تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

”ابھی کچھ پتا نہیں۔”
”فون خراب ہے تمہارا؟”
”ہاں شاید…۔”
”میں تمہاری امی سے ملنا چاہتی ہوں۔” امبر نے اس سے کہا۔
رخشی جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اسے اپنے ساتھ لے کر دوسرے کمرے میں آ گئی۔ جہاں امبر نے رخشی کی امی کے پاس اس کی سب سے بڑی بہن کو دیکھا۔ تعارف کے بعد وہ کچھ دیر ان کے پاس بیٹھی رہی پھر وہاں سے اٹھ کر واپس آ گئی۔
جس وقت وہ اپنے گھر میں داخل ہوئی اس وقت چار بج رہے تھے۔ منیزہ سے اس کی ملاقات لاؤنج میں ہی ہو گئی۔
آج اتنی دیر سے کالج سے آئی ہو۔” منیزہ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”نہیں میں رخشی کے گھر چلی گئی تھی۔” امبر نے تھکے تھکے انداز میں صوفہ پر اپنا بیگ رکھتے ہوئے کہا۔
”ایک تو میں تمہاری رخشی کے ساتھ اس دوستی سے تنگ آ گئی ہوں۔ روز کبھی وہ یہاں ہوتی ہے’ کبھی تم اس کے ہاں پہنچی ہوئی ہوتی ہو۔” منیزہ نے کچھ بیزاری سے کہا۔
”ممی ! رخشی کی بہن کو اس کے شوہر نے قتل کر دیا ہے۔” امبر نے ان کی بات کے جواب میں کہا۔
”کیا …؟” منیزہ یک دم حیران ہوئیں۔
”وہ دو تین دن سے کالج نہیں آ رہی تھی۔ آج مجھے اس کی ایک دوست فائزہ سے پتا چلا تو میں اس کے گھر چلی گئی۔”
”کیوں قتل کیا؟”
یہ تو ان لوگوں کو بھی نہیں پتا’ بس وہ بتا رہی تھی کہ کچھ اختلافات تھے مگر وہ اس حد تک جا سکتا تھا’ اس کا انہیں اندازہ نہیں تھا۔” امبر نے انہیں بتایا۔
”معمولی اختلافات پر کوئی شوہر بیوی کو قتل نہیں کر تا۔ ” منیزہ نے سرہلاتے ہوئے کچھ پر سوچ انداز میں کہا۔
”کیا مطلب ؟”
”کوئی نہ کوئی بات تو ہو گی کہ اس نے اپنی بیوی کو اس طرح قتل کر دیا۔ یقینا وہ تم سے کچھ چھپا رہی ہے’ اس نے تمہیں اصل وجہ نہیں بتائی ہو گی۔”
امبر نے ناگواری سے منیزہ کو دیکھا۔ ”بڑی سے بڑی وجہ بھی ہو تو بھی اس طرح کسی دوسرے کو قتل کر دینا’ وہ بھی اپنی بیوی کو جب کہ ابھی شادی کو صرف آٹھ ماہ ہوئے ہیں … وہ واقعی بہت بُرا آدمی ہو گا۔” اس نے دوٹوک اندز میں منیزہ سے کہا۔




”اگر رخشی کچھ چھپا بھی رہی ہے تو اس میں قابل اعتراض بات کیا ہے’ اسے حق ہے کہ وہ اگر کوئی بات دوسروں کو بتانا نہیں چاہتی تو نہ بتائے۔ پھر خاص طور پر اس طرح کے معاملات کے بارے میں۔” اس کی ہمدردیاں مکمل طور پر رخشی کے ساتھ تھیں۔
”میں نے تمہیں پہلے بھی رخشی کے ساتھ دوستی ختم کرنے کے لیے کہا تھا۔ اسی وجہ سے کیونکہ مجھے اس کا فیملی بیک گراؤنڈ پسند نہیں آیا تھا۔ کیسا خاندان ہے جہاں بہنوئی بہن کو قتل کر دیتا ہے۔ بس تم ختم کرو اس سے ملنا جلنا۔” منیزہ نے اس کی بات پر کچھ ناپسندیدگی سے کہا۔
”بعض دفعہ آپ بہت عجیب باتیں کرتی ہیں ممی۔” امبر کو ماں کی بات بہت بُری لگی۔ ”اگر اس کے بہنوئی نے اس کی بہن کو قتل کر دیا ہے تو اس میں رخشی کا کیا قصور ہے۔ یا اس کی فیملی کی کیا غلطی ہے۔ کوئی بھی کسی کو کسی بھی وقت مار سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم بجائے ایسے لوگوں سے ہمدردی رکھنے کے ان سے ملنا جلنا چھوڑ دیں۔ یہ سوچ کر کہ یہ بُرے لوگ ہیں۔ واٹ نان سینس۔” اس نے سرجھٹکتے ہوئے کہا۔
