی پتا چلنے والی بات کو مرچ مسالا لگا کر چھاپا جاتا تھا۔ ہرروز صبح اخبار دیکھ کر حدید کا دل چاہتا، وہ کسی ایسی جگہ بھاگ جائے جہاں کوئی انسان نہ ہو۔
ٹینا کا رویہ بھی بہت عجیب ہوچکا تھا۔ وہ اس سے ملنے سے کتراتی تھی صرف فون پر چند منٹ بات کرتی اورپھر کوئی نہ کوئی بہانا بنا کر فون بند کردیتی۔ فیکٹری بند کی جا چکی تھی۔ کیونکہ اس کی ملکیت کے بارے میں کورٹ میں کیس چل رہا تھا۔ سارے لاکرز اور اکاؤنٹس بھی فریز کردئیے گئے تھے۔ حدید نانا سے ملنے والی رقوم سے کورٹ اور گھر کے اخراجات پورے کر رہا تھا۔
”یہ سب میرے ساتھ لوگ نہیں خدا کر رہاہے۔” وہ ہر نئی پریشانی پر سوچتا۔
مگر اس کے لیے ابھی بہت سی مصیبتیں باقی تھیں۔
چھ ماہ بعد اچانک زرشی نے اقبال جرم کرلیا تھا۔ حدید اس خبر پر سکتہ میں آگیا تھا۔ وہ جیل میں زرشی سے ملنے گیا تھا۔ اس نے اس بار پہلی دفعہ حدید سے نظریں نہیں ملائی تھیں۔ سلاخوں کے اس پار وہ سرجھکائے بیٹھی رہی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ وہ اس سے کیاپوچھے، اس سے کیا کہے۔
”آپ نے مجھ پر بہت ظلم کیا۔”
”بہت دیر بعد اس نے کہا تھا اورزرشی نے سراٹھا کر اسے دیکھا تھا۔
”آپ کو ان سے محبت نہیں تھی مگر وہ آپ کے شوہر تھے۔ آپ کو انہیں قتل کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا تھا۔ مجھے یقین نہیں آتا، کہ کوئی عورت ایسی ہوسکتی ہے۔”
اس نے زرشی کی آنکھوں میں پانی امڈتے دیکھا تھا۔
”ہر چیز کی ابتدا اس نے کی تھی۔ میں نے تو بس…”
”آپ ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھیں تو ان سے طلاق لے لیتیں مگر آپ نے دولت کی خاطر طلاق لینے کے بجائے انہیں مار دیا۔ آپ نے میرے باپ کو مار دیا۔ اب کہاں ہے وہ دولت جس کے لیے آپ نے؟” وہ بلند آواز میں چلایا تھا۔
”میں اس کو قتل نہ کرتی تو وہ مجھے قتل کر دیتا۔تم جانتے ہو، اس نے مجھ پر حملہ کروایا تھا۔ میں اسے مارنا نہیں چاہتی تھی مگر اس نے میرے لیے دوسرا کوئی راستہ نہیں چھوڑا تھا۔” وہ اب رو رہی تھی۔
”اگر کبھی میں آپ کے لیے دوسرا راستہ نہیں چھوڑوں گا تو کیا آپ مجھ کو بھی قتل کروا دیں گی؟” اس نے زہریلے لہجے میں پوچھا تھا۔
”حدید!”
