”ایکسکیوزمی سسٹر!” روش پر دھیمے قدموں کے ساتھ چلتی ہوئی وہ گروپ میں سب سے پیچھے تھی، جب اس نے بینچ پر بیٹھے ہوئے اس لڑکے کواچانک اٹھ کر سسٹر الزبتھ کی طرف بڑھتے اورانہیں روکتے دیکھا تھا۔
”مجھے آپ سے بات کرنی ہے، میں عیسائی ہونا چاہتا ہوں اس کے لیے مجھے کیا کرنا ہوگا؟”
بھیگے لہجے میں کہے گئے اس بلند جملے نے پورے گروپ کو رک جانے پر مجبور کردیا تھا۔ وہ بھی باقی سب کی طرح اس کا چہرہ دیکھنے لگی تھی۔
وہ سفید شرٹ اور سیاہ جینز میں ملبوس سترہ اٹھارہ سال کا ایک دراز قد لڑکا تھا۔ اس کے سیاہ چمکیلے بال بے ترتیب تھے۔ شاید اس نے دوتین دن سے شیو بھی نہیں کی تھی ۔ اس کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں، پلکیں ابھی تک بھیگی ہوئی تھیں شاید وہ اس بینچ پر کچھ دیر پہلے تک بیٹھا رو رہا تھا۔ اس کی صاف رنگت کی وجہ سے آنکھوں کے گرد پڑے ہوئے حلقے بہت نمایاں نظر آرہے تھے۔
اس نے چند لمحوں میں ہی اس کے پورے سراپے کا جائزہ لے لیا تھا۔
”یورنیم؟” سسٹر الزبتھ نے کچھ حیرانی سے اس سے پوچھا تھا۔
”محمد حدید” اس کے جواب پر ایک لمحے کے لیے اس کاسانس رک گیا تھا۔
سسٹر الزبتھ نے بے اختیار مڑ کر اس کو دیکھاتھا۔ چند سیکنڈ کے لیے دونوں کی نظریں ملی تھیں۔
”میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتی۔”
سسٹر الزبتھ یک دم محتاط ہوگئی تھیں۔ ان کی آواز قدرے مدھم ہوگئی تھی۔
”آپ کو فادر سے بات کرنا چاہیے۔”
انہوں نے اس سے کہا تھا۔
”اس کے لیے مجھے کہاں جانا چاہیے؟”
اس نوجوان کے چہرے کے اضطراب میں اضافہ ہوگیا تھا۔سسٹر الزبتھ نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا تھا اورپھر چند قدم آگے بڑھ کر اس نوجوان کو ایک طرف لے گئی تھیں، کچھ دیر وہ دونوںوہاں باتیں کرتے رہے تھے پھر اس نوجوان نے اپنا والٹ نکال کر سسٹر کو ایک پین اورکارڈ دیا تھا۔ سسٹرنے کارڈ کی پشت پر کچھ لکھ کراسے پکڑا دیا تھا۔ وہ کسی ڈمی کی طرح سب کچھ دیکھتی رہی تھی۔
”اسے کیا چاہیے ہوگا جس کی طلب اسے…”
اس نے اسے دیکھتے ہوئے سوچنے اور بوجھنے کی کوشش کی تھی۔ گلے میں پڑی ہوئی سونے کی چین جواس کے کھلے گریبان سے جھلک رہی تھی اور ہاتھ میں باندھی ہوئی کرسچن ڈی اور کی گھڑی اسے کسی معمولی گھرانے کا فرد بھی ظاہر نہیں کررہے تھے اور اگرروپیہ پاس ہے اور روپیہ کمانے کے لیے کسی باہر کے ملک کے ویزے وہاں سیاسی پناہ اور پھر نیشنیلٹی کی بھی ضرورت نہیں تو پھر یہ، یہ سب کیوں کرنا چاہتا ہے؟
وہ ابھی بھی الجھی ہوئی تھی۔ چند منٹوں بعد اس نے اس نوجوان کو والٹ جیب میں ڈال کر واپس اسی بینچ کی طرف جاتے دیکھا تھا اور سسٹر الزبتھ کو اپنی جانب آتے دیکھا تھا۔ ان کی واپسی پر کسی نے ان سے کوئی سوال نہیں کیا تھا، روش پر پھر پہلے کی طرح سب کی چہل قدمی شروع ہوگئی تھی مگر وہ وہاں سے جانا نہیں چاہتی تھی۔ ان لوگوں کے ساتھ چلتے ہوئے اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا۔ وہ لڑکا اب بھی اسی بینچ پربینچ کی پشت سے ٹیک لگائے چہرہ ڈھانپے بیٹھا ہوا تھا۔بے اختیار اس کا دل بھاگ کر اس کے پاس جانے کو چاہا تھا صرف ایک لمحے کے لیے صرف ایک بات کہنے کے لیے۔
