تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

وہ ظفر کے گھر میں ہوتی تو شاید کسی دوسرے مرد کی ایسی کسی ”عنایت” پر ”طیش” میں آجاتی۔ شاید خود پر پڑنے والی ایسی کوئی ”نظر” اس کے چہرے کا رنگ سرخ کر دیتی… شاید اپنے ساتھ گفتگو کی کوشش کرنے والے پر وہ غراتی بھی…
مگر اب اپنے اور اپنے بچوں کا جسم چھپانے اور پیٹ بھرنے کے لیے وہ جس رزق اور لباس کی تلاش میں اپنے گھر سے باہر نکلی تھی اس نے اسے ایسی کسی بھی نظر سے بے پروا کر دیا تھا۔ اس نے بہت عرصہ ہوا چہرے کا رنگ سرخ کرنا چھوڑ دیا تھا۔ تین وقت کے کھانے نے اس کے اشتعال کو سمندر کا جھاگ بنا دیا تھا۔ اس کی ساری غراہٹیں بھی گونگی ہو گئی تھیں۔
اعظم اس سے کچھ فاصلے پر اسی سبز کی دکان کی طرف آرہا تھا۔
”تم سبزی لینے آئی ہو؟” اس نے رسمی سلام دعا کے بعد صاعقہ سے پوچھا۔ اس سے پہلے کہ صاعقہ کچھ کہتی اس کی نظر اس کے ساتھ موجود چھ سالہ رخشندہ پر پڑی۔
”یہ کون ہے؟” اعظم نے پوچھا۔
”میری بیٹی ہے۔”
”بڑی پیاری بچی ہے۔” اعظم نے رخشندہ کا گال تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
صاعقہ نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلا دیا۔




اعظم خود بھی سبزی خریدنے کے لیے ہی وہاں آیا تھا۔ صاعقہ کے انکار کرنے کے باوجود اس نے اپنی سبزی کے ساتھ اس کی خریدی ہوئی سبزی کی قیمت بھی ادا کر دی اور زبردستی کچھ پھل بھی خرید کر اسے تھما دیئے۔
صاعقہ جب وہاں سے چلنے لگی تو وہ بھی اس کے ساتھ چلنے لگا۔
”تمہارا گھر یہاں کہیں پاس ہی ہے؟”
”ہاں۔” صاعقہ اسے اپنے گھر کا محل وقوع بتانے لگی۔
اعظم نے اس کے گھر کا ایڈریس جاننے کے بعد اسے اپنے گھر کا ایڈریس بتایا۔
وہ دونوں ساتھ چلتے ہوئے ابھی یہ گفتگو کر ہی رہے تھے جب صاعقہ نے اچانک سامنے سے ظفر کو آتے دیکھا۔ وہ تیز قدموں کے ساتھ ان ہی دونوں کی طرف آرہا تھا۔
صاعقہ اچانک ٹھٹھک کر رک گئی۔ ظفر کے چہرے کے تاثرات نے اسے خوفزدہ کر دیا تھا۔
”کیا ہوا، تم رک کیوں گئی ہو؟” اعظم نے اچانک پوچھا۔ اسے اگلی سڑک سے اپنے گھر کی طرف مڑنا تھا۔
صاعقہ کے چپ رہنے پر اس نے صاعقہ کی نظر کا تعاقب کیا اور ظفر کو دیکھ لیا جو اب چند قدموں کے فاصلے پر تھا۔ ظفر کے چہرے پر موجود تاثرات نے یقینا اسے بھی چونکا دیا تھا اور وہ یہ جان گیا تھا کہ وہ صاعقہ سے کوئی نہ کوئی رشتہ ضرور رکھتا ہے۔
ظفر نے قریب آتے ہی صاعقہ کے منہ پر زوردار تھپڑ مارا۔ اعظم اگر اس کی اس حرکت پر ہکا بکا رہ گیا تھا تو صاعقہ جیسے زمین میں گڑ گئی تھی۔ آس پاس چلتے ہوئے لوگ رک رک کر انہیں دیکھنے لگے۔
”تمہیں ماں باپ کے گھر اس لیے بھجوایا ہے کہ تم یہاں رنگ رلیاں مناتی پھرو؟”
ظفر نے حلق کے بل پوری آواز سے چلاتے ہوئے کہا۔ اپنے گال پر ہاتھ رکھے صاعقہ فق چہرے کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی جبکہ رخشندہ خوف کے عالم میں ماں کی ٹانگوں کے ساتھ چپک گئی تھی۔ باپ ان سب بہنوں کے لیے ہمیشہ ہی ایک جلاد رہا تھا… اور اب ایک بار پھر…
