تین بجے کے قریب وہ سارا سامان کے گھر پر گیسٹ روم میں بکھرا ہوا تھا۔ فرقان نے اس دن بھی انہیں افطاری کے لیے اپنی طرف مدعو کیا ہوا تھا لیکن سالار نے معذرت کر لی۔ فی الحال اس سامان کو ٹھکانے لگانا زیادہ اہم تھا۔
ایک اسٹور میں سالار نے کچھ عرصے پہلے ایلومینیم اور شیشے کے ریکس والی کچھ الماریاں دیکھی تھیں۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ وہاں لگایا ہوا چکر بے کار نہیں گیا۔ چھ فٹ اونچی اور تین فٹ چوڑی ایک ہی طرح کی تین الماریوں نے گیسٹ روم کی ایک پوری دیوار کو کور کر کے یک دم اسے اسٹڈی روم کی شکل دے دی تھی لیکن امامہ کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ ان تین الماریوں میں اس کی تقریباً ساری کتابیں سما گئی تھیں۔ ان کتابوں کو اتنے سالوں میں پہلی بار کوئی ڈھنگ کی جگہ نصیب ہوئی تھی۔ اس کے ایزیل اور ریکس، لانڈری کی دیوار پر بنی ریکس پر سمیٹے گئے تھے۔
وہ جہیز کے سامان میں برتنوں اور بیڈ شیٹس کے علاوہ اور کچھ نہیں لائی تھی، تب اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس کی قسمت میں اس سامان میں سے صرف ان ہی دو چیزوں کا استعمال لکھا تھا۔
سالار کا کچن ایریا اب پہلی بار ایک آباد جگہ کا نظارہ پیش کر رہا تھا۔ برتنوں کے لیے بنے ریکس کے شیشوں سے نظر آتی نئی کراکری اور کاؤنٹر کی سلیب پر کچن کے استعمال کی چھوٹی موٹی نئی چیزوں نے کچن کی شکل کو بالکل بدل کر رکھ دیا تھا۔
وہ لوگ رات کے دس بجے جب فارغ ہوئے تو اپارٹمنٹ میں آنے والا نیا سامان سمیٹا جا چکا تھا۔ اس کے لیے فرقان کے گھر سے کھانا آیا تھا لیکن اس رات امامہ نے اسے بڑے اہتمام کے ساتھ نئی کراکری سرو کیا تھا۔
’’اچھا لگ رہا ہے نا ایسے؟‘‘ امامہ نے چمکتی آنکھوں کے ساھ اس سے پوچھا۔
سالار نے اپنے سامنے موجود نئی برانڈ ڈنر پلیٹ اور اس کے اطراف میں لگی چمکتی ہوئی کٹلری کو دیکھا اور پھر کانٹا اٹھا کر اسے بغور دیکھتے ہوئے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
’’ہاں، ایسا لگ رہا ہے جیسے ہم کسی ریسٹورنٹ کی اوپننگ والے دن سب سے پہلے اور اکلوتے کسٹمر ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے امامہ! کہ یہ کراکری اور کٹلری اتنی نئی ہے کہ اس میں کھانا کھانے کو دل نہیں چاہ رہا … میں پرانے برتنوں میں نہیں کھا سکتا …؟‘‘
امامہ کا موڈ بری طرح آف ہوا۔ کم از کم یہ وہ جملہ نہیں تھا جو وہ اس موقع پر اس سے سننا چاہتی تھی۔
’’لیکن یہ بہت خوب صورت ہیں۔‘‘ سالار نے فوراً اپنی غلطی کی تصحیح کی تھی۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ فی الحال وہ مذاق کو سراہنے کے موڈ میں نہیں تھی۔ امامہ کے تاثرات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
اپنی پلیٹ میں چاول نکالتے ہوئے سالار نے کہا۔ ’’کھانے کے بعد کہیں کافی پینے چلیں گے۔‘‘ اس بار اس کے چہرے پر کچھ نرمی آئی۔
’’کچن کا سامان لینا ہے۔‘‘ اس نے فوراً کہا۔
