’’امامہ! ہم کل صبح کے بجائے، آج شام کو جا رہے ہیں۔ رات کراچی میں رکیں گے اور پھر کل رات کو ہی واپس آجائیں گے۔ سات بجے کی فلائٹ ہے۔ میں شام ساڑھے پانچ بجے تمہیں پک کروں گا، تم پیکنگ کر لو۔‘‘
اس نے بارہ بجے کے قریب فون کر کے آفس سے کراچی کا نیا پروگرام بتایا تھا۔ وہ یک دم نروس ہونے لگی۔ اتنی جلدی پیکنگ، ٹھیک ہے وہ ایک رات کے لیے جا رہے تھے۔ پھر بھی… وہ اب اسے اپنے ان کپڑوں کے بارے میں بتا رہا تھا جو وہ ساتھ لے کر جانا چاہتا تھا۔ وہ پیکنگ کرتے ہوئے بے حد بولائی ہوئی تھی۔
وہ ساڑھے پانچ بجے وہاں موجود تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اس نے گاڑی میں روزہ افطار کر لیا ہو گا، لیکن پھر بھی وہ ایک باکس میں اس کے لیے کھانے کی چیزیں اور جوس لے کر آئی تھی۔ ایئرپورٹ تک کی ڈرائیو میں دونوں باتیں کرتے ہوئے ساتھ وہ چیزیں بھی کھاتے رہے۔
وہ ساڑھے چھے بجے ایئر پورٹ پر پہنچے، بورڈنگ شروع ہو چکی تھی۔ وہ فرسٹ کلاس سے سفر کر رہے تھے۔ اسی لیے ٹریفک کی وجہ سے کچھ لیٹ ہونے کے باوجود سالار مطمئن تھا۔
ایگزیکٹو لاؤنج سے جہاز میں سوار ہوتے ہوئے سالار کی فرسٹ کلاس کے کچھ اور پسنجرز سے سلام دعا ہوئی۔ چند ایک سے اس نے امامہ کا بھی تعارف کروایا۔ وہ سب کارپوریٹ سیکٹر سے تعلق رکھتے تھے یا پھر سالار کے کسٹمرز تھے۔
کراچی ایئر پورٹ پر ہوٹل کی گاڑی نے انہیں پک کیا تھا۔
’’میں نے سوچا تھا کہ ہم انتیا کے گھر پر ٹھہریں گے۔‘‘ امامہ نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’میں کبھی انتیا کے گھر نہیں ٹھہرا، میں ہوٹل میںرہتا ہوں۔‘‘ سالار نے اسے بتایا۔ ’’کراچی اکثر آتا جاتا ہوں میں۔‘‘ وہ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے اس سے کہہ رہا تھا۔ ’’بعض دفعہ تو یہاں آکر انتیا سے بات تک نہیں ہو پاتی۔‘‘
امامہ نے اس کا چہرہ دیکھا لیکن کچھ کہا نہیں۔ وہ مسلسل سیل پر کچھ میسجز کرنے میں مصروف تھا۔ وہ ساتھ ساتھ اسے سڑک کے دونوں اطراف آنے والے علاقوں کے بارے میں بھی بتا رہا تھا۔
’’پھر مجھے تمہارے ساتھ نہیں آنا چاہیے تھا۔ میری وجہ سے…‘‘
سالار نے نے اس کے اچانک اس طرح کہنے پر اسے ٹوکا۔
’’تمہیں ساتھ لے کر آنا مجھے اچھا لگ رہا ہے اور تمہیں انیتا کی فیملی سے ملوانے کے لیے یہاں لے کر تو آنا ہی تھا مجھے۔‘‘ امامہ نے اس کا چہرہ غور سے پڑھنے کی کوشش کی۔
’’سچ کہہ رہا ہوں۔‘‘ اس نے امامہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’تمہیں میرے ساتھ آنا اچھا نہیں لگا؟‘‘ سالار نے یک دم اس سے پوچھا، وہ مسکرا دی۔
’’آپ اپنی وائف کے ساتھ پہلی بار یہاں ٹھہر رہے ہیں۔‘‘
ہوٹل میں چیک ان کرتے ہوئے ریسپشن پر موجود لڑکے نے مسکراتے ہوئے سالار سے کہا۔
