تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

”کافی پیتی ہیں آپ؟” باقر شیرازی بڑے پرسکون انداز میں کہہ رہا تھا۔ ”کون سی کافی پیتی ہیں؟… کولڈ کافی؟… انسٹنٹ؟”
شائستہ نے یک دم آنکھیں کھول دیں۔ ساتھ بیٹھے ہوئے شخص سے اسے پہلی بار خوف محسوس ہوا۔ وہ آخر اس کے بارے میں کیا کیا اور کس حد تک جانتا تھا۔
”پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے شائستہ کمال! میں آپ کا دوست ہوں۔”
باقر شیرازی نے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتی رہی۔
”سر! آپ کو کچھ چاہیے؟” ایئرہوسٹس نے اچانک آکر ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو میں مداخلت کی۔
”ہاں، میں کافی پیوں گا۔” باقر شیرازی نے ایئرہوسٹس سے کہا۔
”آپ کافی پینا پسند کریں گی؟” وہ اب مسکراتے ہوئے شائستہ کمال سے پوچھ رہا تھا۔
اس کے سوال کا جواب دیئے بغیر وہ صرف اسے گھورتی رہی۔
”میرا خیال ہے۔ یہ بھی کافی پسند کریں گی۔ آپ ہم دونوں کے لیے کافی لے آئیں۔” باقر شیرازی نے یک دم گردن موڑتے ہوئے ایئرہوسٹس سے کہا۔
”رائٹ سر۔” وہ نہایت مستعدی سے واپس چلی گئی۔
”آپ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہی ہیں شائستہ؟”
ایئرہوسٹس کے جانے کے بعد باقر شیرازی نے بڑے اطمینان سے پوچھا، وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر اس نے ایک گہرا سانس لے کر کہا۔
”میں آپ کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔”
باقر شیرازی نے اس کی بات پر ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا۔
”پھر تو یقینا میں بہت خوش قسمت ہوں جسے شائستہ کمال جیسی عورت سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔”
اس کے قہقہے اور تبصرے نے بھی شائستہ کمال کے تاثرات میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ وہ اسی طرح اسے دیکھتی رہی۔
”مجھے محسوس ہو رہا ہے۔ میرے سوال نے آپ کو پریشان کر دیا ہے۔” باقر شیرازی نے یک دم سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔ ”اگر ایسا ہے تو میں اس کے لیے آپ سے معذرت چاہتا ہوں۔”




”معذرت کرنے کے بجائے آپ مجھے صرف یہ بتا دیں کہ آپ یہ سب کچھ کیسے جانتے ہیں؟” شائستہ نے اس کے سوال کی تردید کرنے کی کوشش کیے بغیر اس سے دو ٹوک بات کرنے کا فیصلہ کیا… جو شخص اس سے اتنا ذاتی اور ڈائریکٹ سوال پوچھ سکتا تھا، اس کے پاس یقینا معلومات کے کچھ ایسے ذرائع ضرور ہوں گے جو بہت قابل وثوق ہوں گے۔ وہ اس کی بات کو جھٹلانے کی کوشش کرنا نہیں چاہتی تھی… باقر شیرازی یقینا اس کی ایسی کسی تردید کو کوئی اہمیت نہ دیتا۔
”جو لوگ اچھے لگتے ہوں، ان کے بارے میں سب کچھ جان لینے کو دل چاہتا ہے۔” باقر شیرازی نے بہت ذومعنی سی بات کی۔
”وہ باتیں بھی جو نہیں جاننی چاہئیں؟”
شائستہ نے اسے کچھ ملامتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ باقر شیرازی کچھ سوچ میں پڑ گیا۔
”کیا آپ کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ میں آپ کا کوئی راز جاننے کے بعد اسے آپ کے خلاف استعمال کروں گا یا آپ کو بلیک میل کروں گا؟”
