تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

”خیر سنگاپور کے ٹور کی بات تو مت کرو تم… اس پر بھی تو رضامند ہو ہی گیا ہوں اور مہینے کے تیس دنوں میں سے انتیس دن آپ شاپنگ کرتی ہیں۔ وہ بھی کسی ضرورت کے بغیر اس کے باوجود آپ کو شکایت ہے کہ میں منع کر دیتا ہوں۔ تمہیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ تمہیں میرے جیسا شوہر ملا ہے۔ ورنہ تمہارا کیا ہوتا؟” منصور علی نے کچھ مسکراتے ہوئے کہا۔
”اور اگر آپ کو میرے جیسی بیوی نہ ملتی تو آپ کا کیا ہوتا…؟” منیزہ نے دوبدو کہا۔
٭٭٭
فاطمہ ان دونوں بچوں کو اپنے گھر لے آئی۔ محلے میں چہ میگوئیوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ان کے لیے فاطمہ کا یہ قدم ایک عجیب بات تھی۔ ڈھکے چھپے لفظوں میں اسے اپنے فیصلے کے مضمرات سے آگاہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ فاطمہ کے پاس ہر بات کے جواب میں خاموشی کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ وہ چپ چاپ ہر ایک کی بات سنتی رہتی جب اس کے سامنے دلائل کا ڈھیر لگا دیا جاتا تو وہ صرف ایک ہی بات کہتی۔
”میں ان کی مدد کرنا چاہتی ہوں… اور کچھ نہیں۔”
اس کا جواب بحث کو ایک نیا موڑ دے دیتا۔
”مدد کے اور بھی طریقے ہوتے ہیں… انہیں کسی فلاحی ادارے میں بھجوا دو… پولیس کے حوالے کر دو۔” اس سے کہا جاتا۔
”مدد کا ایک طریقہ یہ بھی تو ہے کہ میں انہیں اپنے پاس رکھ لوں۔”
”ہاں مگر… اس طرح تو تمہارے لیے بڑی مشکل ہو جائے گی۔ تمہارا تو اپنا بچہ چھوٹا ہے… تم بیوہ ہو… ملازمت کرتی ہو… کرائے کے گھر میں رہتی ہو… رشتہ دار تمہارا کوئی نہیں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تم دو مزید بچوں کی ذمہ داری لے رہی ہو۔ ایک ہی عمر کے دو بچے اور وہ بھی ایسے حالات میں… کیسے سنبھالو گی انہیں…؟ کس کے پاس چھوڑ کر جاؤ گی…؟ کل کو ان کی ضروریات کہاں سے پوری کرو گی…؟ اور پھر تمہارا اپنا بچہ وہ کیا محسوس کرے گا…”
اس کے سامنے ایک ایک کرکے ساری وجوہات پیش کی جاتیں… اس پر کوئی اثر نہیں ہوا… وہ ان تمام باتوں کے بارے میں ان بچوں کو اپنانے کا فیصلہ کرنے سے پہلے ہی سوچ چکی تھی… کسی نہ کسی حد تک اس کے پاس ان تمام مسائل کا حل موجود تھا اور باقیوں کا حل وہ سوچتی رہتی تھی۔




لوگوں کی فطرت بہت عجیب ہوتی ہے۔ وہ اپنے اردگرد موجود دوسرے لوگوں کو صرف ان کے مسائل سے آگاہ کرتے ہیں۔ کسی حل میں مددگار نہیں بنتے۔ دس لوگ اگر کسی شخص کو اس کے دس مسائل سے آگاہ کرنے کے بجائے مل کر صرف دو مسائل کا حل پیش کر دیں تو اس شخص کے لیے آسانیوں کا دروازہ اگر مکمل طور پر نہ سہی مگر کھل ضرور جاتا ہے۔ فاطمہ کے ساتھ بھی یہی ہو رہا تھا ہر ایک اسے اس کے فیصلے سے پیدا ہونے والا ایک نیا مسئلہ بتا رہا تھا۔ کوئی بھی یہ کوشش نہیں کر رہا تھا کہ وہ ان کے حل میں مددگار بنے لیکن جب کوئی شخص الجھی ہوئی ڈور کے ڈھیر میں سے اس کا سرا تلاش کر لیتا ہے تو پھر ہر آدمی اسے الجھی ہوئی ڈور کو سلجھانے میں مدد دینے لگتا ہے… حالانکہ اس وقت مدد کی ضرورت باقی نہیں ہوتی۔ ڈور سلجھنے کے بعد ہر شخص اس کا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کرتا ہے۔
