بانجھ — میمونہ صدف

سات سال قبل جب وہ بیاہ کر اُس آنگن میں آئی تھی تو افشاں سی بکھر گئی۔ حنا کی سرخی ہاتھوں پیروں پر چڑھائے ، جھانجر کی چھن چھن کرتی ، قلقل ہنستی وہ نیناں جیسے ہر کسی کے نینوں میں اترجانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔گاؤں کی عورتیں تو اس کی بھولی صورت پر ہی مر مر ا گئی تھیں اور اوپر سے اُس کا حسن۔ سارے گاؤں میں ہی مشہور ہو چکا تھا کہ شیرو کی دلہن آسمانی حور ہے۔ اُس کا تعلق تو زمین سے ہے ہی نہیں ۔دونوں ماں بیٹا ایسی باتیں سن کر خوب ہنستے اور نیناں شرما کر پلو میں منہ چھپا کر ہنسا کرتی تھی ۔
اسے بہت ہنسی آتی تھی اور باتیں بھی۔ اس کی ہنسی جھرنے جیسی اور باتیں خوشبو جیسی لگا کرتیں۔ شیرو تو شیر و مہراں ماں کا تو خوب ہی دل لگا رہتا تھا ، لیکن دل بھی کب تک لگا رہتا؟ انہیں تو پوتے پوتیوں کی ہنسی سننا تھی ، اُن سے باتیں کرنا تھیں۔ بہو اب پرانی ہو گئی تھی اور اُس کی باتیں بھی اس کی طرح بوسیدہ لگنے لگی تھیں ۔ ایسی جن سے خوشبو کے بجائے سرانڈ اٹھتی ہو۔ہنسی ایسی جیسی اب کانوں میں پگھلا سیسہ بن کرلگتی ہو ۔ اماں کا دل بہو سے بھر نے لگا، لیکن بہو کی گود پھر بھی نہ بھر سکی۔ اُسی آنگن نے سونی گود لیے نیناں کو دیکھا اور کانپ اٹھا ۔وہ پہلے سی نہیں رہی تھی ۔ بالکل بدل گئی تھی لیکن اس کا نصیب پھر بھی نہ بدلا ۔
’’اِسے خفقان ہو چلا ہے ۔۔تُو اُسے دیکھتا کیوں نہیں ہے شیرو۔ کسی طبیب کو کیوں نہیںدکھاتا؟ علاج کیوں نہیں کرواتا اِس کا۔ ‘‘
مہراںماں اٹھتے بیٹھتے بیٹے کو بہو کی جانب متوجہ کرتی رہتی ۔شیرو ماں کی اس بات پر جیسے بہرہ ہو جاتا ۔ نیناں اُس کا چہرہ ٹٹولتی کہ شاید وہ علاج کی ہامی بھرے لیکن وہ کیسے ہامی بھر سکتا تھا ۔ایسا کرتے اس کی غیرت کی موت نہ آ جاتی بھلا۔گاؤں کے لوگ باتیں نہ بناتے کہ وہ اپنی بیوی کو لیے لیے اسپتالوں کے چکر کاٹتا ہے ۔ اس کے سو ٹیسٹوں کے ساتھ اپنے ٹیسٹ کرواتا ہے ۔ ایسی باتیں شیرو کی انا کو کہاں گوارا تھیں ۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اوپر ی چوبارے میں تالا لگ گیا تونیناںاب سارا سارا دن غسل خانے کی کنڈی چڑھائے پانی بہاتی رہتی ۔نہانے گھستی اور نہاتی رہتی۔ صبح کی بھری بالٹیاں ، لوٹے ، مٹکے سب خالی ہو جاتے مگر نجانے کیسی میل تھی کہ اترتی ہی نہیں تھی ۔دن میں کئی کئی بار ایسا ہوتا تھا ۔مہراں ماں اس کے اس نئے تماشے کو جانچ رہی تھیں ۔ نئی قیاس آرائیاں کر رہی تھیں ۔
’’کنواں سوکھ جائے گا ، کوئی تو روکو اِسے۔ا ب یہ نیا دورہ کاہے کو پڑ گیا ہے۔ ایک شے سے ہٹتی ہے، تو دوسری پر چڑھ دوڑتی ہے۔ اب کہاں کہاں سے کس کس کام سے اسے روکا جائے۔‘‘ مہران ماں وہیں پڑے پڑے چلاتیں، لیکن ایسا کون تھا جو اُسے روکتا۔شیرو کو اُس کی پروا نہ تھی اور مہران ماں میں چارپائی سے ہلنے کا دم خم… سو وہ اپنی ہی کیے جاتی ۔ اوپر تو تالا لگا دیا گیا تھا ، غسل خانے میں کیسے تالا لگایا جاتا ۔
’’غسل خانے کے روشن دان سے برابر والوں کا صحن دکھتا ہے ۔‘‘ مہران ماں کی بات پر شیرو ٹھٹکا۔ وہ اب کی بارکچھ سوچتے ایک نئے زاویے سے بات کر رہی تھیں ۔نجانے یہ کون سی دور کی کوڑی تھی جو وہ لائی تھیں ۔