اس نے سنجیدگی سے شائستہ سے پوچھا۔ شائستہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔
”اگر آپ یہ سوچ رہی ہیں تو غلط سوچ رہی ہیں۔” چند لمحے اس کے جواب کا انتظار کرنے کے بعد اس نے شائستہ سے کہا۔ ”آپ باقر شیرازی کو بہت ہی غلط سمجھ رہی ہیں۔ میں ایسا کبھی نہیں کروں گا۔”
وہ یک دم چپ ہوگیا۔ شائستہ نے اس کے چہرے سے نظریں ہٹالیں۔
”اگر آپ کو میرا سوال برا لگا تو آپ کو پورا حق ہے کہ آپ اس کا جواب نہ دیں۔”
”میں آپ سے پوچھ رہی تھی کہ آپ کو میرے بارے میں اس طرح کی معلومات کس نے دی ہیں؟” شائستہ نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”میرے اپنے ذرائع ہیں۔”
”اور آپ نے میرے بارے میں اس طرح کی معلومات اکٹھی کیوں کی ہیں، اگر بقول آپ کے آپ مجھے کوئی نقصان پہنچانے کا ارادہ نہیں رکھتے تو؟”
”اسے صرف ایک اتفاق سمجھیں۔” باقر شیرازی نے کچھ مدافعانہ انداز میں کہا۔
”اتفاق؟” شائستہ نے تلخ لہجے میں کہا۔ وہ اب اچانک لگنے والے اس شاک سے باہر نکل آئی تھی۔
”میرے اور آپ کے درمیان کتنی شناسائی ہے کہ آپ اس بے تکلفی سے مجھ سے اس قسم کا ذاتی سوال پوچھ رہے ہیں؟” وہ یکدم مشتعل ہوگئی۔ ”اور کیا سوچ کر آپ نے میرے بارے میں اس طرح کی معلومات اکٹھی کی ہیں۔ آخر چاہتے کیا ہیں آپ؟”
اس سے پہلے کہ باقر شیرازی کچھ کہتا، ایئرہوسٹس کافی لے کر وہاں آگئی۔
وہ جتنی دیر کافی سرو کرتی رہی۔ باقر اور شائستہ خاموش بیٹھے رہے۔ اس کے جانے کے بعد باقر نے کافی کا کپ اٹھاتے ہوئے شائستہ سے کہا۔
”یہ بہتر ہے کہ ہم پہلے کافی پی لیں۔ اس کے بعد اس معاملے میں بات کریں گے۔”
”مجھے آپ کی کافی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں صرف اپنے بارے میں آپ کا ذریعۂ معلومات جاننا چاہتی ہوں۔” اس نے رکھائی سے کہا۔
”شائستہ! میں اپنے اس سوال کے لیے آپ سے ایکسکیوز کرتا ہوں۔ میں نے واقعی آپ کے ذاتی معاملات میں مداخلت کی ہے۔”
”میں نے آپ سے معذرت کے لیے نہیں کہا، میں صرف یہ جاننا چاہتی ہوں کہ آپ کو میرے بارے میں یہ ساری معلومات کس نے دی ہیں؟” وہ اس کی معذرت سے متاثر ہوئے بغیر بولی۔
”ذریعۂ معلومات۔” باقر شیرازی نے مسکراتے ہوئے اس کا جملہ دہرایا۔
”کسی سیاست دان سے اس کے معلومات کے ذرائع پوچھ رہی ہیں۔ کمال کر رہی ہیں۔” وہ جیسے اس کی بات سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔
”مجھے یہاں سے چلے جانا چاہیے۔”
”آخر آپ کو اتنا غصہ کس بات پر آرہا ہے… میں آپ سے معذرت تو کر چکا ہوں۔” باقر شیرازی نے ایک بار پھر سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
”مگر آپ میرے سوال کا جواب نہیں دے رہے۔”
”یہ ممکن ہی نہیں ہے… چلیں، آپ یہ سمجھ لیں کہ میں نے آپ کے بارے میں معلومات کے لیے کسی ایجنسی کو استعمال کیا ہے۔”
”کیوں؟”
”مجھ سے غلطی ہوگئی۔” باقر شیرازی نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔
وہ اسے دیکھتی رہی اس کا اشتعال آہستہ آہستہ دم توڑ رہا تھا۔ چند منٹ پہلے تک وہ باقر شیرازی کے سامنے جس احساس برتری کو لیے ہوئے تھی، وہ یک دم ہی کہیں غائب ہوگیا تھا۔ ہارون کے علاوہ وہ دوسرا شخص تھا جو اس حقیقت سے…
