تو ہی تو کا عالم

” مجھے لگتا ہے میں نے آپ کی خوشی کے رنگ، اپنی بے سروپا باتوں سے پھیکے کر دیے جس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں۔“

سائیں نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا ، تو خان زادہ شمشیر نے نفی میں سر ہلا یا تھا۔

” ایسی بات نہیں ہے سائیں ! تمہاری باتوں کے آئینے میں اپنا آپ بہت واضح نظر آتا ہے۔“

انہوں نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا ۔پھر سب کے بے حد اصرار پر سائیں نے بچے کا نام خان زادہ شاذل تجویز کیا جسے سبھی نے بہت پسند کیا تھا۔ بچی کا نام خان زادہ شمشیر نے زینب رکھا۔ دونوں بچوں کا عقیقہ بہت شاندار ہوا ۔ غریب وغربا میں گوشت کے ساتھ کھانا بھی تقسیم کیا گیا۔ حویلی کے بڑے سے ہال نما کمرے میں مہمان خواتین موجود تھیں ۔ عائشہ خوشی سے بھرپور انداز میں بیٹھی سب سے باتیں کر رہی تھی۔ جب نور بانو نے سائیں کو بلایا۔ خواتین کا خیال کر کے سائیں پردے کے پیچھے ہی منتظر کھڑا ہو گیا۔نوربانو نے اس کے قریب پہنچ کر ملازمہ کو اشارہ کیا ۔

” سائیں ! دونوں بچوں کو پیار تو دیا نہیں تم نے۔“نوربانو نے کہتے ہوئے ملازمہ کی گود سے بچے کو تھاما اور ہاتھ بڑھا کر آگے کر دیا ۔

سائیں نے پردے کے پیچھے سے اپنے دونوں ہاتھ آگے کیے۔ بچے کو پکڑاتے ہوئے نور بانو کی نظر اس کے ہاتھوں پر پڑی اور پھر پلٹنا ہی بھول گئی ۔سائیں کے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کے نیچے بنا چاند جیسا نشان ، انہیں کئی سال پہلے کی اس اندھیری اور ادھوری رات میں لے گیا۔

اتنے سال گزرنے کے باوجود بھی انہوں نے اس ادھورے وجود کی ، اس نشانی کو یاد رکھا تھا۔ ان کی پیاسی ممتا کے لیے ایک وہ ہی نشان وجہ تسکین تھا اور آج ویسا ہی نشان اس کے ہاتھوں پر بھی تھا۔ وہ ساکت کھڑی رہ گئیں جب ملازمہ نے انہیں آواز دے کر دوسرا بچہ تھمایا۔ سائیں سے پہلا بچہ واپس لیتے اور دوسرا بچہ پکڑاتے اور پھر لیتے ہوئے انہوں نے بار با راس نشان کی طر ف دیکھا تھا۔

ان کا دل با ر بار کہہ رہا تھا کہ سائیں کی طرف ان کا جھکاﺅ اورتڑپ بلاوجہ نہیں تھی مگر پھر وہ ٹھٹک جاتیں کہ وہ بچہ تو خواجہ سرا پیدا ہو اتھا جبکہ سائیں تو….

وہ جتنا سوچتیں ، اتنا ہی الجھتی جا رہی تھیں مگر وہ تلاش کا کوئی سرا نہیں ملا تھا انھیں۔ سائیں وہاں سے واپس جا چکا تھا مگر نوربانو کو احساس ہی نہیں ہوا ۔ انہوں نے لاکھ کوشش کی اپنی سوچوں کو اس خیال سے آزاد کرنے کی لیکن جتنی کوشش کرتیں اتنا ہی ان کا دل اُلجھتا جا رہا تھا۔ جب یہ گھٹن اور تکلیف برداشت سے باہر ہو گئی تو رات کے پچھلے پہر وہ خاموشی سے اپنے کمرے سے نکلی تھیں ۔کل صبح سائیں کی روانگی تھی۔ ان کے پاس صرف آج کی رات تھی ، اپنے واہمے یا سچ کو جانچنے کی۔ وہ اپنے خیالوں میں اتنی مگن تھیں کہ انھیں احساس ہی نہیں ہو سکا کہ کوئی اور بھی رات کے آخری پہر ، انہیں اس طرح دیکھ کر چونکا اور ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا تھا ۔

نور بانو کے قدم حویلی کے مہمان خانے میں موجود سائیں کے کمرے کے سامنے جا رکے تھے۔ ان کی دستک سے اپنی سوچوں میں گم سائیں نے حیرت سے دروازے پر ہوتی دستک سنی۔

” اس وقت کو ن آ گیا؟“

سائیں نے دروازے کی طرف قدم بڑھاتے خودکلامی کی۔ دروازہ کھلتے ہی وہ چونک گیا۔

” ماں جی آپ!“نوربانو کو دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔نوربانو نے کوئی جواب نہیں دیا اور کمرے میں آگئیں۔ سائیں ان کے انداز پر اپنی بڑھتی حیرانی کو نہیں روک پا رہا تھا۔نوربانو ایک دم پلٹیں اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں۔

”کون ہو تم؟“سائیں بری طرح چونکا۔

” کیا مطلب آپ کا ؟“سائیں نے اُلجھتے ہوئے سوال کیا ۔ نور بانو چند قدم اس کی طرف چل کر آئیں۔

”میں نے پوچھا کون ہو تم؟ دنیا کے سامنے جو بہروپ تم نے اختیار کیا ہے وہ تمہارا اصل نہیں ہے ۔ تمہارا اصل وہ ہے جس سے تم منہ چھپا کر بھاگتے پھر رہے ہو ۔“ نوربانو نے سخت لہجے میں کہا۔ سائیں خوف سے چند قدم پیچھے ہٹا ۔

” ک، ک کیا مطلب آپ کا۔“اس کے منہ سے الفاظ بھی ٹوٹ کر نکل رہے تھے ۔نوربانو چند لمحے اس کے چہرے کے اُڑے رنگ کو دیکھتی رہی۔

” اگر دنیا کو یہ پتا چل جائے کہ سائیں کے لبادے میں ایک خواجہ سرا چھپا ہوا ہے تو….“

سائیں کو ایسا لگا جیسے اس کے قدموں تلے سے زمین کھسک گئی ہو۔ وہ بے اختیار نیچے بیٹھتا چلا گیا ۔کچھ سچ ایسے ہوتے ہیں جو جسم سے جان ہی نہیں، روح بھی کھینچ لیتے ہیں ۔ سائیں گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھا اور بلک بلک کررونے لگا۔

