تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

”میرا دماغ بالکل ٹھیک ہے۔”
”کبھی لڑکی والے لڑکے والوں کے گھر اس طرح پرپوزل لے کر جاتے ہیں۔”
”مجھے اس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔”
”تم ان کے ہاتھوں کا ہتھیار بن چکی ہو۔”
”میں کسی کے ہاتھوں کا ہتھیار نہیں بنی، میں وہی کہہ رہی ہوں جو صحیح ہے، اگر وہ اتنی بار ہمارے یہاں آسکتے ہیں تو آپ بھی وہاں جاسکتے ہیں۔”
”ہم وہاں تمہارا پرپوزل لے کر جائیں اور وہ کہیں کہ اب انہیں ہمارا پرپوزل قبول نہیں ہے تو کیا عزت رہ جائے گی ہماری۔”
”ایسا نہیں ہوگا۔”
”ایسا کیوں نہیں ہوگا؟”
”ہارون نے مجھے یقین دلایا ہے کہ آپ لوگ پرپوزل لے کر جائیں گے تو وہ پرپوزل قبول کرلیں گے۔”
”تمہیں ہارون پر یقین ہوگا، مجھے نہیں ہے۔ وہ اتنا قابل اعتماد ہوتا تو تم سے یہ مطالبہ نہ کرتا۔”
”یہ مطالبہ اس نے نہیں کیا، اس کے والدین نے کیا ہے۔”
”وہ اپنے والدین کو سمجھا سکتا ہے۔ انہیں مجبور کرسکتا ہے۔”




”کیا میں آپ کو سمجھا سکتی ہوں۔ آپ کو مجبور کرسکتی ہوں؟ اگر یہ کام میں نہیں کرسکتی تو وہ کیسے کرسکتا ہے؟”
”تم نے مجبور تو کیا ہے ہمیں، تمہاری منگنی کا توڑا جانا اور ہارون کے پرپوزل پر اعتراض نہ کرنا، کیا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ ہم تمہاری وجہ سے مجبور ہوئے ہیں۔ پھر ہارون اپنے ماں باپ کو یہاں آنے پر مجبور کیوں نہیں کرسکتا۔ تم لڑکی ہو کہ یہ سب کرسکتی ہو تو وہ مرد ہو کر یہ سب کیوں نہیں کرسکتا۔”
”وہ مجبور ہے، اس کے ماں باپ اس کی بات نہیں مان رہے۔”
”پھر ایسے مجبور مرد سے شادی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ابھی بھی ہم تمہارے لیے ہارون سے بہتر شخص تلاش کرسکتے ہیں۔”
”میرے لیے اب کوئی شخص بھی ہارون سے بہتر نہیں ہوسکتا۔ نہ ہی میں اس کے علاوہ کسی دوسرے سے شادی کروں گی۔”
”ٹھیک ہے تو پھر اس سے کہو، وہ اپنے ماں باپ کو بھیجے۔”
”اس کے ماں باپ یہاں آنے پر رضامند…” اس کی امی نے تلخی سے اس کی بات کاٹ دی۔
”اس کے ماں باپ یہاں آنے پر رضامند ہیں یا نہیں بہرحال ہم وہاں نہیں جائیں گے۔ میں کس منہ سے تمہارے باپ سے یہ بات کہوں گی کہ وہ اپنی بیٹی کا رشتہ لے کر خود اس بھائی کے گھر جائیں، جسے وہ ساری عمر ناپسند کرتے رہے ہیں۔ اور خود میں کیسے تمہاری تائی کا سامنا کروں گی، جو پہلے ہی مجھے میری اولاد کی تربیت کے حوالے سے طعنے دے چکی ہے۔”
”آپ کو میری پروا نہیں ہے… نہ میری زندگی کی… نہ میری خوشی کی… آپ کو صرف اپنی عزت کی پڑی ہوئی ہے۔” وہ ان کی بات پر بری طرح جھنجھلائی۔
”میری بدقسمتی یہ ہے کہ میں تمہاری ماں ہوں، چاہوں بھی تو اس رشتے سے انکار نہیں کرسکتی اور نہ ہی لوگ اس رشتے کو فراموش کریں گے، کیچڑ میں پڑنے والا تمہارا ہر قدم چھینٹوں کو میرے دامن تک لے کر آئے گا۔ میں بچنے کی کوشش کروں بھی تب بھی نہیں بچ پاؤں گی۔ یہ سب چیزیں تم تب سمجھو گی جب تم خود ماں بنو گی اور اپنے جیسی کسی اولاد کا سامنا کرو گی۔”
”میں اپنی اولاد کی زندگی آپ کی طرح کبھی جہنم نہیں بناؤں گی۔ میں انہیں اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش نہیں کروں گی۔ میں انہیں حق دوں گی کہ وہ جہاں چاہیں شادی کرلیں۔ میں آپ کی طرح ان کی گردنوں میں اپنی پسند یا ناپسند کا طوق نہیں ڈالوں گی۔”
