”ایف آئی آر درج کروانے سے کیا ہوتا ہے۔ اس آدمی نے شاید کچھ رقم دے دی ہے پولیس کو۔ میں اس کی مدد کرنا چاہتی ہوں’ اس آدمی کو سزا ملنی چاہیے۔”
”مگر میں اس معاملے میں کیا کر سکتا ہوں۔ میرا اس معاملے سے کیا تعلق ہے۔” طلحہ نے کہا۔
”میں چاہتی ہوں’ تم اپنے تعلقات استعمال کرو اور اس آدمی کو گرفتار کروادو۔” امبر نے کہا۔
”مگر امبر … یہ ہمارا معاملہ یا مسئلہ تو نہیں ہے’ رخشی کا مسئلہ ہے وہ اور اس کی فیملی خود ہی اسے ہینڈل کر لیں گے۔” طلحہ نے قدرے محتاط لہجے میں کہا۔
”وہ نہیں کر سکتے۔ میں جانتی ہوں’ وہ نہیں کر سکتے۔ اتنے اثرورسوخ والے نہیں ہیں وہ۔”
”کیا رخشی نے تم سے مدد مانگی ہے۔”
”نہیں اس نے مدد تو نہیں مانگی۔ مگر شاید وہ جھجک رہی ہے’ میں بس آج ایک چکر لگا کر آئی ہوں اس کے گھر کا۔ آج تو میں ہمت نہیں کر سکی۔ تفصیلات پوچھنے کی مگر کل ہم دونوں چلیں گے۔ تم رخشی کی امی سے سب کچھ معلوم کر لینا اور پھر دیکھنا کہ تم کس حد تک ان کی مدد کر سکتے ہو۔” امبر نے کہا۔
”تم اس کی امی سے میری بات فون پر کروا دو۔” طلحہ نے کچھ تامل کرتے ہوئے کہا۔
”کیوں تمہیں وہاں جاتے ہوئے کیا ہو رہا ہے۔” امبر کو اس کی بات پر اعتراض ہوا۔
”کچھ نہیں ہو رہا۔ ویسے ہی کہہ رہا ہوں میرا وقت بچ جائے گا۔”
”تمہیں اپنے وقت کی بہت پروا ہے۔ میری پروا نہیں ہے بس مجھے نہیں پتا’ تم کل میرے ساتھ چل رہے ہو۔” امبر نے کچھ ناراضی سے ضد کرتے ہوئے کہا۔
”میں پاپا سے بھی یہ کام کہہ سکتی تھی مگر ممی کو میرے اور رخشی کے میل ملاپ پر بڑے اعتراضات ہیں’ انہیں یہ پتا چلے گا کہ پاپا اس کی مدد کر رہے ہیں تو وہ اور ناراض ہوں گی’ اس لیے مجھے تمہاری مدد لینا پڑ رہی ہے۔ اگر تم رضا مند نہیں ہو اور تمہیں بھی کچھ اعتراض ہے تو ٹھیک ہے پھر میں پاپا سے کہہ دیتی ہوں۔”
”کم آن امبر! تم کتنی جلدی ناراض ہوتی ہو۔ میں نے کب کہا ہے کہ مجھے کوئی اعتراض ہے۔ آج سے پہلے کبھی میں نے تمہاری کوئی بات رد کی ہے جو آج کروں گا۔ میں چلوں گا تمہارے ساتھ کل رخشی کے گھر ‘ اور اس سلسلے میں جو کچھ ہو سکا کروں گا۔” طلحہ نے کہا۔
”اور پلیز ممی کو اس بارے میں کچھ مت بتانا’ ورنہ وہ پھر واویلا شروع کر دیں گی۔” امبر نے اس سے کہا۔
”ٹھیک ہے’ میں انہیں نہیں بتاؤں گا۔ کوئی اور حکم؟”
”نہیں بس یہ ہی کہنا تھا۔” امبر اس کے انداز پر مسکرائی۔ ”مجھے پتا تھا تم میری بات مان لو گے’ ایسا کبھی ہو ہی نہیں سکتا کہ تم میری بات نہ مانو۔” اس نے کچھ فخریہ انداز میں طلحہ سے کہا جو دوسری طرف اس کے جملے پر مسکرا دیا۔
٭٭٭
