تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

روپے میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ یہ وہ ساز ہے جو بجنا شروع ہو تو ہر شخص کو ناچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ پھر یہ لوگوں کی ساری اخلاقیات اور اصولوں کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ معاشرہ اس سانپ کی طرح ہوتا ہے جو اس ساز کی دھن پر نہ صرف جھومنے لگتا ہے بلکہ یہ اس کا سارا زہر بھی مار کر رکھ دیتا ہے۔
ساز بجنا بند ہو تو معاشرہ ایک بار پھر اپنا پھن اٹھا کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اخلاقیات اور اصولوں کے خزانے کارکھوالا بن کر… اس کا زہر پھر عود کر آتا ہے۔ اس کی پھنکار بڑھتی جاتی ہے۔ اس کی چستی اور لپک میں اضافہ ہوتا رہتا ہے… مگر… پھر… پھر ساز پھر بجنے لگتا ہے۔ سانپ پھر جھومنے لگتا ہے… اخلاقیات اور اصول پھر بدلنے لگتے ہیں۔
صاعقہ نے زندگی کے ان چند سالوں میں صرف یہ ”ساز” بجانا سیکھ لیا تھا پھر اس ”ساز” نے اس کی ساری زندگی بدل کر رکھ دی۔
نہ صرف اس کی بلکہ اس کی بیٹیوں کی بھی اور تبدیلی کا یہ عمل صرف اس کی بیٹیوں تک محدود نہیں رہنا تھا… اس عمل کو آگے کا سفر بھی کرنا تھا… ایک طبقے سے دوسرے طبقے تک… دوسرے سے تیسرے طبقے تک۔
ایک خاندان سے دوسرے خاندان تک… دوسرے سے تیسرے خاندان تک۔
رکاوٹیں عبور کرنے کی ریس جاری تھی۔ صاعقہ اور اس کی بیٹیاں بھی اس ریس میں شامل تھیں، اپنے تمام ہتھیاروں کے ساتھ… بقا کی جنگ… بھوک کی جنگ… یا شاید ”عزت” کی جنگ… اس عزت کی جسے معاشرہ ”عزت” سمجھتا ہے۔ وہ یہی جنگ لڑ رہی تھی۔
٭٭٭




فاطمہ اس شام شہیر کو ہوم ورک کروا رہی تھی جب اس نے محسوس کیا کہ شہیر کی توجہ بٹی ہوئی ہے۔ وہ اگرچہ اس کے کہنے پر بار بار کاپی پر وہی لکھ رہا تھا جو وہ اسے لکھوا رہی تھی مگر جیسے ہی اس کی توجہ شہیر سے ہٹتی، وہ کام کرنا بند کر دیتا اور اپنے سے کچھ دور بیٹھے ہوئے ثمر اور ثانیہ کو دیکھنے لگتا جو کھلونوں سے کھیل رہے تھے۔
فاطمہ کے لیے شہیر کا ان دونوں کی طرف بار بارمتوجہ ہونا کوئی نئی بات نہیں تھی مگر آج پہلی بار اس نے محسوس کیا کہ شہیر، ثمر اور ثانیہ کو کچھ الجھی ہوئی سنجیدہ نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ وہ نہ انہیں دیکھ کر مسکرا رہا تھا نہ ہی انہیں مخاطب کر رہا تھا۔ صرف وقفے وقفے سے کام کرتے کرتے رک کر انہیں دیکھنے لگتا اور پھر تب تک دیکھتا رہتا جب تک فاطمہ اسے اس کے کام کی طرف متوجہ نہ کرتی۔
فاطمہ کو اس کا یہ انداز بہت عجیب لگا۔
”شہیر…! کیا بات ہے؟”
شہیر بہت غور سے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا، فاطمہ کے اس طرح مخاطب کرنے پر یک دم گڑبڑا گیا اور ایک بار پھر اپنی کاپی کی طرف متوجہ ہوگیا۔
”شہیر… بیٹا! میں کچھ پوچھ رہی ہوں۔ کیا بات ہے؟” فاطمہ نے ایک بار پھر شہیر کو مخاطب کیا۔
”کچھ نہیں۔ میں کام کر رہا ہوں۔” شہیر نے سر جھکائے اسی طرح کام کرتے ہوئے کہا۔
فاطمہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر اپنی کاپیاں چیک کرنے میں مصروف ہو گئی۔
”امی!” کچھ دیر بعد اس نے فاطمہ کو مخاطب کیا۔ وہ پنسل کا پچھلا سرا اپنے منہ میں ڈالے فاطمہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔
”امی… کیا ثمر اور ثانی کو ہم نے کوڑے کے ڈبے سے اٹھایا تھا؟”
فاطمہ چند لمحے کے لیے سانس لینا بھی بھول گئی۔ بے حس و حرکت پلکیں جھپکائے بغیر وہ اسے دیکھتی رہی۔ پانچ سالہ شہیر کے منہ سے نکلنے والا جملہ اسے اس وقت دنیا کا سب سے مشکل اور تکلیف دہ سوال لگا تھا۔