اس کی امی اس کا منہ دیکھ کر رہ گئیں۔ شائستہ کے لہجے میں کہیں بھی انہیں اپنے لیے اپنائیت یا شناسائی کا کوئی جھلک نظر نہیں آرہی تھی۔ وہ مکمل طور پر ان سے بدگمان ہو چکی تھی۔
اس کی امی کچھ دیر تک خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہیں پھر کچھ کہے بغیر اٹھ کر اس کے کمرے سے چلی گئیں۔
٭٭٭
اگلے تین دن وہ دونوں بچے اسی ہاسپٹل کے انکیوبیٹر میں رہے۔ فاطمہ اسکول سے فارغ ہو کر ان کے پاس چلی جاتی۔ شہیر بھی اس کے ساتھ ہوتا وہ کچھ دیر وہاں گزارتی پھر واپس آجاتی۔ اپنے پاس موجود رقم میں سے وہ ہاسپٹل کے بل ادا کر رہی تھی۔
پولیس کے چند لوگوں نے بس اسی رات ہاسپٹل میں آکر ان بچوں کے بارے میں کچھ پوچھ گچھ کی جس رات وہ انہیں وہاں لے کر آئی تھی۔ ”کسی” نامعلوم عورت کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے بعد وہ وہاں سے رخصت ہوگئے تھے۔
”جب یہ ٹھیک ہو جائیں تو دوبارہ ہم سے رابطہ قائم کریں۔” فاطمہ سے خاصی لمبی چوڑی گفتگو کے بعد انہوں نے اسے ہدایت کی، وہ سر ہلا کر رہ گئی۔
وہ ان بچوں کے پاس کچھ گھنٹے گزارنے کے بعد جب گھر آتی تو بھی اس کا ذہن ان ہی میں اٹکا ہوا ہوتا۔ محلے میں سے اب اور کوئی ان بچوں کے پاس ہاسپٹل نہیں جاتا تھا۔ مگر محلے کی عورتوں کا تجسس ختم نہیں ہوا تھا۔
فاطمہ کے گھر واپس آنے کے بعد یکے بعد دیگرے عورتیں مزید معلومات کے لیے اس کے پاس آتی رہتیں۔
”ابھی زندہ ہیں؟” وہ مایوسی سے کہتی ہوئی چلی جاتیں۔
فاطمہ حیرت سے انہیں جاتا ہوا دیکھتی رہتی، اسے اندازہ نہیں تھا کہ ان دونوں بچوں کا ”ابھی تک” زندہ رہنا دوسرے لوگوں کے لیے کتنا شاکنگ تھا۔ وہ خود بھی ان کی زندگی کی خواہش مند نہیں تھی لیکن اس نے ان کے لیے موت کی دعا بھی نہیں کی تھی۔
(اس نے اپنے علاوہ زندگی میں کبھی کسی کے لیے موت کی دعا نہیں کی تھی اپنی تمام بدمزاجی کے باوجود)
دوسروں سے بھی صرف یہی چاہتی تھی کہ اگر کوئی ان کے لیے زندگی کی دعا نہیں کر رہا تو موت کی دعا بھی نہ کرے۔ ان کی زندگی یا موت کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ دیا جائے۔
عورتوں کی بہت سی باتیں اسے ناگوار لگتی تھیں، بعض باتیں اسے حیران کرتی تھیں تو بعض بیزار… اور بعض سے اسے گھن آتی تھی۔ اس کے باوجود وہ بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ ان سب کو برداشت کر رہی تھی۔ اسے ساری عمر اب اسی محلے میں ان ہی لوگوں کے ساتھ رہنا تھا اور وہ وہاں ایک نارمل زندگی گزارنا چاہتی تھی، پہلے جیسی زندگی گزارنا نہیں چاہتی تھی۔ زندگی میں بعض ٹھوکریں انسان کو گرنا نہیں کھڑا ہونا سکھاتی ہیں اور وہ بھی اب زندگی میں ایسی ہی ٹھوکروں کا سامنا کر رہی تھی۔
ربیعہ مراد سے ملاقات نے جس عمل کا آغاز کیا تھا، وہ آہستہ آہستہ سہی مگر اس کے اندر بہت سی تبدیلیاں لا رہا تھا اور تبدیلیوں کا یہ سلسلہ ربیعہ مراد کے جانے کے بعد بھی ختم نہیں ہوا۔ ان دو بچوں کا واقعہ اور اس کے بعد محلے کی باقی عورتوں کے ساتھ ہونے والے میل جول نے اسے زندگی کے ایسے پہلوؤں سے روشناس کروانا شروع کیا تھا جن سے وہ پہلے واقف نہیں تھی۔
