تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

”کیا آپ مجھے یہ اجازت دے سکتی ہیں کہ میں امریکہ میں آپ کو کمپنی دوں؟” باقر شیرازی نے پوچھا۔
شائستہ نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا۔ مگر باقر شیرازی نے اس سے پہلے ہی کہا۔
”میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، آپ میری کمپنی کو انجوائے کریں گی۔”
شائستہ کچھ کہتے کہتے رک گئی۔ ایئرہوسٹس اب باقر شیرازی کو مشروب سرو کر رہی تھی۔
ایئرہوسٹس کے جانے کے بعد شائستہ نے کہا۔ ”میں سوچوں گی۔”
”اور اس کے لیے کتنا وقت لیں گی آپ؟”
شائستہ نے ایک گہرا سانس لیا۔ ”یہ بھی نہیں جانتی۔”
شائستہ کمال نے اس بار سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے لگائے آنکھیں بند کرلیں۔ باقر شیرازی نے سیاہ ساڑھی میں ملبوس اس خوبصورت عورت کو دیکھا۔ وہ آنکھیں کھولے جتنی خوبصورت نظر آرہی تھی، آنکھیں بند کرنے کے بعد اس سے زیادہ خوبصورت نظر آنے لگی تھی۔ پلاسٹر آف پیرس سے بنے ہوئے ایک خوبصورت مجسمے کی طرح۔ وہ بہت دیر پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتا رہا پھر اس نے ایک گہرا سانس لیا۔
شائستہ کمال دنیا کا خوش قسمت ترین شخص ہے۔”




اس نے مسکراتے ہوئے باقر شیرازی کی بڑبڑاہٹ سنی۔ وہ اب اپنے سامنے رکھے ٹرے میں گلاس رکھ رہا تھا۔ شائستہ کو ایک عجیب سے فخر کا احساس ہوا۔ باقر شیرازی اب اپنے سگار کو بجھا رہا تھا۔ شائستہ نے اس سے اس تبصرے کی وجہ نہیں پوچھی۔ اس نے ایک بار پھر اپنی آنکھیں بند کرلیں۔
”ایک سوال پوچھوں تم سے شائستہ؟” اس نے آنکھیں بند کیے باقر شیرازی کو آپ سے تم پر اترتے سنا۔ اسے اعتراض نہیں ہوا۔
”ہوں۔” اس نے اسی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے کہا۔
اس کے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ وہ باقر شیرازی کے منہ سے کسی اور تعریفی جملے کی منتظر تھی… کسی اور کاش کو سننا چاہ رہی تھی۔ وہ جانتی تھی، وہ اس طرح آنکھیں بند کیے دوسروں پر کیا کیا قیامت ڈھایا کرتی ہے اور وہ ہر جملے اور ہر تعریفی لفظ سے حظ اٹھایا کرتی تھی۔ وہ جاننا چاہتی تھی باقر شیرازی اسے اور کس طرح سراہے گا… اور کیا سوال کرے گا؟… وہ اندر ہی اندر محظوظ ہوئی۔
”تم نے اپنے پہلے بچے کو یتیم خانے کیوں بھجوا دیا؟ کیا وہ ہارون کا بچہ نہیں تھا؟”
باقر شیرازی کی آواز میں بے حد سکون تھا۔
شائستہ کمال آنکھیں نہیں کھول سکی۔ باقر شیرازی نے اس کے پیروں کے نیچے سے یک دم زمین کھینچ لی تھی۔ باقر شیرازی اپنی اسی صفت کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔
٭٭٭
”منصور! آپ میری بات سن رہے ہیں یا نہیں؟” منیزہ نے ناراضی سے منصور کو تیسری دفعہ مخاطب کیا۔
”بالکل سن رہا ہوں لیکن اس پر غور نہیں کر رہا۔” منصور علی نے اپنی ساری توجہ اخبار پر مرکوز رکھتے ہوئے کہا۔