فاطمہ نے ایک چھوٹی لڑکی کو ملازمہ رکھ لیا۔ شہیر سمیت تینوں بچوں کو وہ اس کے پاس چھوڑ جاتی۔ پہلے وہ شہیر کو اپنے پاس اسکول میں رکھتی تھی اور وہاں موجود کام والی عورتیں اس کا خیال رکھتی تھیں۔ لیکن فاطمہ کو پھر بھی وہاں شہیر کے بعض چھوٹے موٹے کام کرنے پڑتے۔ اب اس کی وہ ذمہ داری ختم ہوگئی تھی۔ وہ بہت پرسکون انداز میں اسکول میں اپنا کام کرتی۔
مالی طور پر اگرچہ اس پر ملازمہ کی صورت میں ایک اضافی بوجھ آن پڑا تھا۔ مگر اس نے اس بوجھ کو کم کرنے کے لیے محلے میں موجود کچھ بچوں کو میتھس کی ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیا۔
اسکول سے واپسی پر وہ کھانے سے فارغ ہو کر ان بچوں کو لے کر بیٹھ جاتی۔ آہستہ آہستہ اس کے پاس آنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ اس کے اور محلے والوں کے تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا تھا۔ محلے والوں کے ساتھ اب اس کے روابط کی نوعیت بدل رہی تھی۔ وہ خود محلے کے گھروں میں نہیں جاتی تھی مگر جن گھروں کے بچے اس سے پڑھ رہے تھے۔ ان گھروں سے اکثر اوقات کوئی نہ کوئی عورت اس کے پاس آتی رہتی۔
اس کے نئے رول نے ان بچوں کی مقبولیت کو بھی بڑھا دیا تھا۔ اس کے پاس آنے والی عورتیں اب ان بچوں میں خاصی دلچسپی لیتیں۔ ان کا حال احوال دریافت کرتیں۔ ان کی بیماری کے دوران اپنے نسخوں سے بھی نوازتیں اور بعض اوقات ان کے لیے چھوٹے موٹے تحفے بھی بھجوائے جاتے۔
فاطمہ بعض چیزوں کے معاملے میں بہت واضح نظریات رکھتی تھی۔ وہ ہر تحفے کو کسی نہ کسی جوابی تحفے سے بدل دیتی تھی اور وہ ان بچوں کے گھر والوں سے کوئی تحفے قبول نہیں کرتی تھی جنہیں وہ گھر پر پڑھاتی تھی۔
”آپ میری فیس وقت پر ادا کر دیتے ہیں یہی کافی ہے… اس کے بعد میں آپ پر یا آپ کے بچے پر کوئی حق نہیں رکھتی… آپ اصرار کریں گے… میں تحفہ رکھ لوں گی… لیکن پھر میں آپ سے فیس نہیں لوں گی۔”
اس کا رویہ پہلے عجیب سمجھا جاتا رہا… پھر آہستہ آہستہ بہت سے ڈھکے چھپے اعتراضات کے بعد اسے اس کی ایک خوبی مان لیا گیا۔
وہ عام طور پر ان دونوں بچوں کے لیے بھیجا جانے والا کوئی تحفہ نہیں لوٹاتی تھی مگر اس تحفے کے جواب میں ویسی ہی کوئی چیز اس گھر میں ضرور بھجوا دیتی۔ صرف شروع میں چند بار اس نے کچھ لوگوں کی لائی ہوئی کچھ چیزوں کو واپس کر دیا۔
”مجھے آپ کے خلوص پر کوئی شک نہیں ہے مگر میں ان بچوں کو اترن پہنانا نہیں چاہتی… آپ ان بچوں کے لیے اتنے بہت سے پرانے کپڑوں کے بجائے صرف ایک نیا لباس لے آتیں تو مجھے خوشی ہوتی اور میں اسے ضرور رکھتی… مگر ان کپڑوں کو نہیں۔”
اس نے محلے کی ایک عورت کو وہ بہت سارے کپڑے واپس کرتے ہوئے کہا تھا جو ان بچوں کو گھر لانے کے چند دن بعد ہی اپنے بچوں کے اچھی حالت میں موجود بہت سے پرانے کپڑوں کو فاطمہ کے پاس لے آئی تھی۔ فاطمہ جانتی تھی کہ وہ کپڑے نہ صرف ایک لمبے عرصے تک ان دونوں بچوں کے لباس کی ضروریات کو پورا کریں گے بلکہ اس کے خاصے پیسے بھی بچا دیں گے۔ اس کے باوجود وہ خود کو پرانے کپڑوں کو لینے پر آمادہ نہیں کرسکی تھی۔