اس فائیو اسٹار ہوٹل کے چند کمرے مستقل طور پر سالار کے بینک نے بک کیے ہوئے تھے اور ان کمروں میں باقاعدگی سے ٹھہرنے والوں میں سے ایک وہ بھی تھا، لیکن آج وہ پہلی بار اس کی بیوی کو دیکھ رہے تھے۔
سالار نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا اور سائن کرنے لگا۔ وہ لڑکا اب امامہ سے کچھ خوش گوار جملوں کا تبادلہ کر رہا تھا۔ جیسے کوئی آہستہ آہستہ اس کے گرد موجود ساری سلاخیں گرا رہا ہو۔ وہ باہر کی اس دنیا سے مسحور ہو رہی تھی، جس سے وہ سالار کی وجہ سے متعارف ہوئی تھی۔
بیچ لگژری پر انیتا اور اس کی فیملی نے اس کے لیے ڈنر ارینج کر رکھا تھا۔ وہ لوگ آدھے گھنٹے میں تیار ہونے کے بعد تقریباً ساڑھے گیارہ بجے وہاں پہنچے۔ انیتا اور اس کے شوہر کے علاوہ اس کے سسرال کے بھی کچھ لوگ وہاں موجود تھے۔ یہ سالار اور اس کے بیوی کے لیے ایک فیملی ڈنر تھا۔ اس کا استقبال بڑی گرم جوشی سے کیا گیا۔ اس کی گھبراہٹ ابتدائی چند منٹوں کے بعد ختم ہونا شروع ہو گئی۔ وہ کافی لبرل فیملی تھی اور ان دونوںکی شادی کے حوالے سے ہونے والی رسمی گفت گو کے بعد، گفت گو کے موضوعات بدل گئے تھے۔ امامہ چیف گیسٹ تھی لیکن وہاں کسی نے اسے ٹیلی سکوپ کے نیچے نہیں رکھا تھا اور اس چیز نے امامہ کے اعتماد میں اضافہ کیا۔ کھانا ابھی رو نہیں ہوا تھا۔ وہ ڈرنکس لیتے ہوئے گپ شپ کر رہے تھے۔ امامہ گفت گو میں ایک مسکراتے ہوئے خاموش سامع کا رول ادا کر رہی تھی۔ اس کی زیادہ توجہ پیچ لگژری ویو کے گرد نظر آنے والے سمندر اور شہر کی روشنیوں پر تھی۔ وہ لوگ اوپن ایر میں تھے۔ کراچی میں لاہور جیسی سردی نہیں تھی لیکن یہاں اسے سردی محسوس ہو رہی تھی۔ سالار نے آنے سے پہلے اسے گرم شال لینے کا نہ کہا ہوتا تو یقینا اس وقت اس کے دانت بج رہے ہوتے۔ وہاں موجود تمام خواتین سویٹرز کے بجائے، اسی طرح کی شالیں اپنے کندھوں پر ڈالے ہوئے تھیں۔
’’سالار! میں وہاں آگے جا کر نیچے سمندر دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘ اس نے ساتھ بیٹھے ہوئے سالار کی طرف جھکتے ہوئے مدھم آواز میں سرگوشی کی۔
’’تو جاؤ۔‘‘ سالار نے اطمینان سے کہا۔
’’میں کیسے جاؤں…؟ اس طرح اکیلے… تم ساتھ آؤ میرے۔‘‘ اس نے اس کے مشورے پر جزبز ہوتے ہوئے کہا۔
’’نہیں، تم خود جاؤ… دیکھو… اور بھی لوگ کھڑے ہیں، تم بھی جا کر دیکھ آؤ۔‘‘ سالار نے اس سے کہا۔ وہ اب اس کی گود میں پڑا بیگ اٹھا کر نیچے زمین پر رکھتے ہوئے بلند آواز میں اس سے کہہ رہا تھا۔
امامہ نے کچھ جھجکتے ہوئے اس لمبی ٹیبل کے گرد موجود افراد پر نظر ڈالی، وہ سب گفت گو میں مصروف تھے۔ ان میں سے کوئی بھی ان کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ وہ کچھ ہمت پاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کے بائیں طرف بیٹھی انیتا اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