اس نے ایک بار پھر سیٹ کی پشت سے ٹیک لگالی مگر اس بار اس کے چہرے پر تھکن نمایاں تھی۔
اس کی آنکھیں بند تھیں، اس بار وہ اپنی آنکھوں کے تاثرات کو چھپانا چاہتی تھی… چہرے کو وہ چھپا نہیں سکتی تھی۔
”اگر باقر شیرازی یہ سب جان سکتا ہے تو پھر کوئی بھی جان سکتا ہے… کیا مجھے ہارون سے اس سلسلے میں بات کرنی چاہیے۔” وہ سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔
”اور اگر…”
”شائستہ!” باقر شیرازی کی آواز نے اچانک اس کی سوچوں کا تسلسل توڑ دیا۔” آپ مجھے اپنا دوست سمجھ سکتی ہیں۔”
شائستہ نے ایک نظر اسے دیکھا۔ ”میں کوشش کر رہی ہوں۔”
”میں آپ کو کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔”
”آپ مجھے کبھی کوئی نقصان پہنچا بھی نہیں سکتے۔ میں اپنی حفاظت کرنا جانتی ہوں۔”
شائستہ نے پراعتماد انداز میں کہا۔ مگر پراعتماد نظر آنے کی کوشش اس وقت اسے کتنی تکلیف دہ محسوس ہو رہی تھی یہ اس کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا تھا۔
کچھ دیر ان دونوں کے درمیان خاموشی کا ایک وقفہ حائل رہا۔ پھر کوئی خیال بجلی کی طرح شائستہ کے ذہن میں کوندا تھا۔ ایک بار پھر بے چینی اور اضطراب اس کے چہرے پر جھلکنے لگا۔
”اگر باقر شیرازی یہ جانتا ہے کہ میں نے اپنے کسی بچے کو کسی یتیم خانے میں بھجوایا تھا تو وہ یقینا یہ بھی جانتا ہو گا کہ وہ بچہ کہاں ہے۔” وہ سوچ رہی تھی۔ ”مجھے اس سے پوچھنا چاہیے… ہو سکتا ہے جو کام میں نہیں کر سکی وہ یہ کر دے… یا یہ بھی ممکن ہے باقر شیرازی سے میری ملاقات اسی کام کے لیے ہوئی ہو۔”
وہ اپنے خیالوں اور سوچوں میں غرق تھی اور اس بات کو مکمل طور پر نظر انداز کیے ہوئے تھی کہ باقر شیرازی وقتاً فوقتاً اس کے چہرے پر نظریں دوڑاتے ہوئے اس کے تاثرات کو پڑھنے کی کوشش میں مصروف تھا۔
”کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ وہ بچہ کہاں ہے؟” شائستہ نے یک دم کسی تمہید کے بغیر باقر شیرازی کو مخاطب کیا۔
”آپ کا بچہ؟” باقر شیرازی نے ”آپ” پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”ہاں میرا بچہ؟” اس کے لہجے میں اس بار شکست خوردگی نمایاں تھی۔” وہ اس یتیم خانہ میں نہیں ہے جہاں اسے بھیجا گیا تھا۔”
باقر نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا۔ ”ہاں وہ وہاں نہیں ہے۔”
”کیا آپ جانتے ہیں، وہ کہاں ہے؟”
”نہیں۔”
شائستہ نے قدرے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ ”یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کو پتا نہ ہو۔ آپ اگر یہ سب جان سکتے ہیں تو اس کے بارے میں مزید بھی جانتے ہوں گے۔”
”میں اس کے بارے میں اتنا ہی جانتا ہوں جتنا آپ جانتی ہیں۔” باقر شیرازی نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔ ”اسے کسی فیملی نے لیا تھا۔ اس فیملی کا ایک حادثے میں انتقال ہوگیا۔ اور بس… بچہ کہاں ہے… کسی کو پتا نہیں کیونکہ وہ فیملی پاکستان میں نہیں رہی… گلف چلی گئی۔”
شائستہ کے چہرے پر یک دم مایوسی چھا گئی۔ ”بس اس بچے کے بارے میں آپ اتنا ہی جانتے ہیں؟”
”ہاں، میں اتنا ہی جانتا ہوں لیکن…” باقر شیرازی ایک لحظہ کے لیے رکا۔ ”لیکن میں اس کے بارے میں آپ کو اس سے زیادہ معلومات دے سکتا ہوں… میں آپ کے لیے یہ کام کروا سکتا ہوں۔” اس نے پیشکش کی۔
