وہ تقریباً دو بجے کمرے میں آیا اور اس کا خیال تھا کہ امامہ سو چکی ہو گی، مگر وہ ابھی بھی کھڑکی کے سامنے بیٹھی ہوئی باہر دیکھ رہی تھی۔ اس کے گھر کی لائٹس اب آف تھیں۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے گردن موڑ کر سالار کو دیکھا تھا۔
’’سو جانا چاہیے تھا تمہیں امامہ!‘‘ اس سے نظریں ملنے پر سالار نے کہا۔
وہ کھڑکیوں کے آگے کرسی رکھے دونوں پاؤں اوپر کیے گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے بیٹھی تھی۔
’’سو جاؤں گی۔‘‘
’’وہاں سب سو چکے ہیں، دیکھو لائٹس آف ہیں سب بیڈ رومز کی۔‘‘
وہ دوبارہ گردن موڑ کر باہر دیکھنے لگی۔
سالار چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر واش روم میں چلا گیا۔ دس منٹ بعد کپڑے تبدیل کر کے وہ سونے کے لیے بیڈ پر لیٹ گیا۔
’’امامہ! اب بس کرو، اس طرح دیکھنے سے کیا ہو گا؟‘‘ بیڈ پر لیٹے لیٹے اس نے امامہ سے کہا۔
’’میں نے کب کہا کہ کچھ ہو گا، تم سو جاؤ۔‘‘
’’تم وہاں بیٹھی رہو گی تو مجھے بھی نیند نہیں آئے گی۔‘‘
’’لیکن میں یہیں بیٹھوں گی۔‘‘ اس نے ضدی انداز میں کہا۔
سالار کو اس کی ضد نے کچھ حیران کیا۔ چند لمحے اسے دیکھنے کے بعد اس نے پھر کہا۔
’’امامہ! تم اگر بیڈ پر آکر لیٹو گی تو یہاں سے بھی تمہارا گھر نظر آتا ہے۔‘‘ سالار نے ایک بار پھر کوشش کی تھی۔
’’یہاں سے زیادہ قریب ہے۔‘‘
وہ اس بار بول نہیں سکا۔ اس کے لہجے میں موجود کسی چیز نے اس کے دل پر اثر کیا تھا۔ چند گز کا فاصلہ اس کے لیے بے معنی تھا۔ وہ اس کا گھر نہیں تھا۔ چند گز کی نزدیکی اس کے لیے بہت تھی۔ وہ نو سال بعد اس گھر کو دیکھ رہی تھی۔
’’ہمارے گھر کے اوپر والے فلور میں ایک کمرہ ہے، اس کمرے کی کھڑکیوں سے تمہارے گھر کا لان اور پورچ تک نظر آتا ہے۔‘‘ وہ لیٹے لیٹے چھت کو دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔
امامہ یک دم کسی سے اٹھ کر اس کے پاس آگئی۔
’’کون سا کمرہ…؟‘‘ مجھے دکھاؤ۔‘‘ اس کے بیڈ کے قریب کھڑے ہو کر اس نے بے چینی سے پوچھا۔
’’دکھا سکتا ہوں اگر تم سو جاؤ، پھر صبح میں تمہیں وہاں لے جاؤں گا۔‘‘ سالار نے آنکھیں کھول کر کہا۔
’’میں خود بھی جا سکتی ہوں۔‘‘ وہ بے حد خفگی سے سیدھی ہو گئی۔
’’اوپر والا فلور لاکڈ ہے۔‘‘ امامہ جاتے جاتے رک گئی۔ وہ یک دم مایوس ہوئی تھی۔
’’سالار! مجھے لے کر جاؤ اوپر…‘‘ وہ پھر اس کا کندھا ہلانے لگی۔
’’اس وقت تو نہیں لے کرجاؤں گا۔‘‘ اس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
’’تمہیں ذرا سی بھی محبت نہیں ہے مجھ سے؟‘‘ وہ اسے جذباتی دباؤ میں لے رہی تھی۔
’’ہے، اس لیے تو نہیں لے کر جا رہا، صبح وہاں جانا۔ تمہاری فیملی کے لوگ گھر سے نکلیں گے۔ تم انہیں دیکھ سکتی ہو۔ اس وقت کیا نظر آئے گا تمہیں؟‘‘ سالار نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
’’ویسے بھی مجھے نہیں پتا ہے کہ کمرے کی چابیاں کس کے پاس ہیں، صبح ملازم سے پوچھ لوں گا۔‘‘ سالار نے جھوٹ بولا۔