وہ ابھی بھی کسی فلاسفر کی طرح منہ میں پنسل ڈالے فاطمہ کے جواب کا منتظر تھا۔ فاطمہ نے اپنے حواس بحال کرتے ہوئے اپنے خشک حلق کو تر کیا۔
”یہ کس نے کہا تم سے؟”
”وہ… وہ جاوید کہہ رہا تھا۔” شہیر نے کچھ سوچتے ہوئے اس سے ٹیوشن پڑھنے کے لیے آنے والے ایک بچے کا نام لیا۔
”جاوید نے کہا؟” فاطمہ کو جیسے یقین نہیں آیا۔ وہ ایک بڑا کم گو اور شرمیلا سا بچہ تھا اور کبھی کسی شرارت میں بھی ملوث نہیں ہوتا تھا اب یک دم شہیر کا یہ کہنا کہ اس نے اس سے ایسی کوئی بات کہی تھی۔
”اس نے اور کیا کہا تم سے؟” اس نے غم و غصے کی کیفیت میں اس سے پوچھا۔
”وہ کہہ رہا تھا کہ ثمر اور ثانی میرے بہن بھائی نہیں ہیں۔” شہیر اب سوچ سوچ کر بول رہا تھا۔
”وہ کہہ رہا تھا کہ تمہاری امی نے انہیں کوڑے کے ڈبے سے نکالا تھا۔ امی! بتائیں نا؟ کیا آپ نے انہیں کوڑے کے ڈبے سے نکالا تھا؟” وہ یک دم اصرار کرنے لگا۔
فوری طور پر فاطمہ کو کوئی جواب نہیں آیا۔ اسے جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ مگر جب شہیر بار بار اپنا سوال دہرانے لگا تو اس نے شہیر کو کھینچ کر اپنی گود میں بٹھا لیا۔
”آپ بتائیں ناں۔ کیا وہ میرے بہن بھائی نہیں ہیں؟” اس نے فاطمہ کی ٹھوڑی چھوتے ہوئے پوچھا۔
”جاوید جھوٹ بولتا ہے۔” فاطمہ نے اپنے حواس کو بحال کرتے ہوئے کہا۔ ”بھلا کوڑے کے ڈبے میں سے بچے کیسے نکالے جاسکتے ہیں؟” اس نے شہیر کا گال تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
”تم بتاؤ۔ کیا تم نے کبھی کوڑے کے ڈبے میں بچے دیکھے ہیں؟” فاطمہ نے شہیر سے پوچھا۔ اس نے سوچتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیا۔
”اور پھر ان دونوں کو دیکھو… کیا اتنے پیارے بچے کبھی کوڑے کے ڈبے سے ملتے ہیں؟”
اس نے ثانی اور ثمر کی طرف اشارا کرتے ہوئے کہا۔ شہیر نے ایک نظر ان دونوں کی طرف دیکھا اور ایک بار پھر نفی میں سر ہلا دیا۔
”اور پھر بھلا ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم کوڑے کے ڈبے سے بچے لائیں۔”
”مگر پھر وہ ایسا کیوں کہتا ہے؟” شہیر شاید ابھی بھی کسی شش و پنج کا شکار تھا۔
”وہ جھوٹ بولتا ہے… بعض بچے بہت جھوٹ بولتے ہیں۔”
وہ یک دم شہیر کو اٹھا کر ثانی اور ثمر کے پاس لے گئی۔
”تم دیکھو، یہ تمہارے جیسے لگتے ہیں نا؟” وہ شہیر کو ان کی طرف متوجہ کرتے ہوئے بولی۔
شہیر نے بڑے غور سے انہیں دیکھا اور پھر اثبات میں سر ہلا دیا۔
”اگر یہ تمہارے بہن بھائی نہیں ہیں تو پھر ان کی شکل تمہارے جیسی کیوں ہے؟” وہ نرم آواز میں اس سے پوچھنے لگی۔ وہ بچہ تھا، کسی بھی بات کی دلیل نہیں دے سکتا تھا۔ فاطمہ نے اس سے ایک سوال کیا اس نے ثمر اور ثانی پر ایک نظر دوڑائی اور فاطمہ کی ہاں میں ہاں ملا دی۔
فاطمہ کو اندازہ نہیں تھا کہ کچھ عرصہ پہلے ہاسپٹل میں ان دونوں کے ایڈمٹ ہونے اور پھر وہاں سے گھر آنے کا واقعہ اسے یاد تھا یا نہیں ورنہ اسے اسی کا حوالہ دیتی۔
”اگلی بار جاوید یا کوئی بھی ایسی بات کہے تو آپ اس کی بات بالکل نہ سننا۔” اس نے شہیر کو ہدایت دی۔
”میں کہہ دوں گا کہ آپ جھوٹ بول رہے ہو۔” شہیر نے فوراً لائحہ عمل طے کیا۔
”ہاں بالکل… اور آپ کہہ دینا کہ وہ دونوں آپ کے ہی بہن بھائی ہیں۔”
فاطمہ نے مزید ہدایات دیں۔ شہیر نے سر ہلا دیا۔ وہ اب بالکل مطمئن اور پرسکون نظر آرہا تھا۔ ایک بار پھر وہ ثانی اور ثمر کو دیکھ کر مسکرانے لگا اور ان کے منہ سے نکلنے والی آوازوں کے جواب میں خود بھی آوازیں نکالنے لگا۔
