تیری یاد خارِ گلاب ہے — عمیرہ احمد

کومیل اس بار خاموش رہا تھا۔ آفس میں فیس جمع کروانے کے بعد جب وہ اس جگہ آئے تھے جہاں اس لڑکی نے روپے انہیں تھمائے تھے تو وہ لڑکی وہاں سے غائب تھی۔ وہ کچھ دیر تک وہاں کھڑے متلاشی نظروں سے چاروں طرف دیکھتے رہے مگر وہ کہیں نظر نہیں آئی۔
”So what next” موہد نے ایک طویل سانس لیتے ہوئے کہا تھا۔
”اب اس رول نمبر سلپ کو کیا کرنا ہے اور وہ محترمہ تو شاید جا چکی ہیں۔ یہ سوچتے ہوئے کہ ان کا کام ختم ہوا اور میں حیران ہوں کہ اس رول نمبر سلپ کے بغیر یہ کلاس میں اپنا نام اور رول نمبر کیسے رجسٹرڈ کروائیں گی۔ اتنا تو پتا ہونا چاہئے انہیں کہ فیس کی رسید لینی ہے یا رول نمبر سلپ لینی ہے اور یہ محترمہ کرنا چاہ رہی ہیں ایم اے انگلش۔”
موہد نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ناگواری سے ایک طویل تبصرہ کیا تھا۔
کومیل اب بھی بغیر کچھ کہے بڑے تحمل سے ادھر ادھر نظر دورا رہا تھا۔ آدھ گھنٹہ تک وہ وہیں اس کے انتظار میں کھڑے رہے۔ پھر وہ وہاں سے آگئے تھے۔
وہ کافی خوشی اور جوش کے عالم میں اندر داخل ہوئی تھی۔ ”کیوں ثانیہ جمع کروا آئی ہو فیس؟” خالہ نے اسے دیکھتے ہی پوچھا تھا۔
”ہاں خالہ! جمع کروا آئی ہوں۔” اس نے اپنی چادر اتارتے ہوئے جواب دیا تھا۔
عالیہ اس کے پاس چلی آئی۔ ”یونیورسٹی جانا کب سے شروع کریں گی آپی؟” اس نے بڑے اشتیاق سے پوچھا تھا۔
”تین تاریخ سے۔” ثانیہ نے مسکراتے ہوئے بڑے فخریہ انداز میں اپنی کزن کو بتایا تھا۔
”آپ کو ڈر نہیں لگے اتنے لڑکوں کے ساتھ پڑھتے؟” عالیہ اب اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔
”ڈرنے والی کون سی بات ہے آخر اور لڑکیاں بھی تو پڑھتی ہیں۔” ثانیہ نے اس سے زیادہ جیسے خود کو تسلی دی تھی۔
”ہاں، آپ تو ویسے بھی بہت بہادر ہیں اسی لئے تو خالو نے اکیلے لاہور پڑھنے کے لئے بھیج دیا۔”
اس کی کزن پر اس کی ”جواں مردی” کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی اور اس میں ثانیہ کا کوئی قصور نہیں تھا۔ وہ بات ایسے ہی کرتی تھی جیسے وہ بہت دلیر اور نڈر تھی لیکن یہ گفتگو دوسروں کے لئے کم اور اپنے لئے زیادہ ہوتی تھی۔ وہ لاشعوری طور پر خود کو ایسی باتوں سے بہلایا کرتی تھی۔ ورنہ وہ جس قدر احمق، کمزور اور حواس باختہ ہو جاتی تھی وہ اچھی طرح جانتی تھی۔ اس میں غلطی اس کی بھی نہیں تھی۔ ساری عمر سرگودھا شہر میں رسوم و رواجوں کی بھاری زنجیروں میں گزارنے کے بعد اب یک دم وہ لاہور کیا آگئی تھی اسے یوں لگنے لگا تھا جیسے وہ نیویارک پہنچ گئی تھی۔