رخشی کے لیے اس کی پوری زندگی ایک شاک’ ایک تماشا رہی تھی۔ ساری زندگی اس نے اپنی ماں اور اپنی تمام بہنوں کی عزت نفس کو اتنی بری طرح سے پامال ہوتے دیکھا تھا کہ اس نے عزت نفس جیسی کوئی بیماری پالنے کی کوشش نہیں کی۔ ترقی کے لیے سب سے بڑا ہتھیار خود غرضی ہوتی ہے۔ اور اس نے بہت پہلے یہ ہتھیار حاصل کر لیا تھا۔
رومانہ کی اس طرح کی موت نے اس کی اخلاقیات کے تابوت میں جیسے آخری کیل ٹھونک دی۔ وہ لوگ مجرم نہیں تھے مگر انہیں مجرموں کی طرح سرجھکا اور منہ چھپا کر اپنی بہن کو دفن کرنا پڑا تا اور جو مجرم تھا وہ آزاد تھا۔
رومانہ جب دوسری بار معروف سے لڑ کر صاعقہ کے پاس آئی تھی تب ایک دن رخشی کے پاس بیٹھ کر اس نے کہا تھا۔
”ہم جیسی لڑکیوں کا کوئی مستقبل’ کوئی حال نہیں ہوتا’ سب کچھ ہمارا ماضی ہی ہوتا ہے۔ کتنی ہی قربانیاں’ کتنا ہی صبر کیوں نہ کر لیں۔ دنیا کے پاس ہمارے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ زہریلی زبان کے سوا لوگ برہنہ عورت کو کبھی چادر نہیں دیں گے۔ مگر انگلی اٹھا کر یہ کہنے سے بھی نہیں چوکیں گے کہ وہ برہنہ ہے … اور وہ خود چادر اوڑھ لے تو وہ کہتے ہیں کہ وہ برہنہ ”تھی” کبھی یہ نہیں کہیں گے کہ اس نے اپنے آپ کو ڈھانپ لیا ہے۔
میرے اعتبار اور کردار کا تو یہ حال ہے کہ میں اپنے باپ کے ساتھ بھی ایک کمرے میں اکیلی بیٹھی ہوں تو معروف اور اس کے گھر والے مجھ پر شک کریں گے۔” وہ بات کر کے بے اختیار ہنسنے لگی۔ پھر بڑی دیر تک ہنستی رہی۔
رخشی نے اس کی آنکھوں میں نمی اترتے’ اسے پلکوں پر آتے اور آنسو بن کر گالوں پر بہتے دیکھا۔ اس نے رومانہ کو کوئی تسلی نہیں دی۔ اس نے ہمدردی بھی نہیں جتائی۔ وہ اس کے ساتھ روئی بھی نہیں۔ وہ یہ سارے ”بے ہودہ کام” کرنا نہیں چاہتی تھی جو ذرہ برابر بھی رومانہ کی حالت میں تبدیلی نہیں لا سکتے تھے۔
”اسے چھوڑ دو۔” اس نے بے تاثر چہرے اور لہجے کے ساتھ رومانہ سے کہا۔ وہ سرنفی میں ہلانے لگی۔
”چھوڑ نہیں سکتی … وہ میری ضروریات پوری کرتا ہے۔ اخراجات اٹھاتا ہے۔”
”کوئی دوسرا بھی یہ کر دے گا۔” رخشی نے اسی لہجے میں اس سے کہا۔
”کوئی دوسرا بیوی نہیں بنائے گا۔ اور میں امی کی طرح ساری عمر خوار نہیں ہونا چاہتی۔ خاندان بہت ضروری ہوتا ہے رخشی! بہت ضروری … میکہ نہ ہو تو … یہی سب کچھ ہوتا ہے جو میرے ساتھ ہو رہا ہے۔ میں سوچتی ہوں میری اولاد ہو جائے گی تو کم از کم اس کے پاس معروف کے خاندان کا نام ہو گا۔ مجھے لوگ برا کہیں مگر معروف اور اس کے خاندان کے بارے میں تو کوئی انگلی نہیں اٹھا سکے گا۔ میری بیٹی کسی رستے سے گزر رہی ہو گی تو اس پر جملہ کسنے سے پہلے کوئی دس بار سوچے گا۔ میری اور تمہاری طرح نہیں کہ اپنے گھر کے دروازے پر بھی کھڑے ہوں تو ایک سبزی والا تک …” وہ ہونٹ بھنیچتے ہوئے اپنے آنسو ضبط کرنے لگی۔