مگر فاطمہ مطمئن نہیں ہوئی تھی۔ اس کا سارا اطمینان یک دم رخصت ہوگیا تھا۔ اس محلے میں ہر کوئی جانتا تھا کہ ثمر اور ثانی کو کوڑے سے اٹھایا گیا تھا اور یقینا ہر گھر میں اب بھی کبھی کبھار ان کی بات ہوتی ہوگی اور یہ ساری گفتگو بچوں کے سامنے ہی ہوتی تھی… بچے کسی بھی صورت میں اپنے تجسس کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ اس کا ایک مظاہرہ تو وہ ابھی جاوید کے ”انکشاف” کی صورت میں دیکھ چکی تھی اور شاید یہ صرف ابتدا تھی۔
ابھی یہ سوال شہیر کی زبان پر آیا تھا جس دن یہ سوال ثانی اور ثمر کی زبان پر آیا، اس دن کیا ہوگا؟… وہ انہیں کیسے سمجھائے گی؟… ان سے کیسے چھپا پائے گی؟… یہ انکشاف انہیں کس طرح کی ذہنی اور جذباتی تکلیف سے دوچار کرے گا؟… وقت گزرنے کے ساتھ انہیں اور کیا کیا برداشت کرنا پڑے گا؟… پھر ان دونوں اور شہیر کے تعلقات کی نوعیت کیا رہ جائے گی؟… اور ثانی… ثانی کا مستقبل کیا ہوگا؟… اس بیک گراؤنڈ کے ساتھ معاشرے کا کون سا گھر اس کے لیے اپنے دروازے کھولے گا؟ ثمر سے کون رشتہ جوڑنا چاہے گا؟… اور ان دونوں کے اس ماضی کی وجہ سے شہیر پر کیا اثرات ہوں گے؟
پھر خود اس کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت کیا رہ جائے گی یہ جاننے کے بعد کہ وہ ان کی ماں نہیں ہے… اور… اور اگر شہیر نے بھی اس کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں شک کرنا شروع کر دیا تو؟… خاص طور پر اس صورت میں جب وہ اسے نہ اس کے باپ کے بارے میں کوئی معلومات دے سکتی ہے نہ اس کے خاندان کے بارے میں کوئی ثبوت…
سوالات کا ایک ہجوم تھا جو اس کے دماغ میں امڈ رہا تھا۔
اس محلے میں لوگ اس کی عزت کرتے تھے… صرف عزت اس کے لیے کافی نہیں تھی… اسے رازداری اور اس عزت کی پاس داری بھی چاہیے تھی۔ وہ وہاں ممکن نہیں تھی۔ لوگ اس کے سامنے ان دونوں کے بارے میں بات نہ کرتے۔ مگر اس کی عدم موجودگی میں انہیں بات کرنے سے کون روک سکتا تھا… وہ لوگوں سے درخواست کرسکتی تھی انہیں مجبور نہیں کرسکتی تھی… اور وہ کس کس کو یہ راز چھپانے کا کہتی۔
”مجھے یہ محلہ چھوڑنا ہوگا… ہمیشہ کے لیے… ان لوگوں کو اپنا اتا پتا بتائے بغیر…” اس نے اس شام وہیں بیٹھے بیٹھے کچھ فیصلے کیے۔ ”اور مجھے دوبارہ کبھی یہاں نہیں آنا نہ ہی اس محلے کے کسی فرد سے میل جول رکھنا ہے۔ یہ سب کیے بغیر میں اس راز کو کبھی راز نہیں رکھ سکتی۔ کسی دوسری جگہ پر مجھے اس حقیقت کے انکشاف کا خوف نہیں رہے گا۔ نہ ہی اس راز کو راز رکھنے کے لیے کوئی جستجو کرنی پڑے گی۔ پہلے میں یہ محلہ چھوڑوں گی اور پھر یہ شہر… مجھے ایک بار پھر اپنی ٹرانسفر کسی دوسرے شہر میں کروانی پڑے گی… زندگی ایک بار پھر درہم برہم ہو جائے گی… مگر اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ ایک بار پھر مجھے کچھ تکلیف اور دقت کا سامنا کرنا پڑے گا مگر پھر… پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔” وہ خود کو تسلی دے رہی تھی۔
تین ماہ کے بعد اس نے وہ محلہ چھوڑ دیا۔ لوگ کچھ عرصہ اسے یاد کرتے رہے۔ پھر آہستہ آہستہ سب فاطمہ اور ان دونوں بچوں کو بھولنے لگے کیونکہ فاطمہ سے وہاں کے کسی فرد کا دوبارہ کبھی رابطہ نہیں ہوا۔ وہ یک دم کہاں غائب ہوئی تھی لوگ قیاس آرائیوں کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکے۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

Read Next

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!