تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

اس نے بہت صاف اور واضح الفاظ میں پہلے دن ہی کہہ دیا تھا اور تب سے وہ اسی بات پر اڑا ہوا تھا وہ نہ صرف انہیں رکھنے پر تیار نہیں تھا… بلکہ ان کے اخراجات کے لیے بھی کچھ دینے پر رضامند نہیں تھا۔
صاعقہ چند ماہ تو کسی نہ کسی طرح گھر میں گزارہ کرتی رہی پھر اس نے موم بتیوں والے اس کارخانے میں کام کرنا شروع کر دیا۔
اس فیکٹری میں اس کی طرح کی اور بہت سی عورتیں تھیں… شادی شدہ، بیوہ، مطلقہ، خاوند کی چھوڑی ہوئی، کچھ غیر شادی شدہ… اس میں اور وہاں موجود عورتوں میں بس ایک فرق تھا۔ وہاں موجود عورتوں میں سے کوئی بھی اس جیسے حسن کی مالک نہ تھی… بعض عورتوں کو اس کے مقدر پر حیرانی بھی ہوتی… وہ ان سے کیا کہتی اسے خود بھی اپنے مقدر پر حیرانی ہوتی تھی۔
جوں جوں وقت گزر رہا تھا۔ اس کے اپنے گھر میں اس کی موجودگی سے ہونے والی تلخی بڑھنے لگی تھی۔ بھابھی کو جگہ کی تنگی کی شکایت ہوتی… تو کبھی اس کی بچیوں کی بدتمیزی کا شکوہ ہوتا… بھائی کو ظفر کی بے حسی اور سرد مہری پر غصہ آتا۔
”یہ ان چاروں کو وہاں کیوں نہیں چھوڑ آتی… وہ اسے نہیں رکھتا… اپنی اولاد کو تو رکھے… ہم آخر کس جرم کی سزا میں ان چاروں کو پالیں۔”
وہ غصے میں کہتا گھر سے نکل جاتا… شادی شدہ بہنوں کو اعتراض ہوتا۔




”ہمارے سسرال والے کہتے ہیں، ایک بہن کو تو چار بچوں کے ساتھ مستقل گھر میں بٹھایا ہوا ہے۔ تمہیں چار دن کے لیے کیوں نہیں رکھ سکتے۔”
غیر شادی شدہ بہنوں کو اعتراض ہوتا۔ ”پہلے ہی رشتے نہیں آرہے تھے، اب اور بھی نہیں آئیں گے… لوگ یہی کہیں گے… ایک بہن اپنا گھر نہیں بسا سکی تو دوسری کیسے بسائیں گی۔”
ماں باپ کو دبے لفظوں میں یہ افسوس رہتا کہ گھر میں اب کہیں جگہ ہی نہیں رہی… اور جو معمولی جمع پونجی وہ دونوں چھوٹی بہنوں کے لیے بچا رہے تھے وہ اب گھر میں ہی خرچ ہو رہی تھی۔
صاعقہ کے ذہنی دباؤ میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا تھا… وہ نہ چاروں بچیوں پر دھیان دے پا رہی تھی نہ ہی کسی اور شے پر… فیکٹری سے واپس آکر وہ پھرکی کی طرح گھر کے کاموں میں مصروف رہتی ایک چھت سر پر قائم رکھنے کے لیے اسے اپنا آرام و سکون پوری طرح تج دینا پڑ رہا تھا… اس کام کے بدلے وہ سر پر صرف ایک چھت باقی رہنے کی خواہش مند تھی اور یہ کام بھی دن بدن مشکل ہوتا جا رہا تھا۔
وہ نئے لباس کے لیے ترس گئی تھی۔ فیکٹری سے ملنے والی روزانہ کی اجرت روزانہ ہی خرچ ہو جاتی… بچوں کے دودھ پر… ان کے چھوٹے موٹے اخراجات پر… وہ بڑی دونوں بچیوں کو اسکول بھیجنا بھی بند کر چکی تھی مگر حالات اس کے باوجود خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے تھے۔
وہ آج بھی اسی ذہنی اضطراب کا شکار تھی جب ساتھ کام کرنے والی عورت کے ایک سوال پر وہ بری طرح تلملا اٹھی۔
”خوش قسمت لڑکی وہ ہوتی ہے جس کا شادی نہ ہو یا جس کے ہاں کوئی لڑکی نہ پیدا ہو۔” وہ عورت اب اس کے جملے کو زیر لب دہرا رہی تھی۔
”میں تمہیں ایک بات بتاؤں صاعقہ!” وہ اب اس سے مخاطب تھی… ”عورت…عورت خوش قسمت ہو ہی نہیں سکتی… وہ کسی عمر کی ہو، کسی شکل کی ہو… اس کے گھر لڑکیاں پیدا ہو رہی ہوں یا لڑکے… یا وہ بانجھ ہو… امیر گھرانے میں پیدا ہوئی ہو… یا غریب میں… پڑھی لکھی ہو یا میری طرح جاہل… عورت خوش قسمت ہو ہی نہیں سکتی۔”
