”حیرت کی بات ہے کہ اتنا سوشل ہونے کے باوجود ابھی تک میرا اور اس کا سامنا کہیں ہوا نہیں۔” اس کا تعارف سننے کے بعد باقر شیرازی نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
”ہو سکتا ہے یہ اعزاز میرے گھر کو ہی حاصل ہونا ہو کہ آپ دونوں یہاں ایک دوسرے سے ملیں۔” شجاع نے کچھ شرارت آمیز لہجے میں کہا۔ باقر شیرازی نے اس کی بات کا جواب ایک مسکراہٹ سے دیا اور ایک بار پھر ہاتھ میں پکڑا مشروب پینے لگا۔
وہ وفاقی حکومت کا ایک اہم وزیر تھا اور ہر وزیر کی طرح اس کی سرگرمیوں اور تفریحات کی فہرست خاصی طویل تھی۔ اس کا تعلق سندھ سے تھا اور یکے بعد دیگرے وہ اب تک پانچ شادیاں کر چکا تھا، تین بیویوں کو وہ طلاق دے چکا تھا۔ جب کہ دو بیویاں ابھی بھی اس کے ساتھ تھیں۔ اپنی رنگین مزاجی کے حوالے سے وہ خاصی شہرت رکھتا تھا اور اسے اس شہرت پر کوئی شرمندگی نہیں تھی۔
وہ خود بھی خاصی متاثر کن شخصیت کا مالک تھا اور صنف نازک میں خاصا مقبول تھا۔ اس کی یہ مقبولیت بہت سے دوسرے لوگوں کو حسد میں مبتلا کر دیا کرتی تھی۔ اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ جو عورت کسی کو بھی گھاس نہ ڈالتی ہو۔ وہ بھی باقر شیرازی کے سحر سے بچ نہیں سکتی تھی۔ اسے کسی بھی عورت کو شیشے میں اتارنے میں چند منٹ لگتے تھے اور اس کی پانچ شادیاں اور دو موجودہ بیویاں بھی کسی ایسی عورت کو برگشتہ نہیں کر پاتی تھیں جس میں باقر شیرازی دلچسپی لے رہا ہو۔ اور اس کی واحد وجہ اس کا عہدہ اور دولت نہیں تھی اگرچہ یہ اس کا کام آسان کرنے میں اس کی خاصی مدد کرتے تھے۔
اس کے بارے میں ایک حیران کن بات یہ بھی تھی کہ جن تین عورتوں کو اس نے طلاق دی تھی یا جن عورتوں کے ساتھ وہ وقتی طور پر فلرٹ کرنے کے بعد انہیں چھوڑ دیتا، ان میں سے کبھی بھی کسی نے اس کے بارے میں پبلک میں یا پریس کے سامنے کوئی بات نہیں کی تھی۔ وہ خاموشی سے گوشۂ گمنامی میں چلی جاتیں یا پھر کچھ بھی کہنے سے صاف انکار کر دیتیں اور اگر کبھی کسی جرنلسٹ نے ان کو اکسا کر باقر شیرازی کے بارے میں کچھ کہنے پر مجبور کیا بھی تو وہ باقر شیرازی کی تعریف کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کہتی تھیں۔ اس وقت ان سے بات کرنے والا یہ اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہ کسی قسم کے دباؤ میں نہیں تھیں۔ وہ تعلقات یا رشتہ ختم ہونے کے بعد بھی باقر شیرازی کی محبت میں اسی طرح گرفتار تھیں جس طرح پہلے تھیں۔