آج پھر خدا نے اسے، وہاں بے پردہ کیا تھا جہاں سے اسے عزت اور محبت نام لینے ، یاد رکھنے کی خواہش تھی۔

اس ہستی کے سامنے جسے اس نے سب سے محبوب جانا اور سمجھا تھا ۔ آج پھر خدا نے اسے مٹی کے پتلے سے ، خاک کے ذروں میں تقسیم کر دیا تھا ۔ اس کی خاک اڑ رہی تھی ، اڑ ، اڑ کر دور دور تک پھیل رہی تھی۔

شاید دنیا میں خواجہ سرا بن کر جینا مشکل نہیں تھا، دنیا میں خواجہ سرا ہو کر نیک نامی اور عزت کی زندگی گزارنا گناہ تھا۔

خواجہ سراﺅں کو یہ معاشرہ صرف ہر چوک ، ہر سگنل پر تیز میک اپ اور گہرے رنگوں کے چمکیلے لباس میں ہاتھ پھیلا کر مانگتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ ایسے لوگوں سے ہمددری بھی کر لیتا ہے اور بھیک بھی دے دیتا ہے مگر کبھی خواجہ سراﺅں کو عزت کا مقام نہیں دیتا۔

خواجہ سرا ﺅں کو یہ معاشرہ شادی بیاہ، بچوں کی پیدائش پر ناچتے ، خوشیاں بانٹتے تو دیکھ سکتا ہے مگر یہی معاشرہ انہیں درس گاہوں کا ماحول اور روٹی کمانے کے باعزت طریقے نہیں دیتا۔

یہ معاشرہ ان کی بددعا کے خوف سے،انہیں صدقہ، خیرات تو دے دیتا ہے مگر یہی معاشرہ ان کی دل آزاری کے خیال سے ان کی تضحیک کرنا نہیں بھولتا۔

یہ اصول کب اور کیسے رائج ہوئے ؟ کس نے یہ بتا یا کہ خواجہ سراﺅں کا مقام انسانیت کے سب درجوں میں، سے سب سے آخر والے درجے پر آتا ہے ؟

خدا نے تو اپنی کتاب میں یہ حکم نہیں نازل کیا۔

حضرت محمدﷺ نے اپنے عمل مبارکہ اور حدیث میں ایسا کچھ نہیں فرمایا یا کہ جس کی مثال تاقیامت قائم رہے بلکہ آپ ﷺ کے ایک صحابہ ؓ بھی اسی جنس سے تعلق رکھتے تھے مگر وہ بھی اتنے ہی قابلِ احترام اور محترم تھے ، جتنے کہ باقی صحابہؓ۔

پھریہ عقل اور دانش کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے، خدا کے فرمان اور نبی پاکﷺ کے عمل کی راہبری کیوں نہیں کرتے۔

رب نے ساری کائنات تخلیق کی، اپنی سب مخلوق بنائی اور اپنی ذات کو، اپنی صفات کو، اپنی رضا کو ہر چیز میں بانٹ کر رکھ دیا۔ اس ذات نے کسی ایک مخلوق ، کسی ایک جان دار کو اپنے لیے مخصوص نہیں کیا، ہاں مگر انسان کو اشرف مخلوقات کا درجہ اور زمین پر اپنا نمایندہ بنا کر ضرور بھیجا مگر انسان میں مرد عورت کے ساتھ ساتھ خواجہ سرا بھی شامل ہوتے ہیں۔ انسان صرف مرد یا عورت کے وجود کا نام نہیں ہے۔ انسان کے لیبل اور انسان کے فرائض خواجہ سراﺅں پر بھی اسی طرح لاگو ہوتے ہیں جیسے کہ ہر مرد و عورت پر! اس کی ذات کا جلوہ، اس کی ذات کا پرتو ہر ذرے ذرے میں چھپا ہوا ہے ۔ اگر وہ ذات خواجہ سراﺅں کو بنا کر شرمندہ نہیں، تو پھر خواجہ سرا یا دوسرے لوگ کیوں ان کے وجود پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔

” یار کو ہم نے جا بجا دیکھا

کہیں ظاہر ، کہیں چھپا دیکھا

کہیں ممکن ہوا ، کہیں واجب

کہیں فانی ، کہیں بقا دیکھا

کہیں وہ بادشاہِ تخت نشین

کہیں کاسہ لیے گدا دیکھا۔“

نور بانو نے اسے روتے ہوئے دیکھا اور آہستہ آہستہ چلتی اس کے پاس آئیں اور نیچے زمین پر بیٹھتے ہوئے ،ا س کے جھکے سر پر اپنا ،سر رکھتے ہوئے بولیں:

”میرا دل کہتا تھا! تم سے میرا کوئی بہت گہرا تعلق اور رشتہ ہے، مگر کیا یہ کبھی نہیں سمجھ سکی۔تمہیں یہ تلخ بات نہ کہتی تو مجھے کیسے پتا چلتا کہ تم میرے ہی وجود کا وہ گم شدہ حصہ ہو جس کی تڑپ نے مجھے کبھی چین سے جینے نہیں دیا۔“

نوربانو کی آنکھوں سے آنسو بہتے ہوئے اس کے بالوں میں گم ہو رہے تھے ۔ سائیں نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا ۔ اس کی آنکھوں میں حیرت کا سمندر تھا۔

” آپ جانتی ہیں کہ میں آ پ کا….“اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔ کیوں کہ اب نور بانو ساکت نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔

” تو کیا تم یہ بات پہلے ہی سے جانتے تھے کہ تم اس حویلی کا حصہ ہو۔“ان کے پوچھنے پر سائیں سیدھا ہو کر بیٹھا اور اپنے بھیگے چہرے کو ہاتھ کی پشت سے صاف کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلانے لگا۔

” پہلے نہیں پتا تھا مگر جب آپ لوگ میرے پاس دعا کروانے آئے تھے اور پھر ایک دن، خان زادہ شمشیر نے باتوں ہی باتوں میں ، کسی کمزور لمحے کی زد میں آ کر اپنے سینے کا بوجھ ، میرے سینے پر راز کی طرح منتقل کر دیا تھا ۔ شاید اتنے سالوں سے وہ کسی کو اپنے دل کی بات، اپنے دل کا درد نہیں بتا سکے تھے اور اس ڈھلتی دوپہر ہی میں نے جانا کہ میں ….“

