جو ملے تھے راستے میں — سما چوہدری

’’کیا ہوا تھا اسے گوہر بتاؤ مجھے گوہر۔‘‘ اسد اس کے منہ پر ہاتھ مارتے اسے ہوش میں لا رہا تھا۔ کبھی پانی کے چھینٹے مارتا ۔
گوہر ہڑبھڑا کر اٹھا۔ اسد اس کے چہرے کو ہاتھوں میں لیے پیار سے پوچھ رہا تھا۔
’’بتاؤ کیا ہوا تھا گوہر۔‘‘ اب گوہر اپنے حواس میں آیا۔
’’گھر آکر وہ یہاں… اس صوفے پر بیٹھی تھی۔‘‘ وہ سامنے رکھے صوفے پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔
’’میں نے اسے کپڑے دیے تو اس نے انکار کر دیا۔ کہنے لگی:
اپنے لباس میں بہتر ہوں۔ بوسیدہ ہے مگر اپنا ہے۔ اپنی ملکیت ایک مٹھی ریت ہی کیوں نہ ہو سکون دیتی ہے۔ کسی کے دیے کپڑوں کا کیا بھروسا؟ کب مانگ لیں۔ کب کہہ دے اتارنے کو۔ برہنہ تن سے یہ چھید والا کرتا اچھا ہے۔‘‘
میں شرمسار ہوا مگر اگلے ہی پل میں نے ہمت اکٹھا کی اور پوچھ لیا۔
’’مجھ سے شادی کریں گی؟‘‘
اب کی بار وہ قہقہہ لگا کر ہنسی اور مسلسل ہنستی رہی۔ اس کے گالوں پر تل تھا جو مسکراتے اور پھیل گیا تھا۔ اس کی باتوں میں اتنی کشش تھی کہ مجھے اپنی ڈگریاں بے معنی لگیں۔ میں اس کی ہر بات پر سوائے حیران ہونے کے کچھ نہ کر سکا۔ بس دیکھتا رہا اسے ۔ وہ ذرا سنبھلی تو میری بات کے جواب میں بولی:
’’کیا کرو گے مجھ سے شادی کر کے؟‘‘
’’ایک اچھی ازدواجی زندگی جینا ہر ایک کا حق ہے۔‘‘