’’وہاں سے جا کر دیکھو، وہاں سے زیادہ اچھا ویو ہے۔‘‘ انیتا نے اشارے سے اسے گائیڈ کیا۔ امامہ نے سر ہلایا۔
وہاں اس وقت اس کے علاوہ اور بھی کچھ فیملیز موجود تھیں اور سالار ٹھیک کہہ رہا تھا۔ کوئی نہ کوئی وقتاً فوقتاً اٹھ کر اسی طرح اس عرشہ نما جگہ کے کنارے کھڑے ہو کر سمندر کو دیکھنے لگتا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے نروس تھی لیکن پھر وہ نارمل ہونا شروع ہو گئی۔
سالار وہیں بیٹھا کولڈ ڈرنک پیتے اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ امامہ نے دوبارہ پلٹ کر کچھ نروس ہو کر اسے دیکھا تھا۔ وہ دونوں بار مسکرا دیا۔ یہ نو سال پہلے کی وہ پر اعتماد لڑکی نہیں تھی جو آدھی رات کو اپنے گھر کی دیوار کود کر اس کے کمرے میں آگئی تھی۔ اس سے شادی کی تھی، پھر گھر سے چلی گئی تھی۔
وہ وسیم کی اس بہن کے بارے میں وسیم سے بہت کچھ سن چکا تھا لیکن پچھلے دس دنوں سے وہ جس لڑکی کو دیکھ رہا تھا، یہ وہ لڑکی نہیں تھی۔ وقت نے جتنی توڑ پھوڑ اس کی زندگی میں پیدا کی تھی اس سے زیادہ توڑ پھوڑ اس نے عرشے کی طرف جاتی ہوئی اس لڑکی کی زندگی میں پیدا کی تھی۔ اس کے انداز اطوار ہی تبدیل ہو گئے تھے۔ نو سال اگر کسی شخص کو اس کے گھر والوں سے الگ کر دیا جائے خوف اور دباؤ کے ساتھ چند جگہوں تک محدود کر کے پانی دنیا سے کاٹ دیا جائے تو وہ کس حد تک کنفیوز ڈ، ڈبل مائنڈ ، غیر محفوظ اور ڈیپنڈنٹ ہو سکتا ہے۔ وہ اس کا عملی مظاہرہ امامہ کی اس حالت میں دیکھ رہا تھا اور یہ چیز اسے تکلیف پہنچا رہی تھی۔ وہ کم از کم اسے اس حالت میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
’’سالار… سالار…‘‘ وہ انیتا کی آواز پر بے اختیار چونکا۔
اس نے پوری قوت سے اس کے کندھے پر ہاتھ مارا تھا۔
’’یا تو اسے وہاں بھیجتے نہ، اب بھیج ہی دیا ہے تو دو چار منٹوں کے لیے کسی اور چیز کو بھی دیکھ لو۔‘‘ وہ اب اسے ڈانٹ رہی تھی۔ وہ مسکرا کر سیدھا ہو گیا۔ اس کا بہنوئی غفران اس سے کچھ پوچھ رہا تھا۔
ہوا امامہ کے بالوں کو بکھیر رہی تھی۔ وہ انہیں بار بار کانوں کے پیچھے کر کے سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن انہیں کھلا چھوڑ کر آنے پر پچھتا بھی رہی تھی۔ اس تیز ہوا میں وہ شیفون کے دوپٹے کو سر پر ٹکانے کی کوشش چھوڑ چکی تھی، ہاں وہ پشمینہ شال اس کی مہین شیفون کی قمیص کو اڑنے سے تو روک نہیں پا رہی تھی لیکن اس کے جسم کو اچھی طرح ڈھانپے رکھنے میں مؤثر تھی۔ وہ کئی سالوں میں آج پہلی بار کسی پبلک پلیس پر سر ڈھانپے بغیر کھڑی تھی۔ اسے بے حد عجیب لگ رہا تھا۔اگر وہ سالار کے ساتھ نہ ہوتی تو کبھی بھی ایسی حالت میں کسی کھلی جگہ پر کھڑے ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ دس دن پہلے تک تو وہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے اپنا چہرہ بھی چھپاتی تھی۔ وہ واحد گیٹ اپ تھا جس میں وہ خود کو بے حد محفوظ سمجھتی تھی۔ سالار سے شادی کے بعد اس نے چہرہ چھپانا چھوڑ دیا تھااور اب اس کے ساتھ خود کو محفوظ سمجھتی تھی۔