’’ہاں تو…؟ ‘‘ شیرو کے ماتھے پر بل نمایاں ہوئے ۔ اسے ماں کی بات سمجھ آ کر بھی جیسے سمجھ نہ آئی ہو ۔ اسے مزید وضاحت مطلوب تھی اس ایک جملے کی۔
’’ ذرا سوچ کہ اوپر سے بھی تو دکھتا تھا ۔وہ رستہ بند ہوا تو نیا رستہ ڈھونڈ لیا اُس نے برابر والوں کے صحن میں تاک جھانک کا ۔ اب بھی تو نہ سمجھے گا تو کب سمجھے گاکہ کوئی تو بات ہے؟ کچھ ہوش کے ناخن لے ۔ نظر رکھ اس پر۔ بیوی ہے تیری ، اسی سے عزت بے عزتی ہے ۔ کل کو کوئی نیا گُل کھل گیا تو کیا کرے گا۔ بیچ چوراہے پر عزت کو نیلام کر آئے گا کیا ؟‘‘ شک کا بیج بویا جا چکا تھا ، کٹائی باقی تھی۔ شیرو کی بند نگاہیں یک دم عقابی نگاہوں کا رخ دھار گئیں ۔اس پہلو سے تو اُس نے کبھی سوچا ہی نہ تھا کہ ایسا بھی کچھ ہو سکتا تھا۔ یہ ماں نے کیا بات کر ڈالی تھی بھلا ۔ وہ اب تک کہاں سویا ہوا تھا کہ یوں سامنے کی بات اس کی نظروں سے پوشیدہ رہی تھی۔ایسا زیرک انسان اتنی سی بات نہ سمجھ سکا تھا ۔
صبح سویرے کنویں میں ڈول ڈال ڈال کر گھڑے ، بالٹیاں ، لوٹے بھر بھر کر غسل خانے اور باورچی خانے میں دھرنے کے بعد وہ سورج چڑھے نہانے جانے لگی تو غسل خانے کی کڑی ٹوٹی ہوئی تھی۔ زنجیر ایک طرف لٹکی اس کا منہ چڑا رہی تھی ۔
اس روز شیرو بھی کھیتوں پر جانے کے بجائے پڑا سو رہا تھا ۔ایسا تو بہت کم ہوا تھا کہ وہ فصل کی پروا کیے بنا اتنی دیر تک پڑا سوتا رہتا یہاں تک کہ سورج سر پر پہنچ جاتا۔ وہ کسان تھا، صبح سویرے اٹھنے کا عادی۔ وہ شوہر ہو کر بیوی سے غافل ہو سکتا تھا لیکن کسان ہو کر فصل سے نہیں۔ پھربھلا آج کیا ایسا تھا کہ وہ اب تک پڑا سو رہا تھا بجائے کھیتوں کا رخ کرنے کے ۔
’’کھڑی کیا ہے؟ گھس جا نہانے۔ کون سے نامحرم بھرے پڑے ہیں گھر میں کہ تجھے بے پردگی کا ڈر ہو۔ گھس جا اور اپنا شوق پورا کر ، جیسے روز کرتی ہے۔ ‘‘ مہران ماں اسے ٹوٹی کڑی تھامے دیکھ کر چوٹ کر گئیں ۔اُس نے بھی ٹوٹی کڑی کی قطعاً پروا نہ کی۔ دروازہ یونہی ساتھ لگا دیا۔
کڑی وہیں جھولتی رہی اور پانی بہتا رہا۔ گہری خاموشی چھائی رہی ۔مہران ماں زیرک نگاہوں سے کبھی دروازے کو دیکھتیں اور کبھی چارپائی پر پڑے شیرو کو۔ جیسے کہتی ہوں کہ دیکھ اب، کچھ کر یا یونہی پڑا چارپائی توڑتا رہے گا ۔
شیرو جو خاموشی سنتے سنتے اُکتا گیا تھا، مزید ماں کی نظروں کے اشارے نہ دیکھ پایا۔اسے اب اٹھنا اور کچھ کرنا تھا۔
دھڑ سے دروازہ کھول کر سامنے ہوا۔ وہ جواندر گیلے بال کھولے غسل خانے کے روشن دان سے لگی کھڑی تھی، اُنہی کھلے بالوں سے صحن میں گھسیٹی گئی تھی ۔
’’بول، بتا… کس یار کو جھانکتی ہے گھنٹوں؟ وہ برابر والا رفیق چاچا یا وہ کبڑا انور… کہیں وہ پندرہ برس کا جوادی تو نہیں ہے جس سے یارانہ چل رہا ہے تیر؟ ‘‘
وہ شوہر کے لگائے الزامات پر بت بنی اسے بے یقینی سے دیکھ رہی تھی۔ پھرویسی ہی بت بنی پٹ رہی تھی ۔ شیرو غصے سے پاگل ہوا جا رہا تھا ۔ مکے ، لاتیں ، گھونسے سب پڑے مگر مجال ہے جو اُس کا قفل ٹوٹا ہو۔ایک لفظ منہ سے نہ پھوٹ کر اس نے دیا تھا ۔ نہ اقرار ، نہ انکار ۔ نہ ہوں نہ ہاں ۔