سائیں کی نگاہوں کے سامنے اس دن کا سارا منظر گھوم رہا تھا ۔جب خان زادہ شمشیر نے اس کے ساتھ اپنا درد بانٹا تھا ۔

” مگر تمہیں کیسے پتا چلا کہ ہم ہی تمہارے ظالم والدین ہیں جنہوں نے تمہیں مارنے کے لیے کسی کے ہاتھوں میں سونپ دیا تھا۔“

نوربانو کے چہرے پر اُلجھن تھی ۔ سائیں دھیرے سے مُسکرا دیا ۔ اس کی مسکراہٹ میں گزرے دنوں کا ہر پل ، ہر لمحہ تھا ۔ نور بانو دم بہ خود اسے سن رہی تھی ۔ وہ زندگی میں پہلی بار ماں کے سامنے رو رہا تھا، اپنے سب دکھ، درد بتا رہا تھا، اپنے سفر کا حال سنا رہا تھا ۔نور بانو اس طلسم کدہ میں جا پہنچی تھیں، جہاں سائیں نے اپنی عمر کے اتنے سال گزارے تھے ۔ جانے کتنا وقت بیت گیا ۔وہ دونوں تبچونکے ، جب دروازے پر کھٹکا ہو ا۔ نوربانو کے ساتھ ساتھ سائیں نے بھی دیکھا اور ساکت رہ گیا ۔ دروازے پر مریم بھیگا چہرہ لیے کھڑی تھی ۔ اتنی رات کو ماں کا پیچھا کرتے ہوئے وہ کبھی نہیں سوچ سکتی تھی کہ آج اس کے سامنے اتنے بڑے سچ نے عیاں ہونا تھا۔ ان سب نے یہی سنا ہوا تھا کہ سب سے پہلے ان کا ایک بھائی پیدا ہوا تھا جوپیدائش کے فوراً بعد وفات پا گیا تھا مگر آج اس نے جانا کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ یہ سچ جاننے کے بعد اسے لگ رہا تھا کہ اب کچھ بھی باقی نہیں رہا ۔آج سب ختم ہو گیا ہے ۔

”مریم!“ نوربانو اپنی جگہ اسے اٹھ کر اس کی طرف بڑھی تھیں ۔ مریم نے ہاتھ سے انھیں پیچھے رہنے کا اشارہ کیا، تو نوربانو روتی ہوئی دیوار سے لگ گئیں۔ آج اپنی اولاد کے سامنے ، وہ بہت چھوٹی بن گئی تھیں ۔ مریم چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی ، کمرے کے وسط میں کھڑے سائیں کے پاس پہنچی۔ سائیں نے سر اٹھا کر اس کے بھیگے چہرے کی طرف دیکھا پھر نظریں جھکا لیں۔ وہ ان نظروں کی تاب نہیں لا سکتا تھا۔

” آپ کیوں نظریں چرا رہے ہیں۔ یہ کام تو معاشرے کے ان ٹھیکیداروں کو کر نا چاہیے تھا جنہوں نے آپ جیسی زندگیوں کو ایک سوال بنا کر معاشرے میں در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔“



مریم کا دوپٹا سر سے اتر کر اس کے قدموں کے میں لٹک رہا تھا۔ وہ اپنے حال سے بے خبر دکھ سے چور ہوتی بولے جا رہی تھی۔

” شرمندہ آپ کیوں ہوتے ہیں۔ شرمندہ تو ہمیں ہونا چاہیے نا۔ آپ خدا کے بنائے ادھورے وجود کے ساتھ بھی مکمل ہیں اور ہم جیسے لوگ خدا کے بنائے مکمل وجود کے ساتھ بھی ادھورے۔ پھر بتائیں کہ محروم اور بد بخت کون ہوا۔آپ جیسے لوگ یا ہم جیسے؟“

مریم بلک بلک روتی اس کے کندھے سے آ لگی۔ سائیں نے ایک بازو اس کے گرد پھیلا کر اسے دلاسا دیا۔ مگر وہ کسی طرح بھی خود کو نہیں سنبھال پا رہی تھی۔ زندگی کے کچھ سچ اتنے بھیانک انداز میں سامنے آتے ہیں کہ سب خوب صورت لگنے والے چہروں سے بھی نفرت محسوس ہونے لگتی ہے۔یہی حال مریم کا تھا ۔

اسی وقت ایک زور دار دھماکا سا ہوا ۔ سب بری طرح چونکے ۔ سائیں نے پلٹ کر دروازے کی طرف دیکھنا چاہا ۔ جب کوئی چیز بہت زور سے اس کے سر سے ٹکرائی اور درد کی شدید لہرکے ساتھ وہ اپنے سر کو تھام کر زمین پر گر گیا ۔ سن ہوتے دماغ کے ساتھ اس نے مریم کی چیخ بھی سنی تھی۔

٭….٭….٭

” موہنی تُو یہاں بیٹھی ہے۔ میں کب سے تجھے ڈھونڈ رہی ہوں۔“ موہنی درختو ں کے اسی جُھنڈ کی ٹوٹی سیڑھیوں پر گم صم بیٹھی تھی ، جب پینو نے اس کے پاس آکر کہا۔ آج جمعرات تھی اور مزار پر آنے والوں کا ہجوم بڑھ رہا تھا ۔ کچھ دیر میں محفل سماع شروع ہونے والی تھی۔ علی یار انتظامات کی نگرانی میں مصروف تھا۔ موہنی پچھلے ایک ہفتے سے ماہی بے آب کی طرح تڑپتی ، ہر احتیاط او ر پابندی بھولتی جا رہی تھی۔اس کی حالت ایسی تھی کہ نہ اسے کھانے کی فکر تھی اور نہ کسی اور کام کی۔ جہاں بیٹھی ہوتی وہیں بیٹھی رہ جاتی۔ رضیہ اس کی حالت سے بہت فکرمند تھی اور بار بار اس سے پریشانی کی وجہ دریافت کرتی مگر موہنی کچھ نہیں بتاتی تھی۔ موہنی کو ایسا لگتا تھا کہ جیسے اس نے ، اپنی غلطی اور حماقت سے سائیں کو کھو دیا ہے، اب دوبارہ اسے نہیں دیکھ سکے گی ۔ دن میں جب بھی اس کا علی یار سے سامنا ہوتا وہ ایک ہی سوال کرتی۔

