تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

بالترتیب چوتھے اور ساتویں دن ان بچوں کی حالت بہتر ہونا شروع ہو گئی اور اس نے پہلی بار انہیں آنکھیں کھولے اپنے ماحول کو دیکھنے کی کوشش کرتے دیکھا۔ نحیف و نزار وجود کے ساتھ وہ اپنی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں کو پوری طرح کھولے اپنے اردگرد پتا نہیں کیا چیز تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ فاطمہ انکیوبیٹرز کے پاس کھڑی بہت دیر انہیں دیکھتی رہی۔ اسے ترس آرہا تھا۔ ہمدردی ہو رہی تھی؟ افسوس ہو رہا تھا؟ یا تکلیف ہو رہی تھی۔ وہ یہ اندازہ کرنے سے قاصر تھی مگر وہ کچھ عجیب سے احساسات سے دوچار ضرور ہو رہی تھی۔
”اپنی اولاد کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دینے کے لیے بہت ہمت کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب وہ اولاد زندہ بھی ہو۔”
فاطمہ کو اپنا وجود کبھی بھی مکمل نہیں لگا تھا۔ وہ اپنے بارے میں جب بھی سوچتی، اسے اپنی خامیوں کے علاوہ کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا اور یہ خامیاں اور کمیاں اس کے اندر دھواں بھر دیتی تھیں۔




”مجھے دیا کیا ہے اللہ نے…؟ سیاہ رنگت، کوئلے جیسی سیاہ رنگت۔” وہ کڑھنا شروع ہو جاتی۔ ”چھوٹا قد… بھدے نقوش… بدصورت آنکھیں… ٹیڑھے میڑھے دانت، اور ہاتھ کی معذوری۔” اس کی آنکھوں میں آنسو آنے لگتے۔ ”ہر بری چیز چن کر میرے مقدر میں لکھ دی اور اس کے بعد مجھے غربت اور بھوک بھی دے دی۔ مجھے اس گھر میں اتار دیا جہاں میرے لیے رزق ہی نہیں تھا۔ جہاں میری ضرورت تک نہیں تھی۔ ایک بوجھ بنا کر مجھے لوگوں پر مسلط کر دیا۔ تاکہ میں ان کی چبھتی نظروں کا نشانہ بنوں، ان کی حقارت آمیز ہنسی کی آواز ہمیشہ میرے کانوں کو چھیدتی رہے، ان کے طنز اور طعنوں کے نشتر ہمیشہ میرے وجود کو زخمی کرتے رہیں۔ اس کا وجود جلنے لگتا۔
”مجھے بناتے ہوئے خدا کو مجھ پر رحم نہیں آیا ہوگا۔ اگر آتا تو وہ خامیوں اور کمیوں کا مرقع بنا کر زمین پر نہ اتار دیتا۔ آخر اللہ نے یہ سب میرے ساتھ ہی کیوں کیا ہے… اوروں کے ساتھ کیوں نہیں کیا۔ لوگ آخر مجھ پر کیوں نہ ہنسیں، ہوسکتا ہے اللہ خود بھی مجھ پر ہنستا ہو۔” وہ ایسی باتیں سوچنے پر آتی تو سوچتی ہی چلی جاتی اور پھر اس کی فرسٹریشن اور ڈپریشن کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا۔
اس وقت ان بچوں کی سفید رنگت، تیکھے نقوش، خوبصورت آنکھیں اور ہر لحاظ سے مکمل وجود پر نظر دوڑاتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ ان میں ایسی کون سی کمی تھی جو انہیں ایک نرم اور آرام دہ بستر اور ماں کی گود کے بجائے گندگی کے ڈھیر پر لے آئی تھی۔ ”کم از کم مجھے کوڑے پر نہیں پھینکا گیا تھا۔ کم از کم میرے مقدر میں کوڑے کے ڈھیر پر پڑا ہونا نہیں تھا۔ اپنی ساری بدصورتی اور خامیوں کے باوجود مجھے ایک گھر میں پیدا کیا گیا۔ ماں باپ کے نام اور وجود کے ساتھ… ایک چھت کے نیچے۔
کسی نے مجھے ان بچوں کی طرح…” وہ سوچتی جا رہی تھی۔
”اور اب جب ان کی حالت ٹھیک ہو رہی ہے اور یہ آہستہ آہستہ بالکل صحت یاب ہو جائیں گے تو کیا ہوگا یہ کہاں جائیں گے؟ کسی یتیم خانے میں بہت سے دوسرے بچوں کے ساتھ… ان ہی کی طرح کے بہت سے دوسرے بچوں کے ساتھ… کیسی زندگی جئیں گے یہ…؟ اپنے مکمل وجود اور ہر خوبی کے ساتھ… محرومی، ذلت اور محتاجی کی… طنز و طعنوں اور حقارت کی۔ محبت سے محرومی کی۔ یا ہر چیز سے محرومی کی۔ ایک دو گھنٹے کے لیے نہیں۔ دن کے لیے نہیں۔ ہفتوں کے لیے نہیں۔ مہینوں کے لیے نہیں۔ سالوں کے لیے نہیں، ساری زندگی کے لیے۔ ایک ایک لمحے کے لیے، ایک ایک ساعت کے لیے۔
آگہی
آگہی
آگہی
ایک سوال
میں بھلا کون ہوں؟
کیا ہے میرا جواز؟
یاد رکھنا ہے کیا؟
بھول جانا ہے کیا؟
کون بتلائے گا؟
کس سے مانگوں جواب؟
دھندلی فکروں میں کھوئی رہوں کب تلک؟
پیچھے دیکھوں یا آگے میں بڑھتی رہوں؟
ہے کہاں روشنی؟
ہے کہاں روشنی؟
آگہی!
