صبیحہ کا دوانی کے ساتھ یہ اس کی آٹھویں ملاقات تھی، جس میں اس نے اس سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ ردعمل کم از کم اس کے لیے انتہائی حیران کن تھا۔ وہ اس کے جملے پر کھلکھلا کر ہنس پڑی اور پھر دیر تک ہنستی رہی۔ اسے کچھ ہتک کا احساس ہوا لیکن سامنے بیٹھی ہوئی عورت کے گالوں میں پڑتے ہوئے ڈمپل، لمبی گردن سے ٹکراتی ہوئی لٹیں اور کانوں کے آویزے اور چہرے کی سرخ ہوتی ہوئی رنگت نے اس احساس کو گہرا ہونے نہیں دیا۔
وہ صرف ایک طویل سانس لے کر رہ گیا۔ وہ دونوں اس وقت ایک فائیو اسٹار ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں بیٹھے ہوئے تھے۔
”باتوں میں تمہارا کوئی جواب نہیں ہے۔” صبیحہ نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
وہ اب اپنے پرس سے ایک چھوٹا سا آئینہ نکال کر اپنی لپ اسٹک ٹھیک کر رہی تھی۔
”اس میں اس طرح ہنسنے والی تو کوئی بات نہیں تھی۔ میں نے تم سے حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔”
وہ اس کی بات پر مسکراتے ہوئے اپنے پرس کو بند کرنے لگی۔
”تمہیں یہ سب کچھ صرف باتیں کیوں لگتا ہے؟” اس نے کچھ تیکھے لہجے میں اس سے پوچھا۔
”کیونکہ مجھ سے ملنے والا ہر مرد مجھ سے یہی کہتا ہے جو تم نے چند لمحے پہلے کہا اور تقریباً ان ہی لفظوں میں جن میں تم نے کہا۔ بعض دفعہ مجھے لگتا ہے، اس دنیا میں مرد کو محبت کرنے کے علاوہ اور کوئی کام ہی نہیں ہے… اور وہ بھی صبیحہ کادوانی سے۔” وہ ایک بار پھر ہنسنے لگی۔
”شاید آج تم ہر بات کو مذاق میں اڑانے کے موڈ میں ہو؟” وہ سنجیدہ ہوگیا۔
”ضروری تو نہیں ہے کہ ہر مرد تم سے جھوٹ ہی بولتا ہو۔”
”مرد محبت کر ہی نہیں سکتا صاحب… یہ چیز اس کے خمیر میں نہیں ہیں محبت صرف عورت کی صفت ہے… وہی کرتی ہے… وہی کر سکتی ہے۔”
صبیحہ کادوانی کے چہرے سے یک دم مسکراہٹ غائب ہوگئی تھی۔ وہ اب اپنے دائیں ہاتھ میں جام پکڑے اس میں موجود مشروب کے ہلکے ہلکے سپ لے رہی تھی۔
”پھر قہقہہ لگانے کو دل کیوں نہ چاہے۔”
”اتنی خود پسندی اچھی نہیں ہے۔” اس نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔ ”بقول تمہارے مرد محبت نہیں کرسکتا تو تاج محل کیوں بنا دیتا ہے۔” اس نے کچھ چبھتے ہوئے لہجے میں صبیحہ سے پوچھا۔
”تاج محل بنوا دیا اس نے… تاج تو نہیں چھوڑا… حرم بھی آباد رکھا… کیا بادشاہ اور کیا اس کی محبت۔”
”چلو بادشاہ کی بات نہیں کرتے تم رومانی داستانوں پر آجاؤ… یہ فرہاد، مجنوں، رانجھا… کون تھے یہ سب… کیا مرد نہیں تھے؟”
”یہ بھی کہتے ہو کہ کہانی ہے پھر یہ بھی کہتے ہو کہ حقیقت مان لوں… مرد کو محبت کا ثبوت دینے کے لیے کہانیوں کے حوالے دینے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ عورت تو کہانیوں کے حوالے نہیں دیتی۔ وہ ہمیشہ اپنی بات کرتی ہے۔ کسی ہیر یا سوہنی کو بیچ میں نہیں لاتی۔” صبیحہ اس کے چہرے پر نظریں جمائے کہہ رہی تھی۔
”میں پھر بھی یہ کہتا ہوں کہ مجھے تم سے محبت ہے… تم میری زندگی میں آنے والی عجیب ترین عورت ہو۔” اس نے اصرار کیا۔ وہ کچھ دیر خاموشی سے مسکراتی رہی۔