تاریک سمندر میں نظر آتی روشنیوں کے عکس کو دیکھتے ہوئے اس نے ایک بار پھر گردن کے گرد لپٹے دوپٹے کو سر پر لینے کی کوشش کی۔ یہاں اس کی کوشش کو نوٹس کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ یہ کام اس ہوا میں شال، دوپٹے اور کھلے بالوں کے ساتھ آسان نہیں تھا۔
’’میں بال سمیٹ دوں تمہارے؟‘‘ وہ جیسے کرنٹ کھا کر پلٹی پھر جیسے اطمینان کا سانس لیا۔
’’تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔‘‘ اس نے سالار کو اپنے عقب میں دیکھ کر بے اختیار کہا۔ وہ کس وقت آتا تھا، اسے پتا ہی نہیں چلا تھا۔
’’تم میرا دوپٹا پکڑو گے؟‘‘ اس نے سالار کی اونٹ میں آتے ہوئے اپنا دوپٹا اسے پکڑا دیا۔ وہ اب وہاں کھڑی دوسروں کو نظر نہیں آرہی تھی۔
’’تمہیں مجھ کو بتانا چاہیے تھا کہ یہاں اتنی تیز ہوا ہو گی، میں بال تو کھلے چھوڑ کر نہ آتی۔‘‘ وہ اپنے بالوں کو ڈھیلے جوڑے کی شکل میں لپیٹتے ہوئے اس سے شکایتی انداز میں کہہ رہی تھی۔ وہ اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ بہ اب اپنی شال اتار کر اسے دیتے ہوئے، دوپٹا اس سے لے رہی تھی۔
’’یہ کون سا کلر ہے؟‘‘ دو دوپٹے کو اپنے سر اور گردن کے گرد کپٹے ہوئے اس کے سوال پر ٹھٹکی۔
’’کرمزن…کیوں؟‘‘
سالار نے شال اس کے کندھوں کے گرد لپیٹتے ہوئے کہا۔
’’میں تمہیں بتانا چاہتا تھا، تم اس کلر میں بہت اچھی لگتی ہو۔‘‘ اس نے اس کے بائیں گال کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے بہت آہستہ سے چھوا تھا۔
امامہ کی آنکھوں میں حیرت امڈ آئی۔ اگلے لمحے سالار کو یہ طے کرنا مشکل ہو گیا کہ اس کا لباس زیادہ قرمزی تھا یا اس کا چہرہ، وہ بے اختیار گہرا سانس لے کر رہ گیا۔
’’اب تم اتنی سی بات پر بھی یوں بلش ہوا کرو گی تو معاملہ جان لیوا ہو جائے گا۔ مار دو گی تم بڑی جلدی مجھے۔‘‘ وہ کھلکھلا کر ہنسی۔
وہ تقریباً اڑھائی بجے واپس اپنے ہوٹل میں آئے تھے۔ امامہ کو اتنی نیند آرہی تھی کہ اس نے جیولری اتاری دی چہرہ بھی دھو لیا لیکن کپڑے تبدیل کیے بغیر سو گئی تھی۔
٭٭٭٭
کراچی سے واپسی کے بعد اگلے دو دن امامہ بہت اچھے موڈ میں رہی، اسے ہر بات پر کراچی یاد آجاتا۔ اس کی یہ خوشی سالار کو حیران کرتی رہی۔ اس کا خیال تھا اسے وہ شہر پسند آیا ہے لیکن اسے یہ اندازہ نہیں ہوا کہ بات شہر کی نہیں تھی، وہ اگر امامہ کو نواب شاہ بھی لے جاتا تو بھی وہ اسی ٹرانس میں واپس آتی۔ وہ کھلی فضا میں سانس لینے کے قابل ہو رہی تھی اور ایک لمبے عرصے کے بعد گھٹی ہوئی سانسوں کے ساتھ جینے کے بعد کچھ دیر تک تو انسان ایسے ہی گہرے سانس لیتا ہے، جیسے وہ لے رہی تھی۔
٭٭٭٭