تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

”نہیں…”
”نہ تمہیں اس سے محبت ہے نہ اسے تم سے… چچ… چچ… چچ… کتنی افسوس ناک بات ہے کہ تمہارے جیسی عورت کو ایسے شخص کے ساتھ زندگی گزارنی پڑے، جسے نہ تم سے محبت ہے نہ تم اس سے محبت کرتی ہو۔ اسے کیا کہنا چاہیے۔ بدقسمتی؟”
”نہیں حقیقت پسندی…” اس بار وہ اس کی بات پر بے اختیار ہنسا… اس کا قہقہہ صبیحہ کادوانی کے اطمینان میں رتی بھر فرق نہیں لایا۔
”عورت اور حقیقت پسندی؟ کیا مذاق ہے۔”
”میں نے عورت کو حقیقت پسند نہیں کہا… میں نے اپنی حقیقت پسندی کی بات کی ہے۔” صبیحہ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”کیوں… کیا تم عورت نہیں ہو؟”
”کبھی ہوتی تھی۔ اب نہیں ہوں۔”
”اب کیا ہو؟”
”صبیحہ کادوانی۔” اس نے ایک گہرا سانس لیا۔
سامنے بیٹھی ہوئی عورت کے بارے میں اگر یہ کہا جاتا تھا کہ وہ سمجھ میں نہ آنے والی چیز ہے تو ٹھیک ہی کہا جاتا تھا۔ اور سمجھ میں نہ آنے کے باوجود اسے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھ لینے کو دل چاہتا تھا۔
”جدون سے شادی حقیقت پسندی کیسے ہوئی؟” وہ پھر پہلے موضوع پر آگیا۔




”ہم دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت تھی۔ مجھے ایک شوہر کی۔ ایک نام کی جو مجھے معتبر کر دے۔ جدون کو ایک خوبصورت بیوی چاہیے تھی جسے وہ سوسائٹی میں استعمال کرسکے۔ اس لیے ہم دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ شادی کرلی۔ اسے حقیقت پسندی کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔” وہ مسکراتے ہوئے اسے بتا رہی تھی۔
”کوئی زیادہ مناسب ڈیل نہیں کی تم نے… جدون تمہاری منزل نہیں ہو سکتا۔” اس نے مشروب کے گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔
”منزل کس کو چاہیے… یہ تو بس زندگی گزارنے کا سامان ہے۔ جدون، تم، یا کوئی بھی اور…” وہ جام ہونٹوں کے پاس لاتے لاتے رک گیا۔ وہ عورت سفاکی کی حد تک صاف گو تھی۔
”میں بھی…؟” اسے جیسے یقین نہیں آیا کہ صبیحہ کادوانی نے اس تبصرے میں اس کو شامل کیا تھا۔
بہت کم عورتیں تھیں جنہوں نے اس کی مردانگی کو اس طرح ٹھیس پہنچائی تھی، جس طرح سامنے بیٹھی ہوئی عورت پہنچا رہی تھی۔ اور وہ اندازہ نہیں کر پا رہا تھا کہ اسے یہ سب برا لگ رہا تھا یا اچھا۔
”ہاں تم بھی… آخر تم میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ تم اس فہرست میں شامل نہیں ہوسکتے۔” وہ اس کا چہرہ دیکھتا رہ گیا۔
پھر اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی، یوں جیسے وہ اس کی بات سے محظوظ ہوا ہو۔
”مجھے تم جیسی عورتیں اچھی لگتی ہیں۔” اس نے گہری مسکراہٹ کے ساتھ جام کو ایک بار پھر ہونٹوں سے لگالیا۔
”عورتیں…؟” صبیحہ کادوانی نے بڑے معنی خیز انداز میں لفظ پر زور دیتے ہوئے دہرایا۔ اس کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔ جام ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس نے صبیحہ سے کہا۔
”عورت…”
”کون سی عورت…؟ وہ جو تمہاری بیوی ہے؟” صبیحہ نے کچھ انجان بنتے ہوئے کہا، وہ کچھ سوچنے لگا۔
”ہاں وہ بھی…” صبیحہ نے اس بار اس کی بات کاٹ دی۔