ایک فلرٹ ہونے کے باوجود باقر شیرازی کا فلسفۂ اخلاقیات بہت عجیب تھا۔ وہ ان تمام عورتوں کی بہت عزت کرتا تھا جن سے اس کی شناسائی تھی اور جتنے عرصہ یہ شناسائی رہتی وہ انہیں ساتویں آسمان پر بٹھائے رکھتا پھر جب اس کی زندگی میں کوئی دوسری عورت آنے لگتی تو وہ بڑے مہذب انداز میں پہلی عورت سے علیحدگی اختیار کر لیتا۔ مگر اس سے کسی زمانے میں معمولی سی شناسائی رکھنے والی کوئی بھی عورت کبھی بھی اسے مدد کے لیے پکارتی، وہ کسی تاخیر کے بغیر اس کی مدد کرتا۔ چاہے یہ شناسائی چند گھنٹوں ہی کی کیوں نہ ہو۔
جن تین بیویوں کو وہ طلاق دے چکا تھا، ان میں سے دو دوسری شادی کرچکی تھیں۔ اور اس کے باوجود وہ ان تینوں سے رابطے میں رہتا تھا۔ نہ صرف اس کا ان سے رابطہ تھا بلکہ اس نے بہت بار اپنی ان دونوں بیویوں کے شوہروں کی ہر مشکل میں مدد کی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ابھی تک کسی عورت نے باقر شیرازی کے لیے کوئی مسئلہ کھڑا کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ کیونکہ کوئی عورت بھی باقر شیرازی سے الگ ہوتے ہوئے کسی ہتک یا توہین کے احساس سے دوچار نہیں ہوئی تھی۔
اور اس وقت سامنے اسٹیج پر رقص کرتی ہوئی خوبصورت عورت اس کی مرکز نگاہ تھی۔
”میں تعارف کرواتا ہوں آپ دونوں کا۔” شجاع نے یک دم ڈانس فلور کی طرف بڑھنے کی کوشش کی۔ باقر شیرازی نے بڑے پرسکون انداز میں ایک ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔
”ابھی نہیں… وہ عورت رقص سے محظوظ ہو رہی ہے۔ اسے محظوظ ہونے دو۔ میں اس کی تفریح ختم نہیں کرنا چاہتا۔ میں انتظار کرسکتا ہوں۔” شجاع خاموشی سے پیچھے ہٹ گیا۔
”آیئے پھر میں آپ کو کچھ اور لوگوں سے ملواتا ہوں۔ تب تک یہ دونوں ڈانس فلور سے نیچے اتر آئیں گے۔” شجاع نے اس سے کہا۔
باقر شیرازی نے پاس سے گزرتے ہوئے ویٹر کی ٹرے میں خالی گلاس رکھتے ہوئے کہا ”ہاں یہ ٹھیک ہے… تب تک وقت کو اسی طرح گزارنا چاہیے۔” وہ اس کے ساتھ کچھ فاصلے پر کھڑے لوگوں کے ایک گروپ کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔
٭٭٭
اگلے چند دن گھر میں کیا ہوتا رہا، وہ اندازہ نہیں کر سکی مگر گھر کی فضا میں تناؤ بڑھ چکا تھا۔ اس کی شادی شدہ بہنیں گھر آئی ہوئی تھیں۔ اور رات کو بابا کے کمرے میں ان لوگوں کا اجتماع ہوتا۔ وہ کیا طے کر ہے تھے یا کرنے کی کوشش کر رہے تھے، وہ نہیں جانتی۔ مگر یہ ضرور اندازہ لگا سکتی تھی کہ اس سارے بحث و مباحثے اور غور و فکر کا تعلق اسی کی ذات سے ہے اور شائستہ کو ان کی پریشانی کی رتی بھر پروا نہیں تھی۔
چند دن بعد ایک دن امی نے اسے بتایا کہ وہ اور اس کے بابا اس شام ہارون کے گھر جا رہے ہیں۔ اس کا دل بلیوں اچھلنے لگا۔ ناممکن ممکن ہو چکا تھا۔ وہ چند منٹ کے اندر اپنی ساری پریشانی بھول چکی تھی۔
اس کے والدین اس شام ہارون کے گھر گئے اور واپسی پر اسے یہ پتا چل گیا تھا کہ ہارون کے گھر والوں نے پرپوزل قبول کرلیا تھا۔ شائستہ نے سکون کا سانس لیا۔ وہ بے یقینی اور اضطراب کے اس بھنور سے باہر آچکی تھی جس نے پچھلے کچھ دنوں سے اسے اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا۔