اوپر کا فلور مقفل نہیں تھا لیکن امامہ کو روکنے کا اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ وہ کچھ مایوس ہو کر دوبارہ کھڑکی کی طرف جانے لگی۔ سالار نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’اور فلور میں تب ان لاک کرواؤں گا، اگر تم ابھی سو جاؤ۔‘‘
سالار نے ایک لفظ کہے بغیر اپنی جگہ چھوڑ دی۔ اس نے کمبل ہٹا کر اس کے لیے جگہ بنا دی تھی۔
دوبارہ اس کی آنکھ سالار کے جاگنے سے کھلی۔ سحری ختم ہونے میں ابھی کچھ وقت تھا۔
جب تک وہ کپڑے تبدیل کر کے اور منہ ہاتھ دھو کر آئی، تب تک خانساماں کھانے کی ٹرالی کمرے میں چھوڑ گیا تھا۔ انہوں نے بڑی خاموشی کے ساتھ کھانا کھایا اور کھانا ختم کرتے ہی امامہ نے کہا۔ ’’اب چابیاں لے لو، اوپر چلیں۔‘‘
’’مجھے نماز پڑھ کر آنے دو۔‘‘
’’نہیں، مجھے اپنا گھر دیکھنا ہے۔‘‘
اس بار سالارنے جیسے امامہ کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔ اسے لے کر وہ اوپر کے فلور آگیا۔ کمرا کھلا دیکھ کر امامہ نے اسے بے خفگی سے دیکھا لیکن کچھ کہا نہیں۔ وہ اس وقت اتنی خوش تھی کہ سالار کی کسی بات پر ناراض نہیں ہو رہی تھی۔
اس کمرے کی کھڑکی کے سامنے کھڑے ہوتے ہی وہ جیسے سانس لینا بھول گئی تھی۔ وہاں سے اس کے گھر کا پورا لان اور پورچ نظر آرہا تھا۔ لان بالکل بدل گیا تھا۔ وہ ویسا نہیں رہا تھا جیسا کبھی ہوتا تھا، جب وہ وہاں تھی۔ تب وہاں دو کرسیاں بھی نہیں تھیں، جو پہلے ہوتی تھیں۔ لان میں لگی بیلیں اب پہلے سے بھی زیادہ بڑی اور پھیل چکی تھیں۔ آنسوؤں کا ایک نیا ریلا اس کی آنکھوں میں آیا تھا۔ سالار نے اس دفعہ اسے کچھ نہیں کہا۔ کہنا بے کار تھا۔ اسے فی الحال رونا تھا، وہ جانتا تھا۔
وہ گاؤں جانے کے لیے تیار ہونے کے بعد اسے خدا حافظ کہنے اوپر آیا تھا۔
اڑھائی گھنٹے کے بعد بھی وہ کھڑکی کے سامنے اسی طرح کھڑی تھی۔ سالار کے اندر آنے پر بھی اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔
’’میں گاؤں کے لیے نکل رہا ہوں، شام تک واپس آؤں گا۔ دس گیارہ بجے کے قریب پاپا ور ممی اٹھ جائیں گے، تب تم نیچے آجانا۔‘‘ اس کی ٹانگوں پر کمبل ڈالتے ہوئے۔ اس نے امامہ سے کہا۔
وہ اب بھی اسی طرح دوپٹے سے آنکھیں اور ناک رگڑ رہی تھی لیکن اس کی نظریں اب بھی کھڑکی سے باہر تھیں۔ سالار اور یہ کمرا جیسے اس کے لیے اہم نہیں رہا تھا۔ وہ اس سے کیا کہہ رہا تھا،اس نے نہیں سنا تھا اور سالار یہ جانتا تھا۔ وہ اسے خدا حافظ کہتے ہوئے چلا گیا۔
وہ اگلے چار گھنٹے اس طرح صوفے پر جمی بیٹھی رہی۔ اس دن اس نے نو سال کے بعد باری باری اپنے تینوں بھائیوں کو بھی گھر سے جاتے دیکھا تھا۔ وہ وہاں بیٹھی انہیں دیکھتی ہچکیوں سے روتی رہی تھی۔ وہاں بیٹھے ہوئے اسے لگ رہا تھا کہ اس نے یہاں آکر غلطی کی ہے۔ اسے نہیں آنا چاہیے تھا۔ اتنے سال سے صبر کے جو بند وہ باندھتی چلی آرہی تھی، اب وہ بند باندھنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ پہلے اسلام آباد آنا نہیں چاہتی تھی اور اب یہاں سے جانا نہیں چاہتی تھی۔