”ابھی بات کر رہے تھے تم مرد اور عورت کی محبت کی۔ یہی فرق ہوتا ہے دونوں میں۔ عورت کی محبت میں کوئی ”بھی” نہیں ہوتا۔ مرد کی محبت میں بہت سارے ”بھی” ہوتے ہیں۔” اس بار پہلی بار اس نے صبیحہ کی آواز میں ہلکی سی ترشی اور تلخی محسوس کی۔
وہ چند لمحوں کے لیے کچھ بول نہیں سکا، کسی ایسے شخص کے ساتھ بات کرنا بہت مشکل ہوتا ہے جو کسی کو بھی چٹکیوں میں اڑانے کے فن سے واقف ہو اور اس نے اپنے دل میں اعتراف کیا کہ سامنے بیٹھی ہوئی عورت اس فن میں طاق تھی۔
”میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ مرد ہر بات میں محبت کہاں سے لے آتا ہے۔” وہ بول رہی تھی۔ ”اچھے خاصے تم اور میں بیٹھے انجوائے کر رہے ہیں۔ ایک شاندار ہوٹل کا شاندار کھانا، خوبصورت ماحول، دل کو چھونے والی موسیقی۔ اب محبت کہاں سے آگئی یہاں۔ مگر مرد ضرور کہے گا… ”مجھے تم سے محبت ہے۔ تم میں کوئی خاص بات ہے۔ تم ایک مختلف عورت ہو۔” وہ اب مختلف آوازوں میں مختلف جملے دہرا رہی تھی۔
”تم دنیا کی سب سے خوبصورت عورت ہو… تم صرف تم ہو۔ میں نے تمہارے علاوہ کبھی کسی سے محبت نہیں کی۔ میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ تم میری زندگی ہو… میں تمہیں پہلی نظر دیکھتے ہی تمہاری محبت میں گرفتار ہوگیا تھا۔ تمہارے جیسا دوسرا کوئی بھی نہیں ہے۔ میری زندگی میں کبھی تم جیسی عورت نہیں آئی۔ وغیرہ… وغیرہ… وغیرہ… کسی عورت سے تعلقات بڑھانے کا کس قدر تھرڈ کلاس طریقہ ہے یہ کہ اسے محبت کا جھانسہ دینا شروع کر دیا جائے۔”
وہ بالکل ساکت بیٹھا اسے سن رہا تھا۔ صبیحہ کادوانی کو دوسروں کے بخیے ادھیڑنے میں کمال حاصل تھا، پہلے اس نے یہ بات دوسروں سے سنی تھی۔ آج وہ اپنے سامنے دیکھ رہا تھا۔
”اس ساری ”بکواس” کے بغیر بھی تو عورت اور مرد اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہیں… کہیں جا سکتے ہیں… فلم دیکھ سکتے ہیں۔ فون پر بات کرسکتے ہیں… کیوں تمہارا کیا خیال ہے؟” وہ اب بڑی معصومیت اور ملائمت کے ساتھ اس سے پوچھ رہی تھی۔
وہ اپنا کوئی خیال بتانے کے قابل نہیں رہا تھا۔ کچھ دیر خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتے رہنے کے بعد اس نے اپنا گلاس صاف کرتے ہوئے کہا۔
”تم واقعی میری رائے جاننا چاہتی ہو؟”
”ہاں، میں واقعی تمہاری رائے جاننا چاہتی ہوں۔”
”تم فطرت سے جنگ کر رہی ہو۔”
”فطرت…؟” اس کی بات پر صبیحہ کادوانی نے طنزیہ انداز میں اپنے ابرو اچکاتے ہوئے کہا۔
”فطرت… میں لعنت بھیجتی ہوں فطرت پر۔” وہ اب لاپروائی سے اپنی ایک لٹ کے ساتھ کھیل رہی تھی۔
”تو پھر ہم دونوں یہاں کیوں بیٹھے ہیں۔ تم اپنے شوہر کے ساتھ… اور میں اپنی بیوی کے ساتھ کیوں نہیں ہوں؟” اس نے کچھ ناراض ہوتے ہوئے صبیحہ سے کہا۔
”تم واقعی اپنے اس سوال کا جواب چاہتے ہو؟” صبیحہ نے بڑی ادا کے ساتھ کہا۔
”سوال جواب حاصل کرنے کے لیے ہی کیے جاتے ہیں۔”