”ایسے ہی کوئی اٹھ کر کسی کو نہیں مار دیتا۔ کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے اور میں ان ہی وجوہات کی بنیاد پر تمہیں اس سے قطع تعلق کرنے کا کہہ رہی ہوں ایسے لوگوں کے معاملات سے الگ رہنا ہی بہتری ہوتی ہے۔” منیزہ ابھی بھی اپنی بات پر اڑی ہوئی تھیں۔
”معاملات سے الگ رہنا کیا مطلب ہے آپ کا ۔ میں اس کے کون سے معاملات کے ساتھ منسلک ہو رہی ہوں میں پہلے ہی اس کے معاملات سے الگ ہوں۔ مگر جہاں تک اس سے دوستی کا تعلق ہے’ میں اس سے دوستی ختم نہیں کر سکتی۔” اس نے دوٹوک انداز میں کہا۔ منیزہ نے خفگی کے ساتھ اسے دیکھا۔
”پتہ نہیں تمہیں عقل کب آئے گی۔”
”جس قسم کی عقل آپ مجھے سکھانا چاہتی ہیں’ ایسی عقل تو کبھی نہیں آئے گی۔” اس نے ناراضی سے اپنا بیگ صوفہ سے اٹھا کر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
”میرا خیال تھا کہ آپ کو اس کی بہن کی موت پر افسوس ہو گا مگر آپ تو اس پر تنقید کرنے بیٹھ گئی ہیں۔”
”نہ جان نہ پہچان … خوامخواہ کا افسوس … اور تمہیں یہ جو احمقانہ عادت ہے ناں ہر ایک سے ہمدردی جتانے کی۔ بڑا نقصان اٹھاؤ گی تم اس کے ہاتھوں۔’ امبر نے ماں کی بات کو سنی ان سنی کر دیا اور پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر لاؤنج سے نکل گئی۔
وہ ذہنی طور پر اتنی تھکی ہوئی تھی کہ اس وقت منیزہ سے مزید بحث نہیں کرنا چاہتی تھی۔ منیزہ اس کے جانے کے بعد بھی دیر تک بڑبڑاتی رہیں۔
٭٭٭
صاعقہ نے جس وقت اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑ کر الگ رہائش اختیار کی تھی۔ اس وقت اس کی سب سے چھوٹی بیٹی دو سال کی تھی۔
وہ اگلے کچھ سال اسی فیکٹری میں کام کرتی رہی تھی مگر اس کی آمدنی کا ذریعہ فیکٹری سے ملنے والی تنخواہ نہیں تھی’ صرف تنخواہ کے ساتھ وہ اپنے اخراجات پورے نہیں کر سکتی تھی۔
فیکٹری میں اگلے پانچ سال کے دوران اس کی شہرت داغ دار ہو گئی تھی مگر وہ مالی لحاظ سے بہت مستحکم ہو گئی تھی۔ اور اسے اس بات کی رتی بھر بھی پروا نہیں تھی کہ لوگ اس کی عزت نہیں کرتے یا اس کے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔
اس کا گھر اپنے ماں باپ کے گھر سے بہت دور تھا بلکہ ان کے گھر کی بالکل مخالف سمت میں تھا اور ایسا اس نے جان بوجھ کر کیا تھا۔ وہ اپنے ماں باپ کے گھر کے قریب اس ”آزادی” سے نہیں رہ سکتی تھی جس آزادی سے وہ وہاں رہتی تھی’ اس کے گھر رات گئے تک مختلف مردوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ محلے میں کسی کے استفسار پر وہ کسی کو اپنے رشتے کا بھائی بتاتی۔ کسی کو سسرالی رشتے دار اور کسی کو شوہر کا دوست۔
صرف ایک بار محلے میں سے کسی نے پولیس اسٹیشن اس کی شکایت کی تھی مگر اس کے فیکٹری کے مالک نے معاملہ نہ صرف رفع دفع کروایا تھا بلکہ اگلی بار ایسی کسی شکایت پر پولیس والوں نے خود اس آدمی کو تین دن کے لیے تھانے میں بند کر دیا تھا پھر اس آدمی کے گھر والوں نے خود صاعقہ سے معافیاں مانگ کر اس آدمی کو تھانے سے چھڑوایا تھا۔ اس کے بعد دوبارہ کسی نے صاعقہ کے بارے میں ایسی کوئی شکایت کرنے کی جرات نہیں کی۔