” سائیں کب آئے گا؟“ علی یار کبھی تو اسے ٹال دیتا اور کبھی یک دم ہی غصے میں آ جاتا۔

” کیوں تجھے کیا تکلیف ہے بی بی۔ جا ، جا کر اپنا کام کر۔“

وہ ہر بار غصے میں وہاں سے پلٹ آتی اور دوبارہ نہ جانے کا عہد کرتی مگر اگلے دن سب بھول بھال کر وہ پھر اسی سوال کا کشکول پھیلا کر علی یار کے راستے میں کھڑی ہو جاتی۔ایک دن علی یار نے اسے راستے میں کھڑا دیکھ کر پاس آکر کہا۔

” سائیں کے بہ قول ان کے مرشد کہا کرتے تھے کہ بندہ اتنی ضد خدا سے کرتا اچھا لگتا ہے۔ بندے مان اور ضد کا بوجھ اٹھانے میں اکثر چوک جاتے ہیں۔“

”چوک تو میں گئی تھی، اسی لیے آج تیری منت کرنی پڑ رہی ہے۔“ موہنی نے تیکھے لہجے میں کہا، تو علی یار تھک ہار کر خود سے بولا تھا۔

”سائیں نے ٹھیک کہا تھا۔تیر ی عقل کا خانہ خالی ہے۔“

علی یار یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا ۔ جب کہ موہنی گم صم سی وہاں کھڑی رہی۔

” کیا سائیں میرے بارے میں بات کرتا ہے، میری فکر کرتا ہے؟“ اس سوچ نے اسے یک دم ہی خوشی سے مالا مال کر دیا تھا۔ اتنے دنوں سے چھائی اُداسی آج ختم ہو گئی تھی مگر یہ تھوڑی دیر تک ہی رہا۔ پھر وہ اسی بے کلی اور بے چینی کا شکار اِدھر اُدھر پھرنے لگی۔ ان دنوں اسے اس بات کی سمجھ بہت اچھی طرح سے آئی تھی کہ محبت میں بے کلی اور بے چینی میں گزرا ہر لمحہ بہت بھاری اور جان لیوا ہوتا ہے۔ کسی کو آپ کا انتظار رہے۔ یہ بہت عام سا لگتا ہے سننے میں مگر آپ کو کسی کا انتظار رہے یہ پل صراط پر چلنے کے مترادف ہوتا ہے۔

” کیا کام ہے تجھے پینو؟ “

موہنی نے بے زار لہجے میں اس سے پوچھا، تو پینو اپنے چہرے پر تکلیف کے تاثرا ت طاری کرتے ہوئے بولی۔

” کل رات سے میری طبیعت بہت خراب ہے موہنی۔ ساری رات درد سے تڑپ کر گزاری ہے ۔ کسی دوائی سے فرق نہیں پڑ رہا ۔ مجھے وہ جیدے ( جاوید) کی ماں نے بتا یا ہے کہ وہ جو شہر میں بڑی سے دکان ہے دوائیوں کی وہاں ایک ڈاکٹر بیٹھتا ہے ۔ اس کے ہاتھ میں بڑی شفا ہے ، میں وہاں سے دوائی لے لوں جا کر مگر تجھے پتا ہے کہ میں اتنی دور اکیلی نہیں جا سکتی اور میرے ساتھ کوئی جانے پر بھی تیار نہیں ہے ۔ اگر برا نہ مانے تو ، تُو چلے گی میرے ساتھ۔ بس ہم آدھے گھنٹے میں واپس آ جائیں گے ۔“

پینو نے اسے گھیرتے ہوئے کہا ۔

” جیدے کی ماں نے کہا ہے تو تم اسی کے ساتھ چلی جاﺅ ۔ میرا دل نہیں کر رہا کہیں بھی جانے کو۔“

موہنی نے چڑ کر جواب دیا ۔ دس سالہ جاوید اور اس کی بے سہارا ماں بھی یہاں رہتے تھے ۔ اسی لیے موہنی ان سے اچھی طرح وا قف تھی۔

” چل ٹھیک ہے تیری مرضی۔ میں کسی کی ترلے منتیں کیا کروں۔ میری تکلیف ہے میں جانو۔ رہ لوں گی ایسے ہی۔“

پینو نے اُداسی سے کہا اور واپس پلٹ گئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر موہنی کو دکھ ہو ا۔

” میں بھی کبھی کبھار کتنی کٹھور بن جاتی ہوں۔ اس دن پینو نے میری جان بھی بچائی تھی۔“ موہنی نے ہمدردی سے سوچا اور اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ہوئے اسے آواز دی جو آہستہ آہستہ قدموں سے چلتی اس کے پکارنے ہی کی منتظر تھی۔

” اچھا ٹھیک ہے میں چلتی ہوں مگر ٹھہر میں کسی کو بتا کر آتی ہوں۔“ موہنی نے اسے وہاں ہی رکنے کا کہا اور مزار کی طرف مُڑ گئی ۔

” ہائے ربا میں مر گئی۔“ پینو چیخ مار کر نیچے زمین پر گر گئی ۔ موہنی فوراً اس کی طرف بھاگ کر آئی اور در د سے تڑپتی پینو کو سنبھالتے ہوئے پریشانی سے پوچھنے لگی ۔

” کیا ہوا پینو! تُو ٹھیک تو ہے نا! © © © ©“

” میرے پیٹ میں بہت درد ہو رہا ہے۔ مجھے جلدی سے ڈاکٹر پر لے چل ۔ کہیں میں یہاں مر ہی نہ جاﺅں ۔ جلدی کر موہنی۔“

پینو نے اس طرح شور ڈالا کہ موہنی کے ہاتھ پاﺅں پھول گئے۔ اسے سہارا دے کر وہ آہستہ آہستہ چلتی مزار کی پچھلی طرف آئی تو وہاں پہلے سے ایک رکشا موجود تھا ۔ پینو فوراً اس میں بیٹھ گئی ۔ موہنی نے بھی غور نہیں کیا کہ مزار کی پچھلی سڑک پر رکشے والے کا کیا کام ہے ؟