”ہاں آپ کروا سکتی ہیں۔ آپ شوہر کو مار سکتی ہیں تو اولاد کو بھی مار سکتی ہیں۔آپ نے میرے لیے دنیا میں کہیں کچھ نہیں چھوڑا۔ عزت کی ایک دھجی تک نہیں، میں لوگوں کو آپ کی بے گناہی کا یقین دلاتا پھر رہا ہوں اور آپ…آپ جیسی عورتوں کو گھر نہیں بسانا چاہیے۔ آپ کو تو گھر کا مطلب بھی پتا نہیں۔ جس نام اورشہرت کے لیے آپ نے اپنا گھر برباد کردیا۔ وہ نام اورشہرت آج کسی اخبار میں پڑھ کر دیکھیں، دیکھیں لوگ آپ کو کتنی عزت سے یاد کرتے ہیں۔ آپ جیسی عورتیں پتا نہیں دنیا سے اپنی کون سی قابلیت منوانا چاہتی ہیں۔ آپ نے ہمیشہ مجھے نظر انداز کیا۔ پاپا کو نظر انداز کیا۔ لوگوں کو یہ بتاتے ہوئے کہ آپ میری ماں ہیں، میں کس عذاب سے گزرتا ہوں، یہ صرف میں ہی جانتا ہوں، کیوں اتنی ہوس تھی آپ کو شہرت کی؟ نام کی؟ آخر کیوں؟ کیوں آپ نے اپنے ساتھ دو اور انسانوں کو بھی تباہ کر دیا؟ کیوں آپ کو ایک انسان کو قتل کرتے ہوئے خوف نہیں آیا؟”
اس کے سوالوں کا زرشی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ بس بہتے آنسوؤں کے ساتھ چپ چاپ اسے دیکھ رہی تھی۔
جب وہ خاموش ہوا تو ایک دم وہ سلاخوں کے ساتھ سر لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ حدید کچھ کہے بغیر اس کے پاس سے اٹھ کر آگیا تھا۔
اگلے دن وہ وکیل کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔
”کچھ کہا نہیں جاسکتا، زیادہ امکان یہی ہے کہ انہیں پھانسی کی سزا ہو جائے گی کیونکہ یہ پلانڈ مرڈر تھا اگر کسی طر ح پھانسی نہیں ہوئی تو بھی لمبی سزا سے بچنا اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے اگر بلال علی کے ورثاء انہیں معاف کر دیں یعنی ان کی بہنیں، دوسری بیوی اورآپ اور یہ کافی مشکل ہے۔ بہرحال آپ کوشش کریں، شاید وہ…”
و کیل نے اسے بتایا تھا اور وہ مایوسی سے آفس سے نکل آیا تھا۔
”مجھے نہیں پتا، میں آپ کو کبھی معاف کر سکوں گا یانہیں لیکن کوشش کر رہا ہوں کہ آپ کو سزا نہ ہو اور یہ میں آپ کے لیے نہیں اپنے لیے کر رہا ہوں۔ میں باپ کے بعد اب ماں سے بھی محروم ہونا نہیں چاہتا۔”
اگلی ملاقات پر وہ تھکے تھکے انداز میں زرشی کو بتا رہا تھا۔ وہ خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی تھی۔ چند ماہ کے عرصے نے اسے اپنی عمر سے بوڑھا کردیا تھا، فیشل اورماسک کے ذریعے چھپائی جانے والی جھریاں اب چہرے پر نمایاں تھیں۔ پیڈی کیور اورمینی کیور سے محروم ہاتھ پاؤں کے ناخن بڑھے ہوئے اورگندے تھے اس نے پتا نہیں کتنے دنوں سے کنگھی نہیں کی تھی۔ ملک کے سب سے مہنگے لباس تیار کروانے والی کے کپڑے ملگجے اورمسلے ہوئے تھے۔ حدید نے کبھی زرشی کو اس حالت میں نہیں دیکھا تھا اوراب اسے اس طرح دیکھ کر اسے تکلیف ہو رہی تھی۔
”کیا اسے مکافاتِ عمل کہا جاسکتا تھا؟” اس نے سوچا تھا۔
”مجھے یہاں نیند نہیں آتی۔ یہاں بہت مچھر ہیں۔ میں ساری رات جاگتی رہتی ہوں۔”