”تو پھر سنو…” وہ یک دم اپنے بالوں کی لٹ چھوڑ کر ٹیبل پر کہنیاں رکھ کر کچھ آگے بڑھ آئی۔ ”تمہیں اور مجھے اپنی اپنی ضرورتیں اس ٹیبل پر لے آئی ہیں۔ میں تم سے تھوڑی دیر پہلے کہہ رہی تھی ناکہ میری اور جدون کی شادی ضرورت کی شادی ہے… اسی طرح اس ٹیبل پر تمہارا اور میرا اکٹھا بیٹھنا بھی ویسا ہی تعلق ہے۔ ہم کچھ چیزوں کا تبادلہ کرنے بیٹھے ہیں۔ کچھ تمہارا کچھ میرا۔ اس سے زیادہ کیا ہے ہمارے درمیان۔ اور تم اس سودے میں پیسہ استعمال کرنے کے بجائے محبت کے لفظوں کا ڈھیر پیش کر رہے ہو۔ بازار میں کھڑے ہو کر سکوں کے بجائے لفظوں سے اپنی پسند کی چیز خریدنا چاہتے ہو… تم اس قدر نامور بزنس مین ہو۔ میں یہ تو نہیں کہوں گی کہ تمہیں بزنس کرنا نہیں آتا۔ ہاں مگر یہ ضرور کہوں گی کہ تم غلط جگہ پر غلط شخص کے ساتھ غلط لین دین کر رہے ہو۔ میرے ساتھ تعلقات بڑھانے کے لیے تمہیں مجھے اپنی محبت کا یقین دلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے لفظوں کے بغیر بھی میں تمہارے ساتھ کسی بھی وقت ایسی کسی جگہ کھانا کھانے اور آنے کو تیار ہوں۔”
”تمہیں برا لگے گا اگر میں تم سے محبت کا اظہار کروں گا؟” اس نے ایک گہرا سانس لے کر کہا۔
”برا…؟” وہ ہنسی ”مجھے گھن آتی ہے ایسے مردوں سے جو ہر دوسری عورت کے ساتھ اظہارِ محبت کر رہے ہوتے ہیں۔”
”جدون سے گھن نہیں آتی تمہیں؟ وہ بھی ہر دوسری عورت سے اظہار محبت کرتا پھرتا ہے۔” اس نے کچھ برا مان کر کہا۔
”جس دن وہ مجھ سے اظہارِ محبت کرے گا، اس دن مجھے اس سے بھی گھن آنے لگے گی۔”
”یہ سب کچھ جو تم مجھ سے کہہ رہی ہو، کبھی جدون سے کہا ہے؟”
”ضرورت نہیں پڑی۔” وہ اپنے سامنے رکھے ہوئے کینڈل اسٹینڈ پر نظریں جمائے بولی۔
”صبیحہ کادوانی! مجھ سے شادی کرو گی؟” وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بولا۔
وہ چونکے بغیر اسے دیکھنے لگی ایک نظر اس پر ڈال کر وہ ایک بار پھر اسی کینڈل اسٹینڈ کی طرف متوجہ ہوگئیں
”تم سے کچھ پوچھا ہے میں نے؟” اس کی خاموشی اسے ناگوار گزری۔
”تم میں ایسا کیا ہے کہ تم سے شادی کی جائے؟” اس بار صبیحہ کے لہجے میں خنکی تھی۔ اس نے ایک طویل سانس لیا۔
”تم پہلی عورت ہو جسے مجھ میں کچھ بھی نظر نہیں آرہا۔”
”اور یہ چیز تمہیں پریشان کر رہی ہے۔ تمہارے جذبات مجروح ہوئے ہوں گے۔ میں شریف عورت نہیں ہوں۔ مگر پیروں میں بچھنے والی عورت بھی نہیں ہوں اور یہ چیز تم سے برداشت نہیں ہو رہی۔” وہ اس کی بات پر ہنسا۔
”میں پھر کہوں گا کہ مجھے تم سے محبت ہے تو تمہیں مجھ سے گھن آنے لگے گی اور شاید ہنسی بھی۔ مگر سچ یہی ہے کہ مجھے تم سے محبت ہے۔” صبیحہ نے مسکراتے ہوئے اس کی بات کاٹی۔
”اور پھر جس عورت سے تمہیں محبت ہو جائے، اسے پرپوز کرنا تو تم اپنا فرض سمجھتے ہو… بائی دا وے ایک دن میں یہ کام کتنی دفعہ کرتے ہو؟”
”اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ میں صبیحہ کادوانی سے کتنی بار ملتا ہوں۔” اس نے برجستگی سے کہا۔
”اچھا اور جدون کا کیا کروں؟” صبیحہ نے محظوظ ہوتے ہوئے کہا۔
”اس سے طلاق لے لو۔” اس نے چٹکی بجاتے ہی حل پیش کیا۔
”تم جانتے ہو، ایک ہفتے میں کتنے مرد مجھے پرپوز کرتے ہیں؟” صبیحہ نے اسے جتاتے ہوئے کہا۔
”کرتے ہوں گے مگر ان میں کوئی بھی ہارون کمال نہیں ہوگا۔” وہ مسکرایا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

Read Next

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!