پینو کے شور شرابے میں اس نے کسی طرف دھیان نہیں دیا تھا۔ چونکی تو تب جب رکشا ایک جھٹکے سے رکا ۔ موہنی نے روڈ کی طرف دیکھا۔ کچھ آدمی جنہوں نے اپنے منہ چھپارکھے تھے ، فوراً ان کی طرف لپکے۔ اس سے پہلے کہ موہنی کچھ سمجھتی وہ اسے رکشے سے نکال کر کھینچتے ہوئے گاڑی کی طر ف لے گئے۔ کار کی پچھلی سیٹ پر اسے دھکا دے کر دروازہ زور سے بند کیا ۔ اس کھینچا تانی میں اس کا دوپٹا سر سے اتر گیا تھا۔ دوسری طرف کا دروازہ کھول کر ایک آدمی آ کر بیٹھ گیا ۔ موہنی تڑپ کر اس سے دور ہوئی اور کار کے شیشے سے لگتے ہوئے مُڑ کر مدد طلب نظروں سے باہر دیکھا۔ اسی وقت اس کی نظر پینو پر پڑی، وہ پینو کو آواز دے کر پکارنے لگی مگر وہ سامنے کا منظر دیکھ کر ساکت رہ گئی ۔

کچھ دیر پہلے ، درد سے تڑپتی، پینو اب بہت آرام سے کھڑی کا ر والے آدمی سے باتیں کر رہی تھی۔ اس لمبے تڑنگے آدمی نے نوٹوں کی ایک گڈی پینو کو پکڑائی جو اس نے فوراً اپنی چادر میں چھپا لی ۔ وہ خوشی سے کھلتے چہرے کے ساتھ ، اسی رکشے میں بیٹھنے لگی جب اس کی نظر بت بنی موہنی پر پڑی ۔ اس کی آنکھوں میں یک دم نفرت پھیلی تھی جسے دیکھ کر مو ہنی دنگ رہ گئی ۔ پھر اس نے طنزیہ مُسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا اورہاتھ ہلاتے ہوئے رکشے میں بیٹھ کر چلی گئی۔ موہنی کویاد آیا کہ علی یار نے بہت بار اسے پینو سے دور رہنے کی ہدایت کی تھی۔ سائیں نے ٹھیک کہا تھا اس کے بارے میں کہ اس کی عقل کا خانہ خالی ہے۔ اپنی حماقت اور نادانی سے وہ غلط ہاتھوں میں پہنچ گئی تھی۔ اسے ہمیشہ خود پر بہت مان رہا تھا اور ہر بار ہی اسی طرح منہ کی کھانی پڑتی تھی ۔باقی دونوں آدمی بھی تیزی سے گاڑی کی طرف آئے ۔ دونوں فرنٹ سیٹ پر بیٹھے تھے ۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھا آدمی اس پر سے نظریں ہٹانے کی کوشش کرنے کے باوجود کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا ۔ اس کی آنکھوں کی ہوس اور ہونٹوں پر شیطانی مُسکراہٹ دیکھ کر موہنی خوف سے خود میں سمٹ کر رہ گئی ۔ اس کا دوپٹا پتا نہیں کہاں رہ گیا تھا ۔ اسے آج کسی اپنے کی بات شدت سے یا د آئی تھی کہ

” عورت تب تک ہی محفوظ اور بہادر ہے ، جب تک اپنوں کی پناہ میں ہے۔ باہر کی دنیا میں اس سے زیادہ کمزور ا ور بے بس کو ئی اور نہیں ہوتا۔“

اپنی خود سری میں اس نے اس بات کی نفی کی تھی اور آج اسی بات نے اسے اس کی اوقات یاد دلا دی تھی ۔

”اوئے راکٹ ، اپنی گندی نظریں ہٹا لڑکی پر سے۔ یہ صرفمیرا مال ہے۔“

ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص نے غراتے ہوئے کہا۔

” کیا ہو گیا ہے تجھے دلاور۔ ایک لڑکی کے لیے یار سے لڑ رہا ہے۔ آخر اس خزانے سے کچھ ہمیں بھی تو عنایت ہو گا نا۔اتنی محنت کس لیے کی ہے ہم نے ۔“

راکٹ کی رال ٹپک رہی تھی، مگر اس کا لہجہ بھی تلخ ہو چکا تھا۔

” بکواس بند کر اپنی۔“ دلاور نے اسے غلیظ گالیاں دی تھیں جسے سنتے ہی راکٹ کا چہرہ بھی تن گیا۔

” دلاور اپنی حد میں رہ ۔نہیں تو….“ اس کا ہاتھ رینگتے ہوئے اپنی کمر میں اڑسی پستول کی طرف گیا جسے دیکھتے ہی دلاور نے فوراً اپنی پستول نکا ل لی ۔

” نہیں تو کیا کم ذات ، کتے ، کمینے۔“

ایک عورت کے بے تحاشا حسن نے دونوں کا پاگل کر دیا تھا کہ وہ وقت اور حالات کو دیکھے بغیر لڑرہے تھے ۔جب کہ تیسرا ساتھی جو ان سے عمر میں کافی کم لگ رہا تھا ۔مسلسل منمناتے ہوئے انہیں ٹھنڈا کرنا چاہ رہا تھا ۔ موہنی نے موقع غنیمت جانا اور فوراً گاڑی کا دروازہ کھول کر سڑک پر چھلانگ لگا دی۔ اسے شدید چوٹیں لگیں مگر وہ کسی چیز کی پروا کیے بغیراٹھ کر سڑک پر اندھا دھند بھاگنے لگی ۔ وہ لوگ بھی گاڑی سے نکل کر اسے کے پیچھے بھاگے۔موہنی نے جب انہیں اپنے بہت پاس آتے دیکھا تو اس کی سانسیں رکنے لگیں۔ اسی وقت اس نے ان میں سے کسی ایک کو پستول سے فائرنگ کرتے دیکھا۔

ساری فضا زوردار دھماکے سے گونج اٹھی ۔ موہنی نے خوف سے چیخ ماری اور وہ منہ کے بل زمین پر گر پڑی۔

٭….٭….٭

وہ کون سی جگہ تھی؟ وہ کب سے وہاں تھی ۔ اسے کچھ پتا نہیں تھا ۔ ایک گندے سے کمرے میں اسے پھینک کر وہ دوبارہ خبر لینا بھول گئے تھے ۔کھانے کی ٹرے تینوں وقت باقاعدگی سے کمرے کے اندر کھسکا دی جاتی مگر کوئی اس کے سامنے نہیں آتا تھا۔ وہ تو گھر سے بہت اچھے اور خوشگوار موڈ میں نکلی تھی ۔ کار ڈرائیو کرتے ہوئے ، اونچی آواز میں میوزک سنتے اسے پتا ہی نہیں چلا جب کوئی اچانک اس کی گاڑی کے سامنے آیا ۔ گھبرا کر اس نے بریک لگائی اور غصے میں گاڑی کا دروازہ کھول کر نیچے اتری ۔ سڑک پر اوندھے گرے شخص کی طرف بولتے ہوئے وہ بڑھی تھی۔