”اگر اولاد کا اتنا خیال ہے تو پھر یہاں کیوں آئی ہو؟” اس بار رخشی نے دھیمے لہجے میں کہا۔ رومانہ امید سے تھی۔
”پتا نہیں کیوں آ گئی ہوں۔ بس کچھ دیر سانس لینا چاہتی تھی اس گھٹن سے باہر’ وہ لے جائے گا مجھے’ میں جانتی ہوں۔” اس نے غائب دماغی کے عالم میں کہا۔
وہ واقعی اسے لے گیا تھا اور اگلے دو ماہ کے بعد شادی کے پورے آٹھ ماہ بعد اس نے اس بچے سمیت اسے مار دیا تھا۔
اور رخشی’ اس کی ماں اور چھوٹی بہن گھر کے دروازے بند کیے بیٹھی تھیں۔
رخشی نے ساڑھے چار سال کی عمر میں ظفر کے ہاتھوں صاعقہ کو گلی میں لوگوں کے ہجوم کے سامنے پٹتے دیکھا تھا۔ خوف کی ایک عجیب سی کیفیت تھی جس کا وہ شکار ہوئی تھی۔ ساڑھے چار سال کا بچہ کیا سوچ’ کیا سمجھ سکتا تھا۔ اس کے لیے اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ اس کی ماں رو رہی ہو اور اس کا باپ اسے پیٹ رہا ہو’ اسے آج تک صاعقہ کے ہاتھ سے اپنے دروازے کی دہلیز پر چھٹ کر گرنے والا تھیلا اور وہ سبزی یاد تھی جو اس کے اندر تھی اور جسے اس نے روتے ہوئے زمین سے اکٹھا کر کے ننھے ہاتھوں سے اس تھیلے کے اندر ڈالا تھا۔
اس نے ظفر کو کبھی اس واقعے کے لیے معاف نہیں کیا تھا اور اس نے صاعقہ کو کبھی مجرم نہیں گردانا تھا۔ اس کے نزدیک اس کی ماں نے جو کیا تھا ٹھیک کیا تھا۔
اتنے سالوں بعد رومانہ کی اس طرح کی موت پر وہ پھر اسی طرح کے خوف اور ذلت کے احساس سے دو چار ہوئی تھی۔ دروازے بند کر کے گھر بیٹھ جانا۔ لوگوں کی چبھتی نظروں ‘ زہر اگلتی زبانوں اور اٹھتی انگلیوں سے زیادہ آسان تھا اور رخشی کو آسان کام سے نفرت تھی۔
جو آدمی ہر طرح کی ذلت سہہ لے اسے پھر کسی چیز سے خوف نہیں آتا۔ چاہے اسے سانپوں والے کنویں میں چھوڑ دیا جائے یا جنگلی جانوروں سے بھرے ہوئے جنگل میں … جو رسوائی اور بے عزتی کے طوق گلے میں لے کر پھرنے کا عادی ہو جائے وہ ہر تیسرا طوق بھی بڑی آسانی سے گلے میں ڈال لیتا ہے۔
سولہ سال پہلے رسوائی اور ذلت کا جو سفر انہوں نے شروع کیا تھا اس میں انہوں نے ہر طرح کی اونچ نیچ دیکھ لی تھی۔ ہر طرح کی گندی نظر اور زبان کو برداشت کر لیا تھا۔ ہر انسان اور رشتے کی اصلیت دیکھ لی تھی۔ دنیا کے سامنے معزز’ مہذب اور مذہبی نظر آنے والے لوگوں کے لبادے کے نیچے چھپے ہوئے مکروہ انسان بھی ان کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہے تھے۔ جن کے ہونٹوں پر بیٹی اور بہن ہوتا تھا ان کی نظروں میں کیا ہوتا تھا یہ کوئی صاعقہ اور رخشی کے گھرانے سے زیادہ اچھی طرح نہیں جان سکتا تھا۔
