تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

جہاز کو اپنی پرواز شروع کیے ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا جب ایک ایئر ہوسٹس شائستہ کمال کے پاس آئی۔ شائستہ اس وقت ایک میگزین کی ورق گردانی کر رہی تھی جبکہ ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی آیا اسد کو فیڈ کروانے میں مصروف تھی۔
”میڈم! اگر آپ چاہیں تو آپ کو بزنس کلاس میں شفٹ کیا جاسکتا ہے؟” ایئر ہوسٹس نے مسکراتے ہوئے شائستہ سے کہا۔
شائستہ نے حیرانی سے اس کی آفر کو سنا ”بزنس کلاس میں؟… کیوں؟”
”صرف آپ کی کمفرٹ (سہولت) کے لیے… بزنس کلاس کی کچھ سیٹس خالی ہیں اور ہم کچھ مسافروں کو وہاں اس لیے شفٹ کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ وہاں ایئر لائن کی طرف سے مہیا کی جانے والی نئی سہولیات کو دیکھیں اور اگلی بار بزنس کلاس میں سفر کریں۔” ایئر ہوسٹس نے بڑے نپے تلے انداز میں کہا۔
“a proimotional campaign” (اشتہاری مہم) شائستہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ایئرہوسٹس نے جواباً کچھ کہنے کے بجائے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔
”لیکن مجھے تو دو سیٹس کی ضرورت ہے… میرا بیٹا اور اس کی آیا بھی ساتھ ہے۔”
”میڈم! ہم آپ کو ایک ہی سیٹ آفر کرسکتے ہیں۔ یہ یہیں رہ سکتے ہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میں ان کے بارے میں آپ کو مکمل طور پر informed (باخبر) رکھوں گی۔” ایئرہوسٹس نے کہا۔
شائستہ کمال ایک لمحے کے لیے سوچ میں پڑی اور پھر وہ اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ اسد کے بارے میں فکر مند نہیں تھی۔ وہ جانتی تھی۔ آیا اس کی اچھی طرح دیکھ بھال کرسکتی ہے۔