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

’’ہمم ! یہ حق بھی عزت مند لوگوں کو حاصل ہے۔ ہم جیسی ناچنے والیوں کو کون دیتا ہے عزت؟ کوئی یہ قدم اٹھا بھی لے تو زمانہ اسے کونے سے لگا دیتا ہے۔ عورت فقط عشرت کا سامان ہے اور ایسا سامان روز بدلا جاتا ہے۔ ہم کسی کی خواہش ضرور ہیں، چاہت کسی کی نہیں۔ کوئی چاہ بھی لے تو اک رات ، ایک رقص تک ؟ اس رقص و رات کی مدت زیادہ طویل نہیں ہوتی۔ بھلے مانس لگے ہو اس لیے مشورہ دیتی ہوں اپنی آنکھوں سے وہ جذبہ نکال دو۔‘‘ میں پھر چونکا۔
’’کون سا؟‘‘ جیسے اپنی چوری پکڑے جانے پر کوئی بھی بے حال ہو جائے۔
’’ہزاروں بار رقص کیا ہے، لاکھوں نظریں اپنے جسم پر محو ہوس پائی ہیں۔ آج پہلی بار اپنے وجود کو کسی کی نظروں میں پاکیزہ پایا ہے تو سمجھ گئی یہ عقیدت صرف عشق کو حاصل ہے ۔‘‘
’’جانتے ہو عشق کیا ہے ؟یہ ایک بیل ہے۔ بجلی کی پتلی سی تار کی طرح زرد رنگ کی، جس درخت سے لپٹ جائے اسے بے جان کر دیتی ہے، سکھا دیتی ہے۔ انسان کو لگ جائے تو روگ بن جاتی ہے۔‘‘
’’مجھے یہ روگ منظور ہے۔ اگر آپ ہاں کریں تو۔‘‘
’’میں لٹ چکی ہوں۔ اس کا مطلب جانتے ہو ؟ میرا وجود تمہیں کبھی بھی خوشی نہیں دے گا اور مرد تو کبھی بھی یہ برداشت نہیں کرتا کہ اس کی عورت کو کوئی دیکھے۔‘‘ وہ ہلکا سا مسکرائی۔
’’اتنا ظرف کہاں سے لاؤ گے ؟‘‘
’’لے آؤں گا۔‘‘ میں بضد تھا مگر وہ مسلسل انکاری تھی۔ میری ہر بات کو وضع دیتی۔ وہ سوال کو سوال کر دیتی۔ میرے بہت اسرار پر وہ مان گئی۔ مگر ایک پر۔‘‘
’’کیا شرط تھی ؟‘‘ اسد مکمل کھو چکا تھا۔
’’اس نے کہا تھا میرا مول ادا کر دو۔‘‘
میں نے پوچھا کیا؟ تو اس نے قدرے خوش ہوکر اپنی نم پلکوں سے موتی جیسے قطروں کو صاف کیا اور بولی:
’’قیدی پرندوں کو لے کر انہیں آزاد کر دینا۔ کہنا اپنے گھروں کو جاؤ تو میرے گھر سے ہوتے جانا۔‘‘
’’بس ؟‘‘
میں اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا جس پر اطمینان تھا۔
’’آپ اب نکاح کریں گی ؟‘‘
’’ہاں! مگر آج نہیں ۔ ایک دن مجھے میری ذات کے ساتھ اور دے دو۔‘‘ وہ التجا کر رہی تھی اور میں اس کی اس ادا پر جان نچھاور کر رہا تھا۔
’’تم نے پرندے آزاد کر دیے تھے؟‘‘ اسد پوچھ رہا تھا۔
’’ہاں! میں اسی وقت گھر سے نکل گیا تھا۔ ساری شب میں سڑکوں کی خاک چھانتا رہا ۔ ہر جگہ سے جو بھی پرندہ ملا آزاد کر دیا۔ دگنی قیمت ادا کر کے انہیں آسمانوں کی کھلی بانہوں میں اڑا دیا، مگر خود قید ہوگیا۔ اس کے عشق کی اسیری میری دولت بن گئی۔‘‘ حالت بدستور غیرتھی مگر گوہر کی۔
’’جب واپس پلٹا تو میرا سب اجڑ چکا تھا۔ خون میں لتھڑا ایک خط میرا منتظر تھا۔‘‘
’’تو کیا کیا اس نے؟‘‘ اسد اپنی بات مکمل نہ کر سکا۔ گوہر درد سے کراہتے ہوئے اپنے بال نوچ رہا تھا۔
’’وہ مر گئی! اسد وہ مر گئی۔ میری ماں کے بعد میری بے ربط زندگی میں آنے والی وہ پہلی عورت تھی ۔ جس سے مجھے عشق ہوا۔‘‘
’’اس نے خط پر کیا لکھا تھا ؟‘‘ اسد نے ہمت کر کے پوچھا۔
گوہر نے اپنی جیب سے فوری وہ خط نکالا جس پر ایک سادہ سی تحریر تھی۔
’’میرا پیشہ میرا مقدر بن گیا اور قسمت نے مجھے وقت کے ہاتھوں ایسا نچایا کہ مجھے خود سے وحشت ہوگئی۔ جب اپنی ذات سے محبت ختم ہو جائے پھر محبت کے طالب کو کیا دیا جائے۔ اک بے حس و حرکت جسم کس کام کا؟ آپ تو پھر انسان ٹھہرے جسے جذبات چاہئیں۔
سنا ہے آپ کے دین میں خودکشی حرام ہے مگر میری بے ترتیب ہوتی چند سانسیں اپنا اختتام چاہتی ہیں۔ سڑک کے اسی کونے میں مجھے دفنا دینا یا جلا دیناجہاں پہلی بار ملے تھے۔ کیوںکہ طوائف کا جنازہ نہیں ہوتا۔ میں رقاصہ ہی سہی مگر لٹ چکی ہوں۔ شریفوں کے شرافت بھرے معاشرے میں جہاں میرا تن داغ داغ ہوا میرے آنچل کی طرح، وہاں ایک فرد ایسا تھا جس کی نگاہوں میں اپنے لیے عزت دیکھی۔ اپنے سیاہ وجود جس کی رگوں میں سرطان بس رہا ہے وہ زہر تمہیں نہیں دے سکتی۔ مجھے معاف کردینا!‘‘
ٗٗ’’تم نے اسے دفنا دیا ؟‘‘ خط پڑھ کر ایک بے حس و حرکت آواز میں پوچھا گیا۔
’’ہاں!‘‘ ایک طویل خاموشی کے بعد جواب دیا گیا۔
’’اسی سڑک کے کونے پر اس درخت کے نیچے جس پہ عشق بیل چڑھی ہوئی ہے۔ اپنی باری کا شدت سے انتظار کرتے وہاں میں روز پرندے آزاد کرتا ہوں کہ کب کوئی مجھے بھی آواز دے کہ گوہر! تم آزاد ہو۔‘‘

٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

بت شکن ۔۔۔ ملک حفصہ

Read Next

یاد دہانی — الصی محبوب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!