اپنے گھروں کے باہر دیگوں کی قطاریں خیرات کرنے والے کس ”دوسری چیز” پر سب سے زیادہ روپیہ خرچ کرتے تھے’ یہ بھی صرف صاعقہ اور رخشی جیسی عورتیں ہی بتا سکتی تھیں۔
”نہ مجھے رومانہ بننا ہے’ نہ سیمی … مجھے کسی کا کوئی لحاظ ‘ کوئی مروت نہیں کرنی۔ دنیا تم پہ تھوکے تو تم اس پر تھوکو۔ اور میں … میں جس مرد سے شادی کروں گی’ میں اسے دوسرے ہر رشتے سے کاٹ دوں گی۔ یہ نہیں کروں گی تو کبھی نہ کبھی یہ رشتے مجھے کاٹ دیں گے۔ اگر میرے خاندان پر کبھی کسی نے رحم نہیں کیا تو میں بھی کسی پر رحم نہیں کروں گی۔ اگر مجھے ہر چیز کی قیمت چکانا پڑی ہے تو دوسرے بھی چکائیں گے۔”
رخشی نے رومانہ کی موت کے تیسرے دن ظفر سے جھگڑنے کے بعد صاعقہ سے کہا تھا۔
”ان گلیوں کے لڑکوں سے چکر نہیں چلانے مجھے’ سیمی اور رومانہ کی طرح ان دونوں کی طرح خوار نہیں ہونا۔ مجھے کہیں اور جانا ہے۔ اور اس کے بعد میں اس محلے میں واپس آؤں گی۔ پھر میں دیکھوں گی یہاں کون ہے جو مجھ سے نظریں جھکا کر بات نہیں کرتا جو مجھ پر انگلی اٹھانے کی جرأت کرتا ہے۔ اور میں دیکھوں گی کہ معروف اور اس کا خاندان کب تک یہاں اس طرح محفوظ بیٹھتے ہیں’ مجھے صرف ایک سال چاہیے۔ صرف ایک سال۔…”
صاعقہ نے متورم آنکھوں کے ساتھ اپنی تیسری بیٹی کو دیکھا جو خالی آنکھوں کے ساتھ دیوار پر لگی ہوئی کالج کے ڈرامہ کے دوران لی گئی اپنی اس تصویر کو دیکھ رہی تھی جس میں وہ اور امبر دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے تھے۔ صاعقہ نے تصویر کو دیکھا۔
رخشی بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔ نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت…’ رخشی اکثر اس تصویر کو دیکھتی رہتی تھی۔ اسی طرح جس طرح وہ آج دیکھ رہی تھی۔ صاعقہ نے تصویر سے نظریں ہٹا کر ایک بار پھر رخشی کو دیکھا جواب کچھ بڑبڑا رہی تھی۔
زمین پر دیوار سے ٹیک لگائے سیاہ لباس میں کھلے بالوں کے ساتھ وہ اسی تصویر پر نظریں جمائے کچھ بڑبڑا رہی تھی۔ صاعقہ کو چند لمحوں کے لیے یوں لگا جیسے رخشی کا ذہنی توازن خراب ہو گیا تھا۔ ورنہ یوں اپنی تصویر کو دیکھتے رہنا اور پھر اچانک اس نے چونک کر ایک بار پھر رخشی کی نظروں کے تعاقب میں اس تصویر کو دیکھا۔ آج رخشی اپنے آپ کو نہیں دیکھ رہی تھی۔ آج وہ امبر کو دیکھ رہی تھی۔
”سنووائٹ کو … جو اپنے سر پر پہنا پھولوں کا تاج سنبھال رہی تھی۔
٭٭٭