مراد علی کی پانچ بیٹیاں تھیں اور ثانیہ سب سے بڑی تھی۔ ان کے لئے وہ بیٹی بھی تھی اور بیٹا بھی۔ تعلیم کا انہیں خود بھی بہت شوق رہا تھا مگر باپ کے جلد انتقال کی وجہ سے انہیں بہت جلد اپنی زمینوں کی طرف متوجہ ہونا پڑا، وہ کوئی بہت بڑے زمیندار نہیں تھے کہ جو سارا انتظام نوکروں کے سر پر چھوڑ کر خود آرام سے تعلیم حاصل کرتے رہتے۔ وہ تو بہت چھوٹے زمیندار تھے جنہیں سارے انتظامات خود ہی سنبھالنے اور کرنے پڑتے تھے۔ اس لئے بھاری دل سے انہوں نے تعلیم کو خیر باد کہہ دیا۔ ماں باپ کے اکلوتے بیٹے تھے اور باپ کے مرنے کے بعد سر پر تین بہنوں کا بوجھ بھی آن پڑا تھا۔ سو جب تک وہ ان کی ذمہ داری سے عہدہ برا ہوئے تب تک وہ کافی عمر کے ہو چکے تھے اوران کی مالی حالت بھی پہلے جیسی نہیں رہی تھی، سو انہوں نے اپنی اولاد کو تعلیم دلوانے کے خواب دیکھنا شروع کر دئیے۔





قسمت یہاں بھی ان پر زیادہ مہربان نہیں رہی۔ بیٹے کی خواہش میں یکے بعد دیگرے پانچ بیٹیاں انکے آنگن میں آگئیں تو انہوں نے اللہ کی رضا پر سر تسلیم خم کر دیا۔
”کوئی بات نہیں بیٹیاں ہیں تو کیا ہے میں انہیں ہی پڑھاؤں گا۔”
وہ کئی بار اپنی بیوی سے کہتے۔ ایک ایسا خاندان جہاں لڑکیاں سات پردوں میں رہا کرتی تھیں۔ وہاں مراد علی کے عزائم سب کو احمقانہ نظر آئے مگر وہ اپنے ارادے پر ڈٹے رہے۔ پردے میں رکھتے ہوئے انہوں نے بیٹیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے کالج بھیجنا شروع کر دیا تھا اور پھر یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا جب ثانیہ نے گریجویشن کر لی تو مراد علی نے اسے پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ دلوانے کا تہیہ کر لیا تھا۔ لاہور میں ثانیہ کی خالہ کا گھر تھا۔ اس لئے انہیں وہاں اس کی رہائش ا س کوئی مسئلہ نظر نہیں آیا۔ مگر جن دنوں پنجاب یونیورسٹی میں ایڈمیشن شروع ہوئے تھے، ان ہی دنوں انہیں کچھ ضروری معاملات کے سلسلے میں راولپنڈی جانا پڑا۔ وہ ثانیہ کو اس کی خالہ کے گھر چھوڑ گئے۔
ثانیہ کی خالہ شاہدرہ میں ایک چھوٹے سے گھر میں رہتی تھیں، ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا، جو سب سے بڑا تھا اور اب باپ کے ساتھ میڈیکل اسٹور سنبھالتا تھا۔ بڑی بیٹی فرسٹ ایئر میں پڑھتی تھی اور چھوٹی میٹرک میں، ثانیہ کی آمد سے سب ہی بہت خوش تھے پھر وہ مرعوب بھی تھے کیونکہ وہ خاندان کی پہلی لڑکی تھی جو اس طرح ایم اے کرنے کے لئے دوسرے شہر میں آئی تھی۔ خالہ نے یونیورسٹی کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا مگر ثانیہ نے یوں ظاہر کیا تھا جیسے وہ پہلی بار نہیں بار بار یونیورسٹی آتی جاتی رہی تھی۔ یہ ظاہر کرنا اس کی مجبوری تھی، وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی کسی جھجھک اور گھبراہٹ کو دیکھ کر وہ یونیورسٹی کو کوئی معیوب جگہ سمجھیں یا اسے تعلیم سے متنفر کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ بہر حال اسے اب دو سال کے لئے انہیں کے ساتھ رہنا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ایڈمیشن کے لئے اپلائی کرنے کے لئے جانے کے لئے اس نے نہ تو اپنی کسی کزن کو ساتھ لیا تھا اور نہ ہی احمد سے کوئی مدد مانگی تھی جو اسے صبح اپنے موٹر سائیکل پر یونیورسٹی چھوڑ گیا تھا۔ ثانیہ کو احمد سے زیادہ مدد اس لئے بھی نہیں مل سکتی تھی کیونکہ وہ خود بھی پہلی بار ہی یونیورسٹی کی طرف آیا تھا۔ وہ ایف اے کے بعد ہی تعلیم کو خیر باد کہہ چکا تھا۔
سو اس نے سوچا تھا کہ ایک بار یونیورسٹی پہنچنے کے بعد وہ خود ہی آفس ڈھونڈ کر اپنا کام کر لے گی۔ مگر یونیورسٹی کوئی چھوٹا اسکول یا کالج نہیں تھا۔ وہ وہاں داخل ہوتے ہی جگہ جگہ لڑکوں کے گروپ کھڑے دیکھ کر بے تحاشا گھبرا گئی تھی۔ اسے دور دور تک کسی آفس کا نام و نشان نظر نہیں آیا تھا اور وہ آگے جانے کے بجائے ایک جگہ کھڑی ہو گئی تھی۔ اتنی ہمت اس میں بہر حال نہیں تھی کہ وہ لڑکوں کے کسی گروپ کے پاس جا کر مدد مانگے اور پھر اچانک اسے کومیل نظر آیا تھا، جب وہ بے چینی کے عالم میں پارکنگ کی طرف آئی تھی۔ اسے شکل سے وہ شریف لگا اور اسے یہ بہت بڑی خوش فہمی رہتی تھی کہ وہ بہت اچھی چہرہ شناس ہے۔ سو اسے اس اکیلے لڑکے سے مدد مانگنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوا اور پھر کومیل کے طور طریقے ایسے تھے کہ اسے اس کی شرافت پر اور بھی یقین آتا گیا۔
وہ دوسرے لڑکوں کی طرح اسے دیکھنے سے گریز کر رہا تھا۔ اس نے اس پر صرف ایک دو نظریں ڈالی تھیں۔ وہ بھی تب جب وہ اس سے مدد مانگ رہی تھی۔ اس کے بعد جتنی دیر وہ اس کے ساتھ رہی تھی۔ وہ اسے دیکھے بغیر ہی اس کی باتوں کا جواب دیتا رہا ثانیہ کو اس کے قریب رہ کر بہت تحفظ کا احساس ہوتا رہا تھا۔
چند لمحے پہلے تک لڑکوں کی موجودگی اور نظروں سے پیدا ہونے والا خوف اب اس کے لئے اتنا جان لیوا نہیں تھا۔ گھر آکر اس نے یوں ظاہر کیا تھا جیسے اس نے کسی کی مدد کے بغیر ہی آفس ڈھونڈ لیا تھا۔ وہ یہ بتانا قطعاً افورڈ نہیں کر سکتی تھی کہ اس نے کسی لڑکے سے مدد لی تھی۔ پھر جس دن لسٹیں لگی تھیں۔، اس دن وہ خود نہیں گئی تھی بلکہ اس نے احمد سے کہا تھا کہ وہ اس کا نام دیکھ آئے، اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنا نام دیکھنے جاتی۔ نام نظر آتا یا نہ آتا، دونوں صورتوں میں اس نے وہاں رونا شروع ہو جانا تھا۔ یہ داخلہ اس کے لئے ایسا ہی نازک اور حساس معاملہ تھا۔
وہ بے تحاشا دعائیں مانگتی رہی تھی اور پھر احمد نے جب گھر آکر اسے داخلے کے بارے میں بتایا تو وہ فوراً نفل پڑھنے بیٹھ گئی تھی۔
