تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

”آدھے کیوں… سارے کیوں نہیں، باقی آدھوں کو کیا ہوا؟” صبیحہ نے اس کی بات پر فہمائشی انداز میں کہا۔
”باقی آدھے صبیحہ کادوانی کے پرستاروں میں شامل ہیں۔”
ہارون نے بڑی سنجیدگی اور برجستگی سے کہا۔ صبیحہ کے حلق سے بے اختیار ایک قہقہہ نکلا۔
”تم کون سے والوں میں شامل ہو؟” اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے چند لمحوں کے بعد اس نے ہارون سے پوچھا۔
”میں دونوں میں ہی ہوں… شائستہ کو پاچکا ہوں… صبیحہ کو پانا چاہتا ہوں۔” ہارون نے کہا۔
وہ یک دم سنجیدہ نظر آنے لگی۔
”شائستہ جانتی ہے یہ سب کچھ؟”
”کیا؟” ہارون نے لاپروائی سے کہا۔
”یہ کہ تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو؟”
”نہیں…” ہارون نے کسی توقف کے بغیر کہا۔
”کیوں…؟”
”تم سے شادی میں کرنا چاہتا ہوں، وہ نہیں۔”
اس کو لاعلم رکھو گے اس سب سے؟”
”ہاں…”
”اور اگر وہ جان گئی تو اس کا ردِعمل کیا ہوگا؟”