ایئرہوٹس اسے اپنے ساتھ بزنس کلاس میں لے آئی۔ دو خالی سیٹوں کی طرف ہاتھ سے اشارا کرتے ہوئے اس نے شائستہ کمال کو اس کی سیٹ دکھائی۔
”یہ تو دونوں سیٹس خالی ہیں۔” شائستہ نے کہا۔
”نہیں… دونوں سیٹس خالی نہیں ہیں، صرف ایک سیٹ خالی ہے۔” ایئرہوسٹس نے اس کے استفسار پر کہا۔
شائستہ نے بے نیازی سے کندھے اچکائے اور اپنی سیٹ کی طرف بڑھ گئی۔
”آپ کچھ پینا پسند کریں گی؟” ایئرہوٹس نے جاتے جاتے اس سے پوچھا۔
”ابھی نہیں، کچھ دیر بعد۔” شائستہ نے ہاتھ کے اشارے سے اس کو منع کیا۔
اپنی سیٹ پر بیٹھنے کے بعد اس نے اپنا پرس دوسری سیٹ پر لاپروائی سے رکھ دیا۔
وہ ہیئربرش سے اپنے بال سنوار رہی تھی، جب قدموں کی ہلکی سی چاپ اس کے پاس ابھری۔ بال سنوارتے سنوارتے اس نے لاپروائی سے نظر اٹھائی اور کچھ دیر کے لیے اس کا ہاتھ ساکت رہ گیا۔
“good to see you again shaista kamal” (آپ سے دوبارہ مل کر خوشی ہوئی) باقر شیرازی کی چہکتی ہوئی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ وہ اب اس کے قریب سیٹ پر بیٹھ رہے تھے۔
شائستہ کمال نے ایک گہرا سانس لیا اور باقر شیرازی سے نظریں ہٹائے بغیر ایک بار پھر اپنے بالوں میں برش کرنے لگی۔ اس نے باقر شیرازی کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا تھا۔ وہ اسے صرف خاموشی سے گھور رہی تھی۔
”کیا عجیب اتفاق ہے کہ ابھی کل آپ سے ملاقات ہوئی اور آج ہم دونوں اکٹھے سفر کر رہے ہیں۔” باقر شیرازی نے نشست سنبھالتے ہی ایک بار پھر گفتگو شروع کر دی۔
”یہ اتفاق نہیں ہے باقر شیرازی صاحب!”
شائستہ نے اپنے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ وہ اب ہیئر برش اپنے بیگ میں رکھ رہی تھی جو اس نے باقرشیرازی کو دیکھتے ہوئے اس دوسری سیٹ سے اٹھایا تھا۔
”آپ سے کچھ طے ہوا تھا کل؟” باقر شیرازی نے اس سے کہا۔
شائستہ کچھ حیران ہوئی۔ ”کیا طے ہوا تھا؟”
”یہی کہ آپ مجھے باقر کہیں گی۔” باقر شیرازی نے اسے یاد کروایا۔
”اچھا ٹھیک ہے… میں کہہ رہی تھی کہ یہ اتفاق نہیں ہے۔”
”کیا اتفاق نہیں ہے؟” باقر شیرازی نے قدرے بے نیازی سے پوچھا۔
”ہم دونوں کا آج اس وقت اس پلین پر اکٹھے ہونا۔” شائستہ کمال نے جتاتے ہوئے کہا۔
”یہ آپ کیسے کہہ سکتی ہیں؟”
”کل رات تک تو آپ کا امریکہ جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔” شائستہ نے اسے یاد کروایا۔
”ہاں، آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ کل رات تک نہیں تھا۔ آج صبح ہوگیا، ایک منسٹر کو کبھی بھی کوئی بھی کام پڑ سکتا ہے اور اس کام کے لیے اسے کہیں بھی جانا پڑ سکتا ہے۔” باقر شیرازی نے اچانک سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
“official”(سرکاری؟) شائستہ نے سوالیہ انداز میں کہا۔
“unofficial”(غیر سرکاری) اسی رفتار سے جواب آیا۔
وہ ایک لمحہ کے لیے اسے دیکھ کر رہ گئی اور پھر دونوں بے اختیار ہنس پڑے۔
”یہ بزنس کلاس میں بھی یقینا آپ کی عنایت کی وجہ سے ہی موجود ہوں۔” شائستہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”میری عنایت؟ کیا بات کر رہی ہیں آپ؟ میں اور آپ پر عنایت کروں گا؟” باقر شیرازی یک دم سنجیدہ ہو گیا۔
”اچھا… تو پھر یہاں کیوں بلوایا گیا ہے مجھے؟”
”ارے… کیا یہ ممکن تھا کہ میں اس پلین پر سفر کرتا جس…” شائستہ دلچسپی سے اس کی بات سننے لگی۔
”جس پر شائستہ کمال سوار ہو اور میں بہترین عورت کو بہترین جگہ پر نہ رکھتا۔”
”آپ ایک بہت ہی عجیب انسان ہیں باقر۔” شائستہ نے اس کے جملے سے محظوظ ہوتے ہوئے کہا۔
”آپ نے کہا ہے تو ٹھیک ہی ہوگا۔” اس نے باقر شیرازی کی بات پر اپنی بھنویں اچکاتے ہوئے کہا۔
”بڑی آسانی سے متفق ہو گئے، آپ میری بات سے۔”
”میں خوبصورت عورت کی رائے سے بڑی جلدی متفق ہو جاتا ہوں… اندھا اعتماد ہے مجھے خوبصورت عورت کی رائے پر۔”
”اچھا… حیرانی کی بات ہے… آپ پہلے شخص ملے ہیں مجھے جو خوبصورت عورت کی رائے پر اعتقاد بھی نہیں اندھا اعتقاد رکھتا ہے۔”
”میں صرف پہلا ہی نہیں واحد شخص بھی ہوں گا۔” باقر شیرازی نے برجستگی سے کہا۔ وہ اس کی بات پر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
”آپ ہنس رہی ہیں؟… میرا خیال تھا، آپ ناراض ہوں گی۔”
”میرے بارے میں اتنی جلدی رائے کا اظہار نہ کریں… کچھ وقت لیں۔ دوسری ملاقات میں اگر میرے بارے میں آپ کی رائے صحیح ثابت ہونے لگی تو مجھے خاصی شرمندگی ہوگی۔” شائستہ نے ایک خوبصورت اور پراعتماد مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
باقر شیرازی نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے صرف مسکرا کر اپنا سگار سلگا لینے پر اکتفا کیا۔
”آپ کا بیٹا بہت خوبصورت ہے۔” انہوں نے سگار سلگانے کے بعد کہا۔
”اوہ اسد… آپ اس کے بارے میں بھی جانتے ہیں۔” وہ حیران ہوئی۔
”اس میں اتنی حیرانی والی کیا بات ہے… وہ اسی پلین پر سفر کر رہا ہے۔ اسے جاننا مشکل تو نہیں تھا۔” باقر شیرازی نے کہا۔
”ویسے یہ جان سکتا ہوں کہ امریکہ کس لیے جا رہی ہیں؟”
”سیر و تفریح کے لیے۔” شائستہ نے کہتے ہوئے اس کے چہرے سے نظریں ہٹالیں۔
”اوہ… لیکن اپنے شوہر کے بغیر؟”
”ہارون بہت مصروف ہیں آج کل، اس لیے ساتھ نہیں آسکے۔” اس نے جھوٹ بولا۔
”کتنا عرصہ رہیں گی وہاں؟”
”پتا نہیں۔” شائستہ نے کہتے ہوئے جواباً پوچھا۔ ”آپ کتنا عرصہ رہیں گے وہاں؟”
”پتا نہیں۔” باقر شیرازی نے کہا۔
”یہ کیا بات ہوئی… آپ آخر کتنا عرصہ ملک سے دور رہ سکتے ہیں؟”
”یہ تو آپ کے قیام پر منحصر ہے۔”
شائستہ اس بار کچھ کہنے کے بجائے خاموش رہی۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

Read Next

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!