وہ آنکھیں بند کئے بڑبڑائی تھی۔ ثانیہ الجھ گوی تھی۔
”میں آپ کی بات نہیں سمجھی۔ آپ کیا کہنا چاہ رہی ہیں؟”
”میرا نام ماریہ جہانگیر ہے۔ ڈاکٹر ماریہ جہانگیر۔ مگر تم مجھے نہیں جانتیں میں نے تمہیں بتایا ہے ناں، میں تم سے کبھی نہیں ملی۔” اس نے ایک بار پھر آنکھیں کھول دی تھیں اور اس کی طرف دیکھے بغیر بولنا شروع کر دیا تھا۔
”پھر آپ مجھے کیسے جانتی ہیں؟”
”تمہاری تصویر دیکھی تھی ایک بار کسی کے پاس۔ تب سے آج تک میرے دماغ پر تمہارا چہرہ نقش ہے۔ تم آج بھی ویسی ہو جیسی آٹھ سال پہلے تھیں۔ بدلیں نہیں اگر بدل جاتیں تب بھی میں تمہیں پہچان ضرور لیتی۔ تمہیں ایئر پورٹ پر سامان کی چیکنگ کرواتے ہوئے دیکھا تھا۔ میں اس وقت تمہارے پاس ہی تھی۔ میری سیٹ ایگزیکٹو کلاس میں تھی۔ مگر میں ایئر ہوسٹس سے کہہ کر اکانومی کلاس میں آگئی ہوں کیونکہ تم سے باتیں کرنی ہیں مجھے بہت کچھ کہنا ہے مجھے۔”
ثانیہ کو اس کی باتوں سے الجھن ہو رہی تھی۔ وہ اب اس کے چہرے پر نظریں مرکوز کر چکی تھی۔
”کومیل کو جانتی ہو؟ سیّد کومیل حیدر کو؟”
ثانیہ کو لگا تھا اس کے نزدیک کہیں کوئی بم پھٹ گیا ہو۔ وہ رکے ہوئے سانس کے ساتھ اس عورت کا چہرہ دیکھتی رہی۔ اسے اب یاد آگیا تھا ماریہ کون تھی۔ آٹھ سال کے بعد ایک بار پھر جیسے کسی نے اس کے پچھلے زخم ہرے کر دئیے تھے۔
اس دن کومیل کے جانے کے بعد وہ ہاسٹل سے واپس سرگودھا چلی گئی تھی اور پھر دوبارہ یونیورسٹی نہیں آئی۔ اس نے تعلیم چھوڑنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی تھی۔ ہر بار اپنے والد کے سوالوں پر اس کا صرف ایک ہی جواب ہوتا۔ ”میرا اب پڑھنے کو دل نہیں چاہتا۔ میں آپ سے الگ نہیں رہ سکتی۔”
مراد علی سر پیٹ کر رہ گئے تھے۔ اس نے ان کے سارے خوابوں کو چکنا چور کر دیا تھا۔ وہ بے حد ناراض اور افسردہ تھے لیکن بہر حال انہو ں نے اسے مزید مجبور نہیں کیا تھا۔
ثانیہ کی منگنی بی اے کے دوران ہی اس کی پھوپھو کے بیٹے اسد سے ہو چکی تھی جو کویت میں دفاع میں کام کرتا تھا۔ تعلیم چھوڑنے کے چھ ماہ کے اندر اندر اس کی شادی ہو گئی تھی اور وہ پاکستان سے جانے کے بعد بے حد خوش تھی۔ وہ خوف جو چھ ماہ تک اسے اپنی گرفت میں لیے ہوا تھا۔ وہ ختم ہو گیا تھا۔ اب کوئی رودابہ، کسی کومیل کو اس کے سامنے نہیں آنا تھا۔ لوگوں پر سے اس کا اعتبار یک دم جیسے ختم ہو گیا تھا۔ وہ اگر یونیورسٹی نہ چھوڑتی تو شاید پاگل ہو جاتی۔ ہر مرد کا چہرہ اسے کومیل کا چہرہ لگتا۔ ہر لڑکی اسے رودابہ لگتی۔ ہر شخص اسے خود پر ہنستا ہوا لگتا۔