احمد اس کے لئے یونیورسٹی سے فیس فارم بھی لے آیا تھا۔ اب وہ ایک بار پھر یونیورسٹی میں اکیلی فیس جمع کروانے چل پڑی تھی مگر وہاں اس قدر رش تھا کہ اس کی ساری ہمت ہی ٹوٹ گئی تھی۔ لمبی قطاروں میں کھڑے ہونے کے بجائے وہ ایک طرف کھڑی ہو کر تشویش کے عالم میں اسے مجمعے کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے سوچا تھا کہ جب رش کچھ کم ہو جائے گا تو وہ بھی کسی قطار میں کھڑی ہو جائے گی مگر یہ بات اس کے ذہن میں نہیں آئی تھی کہ وقتاً فوقتاً جو لوگ وہاں آکر قطار میں شامل ہو رہے ہیں وہ قطار کی لمبائی کو مقررہ وقت تک تو کبھی بھی کم نہیں ہونے دیں گے۔ اس کی قسمت اچھی تھی کہ اسی وقت اس نے کومیل کو دیکھ لیا تھا۔ ایک ہی نظر میں وہ اسے پہچان گئی تھی اور بے تحاشا جوش میں وہ تیر کی طرح اس کی طرف گئی تھی۔
بڑے اطمینان سے اسے فارم اور فیس پکڑانے کے بعد وہ اس کے جانے کے کچھ دیر بعد آرام سے واپس گھر آگئی تھی اس نے یہ سوچنے کی قطعاً زحمت نہیں کی کہ اسے رول نمبر سلپ یا فیس کی رسید لینی چاہئے۔ اس نے سوچا تھا کہ جیسے پہلی دفعہ اس نے بس فارم جمع کروایا تھا اور پھر اسے جانے کے لئے کہہ دیا تھا۔ آج بھی وہ فارم اور فیس جمع کروا کر یہی کہے گا۔ سو اس نے سوچا کہ فیس تو اب جمع ہو ہی جائے گی، اس لئے اسے وقت ضائع کرنے کے بجائے گھر چلے جانا چاہئے اور بڑے اطمینان سے وہ گھر آگئی تھی۔
اس دن یونیورسٹی میں کلاسز کا آغاز ہوا تھا۔ وہ بڑے اطمینان سے یونیورسٹی گئی تھی مگر اس کا یہ اطمینان اس وقت غائب ہو گیا تھا۔ جب پہلی ہی کلاس میں پروفیسر صاحب نے رجسٹر کھول کر رول نمبر پکارنے کی بجائے کلاس سے درخواست کی تھی کہ وہ باری باری اپنی رول نمبر سلپ کے ساتھ ان کے پاس آئیں اور اپنے رول نمبر اور نام لکھوا دیں۔ اس کی ارد گرد بیٹھی ہوئی لڑکیوں نے اپنی رول نمبر سلپس نکال لی تھیں۔ وہ چند لمحے حیرت سے اپنے ساتھ بیٹھی ہوئی لڑکی کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی سلپ دیکھتی رہی اور پھر اس نے پوچھا تھا۔
”آپ نے یہ رول نمبر سلپ کہاں سے لی ہے؟” اس لڑکی نے اس سوال پر کچھ تعجب سے اسے دیکھا تھا۔
”یہ آفس سے ملی ہے فیس جمع کروانے کے بعد۔” کچھ توقف کے بعد اس لڑکی نے کہا تھا۔
”مگر مجھے تو یہ نہیں ملی۔”
”کیوں آپ نے یہ آفس سے کیوں نہیں لی؟”
”اصل میں، میں نے خود فیس جمع نہیں کروائی تھی۔ ایک لڑکے نے کروائی تھی۔” ثانیہ نے وضاحت کی تھی۔
”ہاں تو آپ کی سلپ اس لڑکے کے پاس ہو گی۔ آپ اس سے لے لیں۔” اس لڑکی نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے لاپروائی سے کہا تھا۔
”مگر مجھے تو نہیں پتا، وہ لڑکا اس وقت کہاں ہوگا۔” وہ منمنائی تھی…
اس بار لڑکی نے غور سے اسے دیکھا تھا۔
”کیوں، آپ اس لڑکے کو جانتی نہیں ہیں؟” ثانیہ نے بمشکل نفی میں گردن ہلائی تھی۔
”واٹ! تو آپ نے فیس اسے جمع کروانے کے لئے کیسے دے دی؟” وہ لڑکی حیرانی سے بولی تھی ثانیہ نے بے چارگی سے اسے دیکھا۔
”وہ انگلش ڈیپارٹمنٹ کا ہے؟” اس لڑکی نے پوچھا تھا۔