آگہی!
آگہی!
……………
صائقہ کی خوش قسمتی تھی، اسے طلاق نہیں ملی تھی۔ صرف یہ ہوا تھا کہ ظفر نے مصباح کی پیدائش کے دو ماہ کے بعد دوسری شادی کرلی تھی۔ صائقہ سے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ اپنے ماں باپ کے گھر ہی رہے اور اپنی بیٹیوں کو بھی اپنے پاس رکھے کیونکہ ظفر ایک وقت میں صرف ایک بیوی اور گھر کے اخراجات چلا سکتا تھا۔ اور وہ بیوی وہ اپنے گھر لاچکا تھا۔
صائقہ اب بیوی نہیں رہی تھی۔ وہ اب صرف چار بیٹیوں کی ماں تھی۔ چار بیٹیوں کی ماں بیوی تو کیا بعض دفعہ عورت بھی نہیں رہتی۔ صائقہ بھی عورت نہیں رہی تھی۔
اس پر صرف یہ عنایت کی گئی تھی کہ اسے طلاق نہیں دی گئی تھی۔ یہ ایسا احسان تھا جسے وہ ساری عمر نہیں اتار سکتی تھی۔
ظفر کی ”اعلا ظرفی” اور ”رحم” کی اس سے بڑی مثال اور ثبوت کوئی نہیں ہوسکتا تھا۔
عورت کو کھانے کے لیے خوراک، پہننے کے لیے لباس، سر پر چھت اور دوسری ضروریات کے لیے پیسوں کی ضرورت کہاں ہوتی ہے۔ اس کے لیے تو بس اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے نام کے ساتھ اس مرد کا نام منسلک رہے جس کو اس کا کفیل بنا دیا گیا ہے۔ صائقہ کو بھی بس یہی نعمت دے دی گئی تھی۔
چاروں بیٹیوں اور اپنے لیے کسی ”مقدر” کو اسے خود تلاش کرنا تھا اور یہ تلاش اسے کانٹوں کے جنگل میں لے جانے والی تھی۔ بھوک، بے عزتی، ذلت، طنز، خواری، وہ جانتی تھی اسے ہر چیز سے گزرنا ہے۔
اسے مصباح سے نفرت تھی۔ آخر چوتھی بیٹی سے نفرت کے علاوہ اور کیا کیا جاسکتا تھا۔
”کیا اس کے بجائے اللہ مجھے ایک بیٹا نہیں دے سکتا تھا۔ اور بیٹا نہ دیتا تو کم از کم اسے زندہ ہی نہ رکھتا… مجھے ایک اور موقع مل جاتا…” اس کا افسوس کسی طرح کم ہونے میں ہی نہیں آرہا تھا۔
٭٭٭
باقر شیرازی نے اس عورت کو پہلی بار اپنے ایک دوست کے گھر پر ہونے والی ایک تقریب میں رقص کرتے دیکھا… اور وہ اس سے نظریں نہیں ہٹا سکا۔
وہ عورت سرخ رنگ کی سلیویس نفیس سلک کی میکسی میں ملبوس تھی۔ جس پر سنہری رنگت کے ستارے لگے ہوئے تھے۔ اس کے جسم کے ساتھ چپکی ہوئی سرخ میکسی اگر اس کے جسم کے خطوط کو واضح کر رہی تھی تو دوسری طرف وہ وہاں موجود عورتوں اور مردوں کے حسد اور رشک کو بھی بڑھا رہی تھی۔
گہرے سرخ رنگ کی جھلملاتی ہوئی میکسی نے اس کی سرخ و سفید رنگت کو کچھ اور نمایاں کر دیا تھا۔ وہ اپنے گھنے سیاہ بالوں کا اونچا سا جوڑا بنائے ہوئے تھی اور اس کی صراحی دار گردن اور گردن کے گرد موجود سرخ نگینوں کا ایک نیکلس اس کے عریاں کندھوں اور بہت نمایاں کالربون کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہا تھا۔
وہ اس وقت ایک ادھیڑ عمر شخص کے ساتھ ڈانس کرنے میں مصروف تھی۔ وہ دونوں بڑی خوبصورتی سے ایک دوسرے کو تھامے ہوئے رقص کر رہے تھے اور ہر بار جب وہ رقص کرتے ہوئے چکر کاٹتی تو ڈانس فلور کو چھوتی ہوئی میکسی فضا میں گھومتے ہوئے کچھ بلند ہو جاتی اور اس کے پاؤں نظر آنے لگتے جن میں ایک بہت نازک مگر ہائی ہیل والا جوتا تھا۔ چند لمحوں کے اندر میکسی کا دامن ایک بار پھر ڈانس فلور پر تھرکتے اس کے قدموں کو چھپاتے ہوئے ڈانس فلور کو چھونے لگتا۔