صاعقہ نے محلے میں کسی کے ساتھ میل جول نہیں رکھا’ نہ ہی محلے والوں نے ایسی کوئی کوشش کی۔ شاید یہ دونوں کے لیے بہتر تھا۔ صاعقہ کے لیے ہر چیز پر پردہ ڈالنا آسان ہو گیا جب کہ محلے والوں کے لیے اپنے گھر کی عورتوں کو اس کے ”مضر اثرات” سے بچانا۔
کچھ عرصہ کے بعد صاعقہ نے اسی محلے میں ایک گھر خرید لیا۔ اس کے بعد اس نے اس فیکٹری میں نوکری چھوڑ کر اپنے ایک اور ”واقف کار” کی فیکٹری میں نوکری شروع کر دی۔ کیونکہ پرانی فیکٹری کے مالک کو اب اس کی ان حرکتوں پر اعتراض ہونے لگا تھا جن پر پہلے پیار آتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ صاعقہ اس کے علاوہ کسی دوسرے مرد سے نہ ملے۔ صاعقہ نے جواباً اس سے اپنے ساتھ شادی کے لیے کہا۔ یہ اس آدمی کے لیے ناممکنات میں سے تھا۔
پینسٹھ سال کی عمر میں جب وہ اپنے تمام بچے بیاہ چکا تھا اور پوتے اور نواسے رکھتا تھا’ وہ ایسی کسی ”حرکت” کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا اس کے بچے اس کی اس بادشاہت کو ختم کر دیں گے’ وہ اٹھا کر اسے گھر سے باہر پھینک دیتے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ابھی سب کچھ اس کے اپنے نام تھا۔ پھر صاعقہ جیسی عورتوں کے ساتھ شادی کون کرتا ہے۔ اس لیے اس نے صاعقہ کی اس فرمائش کو قبول نہیں کیا مگر اپنے مطالبے پر قائم رہا۔
صاعقہ نے اس کا مطالبہ ماننے کے بجائے اپنے ایک دوسرے جاننے والے کی فیکٹری میں کام کرنا شروع کر دیا جسے اس کی کسی حرکت پر اعتراض نہیں تھا اور نہ ہی دوسرے مردوں سے تعلقات ناپسند تھے۔ اس نے اپنے شوہر سے طلاق نہیں لی تھی۔ نہ ہی ظفر نے اسے طلاق دینے کی کوشش کی تھی’ وہ اپنی دوسری بیوی اور اس کے بچوں کے ساتھ رہتا تھا مگر کبھی کبھی صاعقہ کے پاس بھی آنے لگا کیونکہ اب اسے یقین ہو گیا تھا کہ صاعقہ کو اس کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ اس سے کچھ مانگے گی نہیں۔ بلکہ ضرورت کے وقت اسے کچھ دے بھی سکتی ہے۔
وہ اندازہ لگا سکتا تھا کہ صاعقہ کے ذرائع آمدنی کس طرح کے ہو سکتے تھے اور اس کے گھر آنے جانے والے مردوں سے اس کے تعلقات کی نوعیت کیا ہو سکتی تھی مگر اس کے باوجود اس نے کبوترکی طرح اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں۔ وہ ان لوگوں پر تنقید کرتا اور صاعقہ کو بُرا بھلا بھی کہتا مگر اس کے باوجود نہ اس نے صاعقہ کے گھر آنا چھوڑا اور نہ ہی اس سے وقتاً فوقتاً رقم لینا۔
صاعقہ نے اسے ایک ڈھال کی طرح استعمال کیا۔ وہ اسے کبھی کبھار پیسے دیتی رہی۔ شادی شدہ عورت کا ٹیگ لگا رکھنے کے لیے یہ ضروری تھا اور یہ ٹیگ اسے کم از کم معاشرے میں عزت دار بنا دیتا جہاں وہ رہ رہی تھی۔ اور یہ اس کی بیٹیوں کے لیے بھی خاصا مفید تھا۔ کم از کم کہنے کی حد تک اس کے پاس شوہر اور اس کی بیٹیوں کے پاس باپ کا نام تھا۔