وہ مضمحل آواز میں اسے بتا رہی تھی وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے تسلی دینے لگا تھا۔
سزا معاف کروانے کی اس کی ساری کوششیں ناکام ہوئی تھیں۔ ان لوگوں میں سے کوئی بھی زرشی کو معاف کرنے پر تیارنہیں ہوا تھا۔اب صرف یہ باقی رہ گیا تھا کہ جج اسے پھانسی کی سزا دیتا ہے یا عمر قید کی۔
مقدمے کے فیصلے سے ایک رات پہلے وہ پھربہت عرصہ کے بعد خدا کے سامنے زرشی کے لیے گڑگڑایا تھا۔
”اس بار تو تم میری دعا سن لو۔ اس بار تو میرا ہاتھ نہ جھٹکو۔پاپا کے لیے نہیں تو ممی کے لیے ہی سہی، مگر میری دعا قبول کرلو۔ کوئی ایک رشتہ تو میرے لیے رہنے دو۔ اے خدا میں تو مسلم ہوں۔ ایک خدا کا ماننے والا ہوں اوراپنی ماں کے لیے دعا کررہاہوں۔ ماں باپ کے لیے دعا کرنے والے کی دعا تو تم رد نہیں کرتے۔ میرے پاس یہ آخری رشتہ رہ گیا ہے یہ بھی ختم ہوگیا تو میں کیا کروں گا؟ کیسے رہوں گا، کیسے جیوں گا؟ خدا اس بار تو مجھ پر رحم کرنا، اس بار تو مجھے مایوس مت کرو۔ میں تیرے سب سے عزیز پیغمبر ۖ کا ماننے والا ہوں۔ تو میرے لیے،ان کے لیے ہی مجھے معاف کردینا، میری آزمائش ختم کردینا۔ میری ماں کو تکلیف سے آزادی دے دینا۔ اپنے پیغمبر ۖ کی امت کو تو تو مایوس نہیں کرتا۔ ان کی دعائیں تو تو ضرورسن لیتا ہے، میں بھی ان کی امت میں سے ہوں۔ میں بھی تجھ سے مانگ رہا ہوں۔ مجھ پر اپناکرم کر۔ مجھ کو مایوس مت کر۔”
*…*…*
”ملزمہ زرشی بلال علی پر اپنے شوہر بلال علی کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قتل کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ تمام واقعات و حقائق اورگواہوں کے بیانات کی روشنی میں یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ ملزمہ زرشی بلال علی نے جائیداد کے حصول اوراپنے شوہر سے دوسری شادی کا بدلہ لینے کے لیے اسے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بڑی بے رحمی سے قتل کیا۔ یہ عدالت ملزمہ زرشی بلال علی کو عمر قید اورپھانسی کی سزا دیتی ہے۔”
اگلے روز صبح گیارہ بجے عدالت نے فیصلہ سنادیا تھا۔ زرشی نے عدالت میں ہی بلند آواز میں رونا شروع کردیا تھا۔ حدید کسی بت کی طرح اپنی سیٹ پر بیٹھا رہا تھا۔
”پوری رات گھٹنوں کے بل کسی بھکاری کی طرح خدا کے سامنے گڑگڑانے کا نتیجہ یہ ہے اوریہ سب پہلی بار نہیں ہوا، ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ آخر میں نے اللہ سے دعا کیوں کی تھی۔آخر کیوں میں نے…؟” وہ چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر بلک بلک کر رونے لگا تھا۔ پولیس زرشی کو لے جا چکی تھی ۔فوٹو گرافرز اس کے آگے پیچھے بھاگتے ہوئے بر آمدے میں اس کی تصویر کھینچ رہے تھے۔ عدالت کا کمرہ خالی ہوچکا تھا۔ اس کا وکیل شکست خوردہ انداز میں اسے تسلی دے رہا تھا۔
”زندگی میں خدا کی وجہ سے میں آخر کتنی بازیاںہاروں گا۔” اس نے اپنی سیٹ سے اٹھتے ہوئے تلخی سے سوچا تھا۔