”میں انہیں صرف دو سوٹ دوں گی مگر وہ ان کے اپنے ہوں گے… میں شہیر کی طرح انہیں بھی ”اپنی ملکیت” کا فخر دوں گی۔” ان کپڑوں کو واپس کرتے ہوئے اس نے سوچا۔
”اگر ایک بار یہ اترن پہننا سیکھ گئے تو ساری عمر یہ اترن ہی پہنتے رہیں گے۔ پیوند زدہ سہی مگر اپنے ”ذاتی” لباس کے فخر سے یہ ہمیشہ ناشنا ہی رہیں گے۔”
شام کو وہ لڑکی چلی جاتی۔ فاطمہ تب تک فارغ ہو چکی ہوتی۔ وہ اس کے بعد ان تینوں کو خود سنبھالتی۔ شہیر ان دونوں بچوں کے ساتھ بہت گھل مل گیا تھا۔ وہ اپنا زیادہ وقت ان ہی دونوں کے ساتھ گزارتا۔ فاطمہ نے ان دونوں کا نام ثمر اور ثانیہ رکھا تھا۔ ثمر کے کندھوں کے زخم اگرچہ بہت جلدی ٹھیک ہوگئے تھے مگر وقتاً فوقتاً وہ کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا رہتا… وہ ثانیہ کی نسبت جسمانی لحاظ سے خاصا کمزور تھا۔ فاطمہ کے لیے حیران کن بات یہی تھی کہ وہ ان زخموں اور ان بیماریوں کے باوجود زندہ تھا۔ اپنی بقا کے لیے لڑ رہا تھا۔ فاطمہ کو بعض دفعہ اس کے منحنی سے وجود کی زندگی کے لیے جاری اس جنگ پر رشک آتا۔ وہ جیسے ہمت ہارنے پر تیار ہی نہیں تھا۔ ثانیہ اس کے برعکس بہت ایکٹو تھی۔ ثمر کی طرح وہ بھی بہت زیادہ صحت مند نہیں تھی لیکن اس کی طرح بیمار بھی نہیں رہتی تھی۔
شہیر ثمر کی نسبت ثانیہ سے زیادہ مانوس تھا۔ شاید اس کی وجہ اس کا زیادہ ایکٹو ہونا ہی تھا یا پھر شاید اس کا صحت مند ہونا ثمر زیادہ تر سویا رہتا یا پھر فاطمہ اور اس ملازمہ کی گود میں رہتا جو اس کو بہلاتی رہتی تھی جبکہ ثانیہ اس کے برعکس جہاں پڑی ہوتی… ہاتھ پاؤں ہلاتے ہوئے خود ہی اپنے آپ کو مصروف رکھتی۔ وہ ہر وقت جیسے اپنے آپ میں مگن رہتی تھی۔
وقت آہستہ آہستہ گزر رہا تھا۔ شہیر اب اسکول جانے لگا تھا۔ فاطمہ اس محلے کے ماحول میں پوری طرح ایڈجسٹ ہو چکی تھی۔ ایک مخصوص رفتار اور انداز سے گزرنے والی زندگی سے وہ مطمئن تھی۔ اس کے لہجے کی کڑواہٹ اور مزاج کی تلخی مکمل طور پر ختم ہو چکی تھی۔ بعض دفعہ اسے اپنے اندر آنے والی ان تبدیلیوں پر حیرت ہوتی۔ ان تین بچوں نے اس کی زندگی کو کس طرح بدل کر رکھ دیا تھا۔ خود ترسی کا شکار اور اپنے آپ سے برگشتہ ایک لڑکی سے یہاں تک کا سفر… وہ کسی سے کچھ کہہ نہیں سکتی تھی… اپنا گھر اب بھی اس کی یادوں کا حصہ تھا۔ تلخ یادوں کا… مگر وہ ان یادوں کو اپنے ذہن میں کہیں دفن کرنے کی کوشش کرتی رہتی… کسی حد تک وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی تھی۔ بے مقصد گزاری جانے والی زندگی کو وہ کہیں بہت پیچھے چھوڑ آئی تھی… اور اس کا خیال تھا کہ اب اس کی زندگی میں سب کچھ اسی طرح رہے گا… ہموار، اور پرسکون… خوابوں کا جو سلسلہ وہ ان تینوں بچوں کے حوالے سے دیکھا کرتی تھی وہ اس طرح چلتا رہے گا…لیکن ایسا نہیں تھا… اسے ابھی کچھ اور حقائق کا سامنا کرنا تھا… کچھ اور فیصلے بھی کرنے تھے اور یہ فیصلے اس کو آزمائشوں کے ایک نئے موڑ پر لے آنے والے تھے۔
٭٭٭
”وہ لڑکی بڑی خوش قسمت ہوتی ہے جس کی شادی نہ ہو یا جس کے ہاں کوئی لڑکی پیدا نہ ہو۔”