”دیکھیں بھائی صاحب! آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔”
اعظم نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے اچانک بیچ بچاؤ کروانے کی کوشش کی۔ ظفر نے اسے بات پوری کرنے نہیں دی۔ پان کی پیک کو سڑک پر تھوکتے ہوئے اس نے اعظم اور صاعقہ دونوں کو گالیاں دینا شروع کر دیں۔ ان کے اردگرد لوگوں کا مجمع بڑھنے لگا۔
اس کی گالیوں نے اعظم کو بھی مشتعل کر دیا۔ اس نے بھی جواب میں ویسی ہی زبان کا استعمال کرنا شروع کر دیا۔ صاعقہ کی جیسے جان پر بن آئی۔ اس نے ظفر کے سامنے وضاحتیں اور صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔ مگر ظفر نے اس کے چہرے پر دو اور تھپڑ مارے اور پھر اسے بازو سے پکڑ کر تقریباً گھسیٹتے ہوئے اس کی گلی میں لے آیا۔ اس کے پیچھے اس ”بلا ٹکٹ تماشے” سے محظوظ ہونے والے لوگوں کا ہجوم تھا۔
”غیرت مند” شوہر نے اپنی آوارہ بیوی کو اس کے ”آشنا” کے ساتھ ”رنگے ہاتھوں” پکڑ لیا تھا اور معاشرے کے جس طبقے سے وہ تعلق رکھتے تھے وہاں مرد کو اس کے علاوہ کسی بھی بات یا چیز پر غیرت نہیں آتی تھی۔ یہ کسی ایک فرد کی نہیں پورے طبقے کی غیرت کا مسئلہ تھا۔
صاعقہ اب رونے لگی تھی۔ تکلیف سے زیادہ یہ پورے محلے کے سامنے بے عزتی کا احساس تھا جس سے اسے شدید اذیت ہو رہی تھی۔ ماں کو روتے اور باپ کو اس طرح چیختے چلاتے دیکھ کر رخشندہ بھی رو رہی تھی وہ صاعقہ کی قمیض کا دامن پکڑے اس کے ساتھ گھسٹ رہی تھی۔
صاعقہ کے گھر پہنچنے تک اس کے گھر والوں تک اس پورے واقعے کی اطلاع پہنچ چکی تھی اور وہ بھی گلی میں نکل آئے تھے۔
ظفر نے صاعقہ کے گھر کے سامنے جا کر اسے دور دھکیل دیا۔ وہ اپنے گھر کی دہلیز پر گری۔ ظفر اب صاعقہ کے تمام گھر والوں کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ صاعقہ کی دونوں چھوٹی بیٹیاں بھی خوف کے عالم میں ماں اور باپ کے ساتھ ساتھ وہاں کھڑے پورے ہجوم کو دیکھ رہی تھیں۔
صاعقہ اٹھ کر روتی ہوئی گھر کے اندر داخل ہوگئی۔
”اس عورت کو اپنے گھر میں بسانے کے لیے مجبور کر رہے ہو تم لوگ۔” ظفر بلند آواز میں صاعقہ کی ماں پر چلا رہا تھا جس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔
”بیٹا! اندر آکر بات کرو… آخر ہوا کیا ہے، تم اندر آکر آرام سے بتاؤ۔”
”میں لعنت بھیجتا ہوں اس گھر پر اور اندر آنے پر۔” ظفر نے کمر پر ہاتھ رکھے اسی طرح دھاڑتے ہوئے کہا۔
ظفر کی دوسری بیٹی روتے ہوئے دہلیز کے باہر گرے ہوئے لفافوں میں سبزی اور پھل ڈالنے میں مصروف تھی جو باہر بکھرے ہوئے تھے۔
”ظفر بھائی! آپ اندر آئیں۔ اس طرح گلی میں شور کرنے کا کیا فائدہ ہے۔”
صاعقہ کا چھوٹا بھائی اسے کھینچتے ہوئے گھر کے اندر لے آیا۔ باقی گھر والے بھی اندر آگئے اور انہوں نے بیرونی دروازہ بند کر دیا۔
”تمہاری بیٹی کی ان ہی حرکتوں کی وجہ سے میں نے اسے اپنے گھر سے نکال دیا ہے مگر یہاں آکر بھی اس نے اپنی حرکتیں نہیں چھوڑیں۔” ظفر نے اندر آتے ہی کہا۔
”آخر ہوا کیا ہے جو تم اس طرح شور مچا رہے ہو؟” اس بار صاعقہ کے باپ نے تنگ آکر کہا۔