ساڑھے چار بجے اسے ملازم نے انٹر کام پر اٹھایا تھا۔ افطار کا وقت قریب تھا، سکندر اور طیبہ بھی اس کا انتظار کر رہے تھے۔ سالار بھی افطار سے چند منٹ پہلے ہی پہنچا تھا۔ سکندر اور طیبہ اس رات بھی کہیں مدعو تھے اور اُن دونوں کی فلائٹ کے وقت وہ گھر پر موجود نہیں تھے لیکن اُس ڈنر کے لیے نکلنے سے پہلے وہ سالار اور امامہ سے مل کر گئے تھے۔
اُن کی فلائٹ گیارہ بجے تھی اور جب وہ دونوں باہر آئے تو باہر پورچ میں ڈرائیور ایک گارڈ کے ساتھ گاڑی میں انتظار کررہا تھا۔ سالار نے سامان گاڑی میں رکھنے کے بعد چابی ڈرائیور سے لے لی۔ اِمامہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
’’ہم لوگ بائی روڈ جا رہے ہیں، پاپا آئیں تو انہیں بتا دینا۔
ڈرائیور نے کچھ احتجاج کرنے کی کوشش کی۔ شاید سکندر اسے ضرورت سے زیادہ ہدایات کر گئے تھے، لیکن سالار کی ایک جھاڑ نے اسے خاموش کر دیا۔
’’اور اب اتنی وفاداری دکھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ میرے گھر سے نکلتے ہی پاپا کو فون کر دو۔‘‘
وہ گاڑی میں بیٹھا ہوا اس سے کہہ رہا تھا۔ اسے یقین تھا وہ اس کے گھر سے نکلتے ہی یہی کام کرے گا۔ اس لیے گیٹ سے نکلتے ہی اس نے سکندر کے فون پر کال کی تھی۔ وہ کچھ دیر کے لیے سکندر کا فون انگیج کرنا چاہتا تھا۔
’’پاپا! ہم لوگ نکل رہے تھے تو سوچا آپ سے بات کر لوں۔‘‘ سالار نے سکندر سے کہا۔
’’اچھا کیا۔‘‘
’’ذرا ممی سے بات کرا دیں۔‘‘ اس نے سکندر کے کچھ کہنے سے پہلے ہی سکندر سے کہا۔ اسے خدشہ تھا کہ سکندر ڈرائیور کی ان کمنگ کال دیکھ کر چونکیں گے۔ وہ اگر گاڑی میں ان سے بات کر رہا ہے تو ڈرائیور انہیں کیوں کال رہا تھا۔ البتہ طیبہ اس سے بات کرتے ہوئے کسی ان کمنگ کال کو چیک نہیں کرتیں اور اگر کرتیں بھی تو ان کو شک نہیں ہوتا۔ اگلے پندرہ منٹ وہ طیبہ کے ساتھ باتیں کرتا رہا۔ ساتھ بیٹھی امامہ کچھ حیران تھی۔ لیکن اس نے اسے نظر انداز کیا تھا۔ وہ اتنی لمبی باتیں کرنے کا عادی نہیں تھا۔ جتنا وہ اب یک دم باتونی ہو گیا تھا۔ادھر یہی حیرانی طیبہ کو بھی ہو رہی تھی۔ سکندر ڈنر ٹیبل پر چند دوسرے افراد کے ساتھ مصروف تھے۔ پندرہ منٹ لمبی گفتگو کے بعد جب سالار کو یقین ہو گیا کہ ڈرائیور اب تک سکندر کو کئی کالز کرنے کے بعد تنگ آکر کر کالز کرنا چھوڑ چکا ہو گا یا کم از کم دوبارہ کرنے کی اگلی کوشش کچھ دیر بعد ہی کرے گا تو اس نے خدا حافظ کہتے ہوئے فون آف کر دیا۔ طیبہ اور سکندر کی واپسی بارہ بجے سے پہلے متوقع نہیں تھی اور اب اگر ڈرائیور سے پانچ دس منٹ بعد بھی ان کی بات ہوتی تو وہ بہت فاصلہ طے کر چکے ہوتے۔
’’بائی روڈ آنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ اس کا فون بند ہوتے دیکھ کر امامہ نے اس سے پوچھا۔