اس نے مڑ کر اپنے آگے چلتے ہوئے گروپ کو دیکھا تھا اورخود کو بے بس پایا تھا۔ وہ پیچھے جانا چاہتی تھی، واپس وہیں مگر وہ آگے چلتی جارہی تھی۔ اسے پتا تھا یہ روش سیدھا اس پارک سے باہر لے جائے گی۔ وہ واپس وہاں نہیں آسکے گی اسے جو بھی کرناتھا بہت جلدی میں کرنا تھا مگر اسے آخر کیاکرنا تھا۔
روش پر چلتے چلتے وہ گھاس پر چلنے لگی، بڑے غیر محسوس طریقے سے اس نے اپنا جوتا اتار دیا تھا اور پھر اسی طرح سب لوگوں کے ساتھ چلتی رہی۔ایک بار پھر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا۔ بہت دور بینچ پر اب وہ ایک نقطے کی صورت میں نظر آرہا تھا۔ مگر وہ وہاں تھا۔ وہ لوگ گیٹ کے پاس پہنچ گئے تھے۔
”اوہ مائی گاڈسسٹر! میں اپنا جوتا تو وہیں گھاس پر بھول آئی، مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ میں ننگے پاؤں چل رہی تھی۔” اس نے سسٹر الزبتھ سے کہا تھا۔
”کہاں اتارا تھا؟” سسٹر نے کچھ تشویش سے دیکھا تھا۔
”مجھے اچھی طرح جگہ یاد ہے وہ اس درخت کے پاس جو جھاڑی نظر آرہی ہے وہیں گزرتے گزرتے میں نے جوتا اتارا تھا میرا خیال تھا ہم واپس ادھر سے ہی گزریں گے تو میں جوتا پہن لوں گی مگر پھرآپ نے اس گیٹ سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا میں بس پانچ منٹ میں لے کر آتی ہوں۔” اس نے چلتے ہوئے کہا تھا۔
”اوکے”سسٹر نے آئس کریم کی مشین کی طرف جاتے ہوئے کہا تھا۔ وہ سر ہلاتے ہوئے واپس مڑ گئی تھی۔ روش پر چلنے کے بجائے اس نے گھاس پر بھاگنا شروع کردیا تھا۔ وہ جلد از جلد اس کے پاس پہنچ جانا چاہتی تھی۔ چند منٹ بھاگنے کے بعد اس نے سر اٹھا کراس نظر آنے والے بینچ کو دیکھا تھا جس پر وہ بیٹھا ہوا تھا مگر اب وہ بینچ خالی نظر آرہا تھا۔ اسے بے اختیار ٹھوکر لگی تھی۔ اس بینچ کے قریبی بینچ بھی خالی نظر آرہے تھے۔ وہ بے اختیار آگے بھاگتی چلی گئی تھی۔ اس نے پارک کی روشوں پر چلتے لوگوں میں اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی مگر وہ اسے نظر نہیں آیا تھا۔
اس نے بے اختیار بھاگ کر گیٹ سے باہر نکلنے کی کوشش کی تھی، اس کی چادر کا ایک کونا گیٹ میں اٹک گیا تھا۔ وہ اسے چھڑانے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی،ننگے سر اورننگے پیر بھاگتی ہوئی وہ گیٹ پار کر کے باہر نکل گئی تھی۔ گاڑی تب تک ایک زناٹے کے ساتھ ٹرن کر کے سڑک پر پہنچ چکی تھی۔جب تک وہ سڑک پر پہنچتی، تب تک کار اس کی پہنچ سے بہت دور ہو چکی تھی۔
اس نے بے بسی سے دور جاتی ہوئی کار کو دیکھا تھا۔پھر ایک مایوسی سی اس کے وجود پرچھا گئی تھی۔ پہلی بار اسے احساس ہوا کہ وہ گیٹ کے باہر اوراندر جانے والے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔ اسے ان نظروں کی پرواہ نہیں تھی اسے اس وقت کسی بھی چیز کی پرواہ نہیں تھی۔ گیٹ کے قریب آتے ہی اس نے چوکیدار کے ہاتھ میں اپنی چادر دیکھ لی تھی۔ اس نے اسے دیکھ کر چادر اس کی طرف بڑھا دی تھی،ہونٹ بھنیچتے ہوئے اس نے چادر لے کر اوڑھ لی تھی۔