اس رات ہارون نے اسے فون کیا اور پہلی بار شائستہ نے کسی خوف کے بغیر اس سے بات کی۔ وہ بے حد خوشگوار موڈ میں تھا اور اس سے معذرت کر رہا تھا۔ وہ معذرت نہ بھی کرتا، تب بھی شائستہ کے دل میں اس کے لیے کوئی بدگمانی نہیں تھی۔ وہ دونوں بہت دیر ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو میں مصروف رہے۔ پھر جب اس نے فون بند کیا تو امی نے اس سے کہا ”تم صرف پندرہ دن تک یہاں ہو، پندرہ دن کے بعد تم اس کے گھر چلی جاؤ گی۔ ان پندرہ دنوں میں اس گھر میں نئی روایات قائم کرنے کی کوشش مت کرو، جو کچھ تم پہلے کر چکی ہو وہی کافی ہے اب اور تماشا مت کرو، ہارون سے کہہ دو کہ اب پندرہ دن تک تمہیں فون نہ کرے۔ اگر اس نے کیا بھی تو فون بند کر دیا جائے گا۔ میں یا گھر کا کوئی دوسرا فرد تمہیں ا سے بات کرنے نہیں دے گا۔”
اس نے خاموشی کے ساتھ اپنی امی کی بات سنی اور مان لی، وہ جس قسم کی سرشاری میں مبتلا تھی، اس میں وہ کچھ بھی مان سکتی تھی۔
ٹھیک پندرہ دن کے بعد بڑی سادگی کے ساتھ ہارون کے ساتھ اس کی شادی ہوگئی۔ ہارون کے گھر والوں نے خاصی لمبی چوڑی تقریبات کا اہتمام کیا تھا۔ مگر شائستہ کے گھر والوں نے شادی کے علاوہ کسی تقریب کا اہتمام نہیں کیا اور شادی میں بھی انہوں نے بہت زیادہ لوگوں کو مدعو نہیں کیا۔
شائستہ کو اس بات کی زیادہ پروا نہیں تھی اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ اس گھر سے نجات پانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ وہ اس ماحول سے فرار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ وہ بدنامی کے اس بھنور سے خود کو بچانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ جو اسے اپنی لپیٹ میں لینے والا تھا۔
وہ ہارون کے ساتھ اس کے نئے گھر میں منتقل ہو گئی تھی۔ ہر چیز جیسے اپنے مدار میں آگئی تھی۔ ہر شے اتنی ہی خوبصورت تھی جتنی اس نے سوچا تھا ہارون کے لہجے میں اتنی ہی مٹھاس تھی جتنی پہلے تھی۔ اس کی آنکھوں میں اس کے لیے وہی محبت تھی جو پہلے تھی۔ اسے ہارون کے لیے وقتی طور پر ابھرنے والی بدگمانیوں پر ہنسی آنے لگتی۔
”ہارون یقینا بہترین انسان ہے۔” وہ سوچتی۔
٭٭٭
”اب آپ ان بچوں کو یہاں سے لے جاسکتی ہیں، یہ بالکل ٹھیک ہیں۔ تھوڑے بہت علاج کی ضرورت ہے انہیں، لیکن وہ آپ انہیں گھر پر رکھ کر بھی کروا سکتی ہیں۔” پندرہ دن بعد ڈاکٹر نے فاطمہ سے کہا اور وہ اسے حیرت سے دیکھنے لگی۔
”میں گھر پر… مگر آپ جانتے ہیں یہ میرے بچے نہیں ہیں۔” وہ ہکلائی۔