”پتا نہیں۔” ثانیہ کے حلق سے اب بمشکل آواز نکل رہی تھی۔
”نام پتا ہے آپ کو اس کا؟”
”وہ تو میں نے پوچھا ہی نہیں۔” اب اس کے ساتھ بیٹھی ہوئی دوسری لڑکیاں بھی متوجہ ہو چکی تھیں۔
”آپ کو اس کے بارے میں کچھ بھی پتا نہیں اور پھر بھی آپ نے اسے فیس جمع کروانے کے لئے دے دی۔ پتا نہیں اس نے فیس جمع کروائی بھی ہے یا نہیں۔ میرا تو خیال ہے کہ اس نے فیس جمع نہیں کروائی ہو گی۔ بہر حال اب آپ کلاس ختم ہونے کے بعد اسے ڈھونڈنے کی کوشش کریں کیونکہ جب تک آپ کے پاس رول نمبر سلپ نہیں ہو گی آپ کا نام کوئی بھی پروفیسر رجسٹر نہیں کرے گا۔ اب تو ویسے بھی فیس جمع کروانے کی آخری تاریخ بھی گزر چکی ہے اگر اس لڑکے نے فیس جمع نہیں کروائی تو اب تو آپ کا ایڈمیشن بھی نہیں ہو گا۔”
ثانیہ کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اس لڑکی کی باتوں پر پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ اس کا جی راہ رہا تھا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے اپنے ساتھ بیٹھی ہوئی لڑکیوں کی نظریں اسے بری طرح چبھ رہی تھیں۔
وہ آنکھوں میں نمی لئے سر جھکائے بیٹھی رہی تھی۔ کلاس ختم ہونے کے بعد وہ اپنا بیگ اٹھائے باہر آگئی تھی۔ اپنے ذہن میں اس لڑکے کا چہرہ یاد کرتے ہوئے وہ اسے ڈھونڈنے لگی۔ اسے ڈھونڈتے ہوئے ایک بار پارکنگ میں بھی گئی تھی کہ شاید وہیں وہ اسے مل جاوے مگر وہ تو گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب تھا۔ ایک گھنٹہ تک ہر جگہ خوار ہونے کے بعد اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔ اپنے ڈپارٹمنٹ کی طرف آنے کے بعد اندر کلاس میں جانے کے بجائے وہ لان کے ایک کونے میں آکر بیٹھ گئی تھی اور اپنے سر کو بازوؤں میں چھپا کر بے آواز رونے لگی تھی۔
جی بھر کر رونے کے بعد جب وہ پرسکون ہوئی تو اس نے بیگ سے رومال نکال کر اپنی آنکھیں اور چہرہ خشک کرنا شروع کیا تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ وہ ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ کے پاس جا کر یہ مسئلہ بتائے گی مگر وہ جانتی تھی کہ وہ بھی اس معاملہ میں اس کی مدد نہیں کرسکتے تھے۔ اس نے واقعی بڑی حماقت کی تھی۔ بوجھل قدموں کے ساتھ وہ سر جھکائے ڈپارٹنمنٹ کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں اور اچانک سر اٹھانے پر اس کے پیر جیسے پتھر کے ہو گئے تھے۔ سامنے برآمدے کے ستون کے ساتھ ٹیک لگائے وہی کھڑا تھا۔ وہ اپنے کچھ دوستوں سے باتوں میں کافی مصروف لگ رہا تھا۔ ثانیہ کے قدموں تلے جیسے زمین آگئی تھی وہ تقریباً بھاگتے ہوئے اس کے پاس گئی تھی۔
”آپ نے مجھے رول نمبر سلپ کیوں نہیں دی؟ آپ کو پتا ہے، اس کے بغیر میرا نام کہیں بھی رجسٹرڈ نہیں ہوگا۔ میں اتنی دیر سے آپ کو ڈھونڈ رہی تھی مگر آپ مجھے کہیں بھی نظر نہیں آئے۔ میری رول نمبر سلپ کہاں ہے؟”