وہ چاول کا چمچ منہ میں ڈالتے رک گیا۔ ’’ابھی بھی کوئی سامان لینا باقی ہے؟‘‘ وہ حیران ہوا۔
’’گرو سری چاہیے۔‘‘
’’کیسی گرو سری…؟ کچن میں سب کچھ تو ہے۔‘‘
’’آٹا، چاول، دالیں، مسالے کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔‘‘ امامہ نے جواباً پوچھا۔
’’ان کو میں نے کیا کرنا ہے؟ میں نے کبھی کھانا نہیں پکایا۔‘‘ سالار نے کندھے اچکا کر لاپروائی سے کہا۔
’’لیکن میں تو پکاؤں گی نا… ہمیشہ تو دوسروں کے گھر سے نہیں کھا سکتے ہم۔‘‘ امامہ نے سنجیددگی سے کہا۔
’’جارز اور کنٹینرز بھی چاہیے۔‘‘ امامہ کو یاد آیا۔
’’فی الحال آج میرا اس طرح کی خریداری کرنے کا موڈ نہیں ہے… مجھے تھکن محسوس ہو رہی ہے۔‘‘ سالار کراہا۔
’’اچھا، ٹھیک ہے، کل خرید لیں گے۔‘‘ امامہ نے کہا۔
اس رات وہ کافی کے لیے قریبی مارکیٹ تک ہی گئے تھے۔ گاڑی فورٹریس کے گرد گھماتے ہوئے انہوں نے وہی گاڑی میں بیٹھے ہوئے کافی پی۔
’’شکر ہے، کتابوں کو تو جگہ مل گئی۔‘‘
سالار کافی پیتے ہو ئے چونکا۔ وہ کھڑکی سے باہر دور شاپس کو دیکھتے ہوئے بڑبڑائی تھی۔ اس کے لاشعور میں اب بھی کہیں وہ کتابیں ہی اٹکی ہوئی تھیں۔
’’وہ کتابیں نہیں ہے۔‘‘ سالار نے سنجیدگی سے کہا۔
کافی کا گھونٹ بھرتے اس نے چونک کر سالار کو دیکھا۔
’’پچانوے فیصد ناولز ہیں… وہ بھی چیپ رومانس… پانچ دس میںسمجھ سکتا ہوں… چلو اتنے سالوں میں سو دو سو بھی ہو سکتے ہیں… لیکن ڈیڑھ دو ہزار اس طرح کے ناولز…؟ تمہارا کتناstamina ہے اس طرح کی ربش پڑھنے کے لیے اور تم نے باقاعدہ مارک کر کے پڑھا ہے ان ناولز کو۔ میرا خیال ہے، پاکستان میں چیپ رومانس کی سب سے بڑی کلیکشن اس وقت میرے گھر میں ہے۔‘‘
وہ خاموش رہی۔ کافی پیتے کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی۔
سالار کچھ دیر اس کی طرف سے کسی ردِ عمل کا انتظار کرتا رہا، پھر اس کی لمبی خاموشی پر اسے خدشہ ہوا کہ کہیں وہ بر انہ مان گئی ہو۔ اپنا بایاں بازو اس کے کندھوں پر پھیلاتے ہوئے اس نے جیسے خاموش معذرت پیش کی۔
’’ٹھیک ہے، چیپ رومانس ہے، لیکن اچھا لگتا ہے مجھے یہ سب کچھ۔‘‘ وہ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کچھ دیر بولی۔
’’وہاں لوگ ہمیشہ مل جاتے ہیں… کوئی کسی سے بچھڑتا نہیں ہے… میرے لیے ونڈر لینڈ ہے یہ۔‘‘ وہ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے جیسے کہیں اور پہنچی ہوئی تھی۔
وہ خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتا اور اسے سنتا رہا۔
’’جب اپنی زندگی میں کچھ بھی اچھا نہ ہو رہا ہو تو کسی ایسی دنیا میں جانا اچھا لگتا ہے، جہاں سب کچھ پرفیکٹ ہو۔ وہاں وہ کچھ ہو رہا ہو، جو آپ چاہتے ہیں… وہ مل رہا ہو، جو آپ سوچتے ہیں… جھوٹ ہے یہ سب کچھ لیکن کوئی بات نہیں، اس سے میری زندگی کی کڑواہٹ تھوری کم ہوتی تھی… جب میں جاب نہیں کرتی تھی تب زیادہ پڑھتی تھی ناولز۔ کبھی کبھار، سارا دن اور ساری رات… جب میں یہ ناولز پڑھتی تھی تو مجھے کوئی بھی یاد نہیں آتا تھا۔ امی ابو، بہن بھائی، بھتیجے، بھتیجیاں، بھانجے بھانجیاں… کوئی نہیں… ورنہ بہت مشکل تھا سارا دن یا رات کو سونے سے پہلے اپنی فیملی کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے میں سوچنا، اپنی زندگی کے علاوہ کسی اور کے بارے میں پریشان ہونا، میں خوف ناک خواب دیکھتی تھی اور پھر میں نے ان ناولز کے ذریعے خوابوں کی ایک دنیا بسا لی۔ میں ناول کھولتی تھی اور یک دم زندگی بدل جاتی تھی۔ میری فیملی ہوتی تھی اس میں… میں ہوتی تھی… جلال ہوتا تھا۔‘‘
سالار کافی کا گھونٹ نہیں لے سکا۔ اس کے لبوں پر اس وقت اس ’’شخص‘‘ کا نام سن کر کتنی اذیت ہوئی تھی اسے… نہیں، اذیت بہت ہی چھوٹا سا لفظ ہے۔ ایسی تکلیف انسان کو شاید مرتے وقت ہوتی ہو گی۔ ہاں، اگر یہ ناولز اس کی ’’کامل دنیا‘‘ اور اس کا ونڈرلینڈ تھے تو اس میں جلال انصر ہی ہوتا ہو گا، سالار سکندر نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ اس کے ساتھ مذہباً اور قانوناً ایک رشتے میں بندھی تھی، دل کے رشتے میں کہاں بندھی تھی۔ دل کے رشتے میں تو شاید ابھی تک… اور وہ تو ماضی تھا جہاں جلال انصر کے سوا کوئی دوسرا نہیں تھا۔ اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے وہ رنجیدگی سے سوچ رہا تھا اور امامہ کو بولتے ہوئے شاید احساس بھی نہیں ہوا تھا کہ اس نے جلال کا نام لیا اور کسی پیرائے میں لیا تھا، احساس ہوتا تو وہ ضرور اٹکتی یا کم از کم ایک بار سالار کا چہرہ ضرور دیکھ لیتی۔ وہ ابھی بھی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ ابھی بھی کہیں ’’اور‘‘ تھی۔ ابھی بھی ’’کسی‘‘ کا صبر آزما رہی تھی۔
’’اچھا لگتا تھا مجھے اس دنیا میں رہنا۔ وہاں اُمید تھی… روشنی تھی… انتظار تھا لیکن لاحاصل نہیں، تکلفی تھی مگر ابدی نہیں، آنسو تھے مگر کوئی پونچھ دیتا تھا اور واہد کتابیں تھیں جن میں امامہ ہاشم ہوتی تھی، آمنہ نہیں۔ ہر بار ان کتابوں پر اپنا نام لکھتے ہوئے میں جیسے خود کو یاد دلاتی تھی کہ میں کون ہوں۔ دوبارہ کتاب کھلونے پر جیسے کتاب مجھے بتاتی تھی کہ میں کون ہوں۔ وہ مجھے میرے پرانے نام سے بلاتی تھی۔ اس نام سے، جس سے اتنے سالوں میں مجھے کوئی اور نہیں بلاتا تھا۔ تاریکی میں بعض دفعہ اتنی روشنی بھی بہت ہوتی ہے جس سے انسان بے شک اپنے آپ کو نہ دیکھ پائے لیکن اپنا وجود محسوس کرنے کے تو قابل ہو جائے ۔‘‘
اس کی آواز اب بھیگنے لگی تھی۔ وہ خاموش ہو گئی۔ دونوں کے ہاتھ میں پکڑے کپوں میں کافی ٹھنڈی ہو گئی تھی اور وہ اسے اب پینا بھی نہیں چاہتے تھے۔ وہ اب ڈیش بورڈ پر پڑے ٹشو باکس سے ٹشو پیپر نکال کر اپنی آنکھیں خشک کر رہی تھی۔ سالار نے کچھ کہے بغیر اس کے ہاتھ سے کافی کا کپ لے لیا۔ ایک ڈمپسٹر میں دونوں کپ پھینکنے کے بعد وہ دوبارہ گاڑی میں آکر بیٹھا اور گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے اس نے امامہ سے پوچھا۔
’’اور کافی چاہیے تمہیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ واپسی کا راستہ غیر معمولی خاموشی میں طے ہوا تھا۔
٭٭٭٭