” اندھے ہو ، کیا نظر نہیں آتا ؟“ اسی وقت اسے کچھ عجیب سا لگا جیسے اس کے پیچھے کوئی ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ مڑتی کسی نے پیچھے سے ہاتھ بڑھا کر بھیگا رومال اس کی ناک پر رکھ دیا ۔ بس تھوڑی دیر لگی اور وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی اور جب اسے ہوش آیا تو وہ اس نیم اندھیرے ، کاٹھ کباڑ سے بھرے ہوئے کمرے میں موجود تھی ۔ کچھ دیر لگی اسے سمجھنے میں کہ وہ کہاں ہے پھر اس نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا مگر اس کی سننے والا کوئی بھی وہاں موجود نہیں تھا۔ یہ اس کا عالیشان گھر نہیں تھا جہاں اس کی ایک آواز پر نوکروں کی فوج اکٹھی ہو جاتی تھی۔یہاں اس کے رونے ، دھونے ، چیخنے ، چلانے پر کوئی نہیں آیا تھا۔ اس کی ہمت بھی جواب دے گئی تو وہ بے بسی سے روتے ہوئے کمرے کے ایک کونے میں پڑی سوچتی رہتی کہ اب اس کے ساتھ آگے کیا ہو گامگر ایسے کسی بھی سوال کا جواب نہیں تھا اس کے پاس۔

جن گندے مندے برتنوں میں اسے کھانا دیا جاتا انہیں دیکھ کر پہلے دن اسے شدید کراہت کا احساس ہوا اور اس نے کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا مگرآخر کب تک۔جب بھوک حد سے باہر ہو گئی تو اسے مجبوراً ان ہی برتنوں میں کھانا پڑا۔ تب اسے احساس ہوا کہ بنیادی ضرورتوں سے آگے کچھ نہیں ہوتا۔ پتا نہیں وہ کون سا وقت تھا ، جب اس نے اچانک کچھ دوڑتے ، بھاگتے قدموں کی آوازیں سنی تھیں۔ کچھ شور جو اس کی سمجھ سے باہر تھا ۔ پھر بہت سے لوگوں کی آوازیں گونجی تھیں۔ فارینہ ڈر کر ایک کونے سے لگ گئی۔ پھر کچھ دیر بعد ، کچھ بھاری قدموں اور ان کے درمیان چھن چھن کی آوازیں جیسے گھنگھرو کی ہوں، اس کے دروازے کے سامنے آ کر رک گئیں۔ کسی نے دروزاہ کھولنے کی کوشش کی پھر تھوڑی دیر بعد دروازہ پورے جھٹکے سے کھلا ۔ اندر کچھ لوگ داخل ہوئے جن میں سے کچھ سادہ حلیے میں تھے اور کچھ کا حلےہ اور لباس فقیروں اور ملنگوں جیسا تھا۔ فارینہ کی دھندلی ہوتی آنکھوں نے ان میں سے کسی کو پہچاننا چاہا۔ پھر اتنے چہروں میں ایک چہرہ اسے جانا پہچانا نظر آ ہی گیا۔ اس کے سوئے ہوئے اعصاب ایک دم سے جاگے تھے۔ اتنے دنوں سے بے دم اور نڈھال پڑی فارینہ میں ، کوئی طاقت سی بھر گئی اور وہ بجلی کی تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھی اور سامنے کھڑے شخص کا گریبان پکڑ کر چلانے لگی ۔

” تم ذلیل ، کمینے گھٹیا ، نیچ ذات کے شخص۔ تمہاری جرا ¿ت کیسے ہوئی مجھے اغوا کرنے کی۔“

وہ پاگلوں کی طرح اس پر چیختی ، چلاتی ، تھپڑ برساتی جا رہی تھی ۔ ساکت کھڑے ایڈم نے اس کے ہاتھ پکڑ کر اسے روکنا چاہا ۔ اس کے ساتھ آئے باقی لوگ حیرت سے یہ تماشا دیکھ رہے تھے ۔فارینہ کے ناخنوں کے نشان ایڈم کے ہاتھوں اور گردن پرصاف نظر آرہے تھے ۔ وہ اتنے دنوں کی فرسڑ یشن ، اس پر نکال رہی تھی۔ نہ کچھ سن رہی تھی اور نہ سمجھ رہی تھی۔

”فارینہ ! “ ایڈم نے سختی سے اس کا بازو پکڑ کر اسے زور سے جھٹکا دیا ۔ فارینہ ٹھٹک کر رک گئی اور اس کی سرخ آنکھوں میں دیکھنے لگی ۔نہ جانے کیسا عجیب سااحسا س تھا ان آنکھوں میں کہ فارینہ ایک لمحے کے لیے خوف زدہ سی ہوگئی۔

”کسی کو اتنا مجبور مت کرو کہ وہ تم سے نفرت کر نے پر مجبور ہو جائے ۔“

ایڈم نے کہتے ہوئے اسے زور سے جھٹکا دے کر پیچھے کیا۔ فارینہ لڑکھڑا کر سنبھل گئی ۔ اسی وقت لوگوں کے ہجوم کو چیرتے ہوئے شہرام اور مرتضیٰ ہاشم اس تک پہنچے ۔ فارینہ انہیں دیکھتے ہی چیخیں مارتے ہوئے باپ سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ا یڈم وہاں سے جا چکا تھا۔ بہت سے پولیس کے سپاہی بھی اندر آ گئے ۔ فارینہ کی حالت اتنی خراب تھی کہ وہ کچھ نہیں بول پا رہی تھی ۔ باپ کے سینے سے لگی وہ وہاں سے باہر آئی ۔ کسی نے اس کے اوپر چادر بھی دی تھی مگر فارینہ کو کوئی ہوش نہیں تھا ۔

” انکل آپ فارینہ کو لے کر گھر جائیں ۔ باقی کا معاملہ میں خود ہینڈل کر لوں گا۔ “

شہرام نے ان کے پاس آ کر کہا، تو مرتضیٰ ہاشم سر ہلاتے ہوئے کار کی طرف بڑھ گئے ۔ فارینہ کو پچھلی سیٹ پر بیٹھا کر وہ اپنے قریبی دوست کی طرف متوجہ ہوئے جو پولیس میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھا۔