پھر سب کچھ نارمل ہو گیا تھا وہ اسد کے ساتھ بہت پرسکون زندگی گزار رہی تھی۔ ہر سال وہ پاکستان آتی اور اس بار بھی وہ اپنی بیٹی کے ساتھ پندرہ دن پاکستان میں گزارنے کے بعد واپس جا رہی تھی جب ماریہ جہانگیر اس کے سامنے آگئی تھی۔
”جانتی ہو نا کومیل کو؟” وہ دوبارہ پوچھ رہی تھی۔
ثانیہ کا دل چاہا وہ جہاز کی کھڑکی سے چھلانگ لگا دے۔ ندامت کا احساس کچھ ایسا ہی وزنی تھا۔
”میں کومیل حیدر کی منگیتر تھی کسی زمانے میں۔” ماریہ کی آنکھوں میں کچھ جل کر بجھا تھا۔
ثانیہ ایک ٹک اسے دیکھتی رہی۔ ”بلکہ… بلکہ محبت کرتے تھے ہم دونوں ایک دوسرے سے۔”
وہ اب بات کرتے ہوئے آہستگی سے اپنے ہاتھ کو بند کرکے کھول رہی تھی۔
”آج تمہیں دیکھا تو دل چاہا، ایک بار پھر سے سب کچھ دوہرانے کو۔ اس کے بارے میں بات کرنے کو۔”
وہ ایک بار سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا چکی تھی۔
”پتا نہیں ہم دونوں میں سے کس نے ایک دوسرے سے زیادہ محبت کی۔ میں نے اس سے یا اس نے مجھ سے۔ شاید میں نے۔ ہمیشہ عورت ہی زیادہ محبت کرتی ہے۔ ہے نا ثانیہ؟”
وہ ایک بار پھر اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے اس کی رائے لے رہی تھی۔ ثانیہ گونگی ہو چکی تھی۔ اسے حلق سے آواز نہیں نکلی۔
”ہاں۔ میرا خیال ہے۔ میں نے ہی زیادہ محبت کی تھی بلکہ اب بھی کرتی ہوں۔ نہیں محبت نہیں شاید اسے عشق کہنا چاہئے۔ ہم دونوں کو لگتا تھا۔ ہم ایک دوسرے کے وجود کے بغیر ادھورے ہیں۔ اس نے مجھے پہلی بار کسی پارٹی میں دیکھا تھا۔ پھر وہ ایک دوست کے توسط سے مجھ سے ملا۔ میں تب میڈیکل کے تھرڈ ایئر میں تھی۔ بس پتا نہیں کیا ہوا۔ لیکن اس میں کوئی ایسی بات تھی۔ جس نے مجھے مسحور کر دیا۔ پھر ہم اکثر ملتے رہے اور ایک دن اس نے مجھے پروپوز کر دیا۔”
ثانیہ آنکھیں جھپکے بغیر ماریہ جہانگیر کا چہرہ دیکھتی رہی جو اس طرح اپنی داستان سنا رہی تھی جیسے وہ اس کی عزیز ترین دوست ہو۔
”ہماری منگنی ہو گئی، تب اس نے ایم اے میں ایڈمیشن لیا تھا۔ ہم دونوں کی کمال کی انڈر اسٹینڈنگ تھی۔ بہت سی باتیں ہم کہے بغیر ہی سمجھ لیتے تھے یوں جیسے ٹیلی پیتھی ہو گئی ہو۔ مجھے لگتا تھا کہ کومیل حیدر کے سوا دنیا میں میرے لئے اور کچھ ہے ہی نہیں اور اگر کہیں یہ نہ ملا تو مجھے تو دنیا ہی نہیں ملے گی مگر مجھے کوئی خدشہ نہیں تھا۔ آخر وہ مجھے کیو ں نہ ملتا۔ وہ مجھ سے محبت کرتا تھا۔ دونوں فیملیز کی رضامندی سے یہ رشتہ ہوا تھا۔ ہم دونوں کی انڈر اسٹینڈنگ ہو گئی تھی۔ پھر میں ایسے خدشات کیوں پالتی۔ تب ہم اپنی شادی کو پلان کر رہے تھے جب یک دم ہمارے درمیان ثانیہ مراد علی آگئی… تم آگئیں۔”