اس شام اسے ایک بار پھر ٹینا کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔ اس نے اس امیدمیں اسے فون کیا تھا کہ شاید وہ بیرون ملک سے واپس آگئی ہو۔پچھلے کئی ماہ سے اسے فون کرنے پر یہی پتا چلتا تھا کہ وہ امریکہ گئی ہوئی ہے اور ابھی تک واپس نہیں آئی، اسے پہلی بار یہ جان کر حیرانی ہوئی تھی کیونکہ وہ اسے مطلع کر کے نہیں گئی تھی۔ لیکن پھر اس نے یہ سوچ کر خود کو تسلی دے دی تھی کہ وہ پچھلے کئی ماہ سے اتنا مصروف رہا ہے کہ شاید جب اس نے فون کیا ہوگا وہ اسے نہیں ملا ہوگا لیکن امریکہ جانے کے بعد ایک بار بھی اس نے حدید سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی اور بہت سی دوسری پریشانیوں میں ایک پریشانی یہ بھی شامل ہوگئی تھی۔
”کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ وہ کب تک واپس آئیں گی یا ان سے رابطے کے لیے کوئی فون نمبر یا ایڈریس دے دیں۔”
اس نے ہمیشہ کی طرح فون پر اپنا مطالبہ دہرایا تھا۔ فون پر ٹینا کی کزن بات کر رہی تھی اوراس نے یہ کہہ کر فون رکھ دیا تھا کہ وہ اس کا فون نمبر اورایڈریس نہیں دے سکتی، البتہ ٹینا کا فون آنے پر اس کے بارے میں اسے بتا دے گی۔ ٹینا نے مناسب سمجھا تو وہ پھر خود اس سے رابطہ کر لے گی۔ حدید نے بے دلی سے فون رکھ دیا تھا۔
*…*…*
اگلے دن وہ زرشی سے ملنے گیا تھا اوراسے دیکھتے ہی اسے اس کے ذہنی انتشار کا اندازہ ہوگیا تھا۔ وہ پوری ملاقات میں بلند آواز میں روتی رہی تھی اورالتجائیں کرتی رہی تھی کہ وہ کسی طرح اسے جیل سے نکال لے۔ وہ سلاخوں کے دوسری طرف ہاتھ جوڑتی رہی تھی اور وہ بے بسی کے عالم میں ماں کو دیکھتا رہا تھا۔
”حدید! میں یہاں مر جاؤں گی۔ میں یہاں نہیں رہ سکتی۔”
وہ سلاخوں کے درمیان لگی ہوئی جالی پر ہاتھ مار مار کر روتی رہی۔ اس کے پاس تسلی کے لیے کوئی لفظ نہیں تھے، وہ صرف وہ چیزیں ان کے حوالے کر کے آگیا تھا جو زرشی کے لیے لے گیا تھا۔
اس دن جیل سے نکلنے کے بعد وہ گھر نہیں گیا تھا۔ وہ پورا دن اورپوری رات بے مقصد سڑکوں کے چکر کاٹتا رہا تھا۔ رات کے بارہ بجے نہر کے کنارے گھاس کے قطعے پر جا کر وہ بیٹھ گیا تھا اورپوری رات اس نے نہر کے پانی اورسامنے سڑک پر آنے والی ٹریفک کو دیکھتے ہوئے گزار دی تھی۔
”سات سال میں جیل اور گھر کے درمیان چکر کاٹتے گزاردوں گا اورسات سال کے بعد میں جسے گھر لے کر آؤں گا۔ وہ میری ماں کی لاش ہوگی اوراس کے بعد میری زندگی میں بچنے والا دوسرا خونی رشتہ بھی ختم ہو جائے گا۔” وہ گیلی آنکھوں سے نہر کے پانی کو دیکھتا رہا۔
اسے سات سال جیل اورگھر کے چکر کاٹنے نہیں پڑے۔ اگلی ملاقات سے پہلے ہی ایک رات اسے جیل میں اپنی ماں کی خود کشی کی خبر مل گئی تھی۔ زرشی نے نیند کی گولیاں کھا کر خود کشی کی تھی۔
نیند کی گولیاں جیل کے اندر ان تک کس نے پہنچائی تھیں؟




Loading

Read Previous

حسنہ اور حسن آرا — عمیرہ احمد

Read Next

حاصل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!