ظفر نے پورے واقعے کو مرچ مسالہ کے ساتھ ان سب کے سامنے پیش کر دیا۔ صاعقہ کی وضاحتیں، صفائیاں اس کے کسی کام نہیں آئیں… باپ اور بھائیوں کی نظروں میں اس کے لیے اچانک ہی تحقیر، تذلیل، ہتک، شک اور پتا نہیں کیا کیا جھلکنے لگا تھا۔
ظفر آدھ گھنٹہ وہاں رک کر اسی طرح بکتے جھکتے وہاں سے یہ کہتے ہوئے نکل گیا کہ وہ صاعقہ کو جلد ہی طلاق بھجوا دے گا… اس کے جانے کے بعد صاعقہ کو نئے سرے سے سب کی لعنت و ملامت کا سامنا کرنا پڑا۔
پہلے برا بھلا کہنے والا اگر شوہر تھا تو اب یہ فریضہ اس کے باپ اور بھائیوں نے سنبھال لیا تھا۔ جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام اس کی بھابھی انجام دے رہی تھی۔
اس رات اس نے کھانا کھایا نہ اس کی بچیوں نے… وہ ساری رات روتی رہی۔
اگلے دو ہفتے وہ گھر میں بند رہی اور ان دو ہفتوں نے اس کی زندگی کا ضابطہ اخلاق بدل دیا تھا۔ اس تبدیلی کا احساس اس کے علاوہ کسی کو نہیں ہوا تھا۔
گھر والے کب تک اسے گھر میں بٹھا کر کھلا سکتے تھے۔ دو ہفتوں کے بعد اس نے باپ اور بھائیوں کے سامنے اپنے اس ”گناہِ عظیم” کی معافی مانگی اور کام پر جانے کی التجا کی۔
”میں برقع پہن کر کام پر جایا کروں گی۔ کوئی سڑک پر میرا چہرہ تک نہیں دیکھ سکے گا۔ آپ کو مجھ سے دوبارہ کبھی شکایت نہیں ہوگی۔ میں کسی مرد کو دیکھوں گی بھی نہیں…”
اسے یاد تھا، اس نے انہیں کون کون سی یقین دہانیاں کروائی تھیں… کیا کیا وعدہ کیا وعدے کیے تھے۔
اس کے باپ اور بھائیوں کو اس پر اعتبار آیا یا نہیں۔ انہوں نے اسے کام پر جانے کی اجازت دے دی۔ وہ اس کے اخراجات پورے نہیں کرسکتے تھے۔ نہ اس کے… نہ اس کے بچوں کے… مرد کی غیرت کی بھی کچھ حدود و قیود ہوتی ہیں، خاص طور پر اس کے طبقے کے مردوں کی غیرت کی…
صاعقہ کسی سے کیا جانے والا وعدہ کبھی نہیں توڑتی تھی۔ دو ہفتوں کے دوران پہلی بار اس نے کچھ وعدے اپنے ساتھ بھی کیے اور اس نے پھر ساری زندگی ان وعدوں کو نبھایا۔ نہ صرف ان وعدوں کو بلکہ ان تمام وعدوں کو جو اس نے اپنے باپ اور بھائیوں کے ساتھ کیے تھے۔
”میں ہمیشہ برقع پہن کر کام پر جاؤں گی۔”
وہ ہمیشہ برقع پہن کر ”اپنے کام” پر جاتی رہی۔
”کوئی سڑک پر میرا چہرہ نہیں دیکھے گا۔”
”سڑک” پر اس نے کبھی کسی کو اپنا ”چہرہ” نہیں دکھایا۔
”میں کبھی کسی مرد کو دیکھوں گی بھی نہیں۔”
اس نے اس وعدے کو بھی حرف بہ حرف نبھایا اس نے مردوں کو ”دیکھنا” چھوڑ دیا۔ اس نے ان سے ”ملنا” شروع کر دیا۔
”آپ کو مجھ سے کبھی دوبارہ شکایت نہیں ہوگی۔” یہ اس کا آخری وعدہ تھا۔
اس نے اس وعدہ کو بھی نبھایا۔
دو ماہ کے بعد وہ اپنی بچیوں سمیت کرائے کے ایک مکان میں منتقل ہو گئی تھی۔ وہ اب موم بتیوں کے اس کارخانے میں عورتوں کے حصے کی سپروائزر تھی۔
ظفر نے اسے طلاق نہیں بھجوائی۔ اپنے گھر والوں کے ساتھ اس کے تعلقات بہت اچھے ہوگئے تھے۔ پہلے گھر والے اس کی مالی امداد کیا کرتے تھے۔ اب وہ گھر والوں کی مالی امداد کرتی تھی۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

Read Next

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!