”کیوں غور نہیں کر رہے؟” منیزہ نے شکوہ کیا۔
”کیونکہ آپ کا مطالبہ خاصا نامناسب ہے۔”
”اس میں نامناسب والی کیا بات ہے؟”
منصور علی نے اس بار اس کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اخبار پڑھتے رہے۔
”میں آپ سے بات کر رہی ہوں۔” منیزہ نے اس بار بلند آواز میں کہا۔
”میں جانتا ہوں، آپ مجھ سے بات کر رہی ہیں، اس طرح کی باتیں آپ صرف مجھ ہی سے کرتی ہیں۔”
منصور علی نے اس بار بھی اخبار سے نظریں نہیں اٹھائیں۔ منیزہ نے یک دم اٹھ کر اخبار ان کے ہاتھ سے کھینچ لیا۔
”کمال ہے، میں آپ سے اتنی اہم بات کر رہی ہوں اور آپ ہیں کہ آپ کو اخبار سے ہی فرصت نہیں۔”
منیزہ نے اخبار ایک طرف پھینکتے ہوئے کہا۔ منصور علی نے ایک گہرا سانس لیا۔ ”ویسے منیزہ! تمہیں شاپنگ کرنے اور زیورات بنوانے کے علاوہ دنیا میں کسی اور چیز سے دلچسپی ہے؟” وہ اب مکمل طور پر منیزہ کی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔
”فی الحال تو نہیں۔” منیزہ نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔
”آپ مجھے بتائیں پھر آپ مجھے کب سنگاپور لے کر جا رہے ہیں؟”
”تین ماہ پہلے میں تمہیں وہاں لے کر گیا تھا۔ اب پھر تمہارے مطالبات شروع ہو گئے ہیں۔”
”تین ماہ میں نوے دن ہوتے ہیں، کچھ اندازہ ہے آپ کو؟” منیزہ نے بڑی ادا سے کہا۔
”تم ایک بہت فضول خرچ عورت ہو۔” منصور علی نے اس بار کچھ سنجیدگی سے کہا۔
”ہاں ہوں… آپ کے پاس روپے ہیں تو خرچ کرتی ہوں نا۔” منیزہ نے دھڑلے سے کہا۔
”اور ایک وقت وہ آئے گا جب تم میرے پاس موجود سارا روپیہ خرچ کر دو گی۔”
”جی نہیں، ایسا وقت کبھی نہیں آئے گا۔” منیزہ نے کہا ”اور آپ بات کو ٹالنے کی کوشش مت کریں۔ مجھے یہ بتائیں کہ مجھے سنگاپور کب لے کر جا رہے ہیں؟”
”کم از کم ایک ماہ تو انتظار کرو… اپنی کچھ مصروفیات سے فارغ ہو جاؤں تو تمہیں لے جاؤں گا… اور اگر تمہیں زیادہ جلدی ہے تو تم خود چلی جاؤ…” منصور علی نے بڑی فراخدلی سے پیش کش کی۔
”خیر، میں اتنی بے وقوف تو نہیں ہوں کہ اکیلی چلی جاؤں۔ آپ کے بغیر تو میں شاپنگ کرتی ہی نہیں ہوں۔” منیزہ نے فوراً انکار کرتے ہوئے کہا۔
”جی ہاں، میں آپ کا کریڈٹ کارڈ ہوں۔ میرے بغیر شاپنگ کیسے کرسکتی ہیں آپ؟ بہتر ہے، کبھی کبھار گھر پر بھی کچھ دھیان دیا کریں۔ جسٹ فار اے چینج…”
”لیں بھلا… گھر کو کیا ہوا ہے… سب کچھ ٹھیک تو ہے۔” منیزہ نے فوراً کہا۔
”ہاں، سب کچھ اتفاقاً ٹھیک ہے۔ اس میں آپ کا کوئی کمال نہیں… بچیاں بڑی ہو رہی ہیں۔ تھوڑی توجہ ان پر دیا کریں۔”
”توبہ ہے منصور! آپ تو اس طرح کہہ رہے ہیں جیسے بہت بڑی ہوگئی ہیں بچیاں… ابھی چھوٹی ہی ہیں۔” منیزہ نے کچھ برا مانتے ہوئے کہا۔
”اوہ! میں تمہیں بتانا بھول گیا۔ بھائی صاحب کا فون آیا تھا صبح۔” منصور علی کو بات کرتے کرتے اچانک یاد آیا۔