”کیا بات ہے بی بی؟کیاہوا ہے؟”
چوکیدار متجسس تھا۔ اس نے جواب نہیں دیا، چپ چاپ اندر چلی گئی۔ روش سے گھاس پر اتر کر اس نے مطلوبہ جگہ جوتا تلاش کرنے کی کوشش کی تھی۔ اسے جوتا نہیں ملایا تو وہ جگہ بھول چکی تھی یا پھر کوئی جوتا اٹھا چکا تھا۔ چند منٹ وہ گھاس پر بے دلی سے جوتا ڈھونڈتی رہی پھر واپس اس گیٹ کی طرف چل دی جہاں سسٹرز اس کا انتظار کر رہی تھیں۔
گھاس پر چلتے چلتے اس نے اپنے پیر میں کوئی چیز چبھتی محسوس کی تھی۔ وہ رک گئی تھی اس نے پیر اٹھا کر دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ اسے اندازہ نہیں ہوا کہ پاؤں میں کیا چبھا تھا۔اب وہ گھاس سے ہٹ کر روش پر چلنے لگی تھی۔
”تم نے پریشان کردیا… اتنی دیر؟ میں تو ڈر گئی تھی ابھی تمہارے پیچھے آنے والی تھی۔” سسٹر الزبتھ نے اسے دیکھتے ہی کہا تھا۔ تبھی ان کی نظراس کے پیروں پر پڑی تھی۔
”کیا ہوا؟ جوتا نہیں ملا؟” انہوں نے کچھ حیران ہو کرپوچھا تھا۔
اس نے سر کی جنبش سے انکار کیا تھا۔ سسٹر نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا تھا اورپھر کچھ متفکر ہوگئی تھیں۔
”تمہیں کیا ہوا ہے؟ اتنی پریشان کیوںہو؟”
”کچھ نہیں ہوا…سسٹر کچھ بھی نہیں ہوا بس جو ڈھونڈرہی تھی۔ وہ نہیں ملا حالانکہ میں نے تو…یقین کریں میں نے تو بہت، بہت کوشش کی تھی پھر بھی پتا نہیں کیوں…”
وہ بڑبڑائی تھی۔ سسٹر الزبتھ نے اس کی آنکھوں میں امڈتی ہوئی نمی کو دیکھا تھا اورپھر اس کے گال چھوتے ہوئے اسے جیسے تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔
”کم آن ایک جوتے کے گم ہو جانے پر اتنی پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ ہو جاتا ہے ایسا کئی دفعہ مگر اس میں رونے والی کون سی بات ہے؟ ابھی راستے سے دوسرا جوتا خریدلیں گے۔”
سسٹر الزبتھ نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا تھا۔باقی سسٹرزنے بھی اسے تسلی دی تھی اورپھر اسے چیئراپ کرنے کی کوشش کرنے لگیں۔ وہ آنکھوں میں تیرتی ہوئی نمی کو اپنے اندر اتارنے کی کوشش کرنے لگی۔
*…*…*
پچھلے کئی دنوں سے وہ سسٹر الزبتھ کے دئیے ہوئے پتے پر جارہا تھا۔ فادر جوشوا کے پاس جا کر اس نے انہیں سب کچھ کہہ دیا تھا۔ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ وہ خود کو کیاسمجھ رہا تھا… اس کا ذہنی خلجان۔
اس نے ہر چیز کھل کر بتائی تھی۔ فادر جوشوا نے بڑی محبت اور توجہ سے اس کی ساری گفتگو سنی تھی اورپھر دیر تک اسے اولڈاورنیو ٹیسٹمنٹ سے کچھ چنی ہوئی باتیں بتاتے رہے۔ حضرت عیسیٰ کی مسیحائی اور معجزات، مدر میری کی بے گناہی اورپاک بازی، ان کی آزمائشیں حضرت عیسیٰ کی تنہا زندگی جو انہوں نے لوگوں کے لیے وقف کردی تھی اورپھر ان ہی لوگوں کے ہاتھوں ان کا تختہ دار پر چڑھایا جانا، وہ کسی سحر زدہ معمول کی طرح ان کی باتیں سنتا رہا تھا۔ پہلی بار اسے محسوس ہوا تھا جیسے وہ یہی سب کچھ سننا چاہتا تھا یہی سب کچھ جاننا چاہتا تھا۔ یہی سب کچھ محسوس کرنا چاہتا تھا۔