” یار تم مجھے شرمندہ کر رہے ہو۔ فارینہ میری بھی بیٹی جیسی ہی ہے ۔ شکر کرو کہ وہ اتنی جلد بازیاب ہو گئی۔ا س لڑکے ایڈم کی بروقت اطلاع کی وجہ سے۔ خیر تم فکر مت کرو ۔ میں اس معاملے کی تہ تک پہنچوں گا اور اصل ملزموں کو کیفرِ کردار تک پہنچا کر ہی دم لوں گا ۔“

ڈی ایس پی گلزار ملک نے کہا، تو وہ اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، گھر کی طرف روانہ ہوگئے ۔فارینہ کے گھر پہنچنے تک ، فیملی ڈاکٹر بھی پہنچ گئے تھے۔ فارینہ کی حالت کی پیشِ نظر اسے نیند کا انجکشن لگا دیا گیا۔

” ان کا آرام کرنا بہت ضروری ہے ۔ زیادہ مینٹل اسڑیس ان کا نروس بریک ڈاﺅن ہونے کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔“

ڈاکٹر نے سختی سے ہدایت کی تھی کہ فارینہ سے اس واقعے کے بارے میں فی الحال کوئی بات نہ کی جائے ۔ اس کی ذہنی حالت ابھی ایسی نہیں ہے کہ وہ زیادہ بوجھ برداشت کر سکے۔ مرتضیٰ ہاشم سب کچھ بھول بھال کر بیٹی کے سرہانے سے لگ کر بیٹھ گئے ۔ فارینہ اس طوطے کی طرح تھی جس میں جادو گر کی جان ہوتی ہے ۔فارینہ کے اغوا کا یہ ایک ہفتہ قیامت بن کر ان پر گزرا تھا۔ دن رات ایک کرنے کے باوجود وہ اس کا کوئی سراغ نہیں پا سکے تھے ۔ فارینہ کے فون ریکارڈ سے ایک نمبر سے بار بار آنے والی کالز نے پولیس کے ساتھ ساتھ ، انہیں بھی حیرت میں ڈال دیا تھا کہ یہ نمبر نہ اس کی فرینڈ لسٹ میں تھا اور نہ کسی جاننے والے کا ۔ پھر کون اسے بار بار فون کرکے تنگ کرتا تھا۔ اس نمبر کا ایڈریس بھی علاقہ غیر کا تھا ۔پھر فارینہ کی ایک قریبی دوست نشاءنے بتایا کہ پچھلے کچھ عرصے سے اسے مسلسل ایک نمبر سے خطرناک نتائج کی دھمکیاں بھی مل رہی تھیں مگر اصل معاملہ کیا تھا و ہ اسے بھی ٹھیک سے نہیں پتا تھا اور نہ فارینہ نے کبھی تفصیل سے کچھ بتایا تھا ۔یہ بھی اگر اس کے سامنے ، اس دن اتفاق سے اس بلیک میلر کا فون نہ آتا تو نشاءکو اتنا بھی پتا نہ چلتا۔

مرتضیٰ ہاشم یہ بات جان کر شاکڈ رہ گئے تھے۔،خود کو بار بار ملامت کرتے کہ فارینہ کو آزادی دے کر اس کی طرف سے آنکھیں کیوں بند کر لیں تھیں۔فارینہ جتنی ضدی اور خودسر تھی ، اس کا اندازہ انہیں تھا۔ وہ ہر بات اور مسئلے کو چٹکیوں میں اڑانے والی تھی اور شاید اسی بات کا خمیازہ اس نے ، اپنے اغوا کی صورت میں بھگتا تھا۔ فارینہ کے اغوا کی خبر اخباروں میں آتے آتے رک گئی تھی۔ نہیں تو یہ اخباروں کی فرنٹ نیوز بنتی ۔ آخر وہ ایک مشہور ماڈل اور ایکٹریس ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کے مشہور بزنس مین کی بیٹی بھی تھی ۔اس کے لیے مرتضیٰ ہاشم نے روپیہ ،پیسہ پانی کی طرح بہا دیا تھا ۔ کچھ شہرام اور ایڈم کے تعلقات بھی اس اہم موقع پر کام آئے تھے ۔



مرتضیٰ ہاشم کو پہلے ندامت اور پھر پچھتاوا ہونے لگا تھا کہ انہیں فارینہ کی سکیورٹی کا پورا پورا بندوبست رکھنا چاہیے تھا۔ تاکہ ایسے حادثے کی نوبت ہی پیش نہ آتی، مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ سوائے اس کے کہ وہ آیندہ کے لیے محتاط ہو جاتے ۔ فارینہ کو سنبھلتے سنبھلتے کئی دن لگے۔ اس کا بیان بھی ریکارڈ کیا گیا۔ جس میں ایسی کوئی کام کی بات نہیں تھی۔ فارینہ نے کسی سے بھی ملنے سے صاف انکار کر دیا تھا ۔ وہ شہرام کی کوئی فون کال اٹینڈ نہیں کرتی تھی اور نہ اس سے ملتی تھی۔ بس اپنے گھر اور کمرے تک محدود ہو کر رہ گئی تھی ۔ فارینہ کو بعد میں باپ کی زبانی پتا چلا تھا کہ

” فارینہ کو جس جگہ رکھا گیا اس کے ساتھ ہی فقیروں کی ایک کچی بستی بھی تھی۔ یہ لوگ علاقے کے ہر گھر سے واقف تھے اور اس گھر کے مکینوں کی مشکوک حرکتیں پہلے ہی سب کی نظروں میں تھیں۔ فقیروں میں سے ایک شخص ، ایڈم کا واقف کار تھا ۔جن خفیہ ذرائع سے ہم تینوں ، پولیس کے ساتھ مل کر تمہاری تلاش کر رہے تھے ، ان میں سے ہی کسی نے ایڈم تک یہ اطلاع پہنچائی کہ اس گھر میں ایک لڑکی کچھ دن پہلے لائی گئی تھی ۔ یہ اطلا ع ملتے ہی ،ایڈم اپنے ان خیر خواہ دوستوں اور بستی کے لوگوں کے ساتھ ، اس مکان کی تلاشی لینے پہنچ گیا ۔ وہاں صرف ایک شخص نگرانی پر مامور تھا جو اتنے لوگوں کو دیکھ کر گھبرا گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ بھاگتا ، لوگوں نے اسے پکڑ کر مارا پیٹا ، تو اس نے سب اگل دیا کہ کچھ دن پہلے اس کے صاحب لوگ ایک لڑکی کو یہاں بند کر گئے تھے ۔ اس کا کام صرف کھانا دینا اور رکھوالی کرنا تھا۔ اس دن اگر ایڈم تمہیں بچانے نہ آتا، تو اگلے دن ، اس شخص کے کہنے کے مطابق ، تمہیں وہاں سے آگے منتقل کر دیا جانا تھا، جہاں سے تمہارا بچ کر آنا تقریباً ناممکن ہوتا۔ ایڈم نے ہمیں بھی اطلاع کر دی تھی۔ ہم جب تک پولیس کے ساتھ وہاں پہنچے تمہیں بازیاب کروا لیا گیا تھا۔“