وہ بے قراری سے بولتی گئی تھی۔ اس کی آمد سے وہاں سکوت چھا گیا تھا۔
”آپ اس دن رول نمبر سلپ لینے کے لئے رکی کہاں تھیں۔ میں نے کافی دیر تک آپ کا انتظار کیا تھا۔ بہر حال اب میں نے وہ سلپ ہیڈ آف دی ڈپارٹنمنٹ کو دے دی ہے آپ ان سے جا کر لے سکتی ہیں۔”
اس کے خاموش ہوتے ہی کومیل نے کافی بے رخی سے اسے جواب دیا تھا۔
”آپ میرے ساتھ چلیں۔ مجھے نہیں پتا، وہ اس وقت کہاں ہو ںگے۔” وہ اب اس کے گم ہو جانے کا رسک کہاں مول لے سکتی تھی۔
”وہ اس وقت آپ لوگوں کی ہی کلاس لے رہے ہیں۔” اس بار کومیل کے بجائے ولید نے کہا تھا مگر وہ وہاں سے ہلنے کو تیار نہیں تھی۔
”نہیں۔ آپ خود میرے ساتھ چل کر مجھے سلپ لے کر دیں۔ میں اکیلے نہیں جاؤں گی۔” اس نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا تھا۔
”ویسے بھی مجھے کیا پتا آپ نے سر کو رول نمبر سلپ دی بھی ہے یا نہیں۔ میں یہاں سے جاکر واپس آؤں اور آپ مجھے نہ ملے تو میں آپ کو کہاں سے ڈھونڈوں گی۔”
اس نے احسان فراموشی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے تھے۔ کومیل کے دوست اس تبصرے پر حیران ہوئے تھے مگر اس کے تو تن بدن میں آگ لگ گئی تھی۔
”جاؤ یار! خود ہی جاکر انہیں سلپ لادو۔”
ولید نے کافی ناگواری سے اس سے کہا تھا۔
وہ ہونٹ بھینچتا ہوا وہاں سے چل پڑا تھا۔ پہلی بار اسے اس طرح کی سبکی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ثانیہ بھی اس کے ساتھ ہی چل پڑی تھی۔ اسے خدشہ تھا کہ وہ کہیں پھر غائب نہ ہو جائے۔
”آپ کا نام کیا ہے؟” ثانیہ نے ساتھ چلتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
کومیل کا دل چاہا تھا کہ وہ اسے جھڑک کر منہ بند رکھنے کے لئے کہے مگر اس نے کمال تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا نام بتا دیا تھا۔ مگر ثانیہ بے یقینی کی آخری سیڑھی پر براجمان تھی۔ اپنی طرف سے وہ انتہائی ذہانت کا مظاہرہ کر رہی تھی اسی لئے اس نے کہا۔
”مگر مجھے کیا پتا، یہ آپ کا اصلی نام ہے یا نہیں۔ ہو سکتا ہے، آپ صحیح نام بتا نہ رہے ہوں۔”
کومیل کے قدم رک گئے تھے۔ سرخ چہرے کے ساتھ اس نے جینز کی پاکٹ سے والٹ نکال کر کھولا تھا اور اپنا I.D کارڈ اس کے سامنے کر دیا تھا۔
”آپ دیکھ سکتی ہیں کہ میرا نام سیّد کومیل حیدر ہی ہے اور اپنے ذہن سے یہ خدشات نکال دیں کہ میں کہیں بھاگنے کی تیاری میں ہوں۔ نہ ہی یہ سوچیں کہ میں نے آپ کی فیس جمع نہیں کروائی۔ آپ نے مجھے کوئی دس لاکھ روپیہ نہیں دیا تھا جو میں لے کر فرار ہو جاتا۔ اس لئے اب آپ اپنا منہ برائے مہربانی بند کر لیں۔”




Loading

Read Previous

بند کواڑوں کے آگے — عمیرہ احمد

Read Next

گھر اور گھاٹا — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!