’’ملیچھ کو ملیچھ کام کے لیے ملیچھ جگہ ہی ملی۔ سات برس اس سوکھے پیڑ کو آنگن میں لگائے رکھا، لیکن نہ اِس نے سکھ دیا نہ سایہ۔ اب شوہر کی عزت کو یوں درگور کر رہی ہے بانجھ کہیں کی ۔‘‘ چرمی پاپوش سے مہران ماں اسے ٹھڈے مار رہی تھیں ۔اب ان میں نجانے کہاں سے طاقت آ گئی تھی چارپائی سے اٹھ کر اُسے مارنے کی۔ شیرو بھی شیر بنا دہاڑ رہا تھا ۔
تبھی برابر والے صحن سے بلند ہو تی آواز پر نیناں ابلق کے مانند اٹھی اوردوڑنے لگی کہ شیرو نے اُس کی کلائی تھام لی ۔
’’جانے دے مجھے شیرو۔ تجھے رب کا واسطہ مجھے جانے دے۔ ‘‘ وہ تڑپ اٹھی تھی ۔ اتنی دیر سے خاموشی سے پٹنے والی میں اب کہاں سے قوتِ گویائی آ گئی تھی کہ وہ بولنے پر آ گئی تھی ۔
’’اسے سنوں گی نہیں تو بہری ہو جاؤں گی۔ دیکھوں گی نہیں تو اندھی… اتنا ظالم نہ بن ۔ میری کوکھ نہ بھر سکا ، اس کے رونے کی آواز سن کر میرے اندر ٹھنڈک تو اترنے دے ۔ مجھ میں نئی زندگی نہ پھونک سکا، نہ ہی پھونک سکے گا ، میری جان تو نہ پھونک ۔اپنے بچے کی نہ سہی کسی کے بچے کی رونے کی آواز تو سننے دے۔کسی کے بچے کو تو دور سے دیکھ لینے دے ۔اپنا بانجھ پن مجھ میں مت اتار۔میرے اندر کی مامتاکا گلا مت دبا ۔میں بانجھ نہیں ہوں، بانجھ تو تُو ہے۔ پھر مجھے کیوں سزا دے رہا ہے؟ ‘‘ پھٹی نظروں والے بت نے اُس کی کلائی چھوڑ دی۔ اِتنا بڑا راز وہ جانتی تھی اور نہ صرف جانتی تھی بلکہ سات برس بعد کہہ بھی گئی تھی۔ وہ بھی مہران ماں کے سامنے۔ شیرو کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ یہ کیا ہو گیا تھا ؟ اُس کی مردانگی پر ایک ہی ضرب لگی ، وہ چٹخی اور پاش پاش ہو گئی ۔ شیرو بھی وہیں ڈھے گیا ۔
نیناں غسل خانے کی جھری کے پار چھے ماہ کے ننھے بلکتے عبداللہ کی آواز سے ہم آواز ہو کر رونے لگی ۔اس کی اندر کی مامتا کو جیسے قرار آنے لگا ۔یہ تھا وہ چکر جو اُس کے نجانے کتنے چکر اوپر کے لگواتا تھا۔جو اُسے بے چین کیے رکھتا تھا ۔ جو اُسےئ کبھی چوبارے تو کبھی غسل خانے کی جھری سے باندھے رکھتا تھا ۔چھے ماہ کا عبداللہ… جو اس کے اندر کی مامتا کو سکون دیتا تھا ۔ وہ مامتا جو زندہ ہو کر بھی اپنی موت آپ مر گئی تھی ۔
غسل خانے کے باہر مہران ماں خود کو کوسنے اور سینہ کوبی کرنے لگی۔
’’ شیرو تُوبانجھ ہے؟ ہائے میں مر جاؤں۔ اِس آنگن میں کبھی کوئی قلقاری نہیں گونجے گی۔ میرے پتر کی نسل آگے نہیں چلے گی۔ ہائے یہ کیا ہو گیا؟ میرا اکو اک پتر بانجھ نکلا۔ ‘‘ وہ اب دہاڑیں مار مارکررونے لگی۔ایسا مژدہ سنا دیا گیا تھا کہ اس آنگن میں ، مہران ماں کی آنے والی نسل کی چلنے سے پہلے ہی موت ہو گئی تھی ۔ یہ آخری نسل تھی اس خاندان کی جو آئندہ کی نسل کو بانجھ کر گئی تھی ۔
اوروہیں صحن کے وسط میں بیٹھا کسان مٹی سے نکلتے پھیلتے مکوڑوں کو دیکھتے سوچ رہا تھا کہ وہ اپنے کھیتوں کی آبیاری تو کر سکتا ہے، لیکن اپنی نسلوں کی آبیاری کرنے میں وہ بانجھ ثابت ہوا ۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

یاد دہانی — الصی محبوب

Read Next

کھیل ختم — ماہ وش طالب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!