٭٭٭
صبیحہ کا ہاتھ اب فضا میں بلند ہو چکا تھا اس نے بے اختیار میز پر رکھے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا لیے۔ صبیحہ کا ہاتھ پوری طاقت سے نیچے آیا اور پھر اس نے بڑے پرسکون انداز میں وہ ٹوٹا ہوا جام ٹیبل پر رکھ دیا۔
”یہ ہے مرد کی محبت، اور اس کی حقیقت۔” وہ سرخ چہرے کے ساتھ اسے دیکھتا رہا، خفت اور شرمندگی کے علاوہ وہ اس وقت کچھ بھی محسوس نہیں کر رہا تھا۔
صبیحہ ایک بار پھر اپنی لپ اسٹک ٹھیک کر رہی تھی، اس کے چہرے پر کمال کا اطمینان تھا۔ وہ کن اکھیوں سے کچھ دیر آس پاس کی ٹیبلز پر بیٹھے لوگوں کو دیکھتا رہا شاید وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ کوئی ان کی طرف متوجہ تو نہیں تھا۔ یہ دیکھ کر وہ قدرے پرسکون ہوگیا کہ اردگرد کی ٹیبلز پر بیٹھے لوگوں میں سے کوئی بھی ان کی طرف متوجہ نہیں تھا۔
”تم پاگل ہو…” اس نے بالآخر اپنی خفت مٹانے کے لیے کہا۔ صبیحہ نے لپ اسٹک لگاتے ہوئے ایک ثانیے کے لیے اپنا ہاتھ روکا۔
”پہلے میں صرف خوبصورت تھی۔ اب بقول تمہارے پاگل بھی ہوں۔ عورت اگر خوبصورت ہونے کے ساتھ پاگل بھی ہو تو اس سے محبت نہیں عشق ہو جاتا ہے۔ تم متفق ہو میری اس بات سے۔”
وہ جواب دینے کے بجائے صرف اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ اس کے ہونٹوں پر رقصاں مسکراہٹ قاتل تھی۔ قاتل مسکراہٹ کس کو کہتے تھے، وہ اس شام صبیحہ کادوانی کے چہرے کو دیکھ کر جانا تھا۔
”کس نے کہا ہے یہ تم سے؟” صبیحہ کی بات کا جواب دینے کے بجائے اس نے الٹا اس سے سوال کیا۔
”جدون نے…” صبیحہ نے اپنے شوہر کا نام لیا وہ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر اس نے ایک گہرا سانس لیا۔
”ٹھیک کہا اس نے۔” وہ اب اپنے جام میں پڑے مشروب کا گھونٹ لے رہا تھا۔ چہرے کے تاثرات کو چھپانے کے لیے اسے اس وقت اس سے بہتر کام اور کوئی نظر نہیں آیا تھا اور سامنے بیٹھی ہوئی عورت اس کی حالت سے محظوظ ہو رہی تھی۔
وہ اب ایک بار پھر اپنے ہونٹوں پر لپ اسٹک کی ایک اور تہہ چڑھانے میں مصروف تھی یا کم از کم مصروف نظر آنے کی کوشش ضرور کر رہی تھی۔
”مرد کی محبت کو پرکھنے کا یہ ایک انتہائی بے ہودہ طریقہ ہے۔” اس نے ہاتھ میں پکڑا جام ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں بے ہودہ ہے مگر اس سے زیادہ اچھا طریقہ اور کوئی نہیں۔” وہ لپ اسٹک بند کرتے ہوئے بولی۔
”جدون کی محبت کو بھی کیا اسی طرح پرکھا تھا تم نے… اس سے شادی کرتے ہوئے۔” اس کے لہجے میں اس بار لاشعوری طور پر کچھ تلخی اور طنز تھا۔
”نہیں…” صبیحہ کا اطمینان ہنوز قائم تھا۔ ”اس کی محبت کو پرکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔”
”کیونکہ…؟”
”کیونکہ اس نے کبھی مجھ سے محبت کا دعویٰ ہی نہیں کیا۔” سامنے بیٹھی ہوئی عورت خود عقل سے پیدل تھی یا اسے عقل سے پیدل کر دینا چاہتی تھی۔ وہ اندازہ نہیں کرسکا۔
”اسے محبت نہیں ہے تم سے؟”
”نہیں…” جس روانی سے پوچھا گیا، اسی برق رفتاری سے جواب آیا۔
”پھر تمہیں محبت ہوگی اس سے؟”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

Read Next

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!