”مجھے کچھ نہیں چاہیے فادر! میں کسیFinancial gains(مالی مفاد) کے لیے ادھر نہیں آیا میں تو صرف سکون چاہتاہوں،Mental Composure (ذہنی یکسوئی) کی ضرورت ہے مجھے اور وہ سب کچھ مجھے یہاں مل جائے گا۔ میں چاہتاہوں مجھے رات کو نیند آجائے میں سب کچھ بھلا دینا چاہتا ہوں میں کسی چیز کے بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہتا۔”
وہ بول رہا تھا اورفادر جو شوا ملائمت سے مسکرا رہے تھے۔
”تم ہر چیز حاصل کرلوگے میرے بچے ہر چیز۔
مگر کچھ انتظار کرنا ہوگا تمہیں اوراس وقت کے دوران تم جتنے
ثابت قدم رہو گے تمہاری آئندہ زندگی اتنی ہی اچھی ہوگی۔”
”فادر میں کروں گا۔” اس نے اضطراب سے فادر جو شوا کاہاتھ پکڑتے ہوئے کہا تھا۔ انہوں نے ہاتھ سے اس کے ہاتھ کو نرمی سے تھپکا تھا۔
”فادر! میں جانتا ہوں۔ میں روز آپ کے پاس آکر آپ سے باتیں کرنا چاہتا ہوں آپ سے بہت کچھ جاننا چاہتاہوں۔” اس نے ان سے اجازت لینا چاہی تھی۔
”شیور تم ہر روزمیرے پاس آجایا کرو۔”
اور اس دن کے بعد سے وہ ہر روز ان کے پاس جارہا تھا۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ وہ ان کے پاس بیٹھا رہتا پھر اٹھ کر آجاتا۔
مگر اس ایک ڈیڑھ گھنٹہ میں اس کے اندربہت کچھ بدل جاتا تھا۔ اسے اپنے ہر سوال کاجواب وہاں مل جاتا تھا۔اس کا ڈپریشن اور فرسٹریشن مکمل طور پرختم نہیں ہوا تھا۔ لیکن کم ضرور ہوگیا تھا۔
فادر جوشوا نے اسے کچھ دوسرے پادریوں اورراہباؤں سے بھی ملوایا تھا اور ان سب سے مل کر اسے یوں لگتا تھا، جیسے اس کا ہاتھ پکڑنے اس کی مدد کرنے کے لیے بہت سے لوگ موجود تھے اور ہر ایک پہلے سے زیادہ مخلص تھا اسے اپنی دنیا بہت اچھی لگ رہی تھی۔
چند ہفتوں میں وہ بڑی حد تک بدل چکا تھا۔ ابھی اس نے باقاعدہ طور پر مذہب تبدیل نہیں کیا تھا ابھی وہ فادر جو شوا کی دی ہوئی کتابیں اورپمفلٹس پڑھتا رہتا تھا۔ چند ہفتوں کے اندر مذہب تبدیل کرنے کا اس کا فیصلہ مستحکم ہوگیا تھا جو تھوڑی بہت جھجھک تھی وہ بھی اب ختم ہو گئی تھی ایک ڈیڑھ ہفتے تک وہ باقاعدہ طور پر اپنا مذہب تبدیل کرنے والا تھا۔
*…*…*
اس راتThanks giving prayer کے لیے وہ کیتھڈرل آیا تھا۔ وہ کئی دنوں سے باقاعدہ چرچ جا کر سروس اٹینڈ کر رہا تھا مگر کیتھڈرل وہ پہلی بار آیا تھا۔ سروس ابھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ لوگوں کا رش اندر آجارہا تھا۔ پوری کیتھولک کمیونٹی وہاں اکٹھی ہوئی تھی کم از کم جو شہر میں تھی۔غیر ملکیوں کی ایک بڑی تعداد بھی وہاں موجود تھی۔ کیتھڈرل کے لانز میں بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد تھی جو سروس اٹینڈ کرنے کے بجائے خوش گپیوں میں مصروف تھی کیونکہ سال کا آخری دن تھا اورنیو ایئر کی تقریبات پہلے ہی شروع ہو چکی تھیں۔