’’مجھے آفس کا کچھ کام ہے تم سو جاؤ۔‘‘ وہ کپڑے تبدیل کر کے سونے کے بجائے کمرے سے نکل گیا۔
’’میں انتظار کروں گی۔‘‘ امامہ نے اس سے کہا۔
’’نہیں، مجھے ذرا دیر ہو جائے گی۔‘‘ اس نے امامہ کے ہاتھ میں پکڑے ناول کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا جو وہ رات کو پڑھنے کے لیے لے کر آئی تھی۔
اسے واقعی آفس کے کچھ کام نمٹانے تھے، مگر اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھے ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ آخری کام جو وہ آج کرنا چاہتا تھا، وہ یہ تھا۔ کچھ دیر وہ لیپ ٹاپ آن کیے اپنی ٹیبل پر بیٹھا رہا، پھر یک دم اٹھ کر گیسٹ روم میں آگیا۔ لائٹ آن کرتے ہی کتابوں سے بھری ہوئی سامنے دیوار کے ساتھ لگی الماریاں اس کی نظروں کے سامنے آگئیں۔ اس نے کتابوں کو وہاں کچھ گھنٹے پہلے ہی رکھا تھا، بڑی احتیاط اور نفاست کے ساتھ۔ مصنف کے نام کے اعتبار سے ان کی مختلف ریکس پر گروپنگ کی تھی… تب تک وہ اس کے لیے صرف ’’امامہ کی کتابیں‘‘ تھیں لیکن اب وہ ان تمام کتابوں کو اٹھا کر بحیرہ عرب میں ڈبو دینا چاہتا تھا یا کم از کم راوی میں تو پھینک ہی سکتا تھا۔ وہ اب کتابیں نہیں ردّی تھی۔
امامہ کی وہ تصوراتی پرفیکٹ زندگی جو وہ جلال انصر کے ساتھ گزارتی رہی تھی۔ وہ ڈیڑھ دو ہزار رومانس ان کرداروں کے رومانس نہیں تھے جو ان ناولز میں تھے۔ وہ صرف دو کرداروں کا رومانس تھا۔ امامہ اور جلال کا… اعلیٰ ظرف بننے کے لیے کھلے دل یا برداشت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ دماغ کا کام نہ کرنا زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ وہ بھی اس کا شوہر تھا۔ وہ ان کتابوں کو گھر میں نہیں رکھنا چاہتا تھا اور وہ ایسا کر سکتا تھا۔ وہ اس کی بیوی تھی… روتی دھوتی، ناراض ہوتی لیکن اتنی بااختیار نہیں تھی کہ اس کی مرضی کے بغیر ان کتابوں کو وہاں رکھ سکتی۔ وہ عورت تھی۔ ضد کر سکتی تھی، منوا نہیں سکتی تھی۔ وہ مرد تھا اسے اپنی مرضی کے لیے ضد جیسے کسی حربے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ اس کا گھر تھا، یہ اس کی دنیا تھی۔ وہ شرائط کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا نہ ہی ایسے جی سکتا ہے۔ وہ مراعات کے ساتھ دنیا میں آتا ہے اور اسی کے ساتھ دنیا میں رہتا ہے۔
تو آسان حل یہ تھا جو اسے معاشرہ اور اس کا ذہن بتا رہا تھا۔ مشکل حل وہ تھا جو اس کا دل اس سے کہہ رہا تھا اور دل کہہ رہا تھا۔ ’’چھوڑو، جانے دو یار! یہ زہر کا گھونٹ ہے لیکن پی جاؤ۔‘‘ اور دل نہ بھی کہتا تب بھی وہ اس چیز کو اپنے گھر سے نکال کر نہیں پھینک سکتا تھا، جو امامہ کی ملکیت تھی۔ جو کبھی اس کے دکھوں کے لیے مرہم بنی تھی۔ ان کتابوں کے کرداروں میں وہ جس کسی کو بھی سوچتی رہی تھی لیکن ان کتابوں پر لکھا ہوا نام اس کا اپنا تھا اور یہ وہ نام تھا جو اس کی روح کا حصہ تھا۔ صبر کی کئی قسمیں ہوتی ہیں اور کوئی بھی قسم آسان نہیں ہوتی، وہاں کھڑے اس نے سوچا اور لائٹ آف کر کے کمرے سے باہر نکل آیا۔