صاعقہ نے موم بتیوں کو گنتے ہوئے کاغذ میں لپیٹا۔ اس کے ساتھ کام کرتی ہوئی عورت نے ایک لحظہ کے لیے رک کر اسے دیکھا اور پھر عجیب سے انداز میں قہقہہ لگایا۔
”ہاں… یہ صحیح کہا تم نے…”
وہ ایک بار پھر برق رفتاری سے موم بتیوں کو گننے اور ان پر کاغذ چڑھانے میں مصروف ہوگئی۔ صاعقہ کو اس کی رفتار پر رشک آرہا تھا۔
وہ جتنے عرصہ میں دس پیکٹ بنا پائی تھی۔ وہ اتنے ہی وقت میں پچاس پیکٹ بنا چکی تھی… لیکن صرف رشک کرنے سے وہ اپنی رفتار کو اس کی طرح نہیں بڑھا سکتی تھی۔ وہ عورت پچھلے پندرہ سال سے وہیں کام کر رہی تھی اور صاعقہ کو اس فیکٹری میں آئے صرف پندرہ دن ہوئے تھے۔
چار بیٹیوں کے ساتھ اپنے ماں باپ کے اس گھر میں رہنا جہاں پہلے ہی اس جیسے بہت سے وجود موجود تھے… رزق اور لباس کی خواہش رکھنا… اور زندگی کو جینا کانچ پر ننگے پاؤں چلنے کے مترادف تھا۔
ہرہفتے اس کے ماں باپ ظفر کے گھر جاتے… صاعقہ اور اس کے بچوں کو زیر بحث لایا جاتا… بے عزتی کا ایک نیا دور شروع ہوتا… منتیں، التجائیں… ظفر کی خود سری اور اکھڑ پن… ظفر کے گھر والوں کی بے اعتنائی… واپسی پر صاعقہ کو سب کچھ سنا دیا جاتا۔
چوبیس سال کی عمر میں آٹھ سالہ شادی شدہ زندگی گزار کر وہ چار بیٹیوں کے ساتھ ماں باپ کے گھر میں ایک کیچوے کی زندگی گزارنے پر مجبور تھی۔ اس کی ہم عمر بہت سی لڑکیوں کی شادیاں اب ہو رہی تھیں اور وہ اپنے مقدر کو حیرت اور خوف کے عالم میں دیکھتی… کیا بس یہ سب کچھ تھا، جس کے لیے میں دنیا میں آئی تھی… بس ایسی ہی زندگی تھی جو مجھے گزارنی تھی… اس کے سوالوں کے جواب نہ اس کے اپنے پاس تھے نہ دوسروں کے پاس…
اس کے ماں باپ ابھی اس کی دو بہنوں کی شادیاں نہیں کر پائے تھے… جن بیٹیوں کی انہوں نے شادیاں کی تھیں… وہ بھی ہر دوسرے ماہ کوئی نہ کوئی مسئلے لے کر ان کے ہاں موجود ہوتیں۔ کسی کے شوہر کا کوئی نیا مطالبہ ہوتا… کسی کو سسرال والے لڑ کر گھر سے نکال دیتے… کوئی شوہر کی مار پیٹ کی شکایت لے کر ان کے ہاں پہنچی ہوتی…
یہ سب کچھ وہاں اس محلے اور اس کلاس کی زندگی کا ایک حصہ تھا… اس کے ماں باپ ان چیزوں سے زیادہ پریشان نہیں تھے۔ یا پھر انہوں نے اس پریشانی کو وہاں کے بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح اپنے مقدر کا ایک حصہ مان لیا تھا۔ مگر صاعقہ کی پریشانی ان کے لیے صحیح معنوں میں مصیبت بن گئی تھی۔
تین کمروں کے گھر میں جہاں پہلے ہی صاعقہ کی دو بہنیں، ماں باپ ایک شادی شدہ بھائی، اس کی بیوی اور دو بچے رہ رہے تھے وہاں صاعقہ اور اس کی چاروں بچیوں کے لیے کتنی جگہ نکل سکتی تھی… اور کب تک…
گھر میں اگر جوں توں رکھ بھی لیا جاتا تو اس کے اخراجات کا اضافی بوجھ کون اٹھاتا۔ وہ لوگ پہلے ہی بڑی مشکل سے سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے تھے۔ اب یک دم پانچ افراد کا نیا بوجھ…
ظفر اپنی بیٹیوں کو کسی طور واپس لینے پر تیار نہیں تھا…
”وہ اسے اپنے پاس رکھے یا چاہے کہیں دے آئے مگر مجھے لڑکیاں نہیں چاہئیں… وہ میری اولاد ہی نہیں۔”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

Read Next

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!