”ٹھیک ہے، آپ مجھے اس کے بارے میں معلومات کروا دیں… میں اس بچے کو ڈھونڈنا چاہتی ہوں… اگر آپ اس سلسلے میں میری مدد کرسکیں تو؟”
باقر شیرازی نے شائستہ کی بات کاٹ دی۔
”میں آپ کی مدد کرسکتا نہیں… میں آپ کی مدد کروں گا۔”
”تھینک یو۔” شائستہ نے تشکر کے احساس کے ساتھ کہا۔
”اس کی ضرورت نہیں۔ دوستوں میں شکریہ نہیں ہوتا۔”
باقر شیرازی نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنا کافی کا کپ رکھتے ہوئے کہا۔ وہ اب دوسرا سگار سلگا رہا تھا۔
شائستہ منتظر رہی کہ وہ اب اس سے کوئی سوال کرے گا مگر اس نے نہیں کیا۔ کچھ دیر اسے دیکھتے رہنے کے بعد شائستہ نے اچانک کہا۔
”کیا آپ اپنے سوال کا جواب نہیں چاہتے؟”
باقر شیرازی چونکا ”کون سے سوال کا؟”
”اسی سوال کا جس سے یہ گفتگو شروع ہوئی تھی۔”
”آپ ناراض ہوگئی تھیں… اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتی تھی، اس لیے مجھے جواب کی خواہش نہیں ہے۔” باقر شیرازی نے سگار کا کش لیتے ہوئے بڑے شستہ انداز میں کہا۔
”میں آپ کی ناراضی افورڈ نہیں کرسکتا۔”
”اور اگر اب میں خود بتانا چاہوں؟”
”یہ آپ پر منحصر ہے… مگر یہ یاد رکھیں کہ میں اپنا سوال دہرا نہیں رہا ہوں۔” باقر شیرازی نے کہا۔
شائستہ کچھ دیر کے لیے اسے دیکھتی رہی۔ وہ یک دم اسے بہت اچھا لگا تھا… اپنے سے دگنی عمر کا ہونے کے باوجود بھی اسے اپنے اور اس کے درمیان کوئی جنریشن گیپ محسوس نہیں ہو رہا تھا… باقر شیرازی میں ایک خاص قسم کی گرم جوشی تھی… وہ بے تکلف تھا مگر کچھ حدود قیود کے ساتھ… وہ بے باک تھا مگر یہ بے باکی ان دو ملاقاتوں میں کہیں بھی اس کے لیے تکلیف دہ نہیں بنی تھی۔ اس نے باقر شیرازی سے ملنے سے پہلے اس کا بہت نام اور شہرہ سن رکھا تھا۔ مگر اس وقت اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے وہ محسوس کر رہی تھی کہ باقر شیرازی اس سے کہیں زیادہ ڈائنامک پرسنیلٹی رکھتا تھا۔
”میں آپ کے سوال کا جواب دینا چاہتی ہوں۔”
باقر شیرازی نے کچھ نہیں کہا۔
“I want to feel light-hearted.” (میں اپنا دل ہلکا کرنا چاہتی ہوں)
باقر شیرازی اسے دیکھتا رہا۔
”آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ آپ ہارون کے بعد وہ پہلے شخص ہیں جن سے میں اس بارے میں بات کر رہی ہوں۔”
اس نے ایک گہرا سانس لے کر اپنی سیٹ کی پشت کے ساتھ ٹیک لگالی۔
”اگر ہارون کو یہ پتا چل جائے تو وہ…” شائستہ نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
“Are you having strained relations with you husband?” (کیا آپ اپنے شوہر کے دباؤ میں ہیں)
باقر نے اچانک پوچھا۔ شائستہ نے سر موڑ کر اسے غور سے دیکھا۔
“Strained…..No….. May be….. yes” (دباؤ… نہیں… شاید ہاں)
باقر شیرازی شائستہ کے فوری انکار اور پھر اقرار پر مسکرایا۔ ان دونوں کے درمیان خاموشی کا ایک اور وقفہ آیا۔ شائستہ اب ماضی میں اتر رہی تھی۔ احساسِ جرم کی دلدل ایک بار پھر اس کے پیروں سے لپٹنے لگی تھی۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

Read Next

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!