وہ طائرانہ نظروں سے سب لوگوں کا جائزہ لیتے ہوئے چرچ میں داخل ہوگیا تھا بینچوں کی قطاروں پر نظرڈالتے ہوئے اس نے اپنے لیے کوئی خالی جگہ تلاش کرنے کی کوشش کی تھی۔ا گلی قطاروں میں کچھ جگہ اسے نظر آہی گئی تھی۔ وہ ایک بینچ پر جا کر خاموشی سے بیٹھ گیا۔ دعا کی کتاب نکال کر اس نے ہاتھ میں لے لی تھی کچھ دیر تک وہ اسے دیکھتا رہا پھر اس نے کتاب بند کردی۔ ایک عجیب سی اداسی اس کے وجود پر چھا رہی تھی اسے اپنا آپ اس ماحول کاحصہ نہیں لگ رہا تھا۔ وہ سب پیدائشی عیسائی تھے اور وہ پیدائشی مسلمان تھا۔ ان میں سے ہر ایک اسے خود سے سپیریئر لگ رہا تھا وہ بہت سے کمپلیکسز کا شکارتھا مگر اس طرح احساسِ کمتری اسے پہلی بار ہو رہا تھا۔سروس کی تیاری جاری تھی۔اس پر ایک عجیب سی تھکن سوار تھی ، بینچ کی پشت سے ٹیک لگا کراس نے آنکھیں بند کرلیں۔ تب ہی اسے احساس ہوا تھا اس کے بائیں جانب کوئی آکر بیٹھا تھا۔ اس نے آنکھیں نہیں کھولی تھیں۔ جانتا تھا آہستہ آہستہ تمام بینچیں لوگوں سے بھر جائیں گی۔
”بہت اچھالگ رہاہے یہاں؟” اس نے قریب ایک مدھم پر سکون مگر اجنبی آواز سنی تھی۔ اس نے اب بھی آنکھیں نہیں کھولی تھیں۔
”شاید یہ جملہ کسی اور سے کہا گیا ہے۔” اس نے سوچا تھا۔
”آج کی شام میری زندگی کی سب سے اچھی شام ہے حدید!”آواز وہی تھی مگر اس بار اس کا نام بھی لیاگیا تھا۔ اس نے برق رفتاری سے آنکھیں کھول کر اپنے بائیں جانب دیکھاتو اسکے بہت قریب سیاہ سوٹ میں ملبوس ایک لڑکی بالکل اسی کی طرح بینچ کی پشت سے ٹیک لگائے اور آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی۔
سیاہ چادر اس کے سر کو ڈھانپے ہوئے تھی۔ سیاہ چادر کی اوٹ میں سے نظر آنے والے چہرے پر عجیب طرح کا سکون اور ٹھہراؤ تھا۔ مگر اس کیفیت کے بغیر بھی وہ بے حد خوبصورت نظر آتی۔
اس نے گہری نظروں سے اس کا جائزہ لیا تھا اورپھر الجھن کا شکار ہوگیا تھا۔ وہ لڑکی اب آنکھیں بند کیے ٹیک لگائے خاموش تھی اور وہ سوچ رہا تھا کیا واقعی وہ اس سے مخاطب ہوئی تھی یا اسے غلط فہمی ہوگئی تھی۔ وہ اس کاچہرہ دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ پوچھتا دفعتاً اس نے آنکھیں کھول دی تھیں مگر اس کی طرف دیکھنے کے بجائے وہ سامنے لگے ہوئے ہولی کراس کو دیکھ رہی تھی۔
”اس دن میں نے سوچا تھا میں دوبارہ کبھی تمہیں دیکھ نہیں پاؤں گی اوردوبارہ نہ دیکھتی تو۔”
وہ سامنے دیکھتے ہوئے اس طرح بولی جیسے کوئی سرگوشی کر رہی ہو۔حدید اب واقعی الجھن کا شکار ہوگیا تھا۔
”دیکھیں میں نے آپ کو پہچانا نہیں ہے۔ میرا خیال ہے ہم پہلے کبھی نہیں ملے اور نہ ہی مجھے یہ سمجھ میں آرہا ہے کہ آپ کو میرا نام کیسے معلوم ہوا؟کیا آپ اپنا انٹروڈکشن کروائیں گی؟”
اس بار پہلی دفعہ اس نے اپنی نظریں ہولی کراس سے ہٹاتے ہوئے اس پر مرکوز کردی تھیں حدید نے زندگی میں بہت سی آنکھیں دیکھی تھیں۔