”چلو پھر دیکھتے ہیں کہ تم میرے لیے کیا کرسکتے ہو۔”
”ہاں ضرور… آزمانا چاہتی ہو تو ضرور آزماؤ… کچھ بھی مانگ لو۔ اگر وہ چیز اس دنیا میں ہے تو میں تمہارے لیے لے آؤں گا، ہاں شرط صرف یہ ہے وہ میری دسترس میں ہو۔”
”واقعی؟”
”ہاں بالکل۔ تم کہہ کر تو دیکھو۔” صبیحہ کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔
”ٹھیک ہے چلو دیکھ لیتے ہیں آج، کہ مرد واقعی محبت کرسکتا ہے یا نہیں۔” وہ اب ٹیبل پر پڑا ہوا وہی جام اٹھا رہی تھی۔ جام میں پڑا ہوا باقی ماندہ مشروب اس نے بڑے اطمینان کے ساتھ دوسرے جام سے میں انڈیل دیا۔
وہ حیرانی سے اس کی حرکات دیکھ رہا تھا۔ وہ اب جام کے اوپری کناروں کو ٹیبل کے ایک کونے سے ٹکراتے ہوئے توڑ رہی تھی۔
”یہ کیا کر رہی ہو تم؟” وہ چپ نہیں رہ سکا۔ وہ اب کنارے توڑ چکی تھی۔
”کچھ نہیں۔ میں اس ٹوٹے ہوئے جام سے تمہارے میز پر رکھے ہوئے ہاتھ پر ایک وار کروں گی۔ اگر تم نے اپنا ہاتھ یہاں سے نہیں اٹھایا تو میں تمہاری محبت پر ایمان لے آؤں گی۔”
وہ ٹوٹا ہوا جام ہاتھ میں لیے کہہ رہی تھی۔
٭٭٭
اس دوپہر پہلی بار اپنے گھر میں داخل ہوتے ہوئے وہ غائب دماغی کے عالم میںتھی۔ پہلی دفعہ اسے اس گھر سے نفرت ہو رہی تھی جہاں وہ پیدا ہوئی تھی۔ پہلی بار وہاں موجود سارے لوگ اسے اپنے دشمن لگ رہے تھے۔ پہلی بار اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس نے خود کو چوک میں کھڑا کر دیا ہے۔ عافیت کہاں تھی۔ امان کہاں تھی؟ ہارون کے پاس؟ اپنے گھر میں؟ کہاں…؟
ہارون کے چند گھنٹے پہلے کہے گئے لفظ، اسے حقیقت کی خاردار وادی میں لے آئے تھے اور اب پہلی بار وہ اپنے پیروں کے نیچے آنے والے کانٹوں کی چبھن کو محسوس کر رہی تھی۔
چند گھنٹوں کے اندر اندر اس کے لیے زندگی کا مفہوم بدل گیا تھا، سب کچھ بدل گیا تھا۔ اسے اپنے گھر میں نظر آنے والے کسی چہرے سے کوئی انس محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ ماں، بھائی، بھابھی، بھتیجے، بھتیجیاں، اسے ہر رشتہ گٹر میں پہنچا ہوا لگ رہا تھا۔
”میری طبیعت خراب ہے اور میں سونا چاہتی ہوں۔”
اس نے گھر آتے ہی بڑی ترشی سے امی سے کہا۔ اور سیدھی اپنے کمرے میں چلی گئی، سارا دن اپنے کمرے میں بند رہی۔
اگلے دن وہ کالج بھی نہیں گئی۔
”تمہیں آخر اب کیا پریشانی ہے؟ پہلے تو ہارون سے شادی کا مسئلہ تھا۔ اب تو وہ بھی حل ہوگیا ہے۔ ہم نے تمہاری بات مان لی ہے۔ پھر تم اس طرح منہ سر لپیٹ کر سارا سارا دن کمرے میں کیوں پڑی رہتی ہو؟”
دو دن کے بعد اس کی امی کو تشویش ہوئی تو انہوں نے پوچھا، اسے ان کی چھان بین بری لگی۔
”آپ نے میری بات مان کر مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا۔ یہ میرا حق تھا جسے آپ نے مانا ہے۔ اور کیا خاص کیا ہے آپ نے؟” اس کی امی حیرانی سے اس کا منہ دیکھنے لگیں۔
”تمہارے نزدیک ہمارا رضامند ہو جانا کوئی خاص بات ہی نہیں ہے؟”
”نہیں، میرے نزدیک یہ کوئی خاص بات نہیں ہے۔ آپ کون سا بخوشی اور آسانی سے اس رشتہ پر رضامند ہوگئے ہیں۔ کئی ماہ سے آپ نے مجھے عذاب میں مبتلا کیے رکھا ہے اور اب تک آپ مجھے مسلسل تکلیف ہی دے رہے ہیں۔”