صاعقہ نے پہلی بار اس کے ہاتھوں کی رفتار کو آہستہ ہوتے دیکھا۔ ”عورت بس بدقسمت ہوتی ہے… کبھی اپنی وجہ سے… کبھی ماں باپ کی وجہ سے… کبھی شوہر کی وجہ سے… کبھی اولاد کی وجہ سے… خوش قسمتی اس کے حصے میں کبھی نہیں آتی۔”
وہاں موجود باقی عورتوں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ وہ سب سر جھکائے موم بتیوں کے پیکٹ بنانے میں مصروف رہیں مگر صاعقہ رک گئی۔
”تم بھی بس اماں… بڑی عجیب باتیں کرتی ہو… ظفر کی دوسری بیوی خوش قسمت نہیں ہے…؟ شادی کے پہلے سال ہی بیٹا ہوگیا۔ میں آٹھ سال اس کو بیٹا نہیں دے سکی۔ وہ اس کے گھر پر راج کر رہی ہے… میں ماں باپ کے گھر پر بوجھ بنی بیٹھی ہوں۔ اس کے لیے نیا گھر بنوا رہا ہے… میں یہاں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہوں۔ ہوتی ہیں، کیوں نہیں ہوتیں عورتیں خوش قسمت… دوسری بیوی بننے والی تو ضرور ہوتی ہے… بیٹوں کی مائیں تو ضرور ہوتی ہیں۔”
اس نے چادر سے آنکھوں میں آنے والی نمی کو پونچھا اور ایک بار پھر اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔
”تو تم بھی کسی کی دوسری بیوی بن جاؤ… چھوڑ تو تمہارے شوہر نے دیا ہی ہے… طلاق لے کر کسی دوسرے کے ساتھ شادی کرلو۔”
”چار بچوں کی ماں سے کون شادی کرے گا۔”
”بچوں کو دفع کرو… تم کرلو شادی۔”
”ْہاں دفع کروں… یہی کام تو ہو نہیں سکتا۔”
”صرف تمہاری اولاد ہی تو نہیں ہے… ظفر کی بھی تو ہے… اس کے پاس بھجوا دو۔”
”لڑکیاں صرف ماں کی اولاد ہوتی ہیں۔ باپ کی کہاں ہوتی ہیں۔”
صاعقہ نے ایک بار پھر رک کر تلخ لہجے میں کہا۔ وہ بوڑھی عورت خاموشی سے اسے دیکھ کر رہ گئی۔
اس دن کام ختم ہونے کے بعد وہاں سے جاتے ہوئے اس بوڑھی عورت نے اسے روک لیا۔ سب عورتوں کے جانے کے بعد اس نے صاعقہ سے کہا۔
”پچّیس سال کی تھی میں جب میرے شوہر نے تین بچوں کے ساتھ مجھے گھر سے نکال کر دوسری شادی کرلی۔ لوگ کہتے ہیں، میں بھی بڑی خوبصورت تھی… میں نے بچوں کے لیے خود کو جیتے جی مار لیا… تیس سال کہاں گئے۔ مجھے پتا ہی نہیں… ہوش آیا ہے تو میں یہاں فیکٹری میں بیٹھی موم بتیاں بنا رہی ہوں۔ یہ نہ بناؤں تو تین وقت کا کھانا بھی نہیں کھا سکوں گی… دو بیٹیاں بیاہ دیں۔ ان کے گھر میں رہ نہیں سکتی۔ ایک بیٹا تھا… وہ اور اس کی بیوی مجھے بمشکل رکھ رہے ہیں… اولاد کہتی ہے میں نے انہیں کیا دیا۔ میں اچھی عورت ہوتی تو ان کا باپ مجھے ضرور بسا لیتا… یا کوئی دوسرا آدمی بسا لیتا۔”
وہ عورت گیلی آنکھوں کے ساتھ بڑبڑا رہی تھی۔
”تیس سال میں نے اولاد کے لیے سوکھی روٹی کھائی… آنکھوں میں سرمہ تک نہیں لگایا… اور اولاد کو لگتا ہے میں پھر بھی اچھی عورت نہیں… تم میری طرح نہ کرنا… تم زندگی کو برباد نہ کرنا… شرافت، پاکیزگی، پارسائی سب کتابی باتیں ہوتی ہیں… جھکی نظر والی عورت کی کوئی قیمت نہیں ہوتی… کوئی مول نہیں لگاتا… زندگی میں تمہیں کوئی موقع ملے تو معاشرے کا سوچنا… نہ اولاد کا… صرف اپنا سوچنا… صرف یہ سوچنا کہ زندگی صرف ایک بار ملتی ہے اور کسی فیکٹری میں موم بتیاں بنا کر اور بیٹے اور بہو کے ہاتھوں بے عزت ہو کر نہیں گزاری جاسکتی۔”