پتا نہیں ثانیہ کو ماریہ جہانگیر کا چہرہ اس لمحے اس قدر تاریک کیوں لگا تھا۔ اس کا دل چاہا وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دے اور خوب روئے۔
”نہیں ثانیہ! تم پریشان مت ہو۔ میں تمہیں کوئی الزام نہیں دے رہی۔ تمہاری غلطی نہیں ہے۔ بعض دفعہ ہمیں لگتا ہے کسی شخص سے ہماری بہت انڈر اسٹینڈنگ ہے مگر ایسا نہیں ہوتا۔ ہم کو غلط فہمی ہوتی ہے عورت کسی مرد کو بھلا کیسے سمجھ سکتی ہے وہ بھی کومیل حیدر جیسے مرد کو۔ میں نے بھی سارا عرصہ اس خوش فہمی میں گزارا تھا کہ میں کومیل حیدر کو سمجھنے لگی ہوں مگر ایسی نہیں تھا اور مجھے اس خوش فہمی نے ڈبو دیا۔ مجھے تمہارے بارے میں رودابہ نے بتایا تھا پھر کومیل کے بھائی اور بھابھی نے بتایا۔ جب ایک رات رودابہ تمہیں جان بوجھ کر وارڈن کی اجازت کے بغیر ساتھ لے گئی تھی۔ مجھے پہلے اس ساری کہانی پر یقین نہیں آیا۔ مجھے کومیل پر بے حد اعتماد تھا۔ مگر پھر پتا نہیں مجھے کیا ہو گیا میں چاہتی تھی۔ کومیل تم سے قطع تعلق کر لے خاص طور پر موہد والے واقعہ کے بعد۔ وہ موہد سے بے پناہ محبت کرتا تھا پھر بھی ایک معمولی سی بات پر اس نے تمہاری وجہ سے موہد کو چھوڑ دیا اور تب میں بے پناہ خوفزدہ ہو گئی تھی۔ مجھے تم سے بے پناہ خوف اور نفرت محسوس ہونے لگی تھی۔ پھر وہ رودابہ والا واقعہ پیش آیا او رمیں نے کومیل سے بات کرنے کی سوچ لی۔ میں نے اس سے کہا کہ وہ تمہیں چھوڑ دے یا مجھے۔
اور اس نے… اس نے مجھے چھوڑ دیا۔”
ایک بار پھر ماریہ کے چہرے پر کچھ جل کر بجھ گیا تھا۔
”تب میرا دل چاہا تھا میں تمہیں اور کومیل دونوں کو شوٹ کر دوں۔ میں نے دھوکا کھایا۔ مجھے ایسا لگا تھا، وہ بھی اس شخص کے ہاتھوں جس پر میں نے سب سے زیادہ اعتبار کیا تھا۔ تب مجھے لگا تھا جیسے دنیا ہی ختم ہو گئی تھی شاید سب کچھ ٹھیک ہو جاتا شاید ہم دونوں کا غصہ ختم ہو جانے کے بعد، کچھ دنوں کے بعد دوبارہ ہم میں صلح ہو جاتی مگر پھر تم نے وہ جھوٹ بول دیا یاد ہے نا ثانیہ! تم نے اس سے کہا تھا کہ میں نے تمہارے پاس آکر کہا ہے کہ کومیل تم سے فلرٹ کر رہا ہے؟”
وہ یاد نہ بھی دلاتی، تب بھی ثانیہ کو سب کچھ یاد تھا۔ وہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔ اس نے ایک بار پھر بولنا شروع کردیا۔
”کومیل اس کے بعد صرف ایک بار میرے پاس آیا تھا۔ میرے جھوٹ پر مجھے ملامت کرنے۔ اسے میری کسی بات پر یقین نہیں آیا۔ میں نے اس سے کہا کہ وہ مجھے اپنے ساتھ تمہارے پاس لے کر جائے اور پھر تم سے پوچھے کہ کیا میں تمہارے پاس آئی تھی؟ کیا میں نے ایسی بات کہی تھی۔ مگر تب تک تم کچھ کہے کچھ بتائے بغیر ہاسٹل اور یونیورسٹی چھوڑ کر جاچکی تھیں۔ میں نے تمہارے آنے کا بہت انتظار کیا۔ کیونکہ صرف تمہاری گواہی اس کے دل پر جمی بدگمانی کی دھند کو ختم کر سکتی تھی۔ مگر تم نہیں آئیں۔ پتا نہیں ثانیہ! تمہاری بات میں کیا اثر تھا کہ کومیل کو پھر میری بات پر یقین نہیں آیا۔ وہ جانتا تھا کہ میں کبھی جھوٹ نہیں بولتی پھر وہ یہی کہتا رہا کہ جو کچھ ثانیہ نے کہا ہے وہ ٹھیک ہے، جو تم کہہ رہی ہو وہ جھوٹ ہے۔ میں نے بہت کوشش کی تھی سب کچھ ٹھیک کرنے کی مگر پتا نہیں اس کے دل میں میرے خلاف کون سی بدگمانی آگئی تھی اور پھر میں نے سوچ لیا کہ اب اس شخص سے مجھے کوئی واسطہ نہیں رکھنا۔ مجھے لگتا تھا اسے محبت مجھ سے نہیں تم سے ہوئی ہے۔ میں پتا نہیں کیا تھی۔ راستے کی گرد یا پھر راستے کا پتھر۔ اس نے مجھے ٹھوکر ماری اور میں اس کے راستے سے ہٹ گئی۔”
ماریہ خاموش ہو گئی تھی۔ ایک بار پھر آنکھیں بند کرکے وہ سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا چکی تھی۔
ثانیہ کا ملال بڑھتا جارہا تھا۔
”ماریہ! آپ یقین کریں میرے اور کومیل کے درمیان کچھ نہیں تھا۔ مجھے نہیں پتا تھا۔ وہ میرے لئے کیا سوچنے لگا تھا مگر میں نے کبھی بھی اس کے لئے دل میں کوئی غلط جذبات نہیں رکھے۔ پھر بھی میں آپ سے ایکسکیوز کرتی ہوں۔ یہ سب میری غلطی تھی جس کی سزا آپ کو…”
ماریہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھتے ہوئے مسکرائی اور بہت نرمی سے اس نے اپنا ہاتھ ثانیہ کے کندھے پر رکھ دیا۔
”نہیں مجھے تمہاری غلطی کی سزا نہیں ملی۔ تمہارا کہیں بھی کوئی قصور نہیں تھا اور میرے دل میں اب تمہارے خلاف کچھ بھی نہیں ہے۔ مجھے تو بس اپنی بدگمانیوں کی سزا ملی ہے۔ بہت دعوے تھے مجھے کومیل حیدرکو سمجھنے کے۔ بس اس خوش فہمی نے مجھے مار دیا۔”
”ماریہ! میں آپ دونوں کے درمیان اپنی وجہ سے پیدا ہونے والی یہ غلط فہمی دور کرسکتی ہوں۔ میں کومیل سے ملوں گی اور سب کچھ کلیئر کر دوں گی پھر آپ دونوں شادی کر سکتے ہیں، پھر تو سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے؟”
ثانیہ کو ایک دم پتا نہیں کیا سوجھا تھا۔ وہ کچھ بے چین ہو کر بولی تھی ماریہ ایک ٹک اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر تھکی ہوئی آواز میں اس نے کہا۔
”اب یہ نہیں ہوسکتا ثانیہ! کومیل کی شادی کو سات سال ہو چکے ہیں اور وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ بہت خوش ہے اور میں… میں بھی شادی کر چکی ہوں۔ میرا بھی ایک بیٹا ہے۔”
”ماریہ! کیا آپ خوش نہیں ہیں۔” ثانیہ نے بے اختیار اس سے پوچھا تھا۔
”شاید خوش ہوتی اگر اس بار کومیل سے نہ ملی ہوتی۔ ثانیہ! میں آخری بار پاکستان آئی ہوں۔ اب مجھے دوبارہ پاکستان نہیں آنا۔ میں دوبارہ کبھی تمہارا اور کومیل حیدر کا سامنا کرنا نہیں چاہتی۔”