فارینہ باپ کی زبانی یہ سب سن کر کچھ دیر کے لیے ہی سہی ندامت کا شکار ہوئی ۔ اسے لگا تھا کہ اس نے ایڈم کے ساتھ زیادتی کی ہے مگر پھر اس پر منفی سوچوں کا غلبہ طاری ہو جاتا اور وہ نفرت سے سر جھٹکتی سوچتی کہ یہ سب بھی اس کی چال ہو گی۔ اسے بدنام کرنے کی ، اس کے سامنے اچھا بننے کی ، اسے حاصل کر نے کی۔

مگر وہ نہیں جانتا کہ اس زندگی میں تو میں اسے کبھی نہیں مل سکتی ۔وہ ساری زندگی محروم ہی رہا ہے اور ر ہے گا۔“

فارینہ انہی سوچوں میں الجھی جلتی کڑھتی رہتی تھی۔ مرتضیٰ ہاشم نے ا سے بہت بار ملک سے باہر جانے اور کچھ عرصہ وہاں ریسٹ کرنے کا کہا تھا مگر وہ نہیں مانی اور نارمل ہوتے ہی دوبارہ تیزی سے روزمرہ کی روٹین میں مصروف ہوگئی ۔ شہرام سے اس کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہو چکے تھے ۔ شہرام کو لگتا تھا کہ فارینہ اس سے کنی کترا رہی ہے ، جبکہ فارینہ کو لگتا تھا کہ شہرام اس کے ساتھ ہوئے حادثے کی وجہ سے بہت بدل گیا ہے۔ دونوں اسی غلط فہمی کا شکار ہوتے ہوتے ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے ۔ ان دنوں شہرام نے کچھ نئے پروجیکٹ شروع کر دیے تھے۔ ایڈ م فارینہ کے ساتھ ہونے والے واقعے کے بعد کہیں نظر نہیں آیا۔ اس کا بھی زیادہ تر وقت امریکا میں گزر رہا تھا ۔ اس نے شہرام کو بہت جلد یہاں سے واپس چلے جانے کا عندیہ سنا دیا۔ زندگی اپنے معمول پر آچکی تھی فارینہ کے کیس پر مزید پیش ورفت نہیں ہوئی تھی۔ یہ اس واقعہ کے ٹھیک دو مہینے بعد کی بات ہے ، جب فارینہ نشاءکے بہت اصرا ر کرنے پر ان کے مشترکہ دوست کی پارٹی میں شہر سے دور فارم ہاﺅس پر گئی ۔ فارینہ کے ساتھ ہمہ وقت گارڈز موجود ہوتے تھے ، اس لیے مرتضیٰ ہاشم اب مطمئن تھے ۔فارینہ پارٹی کی موج مستی اور رنگ میں پوری طرح کھوئی ہوئی تھی ۔ ویٹر نے اسے اس کا پسندیدہ مشروب پیش کیا ۔نشاءاپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ڈانس فلور پر بانہوں میں بانہیں ڈالے رقص کر رہی تھی ۔فارینہ اسے دیکھنے میں مگن تھی جب کسی نے اس کے پاس آ کر ہیلو کہا۔ فارینہ نے گردن موڑ کر دیکھا فیصل آفندی ہاتھ میں گلاس پکڑے، مُسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔

”تم!“ فارینہ نے ناگواری سے اسے دیکھا۔ کچھ عرصہ پہلے اس نے ، نیو وژن پروڈکشن ہاﺅس کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ یہ وہی فیصل آفندی تھا جس کے ساتھ کام کرنے سے ایڈم نے شہرام کے ذریعے فارینہ کو منع کیا تھا اور ضد میں فارینہ نے کام کرنے کی حامی بھر لی تھی مگر جب اس نے اسکرپٹ پڑھا اور اسے بتایا گیا کہ اسے کافی بولڈ کام کرنا پڑے گا ، تو فارینہ نے سختی سے منع کر دیا ،مگر ان کے بار بار اصرا کرنے پر فارینہ نے یہ معاہدہ ہی توڑ دیا اور ایڈوانس کی رقم انہیں واپس کر دی جس پر اسے فیصل آفندی کا سخت ردعمل دیکھنا پڑا تھا اور اس کے بعد ہی اسے ایک نمبر سے دھمکی آمیز فون کالز ملنے لگی تھیں جسے اس نے کبھی خاطر میں نہیں لیا تھا۔ اب فیصل آفندی کو یہاں دیکھ کر ، اس کا چہرہ تن گیا۔

” ہم تو آپ کے پرستاروں میں شامل ہیں مگر نہ جانے آپ ہی کیوں ہم سے دور دور رہتی ہیں۔“

فیصل آفندی کی نظریں سر سے پاﺅں تک اس کا جائزہ لے رہی تھیں۔ فارینہ نے ناگواری کی شدید لہر اٹھتی محسوس کی اور منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی وہاں سے آگے بڑھی۔ جب ا چانک فیصل تیزی سے آگے بڑھا اور فارینہ کے ہاتھ میں پکڑا جوس اس کے کپڑوں پر گر گیا ۔

” او ۔ آئی ایم رئیلی سوری!“ فیصل نے فوراً معذرت کی اور وہاں سے چلا گیا ۔ فارینہ اسے دل ہی دل میں کوستی رہ گئی ۔ اسی وقت نشاءبھی اس کے پاس چلی آئی ۔

Loading

Read Previous

انگار ہستی

Read Next

داستانِ حیات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!