وہ عورت سانس لیے بغیر مسلسل بولتی جا رہی تھی۔ صاعقہ پلکیں جھپکائے بغیر اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
”تمہیں دیکھتی ہوں تو مجھے اپنی جوانی یاد آجاتی ہے۔ تمہاری باتیں سنتی ہوں تو اپنا ماضی سامنے آجاتا ہے۔ میں نے کچھ بویا نہ ہی کچھ کاٹا…”
”میں نے بھی کچھ نہیں بویا اماں!” صاعقہ نے رنجیدہ سے کہا۔
”تو تم دوسروں کا کاٹ لو… مگر ہاتھ پر ہاتھ رکھے مت بیٹھی رہو…”
اس عورت کی آنکھوں میں ایک عجیب سا تاثر تھا۔ صاعقہ کچھ لمحے چپ چاپ اسے دیکھتی رہی اور پھر فیکٹری کے احاطے سے باہر نکل آئی۔
فیکٹری سے گھر تک ٹوٹی چپل کو گھسیٹتے اس دن پہلی بار وہ اس عورت کی باتوں پر غور کرتی رہی۔
”دنیا واقعی بڑی عجیب ہے۔” اس نے ایک گہری سانس لے کر سوچا ”کیسے کیسے عجیب لوگ ہوتے ہیں… کیسی کیسی عجیب باتیں کہتے ہیں۔”
وہ سڑک پر نظریں جمائے چلتے ہوئے سوچتی رہی۔
”بھلا میں یہ سب کیسے کر سکتی ہوں جیسے اماں کہہ رہی تھی… میں تو ایسی عورت ہوں ہی نہیں… اور پھر اماں بھی بس۔” وہ تلخی سے سوچتی رہی۔ ”کیسے کہہ دیا کہ کسی دوسرے کا بویا کاٹ لوں؟” وہ چلتی رہی۔ ”اور اب میں کیا آوارہ عورت بن جاؤں… اور میری بیٹیاں ان کا کیا ہوگا… اور پھر خود میرے گھر والے… مگر میں آوارہ عورت بنوں کیوں؟ اور میں کیوں اماں کی باتوں پر سوچ رہی ہوں۔”
اس نے جیسے اپنی سوچوں کو لگام دینے کی کوشش کی پھر اس نے ذہن سے اماں کی آواز کو جھٹک دیا۔
مگر وہ اپنے مقدر کے لکھے کو اس سوچ کی طرح نہیں جھٹک سکی۔ اگلا دن اس کے لیے کچھ ایسی بے عزتی لے کر طلوع ہونے والا تھا جس کے گرداب سے اسے ساری عمر نہیں ابھرنا تھا… نہ اسے… نہ اس کی اولاد کو…
٭٭٭
صبیحہ کادوانی نے ایک گہرا سانس لے کر کرسی کی پشت سے ٹیک لگالی۔
”کیا ہوا…؟ میں نے اتنی عجیب بات تو نہیں کہی۔” ہارون نے اس کے چہرے کے یک دم بدلتے ہوئے تاثرات کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں عجیب بات تو نہیں ہے یہ… کم از کم میرے لیے تو عجیب نہیں ہے۔” وہ جیسے بڑبڑائی۔
”تو پھر…؟”
”پھر یہ کہ…” صبیحہ نے کچھ کہتے کہتے رک گئی۔
”میں حیران ہوں ہارون…! شائستہ کمال جیسی بیوی کے ہوتے ہوئے تم مجھ سے شادی کی خواہش کا اظہار کر رہے ہو۔” صبیحہ کادوانی نے شرارتی لہجے میں کہا۔
”اس میں حیرانی والی کیا بات ہے؟” ہارون نے مشروب کے گھونٹ لینا جاری رکھا۔
صبیحہ کادوانی اپنا جام اٹھاتے ہوئے مسکرائی۔
“You know my husband is all praise for your wife.”
(میرا شوہر تمہاری بیوی کا دیوانہ ہے)
اس نے اپنے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ”اس کے اختیار میں ہو تو وہ شائستہ کو آج ہی پرپوز کر دے۔”
صبیحہ نے ہارون کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے کہا جو بالکل بے تاثر تھا۔
”تمہارا شوہر ہی نہیں اس شہر کے آدھے مرد شائستہ کمال کو پرپوز کرنے کی حسرت لیے بیٹھے ہیں۔” ہارون نے بڑی لاپروائی سے اپنے جام میں موجود برف کے ٹکڑوں کو ہلکی سی جنبش دیتے ہوئے کہا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

Read Next

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!