”مسعود بھائی کا…؟” منیزہ نے پوچھا۔
”ہاں مسعود بھائی کا۔”
”اچھا… کوئی خاص بات ہے؟”
”وہ طلحہ کی سالگرہ کا بتا رہے تھے۔ اگلے ہفتے ہے۔ تم فون کرلینا، اس دن۔”
”اچھا میں کرلوں گی۔ آپ طلحہ کے لیے کچھ تحفے ہی بھجوا دیتے۔ شفیع بھائی پرسوں واپس پاکستان جا رہے ہیں، ان کو دے دیتے۔”
”تم خود ہی طلحہ کے لیے کچھ تحائف خریدلو۔ میں تو کچھ نقد رقم بھیجنے کا سوچ رہا ہوں۔ طلحہ میٹرک میں گیا ہے۔ میں چاہتا ہوں، اسے کچھ رقم بھجواؤں تاکہ وہ اپنی مرضی سے جو بھی چاہے خریدلے۔” منصور علی نے کہا۔
”ویسے منصور! آپ نے یہ رقم دینے کا سلسلہ شروع کرکے کچھ اچھا نہیں کیا۔”
”کیوں…؟”
”پچھلے کچھ سالوں میں آپ کتنی ہی رقم دے چکے ہیں۔ اب تو انہیں احسان بھی نہیں لگتا یہ۔” منیزہ نے کہا۔
”تو یہ احسان ہے بھی کہاں… میں جو بھی دیتا ہوں، اپنے دامادوں کو ہی دیتا ہوں۔ اور پھر تحفے میں دی جانے والی چیز احسان کے زمرے میں کہاں آتی ہے۔” منصور علی نے فوراً ٹوکا۔
”ٹھیک ہے، تحفہ احسان نہیں ہوتا مگر تھوڑی سی شکر گزاری تو ہونی چاہیے دوسری طرف۔ یا کم از کم بندہ تعریف کے دو لفظ ہی بول دے… مگر شبانہ بھابھی تو ہر وقت کسی تیسرے شخص کی تعریف میں مصروف رہتی ہیں جس نے اپنے داماد کے لیے کوئی دنیا سے باہر کی چیز خرید کر بھیج دی ہے۔ حالانکہ سارا سال ہم کچھ نہ کچھ بھجواتے رہتے ہیں پھر بھی بھابھی شبانہ کی یہ عجیب و غریب مثالیں ختم ہونے میں نہیں آتیں۔ یہ عجیب طریقہ ہے مطالبات کا… کچھ کہا بھی نہیں اور سب کچھ کہہ بھی دیا۔”
منیزہ کو شبانہ بھابھی کا رویہ یاد آنے لگا۔
”یہ رشتے آپ کے اصرار پر ہوئے تھے۔ اب آپ کو اچانک اتنے نقص کیوں نظر آنے لگے ہیں میرے بھائی کے خاندان میں…؟” منصور علی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”مجھے کوئی نقص نظر نہیں آرہے۔ میں جو محسوس کر رہی ہوں، وہی بتا رہی ہوں۔” منیزہ نے فوراً دفاعی انداز اختیار کیا۔
”تمہیں شبانہ بھابھی کے بارے میں پریشان ہونے کی ضروری نہیں۔ میں ویسے بھی اپنی بیٹیوں کو جو کچھ دے کر بھیجوں گا، وہ کم از کم میرے خاندان میں آج تک کوئی اپنی بیٹیوں کو دے سکا ہے نہ دے سکے گا۔ شبانہ بھابھی کے اعتراضات خود ہی ختم ہو جائیں گے۔”
منصور علی نے بڑی بے فکری سے کہا۔ منیزہ نے بڑی محبت سے اپنے شوہر کو دیکھا۔
بیٹیوں کے لیے تو کبھی کچھ خریدنے پر اعتراض نہیں ہوا آپ کو… اور میری باری آئے تو…” منیزہ نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
”خدا کا خوف کرو… منیزہ! تمہیں کب کسی بات سے انکار کرتا ہوں۔”
”انکار نہیں کرتے… مگر کتنی منت سماجت کرنی پڑتی ہے۔ ابھی سنگاپور کے ٹور کو ہی دیکھ لیں۔ کتنی بار کہنا پڑا ہے آپ سے۔” منیزہ نے جیسے اسے جتایا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

Read Next

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!