’’یونہی دل چاہ رہا تھا۔ کچھ یادیں تازہ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ سالار نے سیل فون رکھتے ہوئے کہا۔
’’کیسی یادیں؟‘‘ وہ حیران ہوئی۔
’’تمہارے ساتھ پہلے سفر کی یادیں۔‘‘ وہ کچھ دیر اس سے نظریں نہیں ہٹا سکی۔
وہ اس شخص سے کہا کہتی کہ وہ اس سفر کو یاد نہیں کرنا چاہتی۔ وہ اس کے لیے سفر نہیں تھا، خوف اور بے یقینی میں گزارے چند گھنٹے تھے جو اس نے گزارے تھے۔ مستقبل اس وقت ایک بھیانک بھوت بن کر اس کے سامنے کھڑا تھا اور اس راسے میں وہ بھوت مسلسل اسے ڈراتا رہاتھا۔
’’میرے لیے خوش گوار نہیں تھا وہ سفر۔‘‘ اس نے تھکے سے لہجے میں سالار سے کہا۔
’’میرے لیے بھی نہیں تھا۔‘‘ سالار نے بھی اسی انداز میں کہا۔
’کئی سال ہانٹ کرتا رہا مجھے، دیکھنے آیا ہوں کہ اب بھی ہانٹ کرتا ہے۔‘‘ وہ بات ختم کرتے ہوئے اسے دیکھ کر بہت مدھم انداز میں مسکرایا۔
امامہ خاموش رہی۔ کئی سال پہلے کی وہ رات ایک بار پھر سے ایک اس کی آنکھوں کے سامنے آنے لگی تھی اور آنکھوں کے سامنے صرف رات ہی نہیں بلکہ جلال بھی آیا تھا۔ اس رات کی تکلیف کا ایک سرا اس کی ذات کے ساتھ بندھا تھا۔ دوسرا اس کی فیملی کے ساتھ ۔ اس نے دونوں کو کھویا تھا۔ اگلی صبح کا سورج لاکھ ہمیشہ جیسا ہوتا، اس کی زندگی ویسی نہیں رہی تھی۔ کبھی وہ سوچ سکتی تھی کہ وہ کبھی اس رات کو صرف تکلیف سمجھ کر سوچے گی، تقدیر سمجھ کر نہیں… اس کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔ برابر میں بیٹھا شخص آج اس کے آنسوؤں سے بے خبر نہیں تھا، لیکن اس وقت بے خبر تھا۔ اس نے کچھ کہے بغیر ہاتھ بڑھا کر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا، امامہ آنکھیں پونچھنے لگی تھی۔ وہ سارا نقشہ جو اس نے اپنی زندگی کا کھینچا تھا، اس میں یہ شخص کہیں نہیں تھا۔ زندگی نے کس کو کس کے ساتھ جوڑا… کس تعلق کو، کہاں سے توڑا تھا… پتا ہی نہیں چلا… سفر خاموشی سے ہو رہا تھا، لیکن طے ہو رہا تھا۔
’’اب بہت احتیاط سے گاڑی چلا رہا ہو۔‘‘ امامہ کو کئی سال پہلے کی اس کی ریش ڈرائیونگ یاد تھی۔ ’’زندگی کی قدر ہو گئی ہے اب؟‘‘ اس نے سالار سے ہاتھ چھڑاتے ہوئے پوچھا۔
’’تمہاری وجہ سے احتیاط کر رہا ہوں۔‘‘ وہ بول نہیں سکی۔ خاموشی کا ایک اور وقفہ آیا۔
وہ شہر کی حدود سے باہر نکل آئے تھے اور سڑک پر دھند محسوس ہونے لگی تھی۔ یہاں دھند گہری نہیں تھی، لیکن موجود تھی۔
’’کبھی دوبارہ سفر کیا اکیلے اس روڈ پر…‘‘ امامہ نے کچھ دیر بعد پوچھا۔
’’موٹر وے سے جاتا ہوں اب اگر گاڑی میں جانا ہو تو… بس ایک بار آیا تھا کچھ ماہ پہلے۔‘‘ وہ کہہ رہا تھا۔ ’’جب پاپا نے مجھے تمہارے ہاتھ کا لکھا ہوا نوٹ دیا۔ کیا رات تھی؟‘‘
وہ جیسے تکلیف سے کراہا اور پھر ہنس پڑا۔
’’امید تھی جس کو، اس رات میں میں مجسم فنا ہوتے دیکھا۔ سمجھ میں آیا مجھے کہ تب اس رات تم کس حالت سے گزری ہو گی۔اذیت سے بہت زیادہ… موت سے ذرا سی کم… لیکن تکلیف اس کو کوئی بھی نہیں کہہ سکتا۔‘‘