”تو پھر آپ انہیں کسی یتیم خانے کے حوالے کر دیں۔” ڈاکٹر نے بڑے پروفیشنل انداز میں کسی جذباتیت کے بغیر کہا۔
”چونکہ آپ ہی انہیں یہاں لے کر آئی تھیں اور آپ ہی روز ان کا حال احوال پوچھنے آرہی ہیں، اس لیے مجھے آپ کو ہی یہ سب بتانا تھا۔”
”یتیم خانے…؟” وہ کچھ الجھنے لگی۔
”یا آپ ایسا کریں کہ پولیس کو اطلاع کر دیں۔ وہ خود ہی انہیں اپنی کسٹڈی میں لے کر کہیں نہ کہیں بھجوا دیں گے۔” ڈاکٹر نے اس کی ہچکچاہٹ دیکھتے ہوئے اسے مشورہ دیا۔
وہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی پھر اس کے جانے کے بعد اس نے ایک بار پھر اپنی نظر ان بچوں پر مرکوز کرلی جو اب بالکل نارمل انداز میں آنکھیں کھولے حرکت کر رہے تھے۔ اس کے پاس کھڑا شہیر بھی اس کی طرح مسحور ہو کر ان دونوں بچوں کو دیکھنے میں مصروف تھا۔ ان دونوں بچوں کی حرکات فاطمہ سے زیادہ اس کے لیے دلچسپی کا باعث تھیں اور وہ روز بڑے شوق کے ساتھ وہاں آیا کرتا۔
وہاں کھڑے ہو کر انہیں دیکھتے ہوئے وہ توتلی زبان میں اس سے ان کے بارے میں بہت کچھ پوچھتا رہتا۔ واپس گھر آنے کے بعد بھی اس کے پاس واحد موضوع وہی دونوں بچے ہوتے۔ وہ بار بار کسی نہ کسی طرح ان کا ذکر کرتا رہتا اور یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا۔ وہ شہیر کی ان بچوں میں دلچسپی سمجھ سکتی تھی مگر وہ ان کے مستقبل کے بارے میں شش و پنج کا شکار تھی۔ شہیر کی طرح وہ بھی ان دونوں سے مانوس ہو چکی تھی مگر یہ انس اسے اب مشکل سے دوچار کر رہا تھا۔
”کیا میں انہیں یتیم خانے میں بھجوا دوں؟ کیا میں انہیں پولیس کے حوالے کر دوں…؟ کیا…؟ کیا میں… میں انہیں اپنے پاس رکھ لوں…؟ مگر میں انہیں اپنے پاس کیسے رکھ سکتی ہوں؟” میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے… تین بچوں کی پرورش میں کیسے کروں گی اور پھر اتنے چھوٹے بچوں کی پرورش… تو پھر مجھے انہیں یتیم خانے میں بھیج دینا چاہیے۔ مگر پھر پھر وہاں ان کا کیا ہوگا؟ وہ عجیب تذبذب کا شکار تھی۔
وہ بچے اب مسکرا رہے تھے۔ وقفے وقفے سے… کچھ نہ سمجھتے ہوئے۔ کچھ سمجھتے ہوئے۔ اس کے لیے فیصلہ مشکل کرتے ہوئے، اس کے لیے فیصلہ آسان کرتے ہوئے۔ اس کی انگلی کو اپنے ہاتھ کی گرفت میں لیے ہوئے… منہ سے آوازیں نکالتے ہوئے… پیر ہلاتے ہوئے… اپنی چمک دار آنکھوں سے وقتاً فوقتاً اسے گھورتے ہوئے، کیا مصیبت تھی… کیا آسانی تھی… شہیر مکمل طور پر مسحور تھا۔ وہ مکمل طور پر اضطراب کا شکار تھی۔
کیا کرنا چاہیے؟ کیا نہیں کرنا چاہیے، زندگی میں واقعی کچھ فیصلے نہ چاہنے کے باوجود کرنے پڑتے ہیں۔ سمجھ میں ہی نہیں آتا کب، کیوں اور کیسے ہم کسی فیصلے اور مسئلے کا حصہ بن جاتے ہیں۔ پھر پیر چاہے آگے رکھیں یا پیچھے دونوں صورتوں میں مکڑی کے جالے کا تار ہمارے ساتھ کھینچتا چلا آتا ہے۔ اس نے فیصلہ کرلیا تھا۔