ثانیہ نے سرجھکا لیا تھا۔
ماریہ کی خود کلامی جاری تھی۔ ”آٹھ سال پہلے منگنی توڑتے وقت میں نے بار بار اس سے پوچھا تھا۔ کومیل! مجھے بتاؤ۔ تمہارا ثانیہ سے رشتہ کیا ہے؟ کس حوالے سے تم اس پر اتنی توجہ دے رہے ہو؟ وہ ہر بار چپ رہتا تھا۔ ہر بار بھڑک اٹھتا تھا اور اس کی یہ خاموشی، یہ غصہ، یہ اضطراب میرے شک کو یقین میں بدلتا گیا تھا کہ وہ تم سے محبت کرنے لگا ہے۔ مگر وہ تب اس کا اعتراف نہیں کرتا تھا اور آٹھ سال کے بعد پچھلے ہفتے اس نے اعتراف کر لیا ہے۔ میں نے اس سے کہا تھا کومیل حیدر! اب تو بتا دو کہ ثانیہ سے کیا رشتہ تھا؟ اب تو کہہ دو۔ تم اس سے محبت کرتے تھے اور اس نے کہا تھا۔
”ہاں ماریہ! میں اس سے محبت کرتا تھا اور محبت کرتا ہوں لیکن صرف… صرف ایک چھوٹی بہن کی حیثیت سے۔”
ثانیہ کو لگا تھا، کسی نے اسے پہاڑ کی چوٹی سے کسی کھائی میں دھکیل دیا ہو۔
”بہن کی حیثیت سے؟ مجھے اس کی بات سن کر یوں لگا تھا جیسے کسی نے میرے سینے میں ایک خنجر گاڑ دیا ہو۔ میں نے اس سے کہا تھا۔
”اگر تم اسے صرف بہن سمجھتے تھے تو تم نے یہ کہا کیوں نہیں۔ جب میں اتنی بار تم سے پوچھتی رہی تھی تو تم نے کہا کیوں نہیں کہ تم اسے بہن سمجھتے ہو اور پتا ہے وہ ایک بار پھر میری بات پر بھڑک گیا۔ اس نے کہا تھا۔ ”میں کیوں کہتا کہ میں اسے بہن سمجھتا ہوں۔ میں کیوں کہتا؟ رشتے کوئی ٹیگ نہیں ہوتے جنہیں بندہ گلے میں ڈال کر پھرتا رہے۔ یہ بہن ہے۔ وہ بیوی ہے۔ یہ بیٹی ہے یا وہ ماں ہے۔ کیا کہے بغیر میں کسی کو بہن نہیں سمجھ سکتا۔ کیا کہنا ضروری ہے۔ تمہیں تو مجھے سمجھنا چاہئے تھا تم بھی دوسروں کی طرح مجھ سے وضاحتیں مانگنے لگی تھیں۔ ثانیہ کون ہے؟ اس سے کیا رشتہ ہے؟ تمہاری زبان پر بھی یہی سوال آنے لگے تھے۔ تم تو دعویٰ کرتی تھیں کہ تم مجھے سب سے زیادہ سمجھتی ہو پھر تم… میں نے اگر کسی سے محبت کا اعتراف کیا تھا تو وہ بھی تم تھیں اور میں تم سے آج بھی اتنی ہی محبت کرتا ہوں جتنی تمہیں پہلی بار دیکھتے ہوئے میں نے تمہارے لئے محسوس کی تھی لیکن تم نے مجھ پر اعتبار نہیں کیا۔ تمہیں سوچنا چاہئے تھا کہ میں، میں کومیل حیدر کسی اور سے محبت کرسکتا تھا؟ کیا میں ایسا آدمی تھا جو ہر دوسری لڑکی کو اپنی محبت کا یقین دلاتا پھر۔ اتنا شک کیوں کیا تھا تم نے؟ اتنی بے اعتباری کیوں تھی تمہیں مجھ پر؟