”کیا تکلیف دے رہے ہیں ہم تمہیں؟”
”مجھ سے مت پوچھیں، اپنے آپ سے پوچھیں۔ تماشا بنا کر رکھ دیا ہے آپ نے میری پوری زندگی کو۔” وہ یک دم بلند آواز میں بولنے لگی۔
”ہم نے تماشا بنایا ہے تمہیں؟” اس کی امی ہکا بکا ہو کر اسے دیکھنے لگیں۔ ”یا پھر تم نے تماشا بنایا ہے ہمیں؟”
”آپ نے تماشا بنایا ہے مجھے۔ آپ کی ضد نے، آپ کے جھوٹے اصولوں نے۔ آپ لوگوں کی نام نہاد پارسائی نے… آپ کے مذہب کے ڈنکوں نے۔ آپ لوگ ساری عمر اپنی اولاد کو اپنی مٹھی میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اولاد اپنی مرضی سے کچھ بھی نہ کرے، ہمیشہ وہی کرتی رہے جو آپ کی خواہش ہو۔ اپنی اخلاقیات کی صلیب پر مصلوب کر دیتے ہیں اپنی اولاد کو۔” وہ لاشعوری طور پر وہی کچھ کہہ رہی تھی جو ہارون نے اس سے کہا تھا۔
وہ لاشعوری طور پر اپنے ماں باپ کو اسی نظر سے دیکھ رہی تھی، جس نظر سے ہارون اسے دکھانا چاہتا تھا۔ وہ اپنے ہر اقدام کی ذمہ دار ان کی ہٹ دھرمی اور ضد کو ٹھہرا رہی تھی۔
نہ آپ لوگ ہارون کے پرپوزل کو اس طرح بار بار ٹھکراتے، نہ میں اس سے کورٹ میرج کرتی اور اس مصیبت میں گرفتار ہوتی۔ صرف ان کے خراب رویے کی وجہ سے ہارون اب اپنے ماں باپ کو میرے گھر بھیجنے سے کترا رہاہے۔ صرف ان کے رویے کی وجہ سے۔ وہ بھی ٹھیک کر رہا ہے، آخر وہ بھی انسان ہے، اسے بھی تو غصہ آرہا ہوگا اور پھر انکل کی بڑے بھائی ہونے کے باوجود میرے بابا نے کبھی عزت نہیں کی۔ وہ اتنی بار میرے پرپوزل کے لیے یہاں آئے۔ ہر بار بابا نے الٹی سیدھی باتیں کیں۔ اب اگر وہ یہاں آنے پر تیار نہیں ہیں تو ٹھیک ہی ہے۔ آخر وہ بھی کب تک بے عزتی کرواتے۔ وہ دل ہی دل میں ہارون کی ہر بات سے اتفاق کر رہی تھیں اور اس وقت اپنی ماں سے گفتگو کرتے ہوئے بھی اس کے ذہن میں یہی باتیں گردش کر رہی تھیں۔
”تمہاری بات مان تو لی ہے ہم نے… کہہ تو رہے ہیں کہ تم ہارون سے کہو وہ اپنے ماں باپ کو بھیجے۔ ہم جتنی جلدی تمہیں یہاں سے رخصت کر دیں گے، ہمیں اتنی ہی خوشی ہوگی۔” اس کی امی نے تلخی سے کہا۔
”ہارون کے گھر والے اب یہاں آنے کو تیار نہیں ہیں۔”
”کیا…؟” اس کی امی ہکا بکا رہ گئیں۔
”ہاں، اب وہ یہاں آنے پر رضامند نہیں ہیں۔”
”اگر وہ یہاں آنے پر رضامند نہیں تھے تو پھر ہارون کو اس طرح تمہارے پیچھے پڑنے کی کیا ضرورت تھی۔ کیا اسے احساس نہیں تھا کہ وہ ایک غلط کام کر رہا ہے؟”
”اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔”
”اس نے تمہاری منگنی تڑوا دی اور اب وہ اپنے ماں باپ کو یہاں بھیجنے پر بھی تیار نہیں ہے اور تم کہہ رہی ہو کہ اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ میں نے تم سے پہلے ہی کہا تھا، یہ شخص قابل اعتبار نہیں ہے۔”
”وہ شخص قابل اعتبار ہے۔ وہ اب بھی مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے مگر وہ یہ چاہتا ہے کہ اب آپ لوگ اس کے گھر جائیں اور رشتہ کی بات کریں۔”
”تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا۔” امی بھڑک اٹھیں۔