”میں انہیں اپنے پاس رکھوں گی۔”
٭٭٭
”آپ بہت اچھا رقص کرتی ہیں۔” آدھے گھنٹے بعد شجاع نے اس عورت کے ڈانس فلور سے اترنے کے بعد باقرشیرازی کا اس سے تعارف کروایا۔
باقر شیرازی کو ایک لمبے عرصے کے بعد ایک عورت کے سامنے کھڑا ہوا بہت مشکل لگ رہا تھا۔ وہ دور ڈانس فلور پر جس قدر خوبصورت لگ رہی تھی۔ اب دو قدم کے فاصلے پر کھڑی اس سے کہیں زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔
شجاع تعارف کروا کر چلا گیا۔ باقر شیرازی نے ایک گہرا سانس لے کر اپنے حواس پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے اس سے کہا۔
”تھینک یو…” ا س نے بہت مختصر جواب دیا، ایک دم باقر شیرازی کو احساس ہوا کہ یہ عورت اپنے سحر اور صنف مخالف پر ہونے والے اس کے اثر سے بہت اچھی طرح واقف تھی۔
”اس سے زیادہ احمقانہ بات اور کوئی نہیں ہو سکتی اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ آپ بہت خوبصورت ہیں… یقینا اس سے آپ کی معلومات میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا؟” وہ عورت قدرے حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔
”میں آپ سے صرف یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ آپ ایسی تقریبات میں شرکت نہ کیا کریں، جہاں میرے جیسے کمزور دل اور اعصاب کے اشخاص موجود ہوں۔” باقر شیرازی نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
اس عورت نے غور سے باقر شیرازی کو دیکھا اور پھر یک دم کھلکھلا کر ہنسی، یقینا وہ اس کی بات سے محظوظ ہوئی تھی۔
باقر شیرازی نے ایک گہرا سانس لیا۔ ”آپ اس طرح ہنسیں گی تو زندگی کچھ اور مشکل بنا دیں گی۔ میرے جیسے لوگوں کے لیے۔” اس کی مسکراہٹ اور گہری ہوگئی۔
”باقر شیرازی صاحب…” اس عورت نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر باقر نے اس کی بات کاٹ دی۔
”باقر شیرازی صاحب…؟ آپ مجھے صرف باقر کہہ سکتی ہیں۔”
”اوکے… باقر…! آپ کمزور دل کے مالک ہیں نہ کمزور اعصاب کے، کوئی منسٹر ان دو خصوصیات کے ساتھ اس منسٹری کو اتنے اچھے طریقے سے نہیں چلا سکتا جیسے آپ چلا رہے ہیں۔”
”منسٹری سنبھالنا اور بات ہے کسی خوبصورت عورت کا سامنا کرنا اور بات… یقین جانیے دوسرا کام زیادہ مشکل ہے۔” باقر شیرازی کی سنجیدگی میں کوئی کمی نہیں آئی۔
”پہلی بار کسی خوبصورت عورت کا سامنا کر رہے ہیں؟” اس نے ایک گہری اور تیکھی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”نہیں آخری مرتبہ… میں نہیں سمجھتا، میں زیادہ دیر تک یہاں اس طرح کھڑا زندہ رہ پاؤں گا۔” وہ ایک بار پھر کھلکھلائی۔ باقر شیرازی میں اچانک اسے دلچسپی محسوس ہونے لگی۔