وہ مجھ سے سوال کر رہا تھا ثانیہ! اور میرا دل چاہ رہا تھا میں اس کے کندھے پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر روؤں اور کہوں یہ بے اعتباری عورت کی سرشت، اس کی فطرت میں ہے۔ مجھے اس کو گنوانا تھا۔ اس لئے میں نے اس پر شک کیا تھا۔ تم نے مجھ سے پوچھا ہے نا ثانیہ! کیا میں خوش نہیں ہوں پہلے خوش تھی۔ یہ سوچ کر کہ میں نے اس شخص کو چھوڑا ہے جو کسی اور کی محبت میں مبتلا ہو چکا ہے اور میں اس شخص کی بیوی ہوں جو صرف مجھ سے محبت کرتا ہے لیکن اب، اب میں صبر کیسے کروں۔ یہ سوچتے ہوئے کہ میں نے اپنی ایک معمولی حماقت کے ہاتھوں اس شخص کو گنوایا ہے جو آج بھی صرف مجھ سے محبت کرتا ہے۔ مجھے اب ساری عمر جہانگیر کے چہرے میں کومیل کو تلاش کرنا ہے۔ میں خوش کیسے رہوں گی۔”
وہ بیگ سے ٹشو نکال کر گالوں پر بہتے آنسوؤں کو خشک کرنے لگی تھی اور ثانیہ خالی الذہنی کے عالم میں اس کا چہرہ دیکھتی جارہی تھی۔
کومیل حیدر، رودابہ نواز، ماریہ جہانگیر، ثانیہ مراد علی نام جیسے اس کے ذہن میں رقص کرتے جارہے تھے۔
اس نے آٹھ سال پہلے رودابہ نواز کو کومیل حیدر کے التفات کے لئے سر پر ہاتھ رکھے روتے دیکھا تھا۔ اس نے آج ماریہ جہانگیر کو ایک بار پھر اسی شخص کے لئے بلکتے دیکھا تھا اور ایک وہ تھی جو مرد کو نہیں سمجھتی تھی اور اسے گمان ہوا تھا کہ صرف کومیل حیدر ایک مرد ہے جسے وہ اچھی طرح جان اور پہچان چکی ہے اور آج…
آج اس کا بھی دل چاہ رہا تھا، وہ رودابہ نواز کی طرح سر پر ہاتھ رکھ کر روئے، مرد سمجھ میں کہاں آتا ہے۔ مرد سمجھ میں ہی نہیں آتا، چاہے وہ رودابہ نواز جیسی ہوشیار اور زیرک لڑکی ہو یا ماریہ جہانگیر جیسی پر خلوص اور ہائلی کوالیفائیڈ لڑکی یا پھر ثانیہ مراد علی جیسی سادہ اور سیدھی لڑکی ہر ایک کو گمان ہوتا ہے چند لمحے کا گمان اور پھر پوری زندگی ایک گمان بن کر رہ جاتی ہے۔
اور اب یہ ماریہ جہانگیر کس کس کو اس طرح رو رو کر اپنی داستان سناتی پھرے گی اور میں… میں کس کس سے یہ کہوں گی کہ میں لوگوں کو اور خاص طور پر مرد کو بہت اچھی طرح سمجھ جاتی ہوں اور جب بھی یہ کہوں گی تو مجھے کومیل حیدر یاد آئے گا اور پھر مجھے سب کچھ یاد آجائے گا۔ اپنی حماقت جس نے کتنی زندگیوں کو عذاب میں ڈال رکھا ہے یا اپنی سمجھداری جو اب مجھے کہیں چین لینے نہیں دے گی۔ کتنا اچھا ہوتا میری زندگی میں کبھی کوئی کومیل حیدر نہ آیا ہوتا۔ یا میں کبھی مدد کے لئے اس کے پاس نہ جاتی۔ یا وہ بالکل ویسے ہی انکار کر دیتا جیسے وہ سب کو کرتا تھا۔ یا وہ… وہ مجھے ایک بار بتا دیتا کہ وہ مجھے کیا سمجھتا ہے یا… یا ماریہ جہانگیر! تم مجھ سے کبھی نہیں ملتیں۔”
وہ سوچ رہی تھی اور اس کا دل ڈوبتا جارہا تھا۔ ماریہ کی سسکیاں اب بھی اس کی سماعتوں میں گونج رہی تھیں اور ثانیہ… ثانیہ ایک بار پھر کومیل حیدر سے ملنا چاہتی تھی۔
…****…