سیمی اس کی سب سے بڑی بیٹی تھی۔ صاعقہ کی طرح ایک درجن افیئرز کے بعد اس نے صاعقہ کی مرضی کے خلاف ایک لڑکے سے شادی کرلی۔ اس لڑکے نے سیمی سے اپنے گھر والوں کی مرضی کے بغیر شادی کی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے گھر والوں نے اسے گھر سے نکال دیا۔ وہ دونوں الگ رہنے لگے۔ اپنے پاس موجود کچھ سرمائے سے اور کچھ رقم صاعقہ سے لے کر اس نے یکے بعد دیگرے مختلف قسم کے بزنس میں لگانے کی کوشش کی۔ مگر ناتجربہ کاری کی وجہ سے ہر بار اس کا سرمایہ ضائع ہوا۔ پیسے کی کمی ہونے کا اثر سیمی اور اظہار کی نجی زندگی پر بھی پڑا … ان دونوں کے درمیان جھگڑے رہنے لگے۔ اظہار وقتاً فوقتاً اسے صاعقہ کے پاس پیسہ مانگنے کے لیے بھیجتا۔ صاعقہ کو مجبوراً اپنا مکان بیچنا پڑا۔
ایک بار پھر وہ سب کرائے کے مکان میں رہنے لگے۔ مگر اظہار کے مطالبات تب بھی کم نہیں ہوئے۔ سیمی اور اس کے دو بچے تھے مگر اس کے باوجود گھر کے اخراجات کے لیے سیمی کو صاعقہ کی مدد کی ضرورت پڑتی۔ بعض دفعہ تنگ آ جانے پر صاعقہ نے سیمی کو اظہار کو چھوڑنے کے لیے بھی کہا مگر سیمی اس پر تیار نہیں تھی۔ شاید اس کے لاشعور میں کہیں وہ زندگی موجود تھی جو صاعقہ اور ظفر کی علیحدگی کے بعد صاعقہ نے گزاری تھی یا پھر شاید اسے ابھی بھی اظہار سے محبت تھی جو بھی تھا اس نے صاعقہ کے لیے مشکلات میں اور اضافہ کیا۔
عمر ڈھلنے کے ساتھ ساتھ اس کی ڈیمانڈ بھی کم ہوتی جا رہی تھی۔ وہ ابھی بھی بہت خوبصورت اور اپنی عمر سے کم لگتی تھی مگر وہ بہرحال جوان نہیں رہی تھی۔ اس سے راہ و رسم بڑھانے والے مردوں کی دلچسپی کا مرکز اب اس کی بیٹیاں تھیں۔ پہلے سیمی اس کے بعد رومانہ اور اب رخشی۔
ماں کی طرح ان کے بھی رشتے کے بہت سے انکل اور بھائی تھے جو ان پر اپنی عنایات کی بارش کرتے رہتے تھے۔ وہ بھی صاعقہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ”جس سے جتنا مل سکتا ہے” بٹور لو پر عمل پیرا تھیں۔ انہیں اس خوبصورتی کا بہت اچھی طرح احساس تھا جس سے وہ مالا مال تھیں اور جس ماحول میں وہ رہ رہی تھیں وہاں کے اعتبار سے وہ غیر معمولی حد تک خوبصورت تھیں۔
محلے میں اس گھرانے کو ناپسند کیے جانے اور ان کے بارے میں چہ میگوئیاں کیے جانے کے باوجود یہ بات تسلیم کرنے میں کسی کو عار نہیں تھا کہ وہ تمام ماں بیٹیاں بہت خوبصورت تھیں اور نہ صرف خوبصورت بلکہ خوش اخلاق بھی۔
رومانہ نے اپنی بڑی بہن سیمی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے ہی محلے کے ایک دولت مند خاندان کے لڑکے معروف سے شادی کر لی۔ معروف نے رومانہ کو ایک بار گرلز کالج کے گیٹ پر اس وقت دیکھا تھا جب وہ اپنی بہن کو وہاں ڈراپ کرنے گیا تھا اور ایک ہی نظر وہ اس حد تک اس پر فریفتہ ہو گیا کہ اس نے اپنے گھر والوں سے چھپ کر صاعقہ کے گھر آنا جانا شروع کر دیا۔ صاعقہ کو شروع میں اس کے اور رومانہ کے تعلقات پر کچھ اعتراض ہوا کیونکہ معروف کے خاندان کو اچھی طرح جانتی تھی اور ان کے اثر و رسوخ سے بھی واقف تھی اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ اسی کے محلے میں رہتے تھے۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!