وہ عورت اپنے ساتھ رقص کرتے ہوئے ادھیڑ عمر آدمی سے زیادہ دراز قامت تھی۔ اور خوبصورتی میں تو ان دونوں کا کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا۔ وہ شخص اگرچہ بہت مہنگے اور نفیس کپڑوں میں ملبوس تھا مگر وہ بہت ہی عام سی شخصیت کا مالک تھا۔
”پہلوئے حور میں لنگور…” باقر شیرازی اپنے ہاتھوں میں پکڑے گلاس سے سپ لیتے ہوئے بڑبڑایا۔
وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی وہاں آیا تھا اور وہاں آتے ہی اس کی نظر اس عورت پر پڑ گئی اور اب کوشش کے باوجود وہ کہیں اور دیکھنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا۔ اور ایسی کوشش کرنے والوں میں وہ اکیلا نہیں تھا وہاں موجود زیادہ تر مرد ایسی ہی کوشش میں مصروف تھے۔ ڈانس فلور پر محو رقص وہ عورت ماحول اور وہاں موجود لوگوں کے حواس پر مکمل طور پر چھائی ہوئی تھی۔ اور اس کرشمے کے باوجود وہ اپنے گرد و پیش سے خاصی بے نیاز سی ہو کر اپنے ساتھ محو رقص اس ادھیڑ عمر آدذمی سے باتوں میں مصروف تھی۔
باقر شیرازی کو اس ادھیڑ عمر آدمی کی قسمت پر رشک آیا پھر یک دم یہ رشک حسد میں تبدیل ہونے لگا۔ وہ عورت اب کسی بات پر ہنس رہی تھی اور ہنستے ہنستے اس نے بڑے التفات اور بے تکلفی کے عالم میں اس ادھیڑ عمر شخص کے گال کو چھوا۔
باقر شیرازی کو اپنے دل کی دھڑکن رکتی ہوئی محسوس ہوئی اسے حیرت ہوئی کہ اس عورت کے ساتھ ڈانس فلور پر رقص کرنے والا وہ شخص ابھی تک ہارٹ اٹیک کا شکار کیوں نہیں ہوا۔
”اگر یہ عورت میرے ساتھ اس طرح رقص کر رہی ہو اور اس طرح ہنسے تو میں… میں تو فوراً ہی دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا۔” وہ ایک بار پھر بڑبڑایا۔
اس کی نظریں اب بھی ان ہی دونوں پر جمی ہوئی تھیں۔ ڈانس فلور پر کچھ اور جوڑے بھی رقص میں مصروف تھے مگر اس کی طرح ہر کسی کی توجہ اسی عورت پر مرکوز تھی۔
”کم از کم پانچ فٹ آٹھ انچ…” اس نے دل ہی دل میں اس کے دراز قد کو سراہا۔ خوبصورتی کے ساتھ اس عورت میں وقار بھی تھا۔ باقر شیرازی نے اس کی عمر کا اندازہ لگانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ اسے اپنا ہر اندازہ غلط لگ رہا تھا۔
اسی وقت اس کا میزبان اس کے پاس آیا۔ باقر شیرازی اس عورت کو دیکھنے میں اس قدر محو تھا کہ اس نے شجاع کو اپنے قریب آتے نہیں دیکھا۔
شجاع نے باقر شیرازی کے قریب آتے ہی اس کی نظروں کا تعاقب کیا اور پھر ایک مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی۔ باقر شیرازی کی طرح وہ بھی ہاتھ میں ایک گلاس تھامے ہوئے تھا۔
باقر شیرازی کے انہماک کو توڑتے ہوئے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔ باقر شیرازی نے کچھ چونک کر شجاع کو دیکھا جو معنی خیز نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ کسی قسم کی شرمساری کا اظہار کیے بغیر باقر نے اس عورت کے بارے میں پوچھا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

Read Next

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!