”آپ جیسا نامور بندہ اتنے کمزور اعصاب کا مالک تو نہیں ہو سکتا کہ ایک خوبصورت عورت کا سامنا نہ کرسکے۔” اس نے کچھ محظوظ ہوتے ہوئے پوچھا۔
”ہم تو صرف نام کے نامور ہیں، اصل کمال تو آپ میں ہے۔” وہ اسے بہت غور سے دیکھنے لگی۔
”اب میں آپ سے یہ نہیں پوچھوں گی کہ مجھ میں کیا کمال ہے۔”
”آپ اگر یہ سوال کرتیں تو میں مایوس ہوتا۔” باقر شیرازی نے اسی برق رفتاری سے کہا۔
”خاصے دلچسپ آدمی ہیں آپ…”
”صرف دلچسپ…؟”
”آپ کا کیا خیال ہے، مجھے کیا کہنا چاہیے تھا؟”
”ایک کام میں زندگی میں کبھی نہیں کرتا۔”
”وہ کیا…؟”
”میں خوبصورت عورت کو مشورہ کبھی نہیں دیتا۔” وہ کچھ دیر اسے حیرت سے دیکھتی رہی اور پھر ہنس پڑی۔
”خاصے ذہین آدمی بھی ہیں آپ…”
”یہ میری واحد خوبی نہیں ہے۔”
”اچھا اس کے علاوہ اور کیا خوبیاں ہیں آپ میں؟”
”بہتر ہے، آپ خود دریافت کریں۔”
”اس کام کے لیے تو آپ کے ساتھ خاصا وقت گزارنا پڑے گا۔”
”میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ تھوڑے وقت میں ہی آپ یہ کام کرلیں گی، اور آپ کا وقت ضائع بھی نہیں ہوگا۔”
”میں حیران ہوں، سیاست دان ذہین کب سے ہونے لگے ہیں؟”
”خوبصورت عورت کو دیکھ کر کوئی بھی ذہین ہو سکتا ہے۔”
”خوبصورت عورت کو دیکھ کر یا صرف مجھے دیکھ کر۔”
”مشکل سوال ہے۔”
”ذہین آدمی کے لیے کوئی سوال مشکل نہیں ہوتا۔” اس نے برجستہ کہا۔ باقر شیرازی نے بے اختیار اپنی کان کی لو کو چھوا۔ سامنے موجود عورت بلا کی حاضر جواب تھی۔
”آپ کے منہ سے ہر سوال مشکل لگتا ہے۔”
”میرے منہ سے یا ہر خوبصورت عورت کے منہ سے۔” اس نے کہا اور اس بار دونوں بے اختیار ہنسے۔
”آپ سے مل کر خاصی خوشی ہو رہی ہے مجھے۔”
”مگر مجھے آپ کو دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے۔” باقر شیرازی نے روانی سے کہا۔ وہ ایک بار پھر ہنسی۔
”کیا میں آپ کو کل رات ڈنر کی دعوت دے سکتا ہوں؟” باقر شیرازی نے بے اختیار پوچھا۔
”نہیں۔”
”کیوں…؟”
”میں کل رات کی فلائٹ سے امریکہ جا رہی ہوں۔”
”اوہ…” باقر شیرازی کو مایوسی ہوئی۔
”امریکہ میں کہاں ٹھہریں گی آپ؟” اس نے اپنا ایڈریس دہرایا۔
”اور وہاں سے واپس کب آئیں گی؟” وہ کچھ سوچ میں پڑ گئی۔
”واپس آئیں گی بھی یا نہیں؟” باقر نے کچھ مسکرا کر کہا۔
”آؤں گی… آنا ہی پڑے گا۔” وہ زیر لب بڑبڑائی۔ باقر شیرازی نے یک دم اس کے چہرے پر کچھ اضطراب دیکھا۔
”اب مجھے واپس جانا ہے۔” اس نے باقر کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اس کے چہرے پر اب بہت مصنوعی سی مسکراہٹ تھی۔
باقر نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ ”مجھے آپ سے مل کر بے حد خوشی ہوئی شائستہ کمال۔”
”مجھے بھی…” شائستہ کمال نے کہا اور پھر مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔
٭٭٭