”میں نے اس کے بارے میں سوچنے کی کوشش نہیں کی۔”
”تو پہلے یہ سوچ لو… اس کے بعد پھر اس طرح کی گفتگو کرنا۔” اس کی آواز میں اچانک سرد مہری جھلکنے لگی۔
”مجھے شائستہ کے کسی ردعمل کی پروا نہیں ہے۔” ہارون نے اچانک کہا۔
”کیوں کیا وہ تمہاری بیوی نہیں ہے؟” صبیحہ نے چبھتی ہوئی آواز میں کہا۔
”ہے…”
”کیا تم اس سے محبت نہیں کرتے؟”
”وہ بھی کرتا ہوں۔”
”ان دونوں حقائق کے باوجود تم اسے بے خبری کی مار دینا چاہتے ہو۔ ویری پور…”
صبیحہ نے جیسے افسوس کا اظہار کیا۔
”صبیحہ! تم میرے بارے میں کتنا جانتی ہو؟” ہارون نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”اتنا جانتی ہوں، جتنا جاننا ضروری ہے۔” اس نے بڑے پرسکون انداز میں کہا۔
”مگر مجھے لگتا ہے تم میرے بارے میں کچھ نہیں جانتیں۔” ہارون نے سنجیدگی سے کہا۔
”اچھا…؟” صبیحہ نے ایک مصنوعی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
”یہ تو تم نے بہت بڑا انکشاف کیا۔” اس نے جیسے ہارون کا مذاق اڑایا۔
ہارون نے اس کے تبصرے کو نظر انداز کر دیا۔ ”میں عورت کی انگلی پکڑ کر چلنے والے مردوں میں سے نہیں ہوں۔”
اس نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ صبیحہ کو مشروب پیتے ہوئے اچھو لگا، جام میز پر رکھتے ہوئے اس نے ٹیبل پر پڑا نیپکن اٹھالیا۔ اس کی ہنسی اس بار اتنی بلند تھی کہ آس پاس کی میزوں پر بیٹھے ہوئے لوگ بھی ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ہارون کو اپنے خون کی گردش تیز ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اسے اب یک دم صبیحہ پر غصہ آنے لگا تھا۔
”تم بہت ہنسا رہے ہو آج مجھے… اف…” وہ ٹیبل نیپکن کے ساتھ اپنی ساڑھی پر گرے مشروب کے قطروں کو صاف کرتے اور اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے بولی۔ ”ہاں تو کیا کہہ رہے تھے تم… کہ تم عورت کی انگلی پکڑ کر چلنے والے مردوں میں سے نہیں ہو۔”
صبیحہ نے جیسے بڑے مزاحیہ انداز میں گفتگو کا ٹوٹا ہوا سلسلہ جوڑنے کی کوشش کی۔ ہارون کمال کو زندگی میں پہلی بار کسی کے سامنے احساس کمتری ہونا شروع ہوا۔ یا شاید اس وقت وہاں صبیحہ کادوانی کے سامنے بیٹھے وہ خود کو احمق سمجھنے لگا تھا۔
”ارے بات کیوں نہیں کر رہے… خاموش کیوں ہو گئے ہو۔” صبیحہ نے بڑے انداز سے کہا۔
”ہمیں چلنا چاہیے۔” ہارون نے یک دم دور کھڑے ویٹر کو ہاتھ بلند کرکے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔
”اتنی جلدی کیوں ہارون…! ابھی تو تم مجھے بتا رہے تھے کچھ اپنے بارے میں… وہ کیا تھا ہاں تم عورت کی انگلی پکڑ کر چلنے والے مردوں میں سے نہیں ہو۔”
اس نے اٹھلاتے ہوئے ہارون سے کہا۔ ہارون نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔
”ناراض ہو گئے ہو؟” صبیحہ نے بڑے انداز سے میز پر رکھے ہوئے ہارون کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ ہارون نے ایک نظر اس کے ہاتھ کو دیکھا پھر اس کے چہرے کو دیکھا۔
”کیا نہیں ہونا چاہیے؟”
”نہیں…” صبیحہ نے آرام سے کہا۔ اس نے اب ایک بار پھر اپنا مشروب اٹھالیا۔
”تم سے عمر میں کم از کم چھ سات سال بڑی ہوں میں… تم دنیا کا بڑا علم رکھتے ہوگے… میں صرف انسانوں کو جانتی ہوں۔” اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا جام فضا میں بلند کر دیا۔
”چہروں کو اس طرح پڑھتی ہوں میں… جس طرح اس جام میں بھرے ہوئے مشروب سے تم کو دیکھ ہی رہی ہوں۔ آرپار…” اس نے جام والا ہاتھ نیچے کرلیا۔ ”اور تم مجھے بتا رہے ہو کہ میں تمہیں نہیں جانتی۔” اس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی۔ ”عمر گزری ہے اس دشت کی سیاحی میں… اور ”سیاہی” میں…”
ہارون اسے دیکھتا رہا… وہ اب کسی اور ہی موڈ میں نظر آرہی تھی۔
”مجھ سے پوچھو… اپنے بارے میں… کیا جاننا چاہتے ہو… تم رشتے نبھانے والے مرد نہیں ہو۔ نہ تم رشتے جوڑنے میں مخلص ہوتے ہو… نہ رکھنے میں، نہ توڑنے میں۔” وہ اب ایک سگریٹ سلگا رہی تھی۔ ”جدون میں ایک خوبی ہے، استعمال وہ مجھے ضرور کرے گا۔ ساری عمر کرے گا۔ مگر رشتہ بھی نبھائے گا۔ تم کیا کرو گے؟”
”میرے بارے میں اتنے یقین سے بات نہ کرو۔” ہارون نے اس کی بات کاٹی۔
”میں نے تمہیں بتایا ہے کہ مجھے تم سے محبت ہے اور…”
صبیحہ نے ہاتھ کے اشارے سے اس کی بات کاٹی۔
”میں نے تم سے کہا ہے مجھ سے محبت کی بات مت کرو… کون سا مرد ہے جو مجھے دیکھے اور میری محبت میں گرفتار نہ ہو جائے۔ پھر اگر تمہیں مجھ سے محبت ہوگئی ہے تو اس میں ایسی خاص بات کیا ہے۔” اس نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لگاتے ہوئے کہا۔
”خاص بات تو تب ہو اگر مجھے بھی تم سے محبت ہو جائے۔”
”اور یہ معجزہ کب ہوگا؟” ہارون مسکرایا۔
”نہ میں پیغمبر ہوں نہ تم… پھر یہ کیسے بتا دوں کہ معجزہ کب ہوگا؟”
”تمہیں مجھ میں بالکل ہی کوئی دلچسپی نہیں ہے تو پچھلے تین ماہ سے کیوں مل رہی ہو مجھ سے؟”
”دلچسپی تو ہے تم میں… اسی لیے مل رہی ہوں۔”
”اور اس دلچسپی کی وجہ کیا ہے؟… میں…؟ میری دولت…؟” ہارون کمال نے کچھ چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔ صبیحہ نے بڑے اطمینان سے نفی میں سر ہلایا۔
”تو پھر…؟”
”باقر شیرازی…” وہ صبیحہ کا منہ دیکھنے لگا۔ وہ اب… سگریٹ سلگا رہی تھی۔ مگر اس کے ساتھ اس نے میز پر ایک اور چیز بھی رکھ دی تھی۔ ہارون نے ایک نظر میز کو دیکھا پھر صبیحہ کو دیکھا۔ زندگی میں پہلی بار اسے اپنا آپ کسی جال میں پھنسا ہوا محسوس ہوا۔ پہلی بار اس نے اپنے آپ کو کسی کے ہاتھ میں پکڑے تاش کے باون پتوں میں سے ایک پتا پایا، اور پہلی بار اسے احساس ہوا اس نے فلرٹ کرنے کے لیے اس بار ایک غلط عورت کا انتخاب کیا۔
٭٭٭
صاعقہ اس دن سبزی لانے کے لیے گھر سے قریبی مارکیٹ گئی تھی۔ اس کی چھوٹی بیٹی بھی اس کے ساتھ تھی۔ وہ سبزی خرید رہی تھی جب اس نے کسی کو اپنا نام پکارتے دیکھا۔ صاعقہ نے مڑ کر دیکھا۔
وہ اعظم تھا… اس کارخانہ کا منیجر جہاں وہ کام کرتی تھی۔ وہ ہمیشہ ہی صاعقہ کے ساتھ بہت نرمی سے پیش آتا تھا۔ صاعقہ اکثر اس کی نظریں اپنے اوپر جمی ہوئی محسوس کرتی اور بعض دفعہ وہ جان بوجھ کر کسی نہ کسی بہانے اس سے مخاطب ہوتا رہتا۔ کئی دفعہ وہ صاعقہ کو اس کی روزانہ کی اجرت سے کچھ زیادہ پیسے بھی دے دیتا اور صاعقہ کے پوچھنے پر بڑی لاپروائی سے کہہ دیتا۔
”کوئی بات نہیں۔ رکھ لو، تمہیں ضرورت ہوگی۔ اپنے لیے کوئی چیز خرید لینا۔”
صاعقہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ پیسے لے لیتی… اپنے لیے تو وہ خیر کیا چیز خریدتی مگر وہ دن اس کا قدرے آرام سے گزر جاتا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

Read Next

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!